اشک نے انسٹیٹیوٹ جوائن کر لیا تھا۔۔ وہ صبح گھر ک کام نپٹا کر حلیمہ باجی کی طرف چلی جاتی۔۔ کلاس ختم ہونے کے بعد بھی وہ انکے پاس بیٹھی رہتی۔۔ انکے چھوٹے موٹے کام کر دیتی۔۔ دن بدن وہ انکے بہت قریب ہوتی جا رہی تھی۔۔۔پھر وہیں سے پڑھنے چلی جاتی ۔ وہ خود کو مصروف رکھتی تھی۔۔ لیکن رات کو جب وہ سونے کے لیے لیٹتی تو پھر اپنی یادوں کے سامنے بے بس ہوجاتی۔۔
اسے لگتا وہ آکاس بیل کی طرح اسکو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔۔۔ اسے داؤد کی یاد دلانے والی ہر چیز سے وحشت ہونے لگی تھی۔۔۔ وہ اپنے جذبات اور احساسا ت کو مسلسل نظرانداز کر رہی تھی۔۔۔ وہ اپنے خوابوں سے بھی ڈرنے لگی تھی ۔۔اسے لگتا تھا ہر چیز اسکے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔۔ داؤد کی آواز مع جو بےچینی تھی وہ اسکی روح میں سرایت کرتی جا رہی تھی۔۔۔ زہر کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داؤد بہت خوش تھا۔۔ اسے حنان کے ساتھ جانے کی اجازت مل گئی تھی۔۔ وہ آتے ہوئے جین اور کارلس سے مل کر آیا تھا۔۔ وہ ان کے سامنے دو ٹوک بات کر آیا تھا لیکن آتے ہوئے جین کے آنسوؤں نے اسے ڈگمگا دیا تھا۔۔اس میں شک نہیں تھا کہ وہ ان سے بہت محبت کرتا تھا لیکن وہ اپنا راستہ چن چکا تھا۔۔ اور اب وہ پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔۔
حنان نے کہا تھا محبت قربانی مانگتی ہے۔۔وہ اب اللہ کی محبت میں قربانی دے رہا تھا۔۔
حنان کہتا تھا کہ اللہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کبھی دے کر کبھی لے کر۔۔وہ اپنی محبت حاصل نہیں کر سکا تھا۔۔ اب اپنے ماں باپ کو بھی چھوڑ کر جارہا تھا۔۔ اسے آزمائش پر پورا اترنا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچن میں کھڑی بر تن دھو رہی تھی ذیشان صاحب ٹی وی لگا کر بیٹھے تھے۔۔ کاؤنٹر کچن ہونے کی وجہ سے ٹی وی کچن سے صاف نظر آرہا تھا۔۔۔ وہ اپنے دھیان کام میں لگی تھی۔۔کیسپئن سی کی آواز سن کر وہ پلٹی۔۔
سامنے آزر بائیجان کی صنعت سے متعلق کوئی ڈاکو مینٹری چل رہی تھی۔۔
تمہا رے حلیے سے لگتا نہیں ہے کہ تم اتنی چلینگ ہو سکتی ہو۔۔۔
ٹھیک ہے پھر تم میرے ساتھ چلو گی۔۔
وعدہ کرو۔۔
ٹھیک ہے تم چلی جاؤ ہو ٹل میں نہیں جا رہا۔۔
کوئی کیسپئن کے ساحل پر ناراض ہوا تھا۔۔اسکی ناراضگی اسے کتنا پریشان کر گئی تھی۔۔۔ وہ کتنے شوق سے اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔۔۔ وہ جانتی تھی وہ آہستہ کیوں چلتا ہے ۔۔ تاکہ وہ اسکے ساتھ زیادہ وقت گزار سکے۔۔ اسے پچھتاوا ہونے لگا۔۔
کاش وہ بھی ایسا ہی کر لیتی ۔۔۔ وہ بھی وقت کو روکنے کی اسکے ساتھ کوشش کرتی تو شاید اس کے دامن میں کچھ اور یادیں بھی ہوتیں۔۔
بیٹا پانی بند کر دیں۔۔
ذیشان صاحب نے اسے کہا تو وہ چونکی۔۔ وہ کتنی دیر سے وہاں ساکت کھڑی تھی۔۔ ذیشان صاحب سونے کے لئے اٹھے تھے تو انہوں نے اسے توجہ دلائی۔۔
وہ باقی برتن چھوڑ کر کمرے میں آگئی۔۔ اس نے الماری سے پرس نکالا فش رول کا ریپر اسکے ہاتھ میں آگیا۔۔وہ کچھ دیر اسے غائب دماغی سے دیکھتی رہی پھر اچانک دانت پیستے ہوئے اٹھی اور ایک جھٹکے سے اس نے اسے ٹیرس سے نیچے پھینک دیا۔۔اب وہ اطمینان سے اسے جنگلے پر جھک کر دیکھ رہی تھی۔۔ اس نے ڈیوڈ کی نشانی کو پھینک دیا تھا۔۔
