"احسن تم اپنی حرکتوں سے باز کیوں نہیں آتے؟"
گل ناز بیگم اس پر برس رہی تھیں۔
"آپ میرے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہیں؟"
وہ کوفت سے کہتا باہر نکل گیا۔
"حد ہے یہ گھر کم اور شراب خانہ زیادہ معلوم ہوتا ہے۔"
وہ اس کے کمرے سے باہر نکلتی ہوئی بولیں جہاں شراب کی بو زور پکڑے ہوۓ تھی۔
"بابا سائیں امی کو دیکھ لیں ہر دوسرے دن میری جان کو عذاب میں ڈالا ہوتا ہے۔"
وہ زینے اترتا ہوا بولا۔
"گل ناز؟"
رضی حیات صاحب غضبناک آواز میں غراےُ۔
"جی؟"
وہ ہڑ بڑا کر کہتی زینے اترنے لگیں۔
"کیا کہہ رہا ہے احسن؟"
وہ کڑے تیور لئے بولے۔
"روز شراب کی بو آ رہی ہوتی ہے اس کے کمرے سے۔ کبھی گھر میں تو کبھی باہر سے پی کر آتا ہے۔ ڈاکٹر بھی منع کرتے ہیں شراب پینے سے کیوں اپنی زندگی کا دشمن بنا ہوا ہے؟"
وہ دکھ سے کہتی احسن کو دیکھنے لگیں جو بنا شرٹ پہنے باپ کے پہلو میں بیٹھا تھا۔
"بابا سائیں جھوٹ ہے یہ۔"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"تمہیں ہزار بار کہا ہے اپنی اوقات میں رہا کرو۔۔۔ عورت کا کام گھرداری ہے تو وہی کرو۔خبردار اگر تم نے ہمارے بیٹوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی سعی کی تو۔"
وہ طیش میں چلانے لگے۔
"لیکن ایسے تو۔۔۔ "
وہ احتجاج کرنا چاہتی تھیں۔
"اپنی بکواس بند رکھو۔۔۔ تم زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہو بچوں سے۔اب جا کر میرا ناشتہ دیکھو۔"
وہ گھورتے ہوۓ بولے۔
وہ آنسو پیتی کچن کی جانب چل دیں۔
"میرے شیر!"
وہ احسن کو سینے سے لگاتے ہوۓ بولے۔
"وائز چلا گیا تھا؟"
وہ بالوں میں ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔
"ہاں رات ہی چلا گیا تھا؟ جانتے تو ہو اس کی عادت۔۔ اپنی مرضی کا مالک ہے ہم نے تو بہت روکا لیکن چلا گیا۔"
وہ سرد آہ بھرتے ہوۓ بولے۔
"اچھا یہ بتائیں الیکشن کی تیاری کہاں تک پہنچی؟"
وہ دلچسپی ظاہر کرتا ہوا بولا۔
"ہاں بس چل ہی رہی ہیں ہر بار کی طرح اس بار بھی ہم ہی جیتیں گے۔"
وہ قہقہ لگاتے ہوۓ بولے۔
"بابا سائیں مجھے ایک گھوڑا پسند آیا ہے وہ خریدنا ہے۔"
وہ ٹانگ پے ٹانگ چڑھاتا ہوا بولا۔
صاف رنگت پر ہلکی ہلکی شیو، بھوری چھوٹی چھوٹی آنکھیں، روشن پیشانی پر بھورے بال منتشر تھے۔
"ہاں ہاں خرید لینا۔۔۔ یہ ذرا الیکشن کا زور ٹوٹ جاےُ۔"
وہ سوچتے ہوۓ بولے۔
"پھر کوئی اور خرید لے گا۔"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"چلو مجھے بتا دینا میں پیسے بھیجوا دوں گا تمہارے اکاؤنٹ میں۔"
وہ اس کے بال بکھیرتے ہوۓ بولے۔
وہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔
