"ایسے کیسے غائب ہو سکتی ہے زرش؟"
وہ کہتے ہوۓ ٹہلنے لگے۔
"رات سے دن ہو گیا اس کا کچھ معلوم نہیں ہوا۔۔۔۔ یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا۔"
ثریا اشک بہاتی ہوئی بولی۔
"مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا کیا کروں؟ بدنامی کے ڈر سے نہ پولیس اسٹیشن جا سکتا ہوں نہ ہی کسی سے استفسار کر سکتا ہوں۔"
وہ انگلی سے آنکھ کا گوشہ صاف کرتے ہوۓ بولے۔
"دوبارہ مشل کو فون کرنا تھا شاید اب کچھ پتہ چل گیا ہو اسے۔"
وہ یاس سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔
"عقل کو ہاتھ مارو۔۔۔ بیٹھے بٹھاےُ اس بچی کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے؟ اس نے تو خود کہا تھا اگر کچھ معلوم ہوا تو مجھے آگاہ کر دے گی۔"
وہ خفگی سے بولے۔
"تو کیا ایسے ہی ہاتھ پے ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟"
وہ التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
"نہیں میں سوچ رہا ہوں اپنے طور پر دوبارہ ڈھونڈنے کی کوشش کروں لیکن کوئی سراغ بھی ہاتھ لگے تب نہ۔۔۔ ایسے کہاں جاؤں اتنے بڑے شہر میں؟"
وہ کہتے ہوۓ بیٹھ گئے۔
"آپ مشل کو فون ملائیں میں بات کرتی ہوں اس سے شاید کچھ معلوم ہو جاےُ۔ غائب تو یونیورسٹی سے ہوئی ہے نہ؟"
وہ ہاتھ پھیلاتی ہوئی بولیں۔
"یہ لو کر لو بات تم۔"
وہ نمبر ملاتے ہوۓ بولے۔
~~~~~~~~
"آپ کا ان سے کیا رشتہ ہے؟"
نرس بغور زرش کا جائزہ لیتی ہوئی بولی۔
"اممم۔۔۔ "
وہ لب کاٹتا زرش کو دیکھنے لگا۔
نرس زرش کی بازو دیکھ رہی تھی جہاں وائز کی انگلیوں کے سرخ نشاں واضح دکھائی دے رہے تھے۔
"کیا کیا ہے آپ نے ان کے ساتھ؟"
وہ یکدم غصے میں آ گئی۔
"کچھ بھی نہیں کیا میں نے۔۔۔ آپ بس چیک کریں یہ ہوش میں کیوں نہیں آ رہی؟"
پہلی بار وہ ایسی صورتحال کا سامنا کر رہا تھا۔
"ایسے تو ہم ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔۔۔ پہلے پولیس کو بلانا پڑے گا وہ تفتیش کرے گی ان کے گھر والوں کو بلاےُ گی اس کے بعد چیک کریں گے۔"
وہ جیسے سمجھ چکی تھی۔
"تم جانتی ہو میں کون ہو؟"
وہ طیش میں چلایا۔
"کیا ہو رہا ہے یہاں؟"
کیبن سے نکلتا ڈاکٹر ان کے پاس آیا۔
"ڈاکٹر یہ دیکھیں؟ یہ چاہتے ہیں ہم ان کا علاج کریں۔"
وہ زرش کی بازو ہاتھ میں پکڑتی ہوئی بولی۔
وہ زرش کو دیکھتے ہوۓ وائز کو دیکھنے لگا۔
"نرس نے بلکل ٹھیک کہا ہے آپ کو۔۔ ان کے گھر والے ہاسپٹل کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے اس لئے آپ یہاں بیٹھ جائیں اور انتظار کریں جب تک پولیس نہیں آ جاتی۔"
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
"اور اگر تب تک یہ مر گئی پھر؟"
اسے ان کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔
"اس کے ذمہ دار آپ ہیں ہاسپٹل نہیں۔"
وہ کہتے ہوۓ چل دئیے۔
اسے صورتحال اپنے ہاتھ سے نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔
"پولیس آےُ گی میڈیا بھی آےُ گا اور میں ہیڈ لائن بن جاؤں گا۔ بابا سائیں کے الیکشن۔۔ وہ تو پاگل ہو جائیں گے۔"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوچنے لگا۔
اس کے پاس محدود وقت تھا۔
"بابا سائیں سارے کام چھوڑ کر یہاں آ جائیں ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔ "
وہ فون کان سے لگاےُ بول رہا تھا نظر زرش پر تھی جو سٹریچر پر پڑی تھی۔
نرس اسے گھورتی ہوئی جا چکی تھی۔
چھٹی کا دن اور صبح کا وقت تھا جس کے باعث ہاسپٹل میں اکا دکا لوگ دکھائی دے رہے تھے۔
"ایسے نہیں بتا سکتا بس آپ جلدی آ جائیں اور ہاں ہاسپٹل آئیے گا میں۔۔۔"
اس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
"یہ مر بھی سکتی ہے۔"
نرس نے اسے شرم دلانی چاہی۔
"نہیں۔۔ میں اسے مرنے نہیں دے سکتا۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
"وائز رضی حیات جیسا بھی انسان ہو لیکن قاتل نہیں ہو سکتا۔"
وہ خود کلامی کر رہا تھا۔
"تمہیں ذرا شرم نہ آئی؟"
وہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہی تھی۔
"اپنا منہ بند رکھو۔"
وہ دھاڑا۔
"ہوں۔۔ "
وہ ہنکار بھرتی زرش کو دیکھنے لگی۔
دل کی دھڑکن مدھم سے مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
اسے وائز پر غصہ آ رہا تھا جو چہرے سے عیاں تھا۔
"کیا ہو گیا کیوں ہمیں اتنی جلدی میں بلایا؟"
رضی حیات ہانپتے ہوۓ اندر آےُ۔
"بابا سائیں وہ ڈاکٹر سے بات کریں آپ اس لڑکی کا علاج نہیں کر رہے وہ۔"
وہ شرمسار سا سر جھکاےُ ہوۓ تھا۔
انہوں نے رخ موڑ کر سٹریچر پر پڑی لڑکی کو دیکھا پھر وائز کو۔
"کیا ہوا ہے اسے؟ کون ہے یہ بچی؟"
انہیں خدشہ لاحق ہوا۔
"وہ۔۔ بابا سائیں۔۔۔"
وہ مناسب الفاظ تلاش کر رہا تھا۔
"مجھے بتاؤ یہ دن دیکھنا رہ گیا تھا؟"
وہ جیسے سمجھ چکے تھے۔
"ابھی پلیز آپ ڈاکٹر سے بات کریں یہ مر نہ جاےُ۔"
وہ چہرہ اٹھا کر التجائیہ نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔
وہ نفی میں سر ہلاتے نرس کو اشارہ کرتے ڈاکٹر کے کیبن میں چلے گئے۔
وہ ہاتھ مسلتا زرش کو دیکھنے لگا۔
"میں قاتل نہیں ہوں۔"
وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔
اگلے دو منٹ میں وارڈ بواےُ سٹریچر کو دھیکلتے اندر لے جانے لگے۔
رضی حیات چہرے پر غیض طاری کئے باہر نکلے۔
"وائز تم اس حد تک جا سکتے ہو؟ ہمیں تو یقین نہیں آ رہا۔۔۔یہ سب دیکھنا رہ گیا تھا کیا؟ لوگوں کی عزتوں کو پامال کرو گے؟اور پھر جانتے ہو نہ الیکشن ہیں میڈیا ذلیل و خوار کر کے رکھ دے گا۔"
وہ مدھم آواز میں برہم ہو رہے تھے۔