ریپر ہوا کے دوش پر الٹتا ہوا نیچے گر رہا تھا۔۔یکا یک وہ جیسے ہوش میں آئی۔۔
وہ یہ کیا کر بیٹھی تھی۔۔ اسے لگا وہ نیچے گرتا ہوا کاغذ ریپر نہیں اسکا وجود ہے۔۔ اس کے پورے جسم میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔۔۔
وہ الٹے قدموں پیچھے ہوئی۔۔۔کمرے سے با ہر نکل کر اس نے دیکھا۔۔ذیشان صاحب کے کمرے کی لائٹ بند تھی ۔۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔۔ اسے ہر حالت میں وہ ریپر واپس لانا تھا۔۔ اس نے گھر میں لینے والا دوپٹہ لیا ہوا تھا۔۔ وہ ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اتری۔۔ رات کافی بیت چکی تھی کالونی خالی تھی۔۔ وہ بھاگتے ہوئے فلیٹ کی ٹیرس والی سائڈ پر آگئی۔۔۔ صاف گھاس پر اسے وہ ریپر چمکتا ہوا نظر آگیا۔۔۔
وہ ریپر نہیں تھا۔۔ داؤد کی طرف سے دیا ہوا تحفہ تھا۔۔ اسکے لیئے اس وقت سب سے قیمتی چیز۔۔
اس نے جھک کر اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔۔۔ آنسو پلکوں کی حد پار کر گئے تھے۔۔
اسے ٹھنڈک کا احساس ہوا۔۔۔ اس نے نیچے دیکھا وہ گھاس پر ننگے پاؤں کھڑی تھی۔۔ ارد گرد اونچے اونچے بلاک تھے۔۔ وہ کیا کر بیٹھی تھی۔۔ وہ شیفون کا دوپٹہ اوڑھے ننگے پاؤں آدھی رات کو گھر سے باہر نکل آئی تھی صرف ایک ریپر کی خاطر۔۔ خوف کی لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی۔۔
وہ ریپر مٹھی میں دبائے واپس بھاگ اٹھی۔۔ جلد بازی میں وہ دروازہ کھلا چھوڑ گئی تھی۔۔۔وہ آہستگی سے دروازہ بند کر کے اندر آگئی۔۔۔ اسکا سانس بری طرح پھولا ہوا تھا۔۔۔رات کی خاموشی میں اسکے سانسوں کی آواز گونج رہی تھی۔۔ کمرے میں آکر وہ بے دم ہو کر کار پٹ پر بیٹھ گئی۔۔ اس نے کیا کیا تھا۔۔ صرف ایک کاغذ کی خاطر۔۔۔
اگر ذیشان صاحب جاگ جاتے تو۔۔۔ اگر دروازہ بند ہو جاتا تو۔۔۔۔
لیکن سے سے زیادہ خوفزدہ کرنے والی بات یہ تھی کہ اگر وہ داؤد کی واحد نشانی کھو دیتی تو۔۔۔
اسکا جسم پسینے میں بھیگ گیا تھا ۔۔۔ اسنے اپنے بال مٹھیوں میں جکڑ لیے۔۔ وہ اپنے وجود اختیار کھو چکی تھی۔۔عشق اس پر غالب آگیا تھا۔۔۔وہ بے بس تھی۔۔ اتنی بے بس کہ اسے کسی بات کا احساس نہیں رہا تھا۔۔۔وہ ہر بات سے عاری ہوتی جا رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حنان کا سال مکمل ہوچکا تھا ۔۔ داؤد نے بھی چلہ مکمل کر لیا تھا۔۔ نو مسلم ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ رعایت برتی گئی تھی۔۔ اسے پہلی دفعہ میں ہی حنان کے ساتھ چلہ لگانے کی اجازت مل گئی تھی۔۔وہ اسلام کی تمام باتوں کے علاوہ ابتدائی بیس صورتیں بھی حفظ کر چکا تھا۔۔
حنان پیکنگ کر رہا تھا۔۔ اور وہ خالی نظروں سے اسے تک رہا تھا۔۔۔
کیا سوچ رہے ہو؟
کچھ نہیں بس تمہارے جانے کا سوچ رہا تھا۔۔
کیوں ؟
حنان اسکے پاس بیٹھتے ہوئے بولا
تمہارا سال مکمل ہو چکا ہے۔۔۔ تمہیں گھر جانا ہے۔۔ میں بھی واپس برلن چلا جاؤں گا۔۔ ہمارا ساتھ ختم ہونے والا ہے۔۔
اسکے لہجے میں افسردگی در آئی۔۔
میرے ساتھ چلوگے؟
حنان نے پیار سے پوچھا۔۔
کہاں۔۔؟
اس نے حیرت سے اسے دیکھا
میرے گھر۔۔۔۔ استنبول۔۔۔ ترکی۔۔
حنان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔
ترکی ۔۔؟؟
داؤد نے زیر لب دہرایا۔۔ بہت کچھ یاد آیا تھا۔۔ دل میں ٹیس اٹھی تھی۔۔