~~~~~~~~
"شکر ہے میرے گھر کا راستہ بھی بھولا تو۔"
فیڈی شکوہ کرتا اندر کی جانب چلنے لگا۔
"پہلے شیشہ پئیں گے پھر کچھ اور۔"
وائز وہیں رک کر بولا۔
"ہاں ہاں بھائی سب تیار ہے تو آ تو سہی۔"
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا چلنے لگا۔
"یار وہ جو زرش ہے نہ تیرے بھائی کا ایمان خراب کر رہی ہے۔"
سرمئ دھواں دائروں کی شکل میں فضا میں آزاد ہو رہا تھا۔
"کون وہ بھکارن؟"
وہ پیشانی پر بل ڈالے اسے دیکھنے لگا۔
"ہاں وہی۔۔۔ تو جانتا ہے نہ میں نے کبھی کسی کی اجازت کے بغیر اسے ٹچ تک نہیں کیا لیکن دل چاہ رہا ہے وہ میرے پاس آےُ۔"
وہ تخیل میں اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
"ایسا کیا ہے اس میں؟"
وہ منہ بناتا ہوا بولا۔
"جو مجھے دکھائی دے رہا تو نہیں دیکھ سکتا چھوڑ۔"
وہ سر جھٹکتا ہوا بولا۔
"لیکن پھر بھی؟"
وہ کریدنا چاہتا تھا۔
"یار سوچ ذرا اسے کسی نے چھوا نہیں ہے محمد وائز رضی حیات اس تک رسائی حاصل کرے گا؟ ایسی لڑکیوں کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔"
وہ بائیں آنکھ دباتا ہوا بولا۔
"ہاں وہ تو ہے۔ لیکن کوئی کلاس بھی تو ہونی چائیے نہ۔۔۔ "
وہ خفگی سے بولا۔
"باہر چلتے ہیں۔"
وہ کھڑا ہوتا ہوا بولا۔
"اب باہر کیوں؟"
وہ گھورتا ہوا بولا۔
"ایسے ہی،کچھ کھا لیں گے۔۔۔"
وہ جیکٹ پہنتا ہوا بولا۔
فیڈی ایش ٹرے ٹیبل پر رکھتا فون اٹھانے لگا۔
~~~~~~~~
"تم یونی کیوں نہیں آ رہی؟"
مشل اسے گھورتی ہوئی بیٹھ گئی۔
"آج کل فئیر ویل کی تیاری ہو رہی ہے اور۔۔۔"
وہ بولتی ہوئی خاموش ہو گئی۔
"اور کیا؟"
وہ سیدھی ہو گئی۔
"یار وہ وائز پتہ نہیں کیوں مجھے گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھیں جیسے بہت کچھ باور کرا رہی تھیں۔"
وہ لب کاٹتی ہوئی فرش کو گھورنے لگی۔
"تم ڈر رہی ہو اس سے؟"
وہ متحیر سی بولی۔
"اتنی بہادری بھی مہنگی پڑ جاتی ہے۔ ہر چیز اعتدال میں اچھی لگتی ہے۔اگر میں اس سے مقابلے پر اتروں گی تو تم جانتی ہو وہ کیسا انسان ہے۔ میں کوئی نقصان افورڈ نہیں کر سکتی۔"
وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔
"ڈر کر گھر بیٹھ جاؤ۔۔ یہ کیا بات ہوئی؟"
وہ خفا انداز میں بولی۔
"یار میں ڈر کر نہیں بیٹھی۔۔ بس سوچا کچھ دنوں کے لیے منظر سے غائب ہونا ہی بہتر ہے۔ اور ویسے بھی لیکچر تو آج کل نہ ہونے کے برابر ہیں پھر فائدہ؟"
وہ بال سمیٹتی کھڑی ہو گئی۔
"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو؟ اتنی دور کرایہ لگا کر جاؤ اور ایک لیکچر لے کر واپس آ جاؤ۔"
وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔
"تم سناؤ بور ہوئی میرے بغیر؟"
وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
"بہت خوش ہو نہ۔۔۔ جلتی پر تیل کا کام نہ کرو اب تم۔"
وہ رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔
"تمہارا نمبر بند تھا میں نے تو بہت بار کال کی چاہے تو چیک کر لو۔"
وہ بولتی ہوئی پھر سے اس کے سامنے بیٹھ گئی۔
"یہ لو بچوں چاےُ پیو۔ پھر تمہارے ابو آتے ہیں تو میں کچھ منگوائی ہوں۔"
وہ زرش کو دیکھتی ہوئی بولیں۔
"ٹھیک ہے امی۔دروازہ بند کر دیجیے گا۔"
وہ ذرا زور سے بولی۔
"یار یاسر مجھ سے ناراض ہو گیا ہے۔"
وہ سر جھکا کر بولی۔
"مجھے تو سمجھ نہیں آتی تم اسے چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟"
وہ جھنجھلا کر بولی۔
"یار وہ میری محبت ہے۔"
وہ زور دے کر بولی۔
"نکاح سے پہلے محبت حرام ہوتی ہے اور حرام چیزوں میں کبھی برکت نہیں پڑتی۔"
وہ تاسف سے بولی۔
"ایسے تو مت کہو۔"
وہ آنسو پیتی ہوئی بولی۔
"مشل جو سچ ہے وہی کہہ رہی اور مجھے بتاؤ یہ کیسی محبت ہے جو ملاقات نہ کرنے پر روٹھ گئی؟ اگر محبت کی بات کرتی ہو تو غالب کے زمانے کی محبت دیکھو جو ایک بار دیکھ کر ساری زندگی کا روگ لگا لیتے تھے نہ ملنے کی خواہش، نہ بات کرنے کے روادار، کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آےُ۔ ان کی محبت میں صرف چاہنا ہوتا تھا بے غرض محبت۔آج کل کی محبت کی طرح نہیں باتیں کرنا، ملنا ملانا۔۔۔ "
وہ سرد آہ بھرتی بات ادھوری چھوڑ گئی۔
"مجھے گنتی بھول گئی ہے کتنی بار تم مجھے یہ بتا چکی ہوں۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"اور سمجھ پھر بھی نہیں آتی۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی تاسف سے بولی۔
"یار بس مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔"
وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔
"دفع کرو اسے۔۔۔ میں تمہیں نوٹس دکھاتی ہوں جو اب بناےُ ہیں۔"
وہ کہتی ہوئی بیڈ سے اتر گئی۔
~~~~~~~~
وہ سیاہ رنگ کا پینٹ کوٹ پہنے ہوۓ تھا۔
شیو آج بھی بڑھی ہوئی تھی جو اس کی شخصیت کا آئینہ دار تھی۔
جینی نے بھی بلیک پارٹی ڈریس زیب تن کر رکھا تھا۔وہ وائز کے ساتھ کھڑی تھی۔
"ایسا لگ رہا ہے ہم بن بلاےُ مہمان ہیں۔"
مشل آس پاس لڑکیوں کی ڈریسنگ دیکھتی ہوئی بولی۔
"تم سمجھو آس پاس کوئی ہے ہی نہیں۔ ہم فضہ لوگ کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔ "
وہ نگاہ دوڑاتی ہوئی بولی۔
یہی لمحہ تھا جب وائز کی نظر اس پر پڑی تو پلٹنا بھول گئی۔
لائٹ کلر کی لپ اسٹک لگاےُ براؤن کلر کا لباس زیب تن کئے ہوۓ تھی۔
