آفندی ہاؤس میں ہر طرف روشنیوں کا سمندر تھا۔ مرکزی دروزے کے پاس رنگ برنگی لائٹس لگی تھیں جو فاؤنٹین پر پڑتے ہی اپنا عکس چھوڑ جاتیں۔ ہر طرف دھنگ کے رنگ بکھرے ہوۓ تھے۔ لان کے عقبی حصے میں ڈانس کے لیۓ جگہ بنی ہوئ تھی جہاں جوان لڑکیاں اپنا آپ منوا رہی تھیں۔ پیسے کا بے تحاشا استعمال کیا ہو نظر آ رہا تھا جس سے رانیہ کو اکتاہٹ تھی مگر رمشا کی خوشی کے لیۓ وہ شریک ہوئ تھی۔ رامش نواز کے گھر والے آ گۓ تھے۔ ان کا بھرپور استقبال کیا گیا تھا۔
رمشا کے ذہہن میں اپنا ماضی کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ وہ رامش کے لیۓ نہیں بنی اسی لیۓ اسے کسی بھی قیمت پر یہ نکاح رکوانا ہو گا۔۔ اس نے رانیہ کو اپنے کمرے میں بلوایا اور آگے کے لائحہ عمل سے آگاہ کیا۔
"لیکن رمشا میں یہ سب کیسے۔۔۔ خدا کے لیۓ ایسا مت کرو۔۔۔" رانیہ کا لحجہ ملتجی تھا۔
"تم نے آج تک میرے لیۓ اتنا کچھ تو کیا ہے۔ کیا یہ آخری کام نہیں کرو گی۔"
"نہیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔ میں اس کھیل میں شامل نہیں ہو سکتی۔"
"رانیہ تمہیں پتا ہے آج رومیسہ کا فون آیا تھا کہ اس کے پاس تمہاری کچھ نازیبا تصویریں ہیں اور وہ جلدی ہی انھیں لیک کر دے گی مگر میں نے اسے منع کر دیا۔۔ کیا تم چاہتی ہو کہ وہ سب تصویریں۔۔۔۔" ایبک سے ملنے والی معلومات کے مطابق وہ تصویریں ابھی تک رومیسہ کے پاس نہیں پہنچیں مگر رمشا کو خود کو بچانے کے لیۓ آخری سہارا لینا تھا اسی لیۓ یہ حوالہ دیا۔۔
"تم جیسا کہو گی میں ویسا ہی کروں گی رمشا۔ مجھے تمہارا فیصلہ منظور ہے۔۔" رانیہ نے کچھ لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔ یقین کی بساط پر رانیہ بہت اعتماد سے ہاری تھی۔۔ ایک فاتحانہ مسکراہٹ نے رمشا کے چہرے کا احاطہ کیا۔ وہ بہت مکمل نظر آنے لگی۔
*-------------------------*
مخلص مخلص, پاگل پاگل
اک جیسے ____ ہم دونوں
مل جاتے تو پورے ہوتے
آدھے آدھے ____ ہم دونوں
"تانیہ آج میری کزن کی شادی ہے۔ آپ بھی چلیں میرے ساتھ۔۔ اس طرح سے آپ کا موڈ فریش ہو جاۓ گا۔۔" شہریار آفریدی تیار ہو کر تانیہ کے کمرے میں آیا تو اسے رمشا کی شادی کی بابت بتایا۔۔
"مم۔۔۔ مم۔۔۔ میں۔۔۔ کیسے۔۔۔" تانیہ بہت گڑبڑا گئی تھی۔۔
"کیا اتنی سی بات بھی نہیں مانو گی میری۔۔ اتنا پرایا ہوں میں کیا۔۔۔" شہریار آفریدی نے تانیہ کی آنکھو ں میں دیکھتے ہوۓ کہا۔۔ اس ایک پل میں تانیہ سانس لینا بھول گئی۔۔ نظر کا ملنا تھا یا قیامت۔۔۔ وہ سمجھ نہیں سکی۔۔ شہریار آفریدی کو جب اپنی حماقت کا احساس ہوا تو ایک دم میں نظریں ہٹا لیں۔
"میں لاؤنج میں انتظار کر رہا ہوں تانیہ۔۔۔ آپ جلدی سے تیار ہو جائیں۔۔" یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔۔ تانیہ نے دروازہ لاک کیا اور سنگھار کرنے لگی۔۔
"آج مجھے سب سے اچھا لگنا ہے تا کہ شہریار صاحب کسی اور کو دیکھ ہی نہ سکیں۔" تانیہ نے تہیہ کر لیا۔۔۔
*--------------------------*
رمشا نے رانیہ کو دلہن بنا کر باہر بھیجا اور کمرہ لاک کر دیا۔۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی بھی اسے ڈسٹرب کرے۔۔ اس نے میوزک آن کیا اور اپنے بیڈ پر لیٹ گئی۔۔۔