وہ بھی ترکی میں رہتی ہے۔۔
اس نے خود کلامی کی۔۔
چلوگے؟ میں اپنے امی ابو سے ملواؤں گا۔۔
حنان کا لہجہ محبت سے چور تھا۔۔
ہاں چلوں گا۔۔
وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بول اٹھا۔۔۔اسکی اگلی منزل اب اس نقاب پوش لڑکی کا شہر تھا۔۔
وہ اسکے ساتھ ترکی چلا آیا تھا۔۔حنان کے گھر والوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا۔حنان کی والدہ حنان سے ملتے ہوئے رو پڑی تھیں۔۔اسکے والد کی آنکھیں بھی نم تھیں۔۔ داؤد کو بے اختیار جین یاد آگئی جسے وہ برلن چھوڑ آیا تھا۔۔اس نے سر جھٹک کر اپنے آپ کو حال میں لانے کی کوشش کی۔۔ حنان کی والدہ اس سے بہت محبت سے ملیں۔۔ اسکے والد بھی شفقت سے پیش آئے تھے۔۔
کچھ دیر بیٹھ کر حلیمہ بیگم نے کھانا لگا دیا۔۔ عربی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا داؤد کا پہلا تجربہ تھا ۔۔
امی یہ گھر کی سیٹنگ کس نے کی ہے؟
حنان پوچھ رہا تھا۔۔
میری ایک بیٹی نے
انہوں نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔۔داؤد انے کے ساتھ بیٹھا تیز مرچوں والی بیریانی سے انصاف کر رہا تھا۔۔
کس بیٹی نے ؟
حنان حیران ہوا۔۔
قمر ذیشان نے۔۔
بڑا اچھا ٹیسٹ ہے اسکا۔
حنان نے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے داد دی
خود بھی بہت اچھی ہے۔۔ چاہو تو اسی ٹیسٹ کی عادت ڈال لو۔۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔ حنان کو اچھو لگ گیا۔۔
امی۔۔
حنان نے انہیں حیرت سے دیکھا۔۔
واؤ حنان تم بلش کر رہے ہو ۔۔ آنٹی نے کیا کہا ہے تم سے۔۔
داؤد نے انگلش میں پوچھا ۔۔ اسے انکی زبان نہیں آتی تھی۔۔ حنان گڑ بڑا گیا۔۔
اسکی شادی کرنے والی ہیں۔۔
حنان کے والد نے داؤد سے کہا۔۔ حنان سرخ پڑ گیا تھا
واؤ۔۔ کب ہے؟
داؤد نے بے تابی سے پوچھا۔۔
ابی تو بات کی ہے تو یہ حال ہو رہا پتہ نہیں کرنے لگیں گے تو کیا بنے گا۔۔
افضال صاحب کی بات پر وہ سب کھلکلا کر ہنس پڑے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے رم پاشا میں کھڑا تھا۔۔ آنٹی اسکا کمرہ اسے دیکھا کر چلی گئی تھیں۔۔ وہ بالکونی میں آکر ماحول دیکھنے لگا۔۔رہائشی علاقہ ہونے کی وجہ سے زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔۔ ارد گرد اپارٹمنٹ ہی تھے۔۔۔ بالکونی سے سمندر نظر آرہا تھا اور اسکے دوسرے کنارے پر سبزے کے ڈھکے ہوئے پہاڑوں کا سلسلہ۔۔
اس نے ریلنگ پر ہاتھ ٹکا دیے۔۔ رات کے اندھیرے میں اسکی کلائی میں پڑی بریسلیٹ چمکنے لگی تھی۔۔اس نے بریسلیٹ ہاتھ میں پکڑ لی۔۔
وہ ترکی میں کھڑا تھا۔۔۔ استنبول میں۔۔ اشک کے شہر میں۔۔ وہ وہیں تھی۔۔۔ وہیں کہیں۔۔ اس سے دور یا پاس۔۔
کیا اسکو کبی پتہ چل سکتا ہے کہ وہ کبی ترکی آیا تھا؟
کیا وہ جان سکے گی وہ واقعی داؤد بن چکا ہے؟
اس نے گہری سانس لے کر سو چا۔۔
تم سوئے نہیں؟
حنان نے اسکے پیچھے آکر پوچھا تو وہ چونکا۔۔ اس نے مڑ کر دیکھا وہ قہوے کی پیالیاں لیے کھڑا تھا۔۔
نہیں تمہارا شہر دیکھ رہا تھا۔۔ بہت خوبصورت ہے۔۔
وہ تو ہے میرا استنبول۔۔
حنان نے فخر سے کہا۔۔داؤد اسکے ہاتھ سے پیالی لیکر زمین پر ہی بیٹھ گیا۔۔بریسلیٹ اسکے ہاتھ میں ہی تھی۔۔
یہ بریسلیٹ لڑکیوں والی نہیں ؟ تمہاری ہے کیا؟