اس ہلکی سی تیاری سے بھی وہ پرکشش لگ رہی تھی۔ سب سے ظالم اس کی پلکیں اور آنکھیں تھیں جن میں وائز ڈوب رہا تھا۔
"جینی میں ابھی آتا ہوں۔"
وہ میم نازیہ کی جانب بڑھتا ہوا بولا۔
"مجھے آپ کا فون چائیے۔"
اس نے سرگوشی کی۔
"کیوں؟"
وہ تعجب سے اسے دیکھنے لگیں۔
"کچھ کام ہے دیں جلدی۔"
وہ پیشانی پر بل ڈالے انہیں دیکھ رہا تھا۔
انہوں نے کلچ سے فون نکال کر لاک کھولا اور وائز کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
"ابھی مل جاےُ گا۔"
وہ کہتا ہوا ایک طرف کو آ گیا۔
وہ لب دباےُ میسج ٹائپ کرنے لگا۔
اب اسے جواب ک انتظار تھا۔
ایک منٹ بعد جواب آ گیا۔
اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ رینگ گئی۔
"زبردست وائز۔۔۔ "
وہ خود کو سراہتا نازیہ کے پاس آ گیا۔
فون انہیں لوٹا کر وہ کوریڈور کی سمت میں چل دیا۔
"مشل میم نازیہ کا میسج آیا ہے میں ابھی آتی ہوں۔"
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"کیا ہوا؟ کیوں بلایا ہے تمہیں؟"
وہ کہتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔
"یار وہ اس دن کے متعلق انہیں کچھ بات کرنی ہے۔"
وہ آہستہ سے کہتی چل دی۔
اس کے قدم کوریڈور کی سمت میں تھے۔
دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ چلتی جا رہی تھی۔
وہ روشنیوں سے دور آ گئی تھی۔
کہیں کہیں بلب روشنی بکھیر رہا تھا۔
وہ جو اس کا منتظر تھا جونہی اسے دیکھا تو دبے قدموں کمرے سے باہر نکل آیا۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس نیم تاریک کمرے میں لے آیا۔
اس اچانک افتاد پر وہ بوکھلا گئی۔
وہ دروازہ بند کر کے اس کی جانب گھوما۔
"تم؟"
اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔
نیم تاریکی میں بھی وہ اس کمینے کو پہچان سکتی تھی۔
"اب جلدی سے میری بات سنو۔۔ دیکھو یہاں ہم دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں ہے۔ سمجھ رہی ہو نہ تمہیں کوئی نہیں دیکھ رہا تو اب تم یہ اپنی پاکدامنی کا ڈرامہ ختم کرو۔"
وہ اس کی جانب بڑھتا ہوا بول رہا تھا۔
"یہ کیا بکواس کر رہے ہو تم؟ تمہارا دماغ چل گیا ہے اور کچھ نہیں۔۔۔ "
وہ غصے میں پھنکاری۔
"ہاں ہاں یہ سب ڈائیلاگز اب تو یاد ہو گئے ہیں ساری لڑکیاں پہلے ایسے ہی کرتی ہیں اور بعد میں دور ہونے کا نام نہیں لیتیں۔"
وہ کمینگی سے دیکھ رہا تھا۔
"ہاں ہوتی ہیں ایسی لڑکیاں لیکن میرا شمار تم ان جیسی لڑکیوں میں مت کرو نہ میں ویسی ہوں۔۔۔ اور ہٹو میرے راستے سے میں شور مچا کر سب کو اکٹھا کر لوں گا۔"
وہ بے خوف و خطر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بول رہی تھی۔
"اوکے۔۔۔ کتنے پیسے لو گی بتاؤ؟"