"بابا سائیں ابھی یہ وقت نہیں ان باتوں کا۔"
وہ لب کاٹتا ہوا بولا۔
"اتنی آگ لگی تھی تو کسی طوائف کو بلا لیتے کسی معصوم کو سولی پر چڑھانے کی کیا ضرورت تھی؟"
آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
"ہاں تو ہو گیا نہ اب کیا کروں گولی مار دوں خود کو۔۔۔"
وہ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتا ہوا بولا۔
"اب جو میں کہوں گا چپ چاپ مان لینا میرے پاس اتنا وقت نہیں تمہارے ساتھ بحث کرتا رہوں۔"
وہ ہنکار بھرتے بیٹھ گئے۔
"اب پتہ نہیں کون سی بات منوانی ہے؟"
وہ بڑبڑاتا ہوا ٹہلنے لگا۔
"کیسی حالت ہے اس کی؟"
نرس کو باہر نکلتے دیکھ کر وائز آگے بڑھا۔
"اب خطرے سے باہر ہے لیکن فلحال وہ ہاسپٹل میں ہی رہیں گیں ان کی ڈرپ مکمل نہیں ہوئی۔ڈاکٹر آپ کو بلا رہے ہیں۔"
وہ رضی حیات کو دیکھتی ہوئی بولی۔
"جی ڈاکٹر صاحب میں نے فون کیا ہے بس آتا ہی ہو گا۔ آپ یہ بتائیں وہ بچی ہوش میں آ گئی ہے؟"
وہ کرسی پر بیٹھتے ہوۓ بولے۔
"نہیں ابھی وہ ہوش میں نہیں لیکن آپ بلا لیں انہیں کیونکہ آپ نے زبان دی ہے۔"
وہ باور کرانے فائل دیکھنے لگے۔
رضی حیات اثبات میں سر ہلاتے باہر نکل آےُ۔
"اس لڑکی کے گھر والوں کو بلاؤ ابھی۔"
وہ وائز کو گھورتے ہوۓ بولے۔
"لیکن کیوں؟ وہ تو مجھ پر کیس کر دیں گے۔۔۔ "
یکدم اسے خیال آیا۔
"تو پہلے یہ خیال نہیں آیا تمہیں؟ اب بلاؤ انہیں ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔"
وہ خفگی سے بولے۔
"نمبر کہاں سے لاؤں میں؟"
وہ سوچتا ہوا ٹہلنے لگا۔
"زرش کا فون؟"
یہ خیال بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اس کے دماغ میں کوندا۔
"بابا سائیں میں ابھی آتا ہوں۔"
وہ کہتا ہوا ہاسپٹل سے باہر نکل گیا۔
گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے اپارٹمنٹ آ گیا۔
زرش کا فون اٹھا کر واپس ہاسپٹل کی جانب روانہ ہو گیا۔
"لیکن آپ کیوں بلا رہے ہیں انہیں؟"
وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
"جو کہا ہے وہ کرو ابھی جس مصیبت میں تم نے ڈالا ہے اس سے نکلنا زیادہ اہم ہے۔"
وہ کاٹ دار لہجے میں بولے۔
وہ لب بھینچ کر نمبر تلاش کرنے لگا۔
"ہی ہیلو! "
وہ ہچکچاتا ہوا بولا۔
"جی کون؟"
بےتابی سے پوچھا گیا۔
"اممم زرش ہاسپٹل ہے آپ پلیز فیصل ہاسپٹل آ جائیں۔"
وہ رضی حیات کو دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔
"کیا ہوا میری بیٹی کو؟ وہ ٹھیک تو ہے نہ؟"
لہجے میں بے قراری نمایاں تھی۔ اسے اپنا آپ مجرم معلوم ہو رہا تھا۔
"جی آپ بس جلدی سے آ جائیں۔"
اس نے کہہ کر فون بند کر دیا۔
"اب شرمندگی کیوں ہو رہی ہے؟"
وہ آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہے تھے۔