حنان نے اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے کہا۔۔
نہیں یہ میری نہیں ہے۔۔ ایک لڑکی کی ہے۔۔ مسلم لڑکی کی۔۔
داؤد بریسلیٹ دوبارہ پہن رہا تھا۔۔
مسلم لڑکی کی؟ تمہارے پاس کہاں سے آگئ۔۔۔؟
حنان نے چونک کر سوال کیا
اسکی رہ گئی تھی میرے پاس۔۔
تو تم نے واپس نہیں کی۔۔
مو قع ہی نہیں ملا۔۔ وہ چلی گئی ۔۔ اور میں تمہارے پاس آگیا
وہ انگلی سے اپنی کلائی میں بریسلیٹ گھماتے ہوئے بولا۔۔ اس میں اسکا لمس تھا ۔۔ اسکے پاس ہونے کا احساس
تو تم اسکی وجہ سے مسلمان ہوئے ہو؟
داؤد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔۔ حنا ن نے رشک سے اس لڑکی کے بارے میں سوچا۔۔
کیا نام تھا اسکا؟
اشک۔۔
داؤد کے لبوں سے پھسلا۔۔اسنے بریلیٹ گھمانا بند کر دی
کہاں ہے وہ؟
حنان نے قہوے کی پیالی ختم کردی تھی۔۔
یہیں ہے۔۔
یہاں کہاں
حنان نے ایسے دیکھا جیسے وہ کمرے میں ہو۔۔ داؤد کہ اسکے انداز پر ھنسی آگئی۔۔
میرا مطلب ہے ترکی میں۔
اوہ اچھا ۔۔ اسکا کوئی کانٹیکٹ وغیرہ۔۔
داؤد نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔
تو تم اسے سے ملے کیسے اور اسلام کی طرف کیسے آئے۔۔؟
حنان نے دلچسپی سے پوچھا۔۔
پچھلے سال وہ فلائٹ میں میرے ساتھ تھی۔۔ ہماری فلائٹ کو حادثہ پیش آگیا۔۔ جسکی وجہ سے ہمیں باکو اترنا پڑا۔۔
وہ بولتا جا رہا تھا۔۔ حنان خاموشی سے اسکی باتیں سن رہا تھا۔۔بریسلیٹ چمکرہی تھی۔۔ قہوے کی پیالی سے بھاپ آرنی بند ہوگئی تھی۔۔
اسکی قربت میں سکون تھا۔۔۔۔ وہ سکون مجھے تم تک لے آیا۔۔ پھر اسلا م سے وہ حاصل ہوگیا۔۔ لیکن وہ مجھے نہیں بھولتی۔۔کسی بھی وقت ۔ کسی بھی لمحے۔۔۔۔
اسکے لہجے میں تھکن تھی۔۔ بے پناہ تھکن۔
#میں_مقتدی_محبت_ہوں 🌹
از_لبابہ_حفیظ
قسط_نمبر_15
تم نے کل رات والی بات کے بارے میں سوچا؟
حلیمہ بیگم نے حنان سے پوچھا ۔۔ وہ سب ناشتہ کر رہے تھے۔۔
امی میں کیا سوچوں گا۔۔ آپ کو جو ٹھیک لگتا کر دیں۔۔
حنان نے مسکراہٹ دبائی ۔۔ داؤد کو اس کے انداز سے با ت سمجھ آگئی تھی۔۔
آنٹی جلدی کر دیں۔۔ میں واپس جانے سے پہلے شریک ہوجاؤں گا۔
داؤد نے کہا۔۔
ضرور بیٹا ۔۔آج کل قمر کے پیپرز ہو رہے ہیں۔۔
اسلیئے وہ نہیں آرہیں۔۔ دو تین دن تک آئیں گی تو دیکھ لینا۔۔ پھر جواب دے دینا۔۔
وہ داؤد کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ حنان کو بھی سمجھا رہی تھیں۔۔
امی اسکے لئے ڈھونڈیں کوئی لڑکی۔۔ اسے بہت شوق ہے شادی میں شرکت کا۔۔
حنان نے داؤد کی طرف اشارہ کر کے کہا۔۔
کیوں نہیں ۔۔ اپنے بیٹے کے لیئے بھی میں لڑکی ڈھونڈوں گی۔۔
حنان کی والدہ نے شستہ انگریزی میں کہا۔۔ داؤد کی مسکراہٹ پھیکی پڑ گئی۔۔ وہ بمشکل مسکرا کر سر جھکا گیا۔۔ اسکے لیے کسی اور لڑکی کا اپنے ساتھ تصور بھی اذیت ناک تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آج کافی دنوں بعد حلیمہ آنٹی کی طرف آئی تھی۔۔
مجھے لگا آپ تو ہمیں بھول ہی گئی ہیں۔۔
حلیمہ باجی نے پیار سے شکوہ کیا۔۔
ایسا کبھی نہیں ہو سکتا آنٹی۔۔بس جیسے ہی فارغ ہوئی آپکی طرف چلی آئی ۔۔
وہ انکے گلے لگتے ہوئے بولی۔۔ وہ اب ترکش سٹائل میں اسے پیار کر رہی تھیں۔۔
آپ کو پتہ ہے آنٹی میں نے آپ کو بہت مس کیا۔۔
وہ ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی۔۔
اچھا اور پیپرس کیسے ہوئے؟
وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔ جواب میں وہ انہیں اپنی بارہ دنوں کی کارگزاری سنانا شروع ہوچکی تھی۔۔قرآن کلاسز کی چھٹیاں ہونے کی وجہ سے وہ انکے پاس اکیلی تھی۔۔ اسلیئے جی بھر کر باتیں کر رہی تھی۔۔
تقریبا ڈیرھ گھنٹے بعد وہ جانے کے لیئے اٹھی۔۔حلیمہ باجی اسے دروازے تک چھوڑنے آئیں۔۔
وہ دروازے پر جوتی پہن رہی تھی کہ قرآن پاک کی آواز سن کر ٹھٹک گئی۔۔ کوئی بہت خوبصورت آواز میں قرآن پڑ رھا تھا۔۔
آنٹی یہ تلاوت کون کر رہا ہے؟
اس نے بے اختیار ہی پوچھ لیا۔۔
میرا بیٹا۔۔
انہوں نے جواب دیا۔۔ اسنے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔۔وہ سلام کر کے باہر نکل آئی۔۔
وہ آواز کتنی جانی پہچانی تھی۔۔ دل میں اترتی ہوئی۔۔ جیسے وہ اسے ہمیشہ سے سئننے کی عادی ہو
ہوا تیز چل رہی تھی۔۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تی اپنے بلاک کی طرف چل دی ۔۔
تمہاری آواز بہت خوبصورت ہے۔۔
ہاں میرے دوست کہتے ہیں میری آواز میسمرائزنگ ہے۔۔
اسکے کانوں میں اسی آواز کا جملہ گونجا تھا۔۔وہ حلیمہ باجی کے پاس گئی تھی تو بہت خوش اور فریش تھی۔۔ اب اچانک وہ بجھ گئی تھی۔۔گھر پہنچنے تک بوندا باندی شروع ہوگئی تھی۔۔ اسکو بارش بہت پسند تھی۔۔ لیکن اس وقت اسکے وجود کو یاسیت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔۔ اسکا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا۔۔ ہر شئے جیسے اپنی کشش کھو چکی تھی۔۔ وہ گھر آکر کمرے میں بند ہوگئی۔۔اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے دیکھ لڑکی؟
کونسی لڑکی؟
حنان نے اچھنبے سے کہا۔۔
وہ پرپل عبائے والی۔
حلیمہ بیگم بولیں۔۔
جی دیکھی تھی۔
حنان نے اعتراف کیا۔۔
کیسی لگی؟
اب کی بار داؤد نے پوچھا۔۔
اچھی ہے۔۔
حنان نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے سر جھکایا۔۔وہ تینوں اسکے تاثرات دیکھتے ہوئے ہنس پڑے۔۔
اب تو ذیشان صاحب سے کل ہی بات کرنی پڑے گی۔۔
افضال صاحب اسے چھیڑ رہے تھے۔۔حنان سرخ پڑ رہا تھا۔۔
تم کب تک رک سکتے ہو داؤد؟
جی میں تو جانا چاہ رہا تھا۔۔ حنان کا اصرار تھا رمضان آپ لوگوں کے ساتھ گزار کر جاؤں۔۔
داؤد کچھ جھجکتے ہوئے بولا۔۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔ اپنے بھائی کی منگنی میں شرکت کر کے جانا۔۔
انہوں نے خوشی سے کہا۔۔
جی ضرور۔۔
وہ حنان کی دیکھ کر بولا تو وہ دونوں مسکرا دیے۔۔وہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر تین ٹائم کھانا کھا رہا تھا۔۔ اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے جین اور کارلس کے ساتھ کب ایک وقت سے زیادہ کا کھانا کھایا ہو۔۔ وہ لوگ عموما ڈنر کسی ہوٹل میں کرتے تھے۔۔ اس نے دیکھا حلیمہ آنٹی حنان کی پلیٹ میں کباب رکھ رہی تھیں۔۔ اسے دینے کے بعد انہوں نے داؤد کی پلیٹ میں بھی رکھ دیا۔۔وہ ان کی محبت پر جھوم اٹھا۔۔ ان کے چہرے پر ممتا کے رنگ پھیلے دیکھ کر اسے جین یاد آئی تھی۔۔ افضال صاحب اور حنان باتوں میں لگے ہوئے تھے۔۔وہ اٹھ کر کمرے میں چلا آیا۔۔
اس نے اپنا موبائل آن کیا۔۔ اس پر جین اور کارلس کے کئی میسجز آئے ہوئے تھے۔۔کال لوگ بھی بھرا ہوا تھا۔۔ اسکا دل کیا وہ ایک بات ان سے بات کرلے ۔۔ ان کی آواز سن لے ۔۔۔