وہ جیب میں ہاتھ ڈالتا اسے دیکھنے لگا۔
پھر آگے بڑھ کر اس نے اس کی کلائی پکڑ لی۔
وہ ششدر رہ گئی۔
"یہ خرید تم وہیں جا کر کرو جو یہ کاروبار کرتی ہیں۔ ہر کوئی تمہاری طرح بےغیرت نہیں ہوتا۔"
وہ جھٹکے سے اپنی کلائی آزاد کرواتی ہوئی بولی۔
یہ الفاظ کسی تمانچے کی مانند اسے اپنے منہ پر پڑتے محسوس ہوۓ۔
وہ لاکھ برا سہی لیکن کبھی کسی کی جرأت نہیں ہوئی تھی اس کے منہ پر ایسا کچھ کہنے کی۔
"تم ہو کیا مجھے بتاؤ؟اور یہ ڈرامے ختم کرو اب۔۔ "
وہ پھر سے اس کی جانب بڑھنے لگا۔
"آئیندہ مجھ سے دور رہنا۔۔ اپنے جیسے لوگوں کو دعوت دیا کرو ایسے کاموں کی۔"
وہ ہنکار بھرتی تیزی سے باہر نکل گئی۔
"ٹھیک ہے مطلب تم ایسے نہیں مانو گی۔"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہال کی جانب بڑھنے لگی۔
دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہو چکی تھی۔
کیا ہوا تھا وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
"فیڈی میری بات سن۔ کچھ بھی ہو جاےُ آج زرش گھر نہیں جاےُ گی یہ تیرے ذمے ہے اسے میرے پاس لے کر آ۔۔۔"
اس پر غصہ اور شیطانیت سوار تھی۔
"ہوا کیا ہے؟"
وہ بھی پریشان ہو گیا۔
"یار اس نے مجھے ریجیکٹ کیا۔ محمد وائز رضی حیات کو۔۔۔ اب اسے اس کی اوقات یاد دلاؤں گی۔ تو دیکھنا پاؤں پڑے گی میرے۔"
وہ بدلے کی آگ میں جلنے لگا تھا۔
"یار ریلیکس۔۔۔ایسا کوئی غلط قدم مت اٹھا لینا۔"
وہ وائز کے غصے سے واقف تھا اس لئے اسے ڈھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
"میں کچھ نہیں جانتا؟ مجھے آج کی رات وہی چائیے۔ سمجھا تو!؟"
وہ اسے کالر سے پکڑتا ہوا بولا۔
"اچھا ٹھیک ہے مجھے کیا۔۔ میری کون سی ماسی کی بیٹی ہے۔ میں کچھ کرتا ہوں تو جینی کے ساتھ تب تک انجواےُ کر۔"
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔
"اینجواےُ اب خاک ہو گا۔۔۔سارے موڈ کا بیڑا غرق کر گئی وہ۔"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
"کیا ہوا بےبی ؟"
جینی اس کے قریب آتی ہوئی بولی۔
"کچھ نہیں۔۔۔"
وہ کھردرے پن سے کہتا چلنے لگا۔
"اتنا غصہ میری جان کو۔۔۔ مجھے تو بتاؤ؟"
وہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔
فیڈی بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوچنے لگا۔
~~~~~~~~
"کیسی ہو نور؟"
احسن فون کان سے لگاتا ہوا بولا۔
"ٹھیک۔۔۔ "
مختصر سا جواب آیا۔
"آج کل کہاں ہوتی ہو تم؟"
وہ طنز کرتا ہوا بولا۔
"گھر پر ہی ہوں میں نے کہاں جانا ہے؟"
اس کے لہجے سے اداسی چھلک رہی تھی۔
"اچھا ہاں تمہارے گھر حمزہ آیا ہوا ہے نہ؟ پھر کیا ضرورت کہیں جانے کی"
وہ چبا چبا کر بولا۔