"میرا نام رمشا آفندی ہے۔۔۔ میں نے بولا تھا رامش کہ میں اتنی جلدی ہار نہیں مانوں گی۔۔ دیکھ لو میری جیت کا جشن۔۔۔" رمشا خود کو داد دئیے بنا نہ رہ سکی۔۔۔۔
مشال آفندی باہر دروازہ پیٹ رہی تھیں مگر اس نے تو جیسے اثر ہی نہیں لیا۔۔۔
" آئی ایم رئیلی سوری رانیہ کہ میں نے تمہیں یوز کیا۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ لیکن مجھے پتا ہے رامش کو تم ہی جھیل سکتی ہو۔۔۔۔ ہیپی میرڈ لائف رانیہ نواز۔۔۔" رمشا ایک دم میں زور زور سے ہنسنے لگی۔
*-------------------------*
پھولوں جیسے نازک لوگ, دل میں خار چبھو جاتے ہیں
عشق سفر میں چھوڑ کے تنہا, اور کسی کے ہو جاتے ہیں
ہر طرف شور ہی شور مچ گیا تھا کیونکہ اسٹیج پر دلہن کی جگی رانیہ کو بٹھا دیا گیا تھا۔۔
"یہ سب کیا ہے آفندی۔ مجھے آپ لوگوں سے اس سب کی امید نہیں تھی۔۔" فرمان نواز نے علی احمد آفندی سے استفسار کیا مگر ان کی آنکھیں شرم سے جھک گئی تھیں اس لیۓ وہ خاموش رہے۔
"کہا تھا میں نے آپ کو رمشا اس قابل نہیں ہے کہ اسے اپنے خاندان کی بہو بنایا جایا۔ دیکھ لیا آپ نے اس سب کا انجام۔۔" دردانہ بیگم نے لگتی پر تیل کا کام کیا۔۔
"میں نہیں جانتا یہ سب کیسے۔۔ مجھے بہت۔۔۔ شرمندگی۔۔۔" الفاظ بہت اٹک اٹک کر علی احمد آفندی کی زبان سے ادا ہوۓ۔۔
"آپ کی شرمندگی سے کیا ہو گا اب۔۔ کیا سوچ کر آۓ تھے ہم اور کیا کر دیا آپ نے۔ " دردانہ بیگم بولیں۔۔۔
"بھابھی۔۔۔ آپ سے بھی۔۔۔ معذرت۔۔ رمشا نے جو کیا ہو سکے تو اسے بھول جائیں۔۔" علی احمد آفندی ٹوٹے ہوۓ لب و لہجے کے ساتھ بولے۔۔
"چلیں پاپا یہاں سے۔۔ اب یہاں کچھ نہیں بچا۔ ۔" رامش نے بھی مداخلت کی۔۔۔
فرمان نواز, رانیہ کے چہرے میں کسی کی شبیہہ تلاش کرنے لگے۔۔
"ایک منٹ رامش۔۔۔۔" یہ کہہ کر وہ رانیہ کی طرف بڑھ گۓ۔۔
"آپ کا نام کیا ہے بیٹا۔۔؟؟" فرمان نواز نے استفسار کیا۔۔۔
"رانیہ نواز۔۔" رانیہ نے بہت دھیمے لہجے میں جواب دیا۔۔
"اور آپ کے فادر کا نام۔۔۔؟" دل نے دعا کی کہ کاش وہی نام ہو جو سوچا ہے۔۔
"مقبول نواز۔۔۔" یہ سنتے ہی فرمان نواز نے رانیہ کے ماتھے پر بوسہ دیا۔۔ رانیہ اس افتاد سے گبھرا گئی۔۔۔
*------------------------*
آدھے سے زیادہ مہمان چلے گۓ تھے۔۔ فرمان نواز, رامش کو تھوڑا سائیڈ پر لے کر گۓ اور اسے سمجھانے لگے۔
"اسے میری ضد سمجھنا ہے تو سمجھ لو لیکن رانیہ کو ایسے نہیں چھوڑ سکتا میں۔۔۔" فرمان نواز بولے۔
"مگر پاپا۔۔ یہ سب۔۔۔ اس طرح۔۔۔"
"اگر میرا مان رکھنا ہے تو رانیہ سے نکاح کر لو بیٹا۔۔۔" فرمان نواز نے رامش کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے کیونکہ وہ جانتے تھے اسے منانے کا یہی واحد راستہ ہے۔
"جیسے آپکی مرضی پاپا۔۔۔" رامش ٹوٹے لہجے کے ساتھ اتنا ہی بول پایا۔۔۔
*-----------------------*