اس نے بغیر پڑھے سارے میسجز ڈیلیٹ کر دیے۔۔اس نے موبائل دوبارہ آف کر دیا۔۔ وہ اپنی پچھلی زندگی سے جڑی ہر چیز چھوڑنے کا عہد کر چکا تھا۔۔ وہ بھول رہا تھا خون کے رشتے کبھی نہیں چھوڑے جا سکتے۔۔
اسکی آنکھوں کے سامنے حلیمہ بیگم کا چہرہ آگیا۔۔ انکے چہرے پر بلکل ویسے رنگ تھے جیسے جین کے چہرے پر ہوتا تھا۔۔مائیں تو سانجھی ہوتی ہیں۔۔ انداز الگ ہوتا بس۔۔ورنہ ممتا سب میں ایک رنگ کی ہوتی۔۔
اسے اپنے گالوں پر نمی کا احساس ہوا ۔۔ وہ رہ رہا تھا۔۔ اس نے بے دردی سے اپنی آنکھیں رگڑ ڈالیں۔۔اسے پچھتانا نہیں تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمضان شروع ہو چکا تھا۔۔ یہ اسکا پہلا رمضان تھا۔۔ یہاں کی رونقیں نرالی تھیں۔۔ یہاں کی رونقیں نرالی تھیں۔۔ یہاں ایک ہی وقت میں پورے ترکی میں اذان ہوتی تھی ۔۔فرقہ واریت نہیں تھی۔۔ سب لوگ ایک مسجد میں نماز پرھتے تھے۔۔ دیوبندی بریلوی کا جھگڑا نہیں تھا۔۔۔ وہ بہت شوق سے روزے رکھ رہا تھا۔۔
اشک بھی کافی مسروف ہوچکی تھی۔۔ دن میں قرآن پاک پڑھتے ٹائم گزرنے کا پتہ نہیں چلتا تھا۔۔ افطاری کے بعد وہ حلیمہ باجی کی طرف چلی آتی۔۔کچھ اور خواتین اور لڑکیاں بھی آجاتیں۔۔ وہ سب مل کر تراویح پڑھتیں۔۔ اس کے بعد مختصر درس ہوتا تھا۔۔اس ٹئم چونکہ سب مرد مسجد گئے ہوتے تھے اسلیئے وہ اطمینان سے نماز ادا کر لیتی تھیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا آپ سے افضال صاحب کی اہلیہ نے کوئی بات کی۔۔
تقربا آخری عشرہ شروع ہو رہا تھا جب افطاری میں ذیشان صاحب نے سوال کیا۔۔
نہیں بابا۔۔ کس بارے میں؟
وہ پکوڑوں پر ہاتھ صاف کر رہی تھی۔۔
انہوں نے اپنے بیٹے کا رشتہ دیا ہے آپ کے لئے۔۔ آپ ان لوگوں سے اٹیچ بھی ہو اور وہ بھی قدر کرنے والے لوگ ہیں۔۔
وہ وضاحت دے رہے تھے۔۔ اسکو سمجھ نہیں آئی وہ اسے بتا رہے ہیں یا پوچھ رہے ہیں
جی بابا۔۔
اسے اور کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا بولے تو جی کہہ کر خاموش ہوگئی۔۔بھوک ایک دم مر گئی تھی۔۔ وہ اب ذیشان صاحب کے انتظار میں سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔ کچھ ہی دیر میں وہ مغرب پڑھنے چلے گئے۔۔ وہ خالی الذہن سے اٹھ کر سارے برتن کچن میں رکھنے چلی آئی۔۔
مجھے انکار کر دینا چایئے تھا۔۔
لیکن کیوں؟
وہ وجہ پوچھتے ۔۔۔ کیا وجہ تھی میرے پاس۔۔؟
وہ خود سے باتیں کر رہی تھی۔۔
وجہ تو کوئی بھی نہیں تھی۔۔
پھر انکار کرنا کیوں چاہتی ہوں۔۔
وہ کمرے میں آکر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔۔
پتہ نہیں۔۔
آنٹی حلیمہ کا چہرہ اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔۔پھر بابا کا اور پھر داؤد کا۔۔۔
اس نے اپنے خیالات سے نظریں چرانے کی کوشش کی۔۔ وہ بابا کو منع کرنا چاہتی تھی۔۔ اسے حلیمہ آنٹی کے بیٹے سے شادی نہیں کرنی تھی۔۔
اسے بابا کو بتانا تھا کہ مشرقی لڑکی کی ہر خاموشی اقرار نہیں ہوتی۔۔۔ بعض دفعہ اسکی خاموشی میں ٹوٹے ہوئے ارمانوں کی کی چیخیں ہوتی ہیں۔۔
وہ اٹھ کر شاور لینے چلی گئی ۔۔۔ اسکے ذہن میں اتنے خیا لات شور مچا رہے تھے کہ اسے لگ رہا تھا اسکا سر پھٹ جائے گا۔۔وہ شاور چلا کر کھڑی ہوگئی۔۔۔ اسکی پلکوں پر آنسو مچلنے لگے تھے۔۔وہ کتنی ہی دیر شاور کے نیچے کھڑی رہی۔۔ وہ کپڑوں سمیت ہی پانی کے نیچے کھڑی تھی۔۔۔وہ حلیمہ باجی کے گھر بھی نہیں جا سکی۔۔۔