"تم مجھ پر شک کر رہے ہو؟"
وہ تلملا اٹھی۔
"بلکل۔۔مجھ تک تو ایسی ہی خبریں پہنچ رہی ہیں۔"
وہ ہنکار بھرتا ہوا بولا۔
"اور یہ خبریں کون پہنچا رہا ہے؟"
وہ ضبط کرتی ہوئی بولی۔
"جو بھی ہو تمہیں اس سے کیا؟ تم میری بات کا جواب دو۔"
اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔
"احسن رضی حیات مجھ سے بلند آواز میں بات مت کیا کرو۔"
وہ برہم ہوئی۔
"تم اچھے سے جانتی ہو ہمارے ہاں عورتوں سے کیسے بات کی جاتی ہے۔"
وہ جیسے اسے باور کرا رہا تھا۔
"تمہارا مطلب شادی کے بعد بھی تم مجھے ایسے ہی ذلیل کرو گے؟"
وہ ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتی ہوئی بولی۔
"جو تم کرو گی وہی بھرو گی۔ مجھے کوئی شوق نہیں ہے تمہیں ذلیل کرنے کا۔"
وہ بولتا ہوا ٹہلنے لگا۔
"تم پہلے تو ایسے نہیں تھے۔"
وہ بار بار رخسار صاف کر رہی تھی۔
"کیونکہ تم بھی پہلے ایسی نہیں تھی۔"
وہ تاسف سے بولا۔
"نور بات سنو؟"
یہ حمزہ کی آواز تھی جو احسن بخوبی پہچانتا تھا۔
"اوہ تو تمہارے کمرے تک آتا ہے وہ انٹرسٹنگ۔۔۔ جاؤ تمہیں بلا رہا ہے۔"
وہ تنک کر کہتا فون بند کر گیا۔
"ہیلو! ہیلو! "
وہ ہیلو کرتی رہ گئی۔
خود پر ضبط کرتی وہ کھڑی ہو گئی۔
~~~~~~~~
زرش گرلز واش روم سے نکل رہی تھی جب عقب سے فیڈی نے اس کے منہ پر کلوروفارم لگایا گیا رومال رکھ دیا۔
وہ پوری آنکھیں کھولے ہاتھ مارنے لگی۔
آہستہ آہستہ اس پر نشہ طاری ہو رہا تھا۔
فیڈی کے ساتھ کچھ اور لڑکے بھی تھے جو آس پاس نظر رکھے ہوۓ تھے۔
وہ خاموشی سے عقبی گیٹ سے اسے باہر لے گئے۔
"اگر منہ کھولا تو تمہارا منہ ہمیشہ کے لئے بند کر دوں گا۔"
فیڈی گارڈ کے ہاتھ پر پیسے رکھتا ہوا غرایا۔
"جی سر۔۔۔ "
وہ بھی اس کی بات ماننے پر مجبور تھا بنا کسی حیل و حجت کہ مان گیا۔
وائز دروازہ کھول کر اپنے اپارٹمنٹ میں داخل ہوا۔
فون نکال کر فیڈی کا نمبر ملاتا وہ چلنے لگا۔
"فیڈی میں نے کوئی بکواس کی تھی؟"
غصہ ابھی تک سر پر سوار تھا۔
"ہاں تو میری جان میں نے کیا کہا تھا؟"
وہ پرسکون سا بولا۔
"کیا؟"
وہ اپنے بیڈ روم کا دروازہ کھولتا ہوا بولا۔
جونہی نظر بیڈ پر پڑی آنکھیں پھیل گئی۔
زرش ہوش سے بیگانہ بیڈ پر پڑی تھی۔
"اب تو بعد میں ہی بات ہو گی تجھ سے۔"
وہ مسکرا کر بولا۔
"چل مزے کر۔۔۔ میں ماما کے پاس جا رہا۔"
اس نے کہتے ہوۓ فون بند کر دیا۔
وائز لب دباےُ اسے دیکھنے لگا۔
سر دوپٹے سے بے نیاز تھا۔
وہ پہلی بار اسے اس طرح دیکھ رہا تھا۔
وہ کھل کر مسکراتا کوٹ اتارنے لگا۔
جب تک وہ چینج کر کے واپس کمرے میں آیا تو وہ ہوش میں آ چکی تھی۔
وہ سر تھامے بیٹھی تھی۔
"کیسا لگ رہا ہے یہاں؟"
