ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے اپنے مضمون ”اردو ماہیا میں اولیت کا قضیہ“(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔مئی ۲۰۰۰ء)میںجو کچھ لکھا ہے، اس پر ادبی اور علمی سطح پر تو بات ہوتی رہے گی۔ مجھے سب سے پہلے اس افسوس کا اظہار کرنا ہے کہ ماہیے کے حوالے سے اردو میںہونے والے کام سے پوری طرح با خبر نہ ہونے کے باعث حامد بیگ نے ہمت رائے شرما کی نسبت ایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے ہیں جنہیں محتاط ترین لفظوں میں بھی ان کی تحقیقی جہالت کہنا چاہئے۔ اس سے ان کا اخلاقی رویہ بھی سامنے آیا ہے۔ انہوں نے جن مفروضوں کی بنیاد پر ہمت رائے شرما جی کی اہانت کی ہے، پہلے تو وہ مفروضے خود ان کی اپنی کم علمی کا مظہر ہیں۔ یہ گھٹیا الزام کہ ہمت رائے شرما جی نے فلم ”خاموشی“ کی بک لیٹ جعلی طور پر تیار کی ہے، یا کم از کم اس میں مئی 1936ءکی تاریخ انہوں نے خود لکھوالی ہے، سراسر بہتان ہے اور اس میں ذاتی طور پر اس کی کھلے لفظوں میں تردید کرتاہوں کیونکہ میں ان سے خط وکتابت کے علاوہ متعدد بار ٹیلی فون پر بات کر چکا ہوں۔ وہ طویل عرصہ سے فالج کا شکار ہیں۔ بات کرتے کرتے کئی بار بات بھول جاتے ہیں ذراسی بات پر بچوں کی طرح بلکنے لگتے ہیں۔ایسی حالت اور ایسی کیفیت کا حامل کوئی شخص ایسی کاریگری نہیں کرسکتا جو مرزا حامد بیگ نے ان سے منسوب کر دی ہے۔ حامد بیگ نے اگر شرما جی کے تعلق سے میری دوسری تحریریں بھی تحقیقی زاویے سے پڑھ لی ہوتیں تو اس تحقیقی جہالت اور بد اخلاقی کے مرتکب نہ ہوتے ۔ شرما جی کی علالت اور مذکورہ کیفیت کا میں اپنے مضمون’ اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما ‘ مطبوعہ”انشائ“ کلکتہ شمارہ ستمبر ۔ اکتوبر 1998ءاور ”اوراق“ لاہور شمارہ جنوری ۔ فروری 1999ءمیں ذکر کر چکا ہوں۔ حامد بیگ نے وہ مضمون پڑھ رکھا ہوتا تو جعل سازی کا گھٹیا الزام لگانے میں اتنی دلیری نہ دکھاتے۔
ماہیے کی بحث شروع ہونے سے کئی سال پہلے 1984ءمیں ہمت رائے شرما جی کا شعری مجموعہ ”شہاب ثاقب“ شائع ہوا تھا۔ اس میں شرما جی کے وہی دس ماہیے شامل ہیں جو فلم”خاموشی“ سے منسوب ہیں۔ اسی مجموعہ کے فلیپ پر شرما جی کے تعارف میں یہ الفاظ بھی درج ہیں:
”ہمت رائے شرما ایک با کمال فنکار ہیں۔ 23نومبر 1919ءکو شرماصاحب نارودال ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ 17سال کی عمر میں فلم ”خاموشی“ کے گیت لکھے“۔
1984ءمیںہمت رائے شرما جی کویا ان کے تعارف نگار کو کوئی ایسی غرض لاحق نہ تھی کہ ایسی بات لکھ کر خود کو ماہیے کا بانی بنوانا ہے، کیونکہ تب ماہیے کا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا ۔ ویسے مرزا حامد بیگ جیسے محقق یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ شرما جی نے تب سے ہی پلاننگ کرلی تھی۔