رات کو وہ تھجد کی نماز پرھنے بیٹھی تو بہت بے چین تھی۔۔ اسے رب سے مانگنے کا سلیقہ آتا تھا لیکن وہ کیا منگے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔اسے ہمیشہ سے ایسے ہمسفر کی خواہش تھی جہ ہتھ پکڑ کر اسے جنت میں لے جائے۔۔۔۔اب وہ مل گیا تھا لیکن وہ خوش نہیں تھی
اس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیے۔۔وہ کچھ نہیں مانگ رہی تھی بس اپنے ہاتھوں کو تکے جا رہی تھی۔۔۔دینے والا دلوں کے حال جانتا ہے۔۔ اسے لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔لفظ تو بس ہماری عاجزی ظاہر کرتے ہیں۔۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ سسکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اسکی زندگی کا پہلا رمضان تھا۔۔ وہ بہت خوش تھا۔ صبح سب کے ساتھ سحری کرنا۔۔ قرآن پاک پڑھنا۔۔شام کو مل کر افطاری کرنا اور تراویح پڑھنا۔۔ اسکو رمضان کی فضائیں ہی بدلی بدلی لگ رہی تھیں۔۔حنان کا حلقہ احبا بہت وسیع تھا وہ اسے نو مسلم ہونے کی وجہ سے بہت عزت دیتے تھے۔۔ وہاں کے لوگ مجموعی طور پر محبت کرنے والے تھے۔۔زیادہ تر لوگ اس سے قبول اسلام کا واقعہ سننا چاہتے تھے۔۔ یہاں آکر وہ لا جواب ہوجاتا تھا اسے کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی۔۔ آخری عشرے میں وہ ضد کر کے اعتکاف بیٹھا ۔۔ حنان کا خیال تھا کہ وہ پریشان ہوگا لیکن اس کے برعکس اس نے کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہیں کیا۔وہ اسلام کو پورا پورا اپنے عمل میں لانا چاہتا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھوئی کھوئی سی رہنے لگی تھی ۔۔۔ اس بات کو ذیشان صاحب کے علاوہ حلیمہ باجی وہاں موجود لڑکیوں اور خواتین نے بھی نوٹ کیا تھا۔۔۔ اسے ایک افسردہ سی چپ لگ گئی تھی۔۔ عید قریب تھی۔۔ ذیشان صاحب نے اسے ساتھ لے جا کر ساری شاپنگ کروا دی تھی۔۔اسکا کچھ لینے کا موڈ نہیں تھا لیکن ان کے اصرار پر وہ انکے ساتھ چلی آئی ۔۔کانچ کی چوڑیاں واحد چیز تھی جو اس نے اپنی پسند سے لی تھیں۔۔ ذیشان صاحب چاہتے تھے وہ اچھی طرح ساری خریداری کر لے تاکہ عید کے بعد نکاح میں اسے کہی مسلہ نہ ہو۔۔اس نے بد دلی سے کپڑے خریدے۔۔ چوڑیوں کے علاوہ اس نے اپنے شوق سے دہوسری چیز عبایا لیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاند رات کو خاص اہتمام تھا ۔۔ اسے محسوس ہوا جیسے ہوائیں ہی بد ل گئی ہوں۔۔ فضا میں کچھ تھا جو رمضان کے ساتھ ہی چلا گیا تھا۔۔ سب لوگ ایک دوسرے کو مل رہے تھے ۔۔ مبارکباد دے رہے تھے۔۔ آج ان کے انعام کی رات تھی۔۔ انہیں اپنے پورے مہینے کی عبادات کا صلہ ملنا تھا۔۔ خوشی ان کے چہروں سے پھوٹ رہی تھی۔۔۔۔
اگلی صبح اس نے زندگی میں پہلی دفعہ پینٹ شرٹ کے علاوہ لباس پہنا تھا۔۔سفید کرتا شلوار اس پر بہت جچ رہا تھا۔۔
ماشاٰءاللہ میرے بچے کو نظر نہ لگے۔۔
حلیمہ آنٹی نے اسے دیکھ کر بے اختیار کہا۔۔حنان بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔۔ ان دونوں کے ایک جیسے کپڑے تھے۔۔افضال صاحب ان دونوں کو ساتھ لیکر مسجد چلے گئے۔۔
کاش وہ بھی اسے دیکھ سکتی۔۔