وہ اس کے سامنے بیٹھتا ہوا بولا۔
وہ اچھل کر پیچھے ہو گئی۔
آنکھیں باہر نکل آئیں۔
"تم؟ اور میں یہاں کیسے؟"
وہ سر گھما کر اس کمرے کو دیکھنے لگی۔
"تمہیں آرام سے کہا تھا میں نے لیکن تمہیں شاید شوق تھا اس کا۔۔۔"
وہ بات ادھوری چھوڑ کر اس کی بازو پکڑ کر دیکھنے لگا۔
"چھوڑو مجھے۔۔۔ پلیز مجھے میرے گھر جانے دو۔"
اشک تو جیسے بےتاب تھے بہنے کو۔
"ہاں چلی جانا۔۔ مجھے بھی کوئی شوق نہیں تمہیں اپنے پاس رکھنے کا لیکن پہلے مجھے میرا کام تو کرنے دو۔"
وہ گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔
وہ اشک بہاتی فریاد کر رہی تھی لیکن وہ ظالم دیو بنا ہوا تھا۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر لمپ بند کر دیا۔
اس کے آگے زرش کی تمام تر مزاحمت دم توڑ گئی۔
صبح کی کرن کے ساتھ وائز کی آنکھ کھلی تو زرش کو دیکھنے لگا جو بےسدھ پڑی تھی۔
"اٹھو۔۔ "
وہ اس کی بازو ہلاتا ہوا بولا۔
وہ کسی بے جان وجود کی مانند پڑی ہوئی تھی۔
یکدم اسے پریشانی ہونے لگی۔
"زرش؟"
وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتا ہوا بولا۔
اس نے زرش کی کلائی پکڑی اور نبض چیک کرنے لگا۔
"یہ تو بہت مدھم ہے۔۔۔ اسے کچھ ہو تو نہیں گیا؟"
وہ چہرہ پر ہاتھ پھیرتا سوچنے لگا۔
"اتنی صبح صبح فون کیا خیریت؟"
احسن کی نیند میں ڈوبی آواز اسپیکر پر ابھری۔
"ابو میرے رشتے کی بات کر رہے ہیں۔"
وہ گھبراتی ہوئی بولی۔
"خوش ہونا چائیے پھر تمہیں تو۔"
وہ تنک کر بولا۔
"میں کیسے خوش ہو سکتی ہو؟"
وہ سسک کر بولی۔
"بلکل تمہارا بدلا ہوا روپ دیکھ کر تو مجھے یہی لگتا ہے۔"
وہ گردن دائیں بائیں کرتا ہوا بولا۔
"تم تو ایسا مت کہو۔۔۔ یہ امید نہیں تھی تم سے۔"
آواز مزید مدھم ہو گئی۔
"مجھے بھی یہ امید نہیں تھی تم سے۔ اب تم کیا چاہتی ہو میں بابا سائیں کو بھیجوں؟"
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا ہوا بولا۔
"ہاں۔۔ تاکہ میں بھی اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکوں۔"
اسے کچھ ڈھارس ملی۔
"پہلے تم اپنے دل سے پوچھ لو کس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو۔"
وہ دانت پیستا ہوا بولا۔
"کیا مطلب؟"
وہ الجھ گئی۔
"کل تم شہر گئی تھی وہ بھی حمزہ کے ساتھ۔"
ضبط کے باوجود اس کی آواز بلند ہو گئی۔
"امی نے بھیجا تھا مجھے۔۔۔ "
وہ روہانسی ہو گئی۔
"مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔ شام میں چکر لگاؤں گا تمہاری طرف تیار رہنا۔"
اس کا جواب سنے بغیر احسن نے فون بند کر دیا۔
نور ششدر سی فون کو دیکھنے لگی۔
"کیا کروں میں تمہارا۔"
وہ فون بیڈ پر پھینکتی ہوئی بڑبڑائی۔
~~~~~~~~