"اب بس بھی کر دیں۔۔۔ اگر دل نہیں بھر رہا تو سولی پر لٹکا دیں مجھے۔۔ جب سے آےُ ہیں برا بھلا ہی کہہ رہے ہیں مجھے جا رہا ہوں میں خود ہی دیکھ لینا جو کرنا ہو۔"
وہ برہمی سے کہتا قدم اٹھانے لگا۔
" تو تم کیا چاہتے ہو پھولوں کے ہار چڑھائیں اس کارنامے پر؟خبردار اگر تم گئے تو۔۔۔ اس معاملے کو ختم کئے بغیر نہیں جا سکتے تم۔"
وہ بولتے ہوۓ کھڑے ہو گئے۔
"کیا مصیبت ہے۔۔۔ "
وہ جھنجھلا کر کہتا سامنے چلا گیا۔
"تمہاری پالی ہوئی ہے۔"
وہ جل کر بولے۔
"کہاں ہے زرش؟ کیا ہوا اسے؟"
جنید صاحب بولتے ہوۓ رضی صاحب کے پاس آےُ۔
وائز ناگواری سے انہیں دیکھتا چلنے لگا۔
"آپ اس بچی کے والد ہیں؟"
وہ بولتے ہوۓ کھڑے ہو گئے۔
"جی۔۔ کہاں ہے وہ پلیز بتائیں وہ ٹھیک ہے نہ؟"
وہ بےچینی سے بولے۔
"جی آپ کی بچی تو ٹھیک ہے لیکن دیکھیں آگر آپ میری بات تحمل سے سنیں گے تو سب سمجھ جائیں گے۔"
وہ ان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔
"یہ میرا بیٹا ہے۔"
وہ وائز کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔
"جی میں آپ دونوں کو پہچان چکا ہوں۔"
وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولے۔
"آپ کی بیٹی کا نکاح میں اپنے بیٹے سے کر رہا ہوں۔ میں صاف صاف بولوں گا اس سے غلطی ہوئی اور اب یہ اپنی غلطی سدھارے گا۔ آپ بھی پرسکون ہو کر سوچیں۔"
وہ کہتے ہوۓ واپس بیٹھ گئے۔
وائز پھٹی پھٹی نگاہوں سے رضی حیات کو دیکھ رہا تھا جو تنیہ کرتی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
"مطلب؟"
جنید صاحب الجھ کر انہیں دیکھنے لگے۔
"مطلب آپ سمجھ چکے ہیں۔۔۔"
وہ ٹانگ پے سرنگ چڑھاےُ بیٹھے تھے۔
"آپ چاہتے ہیں میں ایک ایسے انسان سے اپنی بیٹی کا نکاح کر دوں؟"
وہ ہذیانی انداز میں بولے۔
"ٹھیک ہے ایسے اپنی بیٹی کو لے جائیں جس کے ساتھ چاہتے ہیں بیاہ دیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔ "
وہ کہتے ہوۓ کھڑے ہو گئے۔
لمحہ بھر کو وہ خاموش ہو گئے۔
رضی حیات کی بات میں دم تھا۔
وہ آنکھوں میں نمی لئے سامنے دیکھنے لگے۔
عزت بچانے کے لئے انہیں یہ دلدوذ فیصلہ لینا پڑا۔
مڈل کلاس فیملی کے لئے عزت ہی اس کا کل سرمایہ ہوتی ہے۔ خود مر جانے کو تیار ہو جائیں گے لیکن عزت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔
"ٹھیک ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
وہ آنکھیں صاف کرتے ہوۓ بولے۔
"بابا سائیں یہ کیا سب ہے؟"
وہ رضی حیات کو ایک طرف لے جاتا ہوا بولا۔
"تم اپنی بکواس بند کر لو اور چپ چاپ یہ نکاح کرو۔۔۔ورنہ ہم عاق کر دیں گے تمہیں جائیداد سے۔۔ ہم نے کہا تھا نہ خاموشی سے مان لینا۔ اگر نہیں تو ہم چلے جاتے ہیں بھگتتے رہنا خود ہی۔"
وہ خفگی سے بولے۔
"اچھا ٹھیک ہے۔"
وہ جان چھڑانے والے انداز میں بولا۔
زرش سر جھکاےُ بیٹھی تھی۔