اس کے دل میں ہوک اٹھی۔۔وہ مسجد پہنچا تو مسجد بھری ہوئی تھی۔۔ ایک عجیب سی خوشی ان کے چہروں پر تھی انہوں نے پورا مہینہ اپنے رب کی بندگی میں گزارا تھا۔۔ نہ کوئی ڈھول تھا۔ نہ میوزک نا ڈانس ۔۔ نہ کچھ اور پھر بھی وہ سب خوش تھے۔۔ انجوائے کر رہے تھے۔۔ اتنا باوقار تہوار اس نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔۔
آؤ داؤد میں تمہیں حنان کے سسر سے ملاتا ہوں۔۔
افضال صاحب نے اسے کہا تو وہ انکے ساتھ چل پڑا ۔۔
عید مبارک۔۔
افضال صاحب سیدھا جا کر ان کے گلے لگے۔۔ وہ گرمجوشی سے مل رہے تھے انکی دوستی ان کے انداز سے ظاہر تھی۔۔۔وہ اب حنان سے مل رہے تھے۔۔
ان سے ملیں ۔ یہ میرے بیٹے داؤد ہیں۔۔
افضآل صاحب نے اسکا تعارف کروایا۔۔
عید مبارک بیٹا۔۔
وہ اسے گلے ملتے ہوئے بولے۔۔ وہ مسکرا دیا اسے خیر مبارک کہنا نہیں آیا تھا۔۔
یہ جر من ہیں اور نو مسلم ہیں۔۔
ماشاءاللہ۔۔ ویلکم ان اسلام۔۔
ان کے لہجے میں ستائش تھی۔۔ وہ اونچے قد کا اخروٹی بالوں والا نوجوان تھا۔۔
تھینک یو انکل۔۔
آپ سب میرے گھر آئیں۔۔ عید کی شام اکٹھے منائیں گے۔۔
انہوں نے دعوت دی۔۔
ارے ہم کہاں اتنے سارے لوگ آئیں گے۔۔ آپ تشریف لائیں۔۔
حنان نے فورا کہا۔۔
میری بیٹی تو روز ہی آپکی طرف ہوتی ہے۔۔ اب آپ کے لیے دعوت ہے ۔۔
ذیشان صاحب نے اصرار کیا۔۔
چلیں انشاءللہ چکر لگائیں گے۔۔
افضال صاحب نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔۔
داؤد نے حنان کو کہنی ماری۔۔ جواب میں وہ اسے آنکھیں دکھا کر رہ گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ حلیمہ آنٹی کو عید مل کر اور کھیر دے کر واپس آرہی تھی۔۔ اس نے لفٹ کا بٹن دبایا۔۔ تھوڑی دیر میں لفٹ اوپر آنے کی لائٹ جلنے لگی۔۔
دروازہ کھلا تو اندر سے افضال صاحب نکلے۔۔ ان کے پیچھے دو نوجوان تھے۔۔
السلام علیکم انکل۔۔۔۔
اس نے خوشدلی سے کہا۔۔
وعلیکم السلام۔۔عید مبارک بیٹا۔۔
انہوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔
ایاک۔۔
اس نے جواب دیا۔۔
گھر جا رہے ہو بیٹا۔۔
جی انکل کھیر دینے آئی تھی۔۔
خیریت سے جاؤ۔۔
وہ انہیں سلام کر کے آگے بڑھ آئی۔۔ انکے پیچھے کھڑے دو لڑکوں میں سے ایک سے اسکی شادی ہونے والی تھی۔۔وہ ان پر نظر ڈالے بغیر لفٹ میں چلی گئی۔۔اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی۔۔
افضال صاحب نے مڑ کر دیکھا۔ وہ دونوں سے مڑ کر دیکھ رہے تھے۔۔
چلو بوائز ۔۔ چلی گئی ہے وہ۔۔
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔وہ دونوں چونکے۔۔
حنان نے مسکرا کر انہیں دیکھا۔۔ وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوگئے۔۔ حنان نے داؤد کی طرف دیکھا۔۔وہ سکتے کی کیفیت میں تھا۔۔ اسکا چہرا ایسا تھا جیسے کسی نے اسکا خون نچوڑ لیا ہو۔۔
داؤد۔۔
حنان نے اسے پکارا۔۔
ہہ۔۔ہاں
وہ جیسے خواب سے جاگا ۔۔
کیا ہوا ہے تمہیں؟
حنان نے پریشانی سے پوچھا۔۔
مم۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔
وہ جیسے گھبرا گیا۔۔ وہ آنکھیں۔۔۔ وہ آواز۔۔۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا۔۔وہ وہی تھی۔۔ اشک۔۔ اسکی اشک۔۔ بس وہ گاؤن وہ نہیں تھا۔۔وہ حنان کو جواب دیے بغیر پلٹ سیڑھیوں سے نیچے بھاگا۔۔حنان اسے آوازیں دیتا رہ گیا۔۔وہ اپنی زندگی کے پیچھے بھاگ اٹھا تھا۔۔ اسےآج نہیں رکنا تھا۔۔