مہرین کو رانیہ نے فون پر ساری حقیقت سمجھا دی تھی اور اسے بتایا تھا کہ پریشان ہونے کی بات نہیں, وہ جلدی ہی اس کے پاس ہو گی۔۔ مہرین کو رانیہ کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔۔ اس نے اس رات خود کو بہت اکیلا محسوس کیا۔۔۔ وہ یہی سوچتی رہی کہ رانیہ کی زندگی میں اب کتنی مشکلات آنا باقی ہیں۔ وہ برامدے میں پلر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی رہی۔۔۔
*------------------------*
رانیہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کی زندگی میں کیا ہونے والا ہے۔۔ اس نے خود کو تقدیر کے سپرد کر دیا۔۔۔
"اللہ میں کیا کروں۔۔ اس جگہ پر بیٹھ تو گئی ہوں مگر کیسے اٹھوں۔۔۔ میں بہت مجبور ہوں اللہ۔۔ اتنی مجبور کہ اس نکاح کو کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں میرے پاس۔۔ تو جانتا ہے میری مجبوری۔۔۔ رومیسہ کے پاس میری تصویریں ہیں اور وہ ان کو کس طریقے سے استعمال کرے گی میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔ مجھے معاف کر دے اللہ اور میری مدد کر۔۔۔" رانیہ دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھی جس کے قبضئہ قدرت میں ہماری جان ہے۔
رامش اور رانیہ کا نکاح ہو گیا تھا۔ دردانہ بیگم نے زبردستی ہی اس میں شرکت کی ورنہ ان کا دل کر رہا تھا کہ وہ دوڑ کر سلطانہ بیگم کے پاس پہنچ جائی ں۔۔ بلاشبہ وہاں موجود ہر ایک کو رانیہ کی قسمت پر رشک ہو رہا تھا کہ اس جیسی معمولی لڑکی کو رامش کا ساتھ مل رہا تھا۔۔۔
*-----------------------*
میں نے ایک عرصے سے تجھے ورد میں رکھا
میرے ہونٹوں پہ تیرے نام کے چھالے ہیں
شہریار آفریدی اور تانیہ ایک ساتھ گیٹ سے اندر داخل ہوۓ۔۔ رانیہ نے انھیں دیکھ لیا تھا۔۔ وہ اس وقت شہریار آفریدی کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی مگر ظالم تقدیر اسے سامنے لے آئی تھی۔۔ اس کا دل کیا وہ وہاں سے اٹھ کر بھاگ جاۓ۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔ جہاں شہریار آفریدی اسے دیکھ نہ سکے۔۔۔
شہریار آفریدی کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا مگر رمشا کی جگہ رانیہ کو دیکھ کر اس کی آنکھیں شعلہ بار ہو گئیں۔۔۔ پیشانی پر پسینہ آ گیا۔۔ اسے اپنے سر میں شدید درد محسوس ہونے لگا۔۔ ایسے لگا جیسے کوئی اس کی زندگی کو اپنی مٹھی میں رکھ کر مسل رہا ہو اور وہ اتنا مجبور ہو کہ ہاتھ پیر بھی نہ مار سکے۔۔ وہ سیدھا باہر کی طرف لپک گیا۔۔۔ تانیہ بھی تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے پیچھے چلی گئی۔۔۔
*-------------------------*
رانیہ کو رامش کے بیڈ پر لا کر بٹھا دیا گیا تھا۔۔ اسے سب کچھ بہت عجیب لگ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ سب کچھ نوچ ڈالے۔ زندگی نے اس کے ساتھ بہت گھناؤنا مذاق کیا تھا۔ اس نے خود کو پنجرے میں موجود پنچھی کی طرح محسوس کیا جسے زبردستی اپنے پنجرے سے پیار کرنا ہو گا کیونکہ اس کے پاس آزادی کی راہ نہیں۔۔ اس نے گھڑی پر ٹائم دیکھا۔۔ بارہ بج چکے تھے۔۔۔ وہ بیڈ سے اٹھی۔۔ اپنے بھاری کپڑے تبدیل کیۓ۔۔۔ وضو کیا۔۔۔ عشاء کی نماز پڑھنے لگی۔۔۔ اس کے بعد سجدے میں خوب آنسو بہانے لگی۔۔ جانے کب نیند اس پر مہربان ہو گئ۔
*-------------------------*