وہ جنید صاحب سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔ جرم کسی کا تھا اور مجرم وہ بن گئی تھی۔ اشک ٹوٹ کر اس کے دامن میں گر رہے تھے۔
کس سے نکاح کروایا جا رہا تھا؟ کیوں کروایا جا رہا تھا؟ اس نے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکالا۔ وہ پوچھنا بھی چاہتی تو الفاظ ساتھ نہ دیتے۔
مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کیا۔
"محمد وائز رضی حیات ولد رضی حیات حق مہر ایک لاکھ روپے کیا آپ کو قبول ہے؟"
وہ چہرہ اٹھا کر جنید صاحب کو دیکھنے لگی۔
آنکھیں پتھرا گئیں۔
وہ نم آنکھوں سے دیکھتے اثبات میں سر ہلانے لگے۔
"ج جی قبول ہے۔"
الفاظ تھے کہ حلق میں پھنس رہے تھے۔
مزید دو بار اس سے پوچھا گیا اور مولوی صاحب وائز کی جانب متوجہ ہوۓ۔
نکاح کے بعد سب نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے۔
سب باہر جا چکے تھے۔
ایک ہی رات میں وہ کیا سے کیا بن گئی تھی۔
آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
آنکھوں کے سامنے دھند چھانے لگی۔
منظر دھندلا رہا تھا۔
اس نے ہاتھ مار کر سائیڈ سے قینچی اٹھا کر اپنی کلائی پر رکھ لی۔
"یہ ہماری بیٹی بھی ہے اور بیٹا بھی۔۔۔ ہمارا کل سرمایہ۔"
جنید صاحب کی آواز اس کے کانوں میں بازگشت کرنے لگی۔
بند آنکھوں سے اشک روانہ تھے۔
"خودکشی حرام ہے۔"
نرس اسے دیکھتی ہوئی بولی۔
اس نے ہاتھ اٹھایا اور قینچی نیچے گرا دی۔
وہ ہچکیاں لیتی رو رہی تھی۔
نرس انجیکشن تیار کر رہی تھی لیکن اس سے قبل ہی وہ بےہوش ہو گئی۔
وہ اس کا سر تکیے پر رکھتی انجیکشن لگانے لگی۔
"ہم دوبارہ آئیں گے اس کے بعد آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔"
رضی حیات گاڑی کی جانب بڑھتے ہوےُ بولے۔
"اچھا اور میں گھر جا سکتا ہوں اب؟"
وہ بیزاری سے بولا۔
"ہاں جاؤ لیکن اب میرے لئے کوئی نیا مسئلہ کھڑا مت کر دینا۔"
وہ خونخوار نظروں سے گھورتے ہوۓ گاڑی میں بیٹھ گئے۔
وہ ٹراؤذر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ان کی گاڑی کو دور ہوتا دیکھنے لگا۔
"اب سکون سے اپنی نیند پوری کر سکتا ہوں میں۔۔۔ "
وہ چابی نکالتا اپنی گاڑی کی جانب چلنے لگا۔
"ویسے ایک بات اچھی بھی ہے۔ اب جب دل کرے گا تمہیں اپنے پاس بلا سکتا ہوں۔"
اسے اپنے کئے پر کوئی ملال نہیں تھا۔
گاڑی سٹارٹ کر کے اس نے سڑک پر ڈال دی۔
آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔
وہ سپیڈ بڑھانے لگا تاکہ جلد از جلد پہنچ سکے۔
وہ بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں لیٹ گیا۔
"مس زرش اب زیادہ مزہ آےُ گا۔"
وہ آنکھیں موند کر سوچنے لگا۔
اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ کسی کی زندگی تباہ کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