جہاں تک ”خاموشی“ کے اداکاروں شیام، منورما اور رمولا کے حوالوں کا تعلق ہے ان پر مزید تحقیق کی جا سکتی ہے۔ ضروری نہیںہے کہ عمروں کے بیان میں پوری احتیاط سے کام لیا گیا ہو۔ فرض کرلیں منورما 1936ءمیں نو سال ہی کی ہو، فلم اسی سال شروع کی گئی ہو لیکن مکمل قدرے تاخیر سے کی گئی ہو۔ آخر مشہور فلم ”مغلِ اعظم“ بھی تو لگ بھگ تیرہ سال کے بعد جاکر مکمل ہوئی تھی اور اس زمانے میں بہت ہی کم عمرکی لڑکیاں فلموں میں آتی رہی ہیں۔ مثلا مشہور فلمی ویمپ للیتا پوار جو شروع میں ہیروئن آئیں، گیارہ برس کی عمر میں فلموں میں آئیں۔ معروف گلوکارہ اور ہیروئن ثریا کلیانی(اصل نام زرینہ)، پروڈیوسر ولی کی بیوی اور اپنے زمانے کی مشہور ہیروئن ممتاز شانتی یہ نام تومجھے فورا یاد اآگئے ہیں۔یہ سب گیارہ برس کی عمر میں فلموںمیں آگئی تھیں۔ لہٰذا کم عمری کا بہانہ کرکے دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ تحقیقی حوالے سے مرزا حامد بیگ اس لئے بھی قابل اعتبار نہیں رہتے کہ وہ ماہیے کی اب تک کی تحقیقی پیش رفت سے ہی غافل ہیں۔ انہوں نے فلم ”باغبان“ بننے کا سال 1944-45ءبیان کیا ہے جبکہ یہ سال 1937ءہے۔ جب دستیاب معلومات کے باوجود غفلت کا یہ عالم ہے تو پھر تحقیق کرنے اور ٹامک ٹوئیاں مارنے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ میرے لئے حقائق محترم ہیں لیکن مفروضے نہیں۔ کسی مفروضے کے ذریعے کسی حقیقت تک پہنچنے میں مدد تولی جا سکتی ہے لیکن مفروضے کو ہی اصل حقیقت نہیں مانا جا سکتا ۔
ماہیے کی ابتدا کے حوالے سے حسرت کے جن ” ماہیوں“ کا ذکر ہوتا ہے، ان کا سرا تواب 1937ء سے بھی تھوڑا پیچھے تک جا ملتا ہے ۔ بات 1936ءتک پہنچ رہی ہے اور حامد بیگ صاحب ہمیں 1945ءسنار ہے ہیں۔ چونکہ حسرت کے ”ماہیوں“ کا 1936ءمیں لکھے جانے کا ذکر آگیا ہے تو اس سلسلے میں بھی اپنی تازہ معلومات بیان کئے دیتاہوں۔ حمید نسیم نے اپنی کتاب ”ناممکن کی جستجو“ کے صفحہ 44اور 46پر جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے۔ ڈاکٹر تاثیر جنوری 1936ءمیں ایم۔اے ۔او کالج امرتسر میں پرنسپل بن کر آئے۔ انہوں نے آتے ہی ایک مشاعرہ برپا کرایا جس میں صوفی تبسم، پنڈت ہری چند اختر ، مولانا سالک اور چراغ حسن حسرت کو لاہور سے مدعو کیا گیا۔ اسی مشاعرہ میں حسرت نے اپنے مشہور مبینہ ”ماہیے“’ پہلی بار سنائے۔ اس بیان کے مطابق حسرت نے اگر جنوری 1936ءمیں ”ماہیے“ سنائے ہیں تو ان کا سالِ تخلیق بھی کم از کم جنوری 1936ءبنتا ہے۔ یوں انہیں زمانی طور پر شرما جی پر فوقیت مل سکتی ہے۔ لیکن ایک اور حوالہ ملنے سے حسرت کا سالِ تخلیق تو 1936ءرہتا ہے لیکن انہیں شرما جی پر زمانی فوقیت نہیں رہتی۔ ہر لحاظ سے شرما جی کو ان پر فوقیت رہتی ہے۔ اور وہ حوالہ ”مسلم انڈینز آف بائیو گرافیکل ڈکشنری“ از احمد سعید ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ آف ہسٹری ، ایم ۔ اے ۔ او کالج لاہور کا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ نمبر 327پر ڈاکٹر تاثیر کے جو کوائف درج کئے گئے ہیں ان میں یہ واضح طور پر درج ہے کہ ڈاکٹر تاثیر نے ایم۔ اے ۔ او کالج امرتسر کے پرنسپل کی حیثیت سے 20مئی 1936ءکو کام شروع کیا۔ سو اگر انہوں نے آتے ہی مشاعرہ کرایا اور اس سلسلے میں آٹھ دس دن لگ گئے تو مشاعرہ کا مہینہ جون بنے گا۔ اگر حسرت نے جو ن 1936ءمیں ”ماہیے“ سنائے تو یہ ” خاموشی“ کے گیت تخلیق ہونے اور بک لٹ چھپنے کے بعد کی بات ہو جاتی ہے۔ تاہم اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ حسرت نے اپنے ”ماہیے“ 1936ءمیں تخلیق کئے تھے اور یہ 1937ءمیں فلم ”باغباں“ میں شامل بھی کرلئے گئے تھے۔ اب ایک طرف تحقیق کا یہ مرحلہ ہے، دوسری طرف ہمارے ڈاکٹر مرزا حامد بیگ ہیں جو حسرت کے ”ماہیے“ 1944-45ءمیں ہونے کا حکم سنا رہے ہیں۔ اور ایسی تحقیق کے زعم میں ہم لوگوں کے کام کو ”تحقیق پر آیاہوا برا وقت“ کہہ کر طنز بھی فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے ”محقق “ ہی ایسا حکم صادر کر سکتے ہیں۔ پھر بھی انہیں یہ مشورہ ضرور دوں گا کہ کسی کے ایک آدھ مضمون کو آدھا ادھورا پڑھ کر اور کسی اورآدھے ادھورے حوالے کی بنیاد پر نام نہاد تحقیق کی جائے تو ہلدی کی گانٹھ ملنے پر پنساری بننے والی مثال فٹ بیٹھ جاتی ہے۔
میں نے اپنے مضمون ”اردو ماہیے کے بانی ۔ ہمت رائے شرما“ میں یہ واقعہ بھی لکھاتھا،
٭ ایک تقریب میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی نے یہ گیت سنا: اک بار تو مل ساجن آکردیکھ ذراٹوٹا ہو دل ساجن........ انہوں نے غور کیا تو محسوس کیا کہ یہ تو ماہیا ہے۔ بس پھر انہوں نے تحقیق شروع کر دی کہ یہ کس نے لکھا ہے اور یوں ہمت رائے شرماکا نام انہیں معلوم ہوا۔ پھر خاصی تگ ودو کے بعد وہ انہیں تلاش کرسکے۔
ڈاکٹر مناظر نے کسی تقریب میں گیت سنا اور وہ ماہیا نکلا۔ ظاہر ہے وہ پرانا گیت ابھی تک کسی نہ کسی روپ میں موجود ہے تو کسی تقریب میں سنا گیا ۔ کتنا اچھا ہو کہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اب اس کے حصول کے لئے ہی تحقیقی زاویے سے تھوڑی محنت کرلیں۔ انڈیا میں ان کے کئی دوست ان کی مدد کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہمت رائے شرما جی کے سارے ماہیے ان کے شعری مجموعہ ” شہاب ثاقب“ میں بھی شامل ہیں اور یہ مجموعہ ماہیے کی حالیہ بحث سے کہیں پہلے( بیس سال کی تاخیر کے باوجود ) 1984ءمیں چھپ چکا ہے۔ ان حقائق کے ہوتے ہوئے مرزا حامد بیگ کا ایسے سوال اٹھانا ان کی جہالت ہے یا پھر دیدہ دانستہ شرارت ہے کہ:
” فلم ”خاموشی“ کے لئے اردو ماہیے ہمت رائے شرما نے لکھے بھی تھے یا نہیں؟ کیا فلم میںیہ ماہیے شامل کئے گئے؟ اور اگر فلم میںیہ ماہیے شامل کئے گئے تو فلم کا گیت کار ہمت رائے شرما کون تھا؟ جب تک سنیما اسکرین پر یا وڈیو کیسٹ کے ذریعے فلم ”خاموشی“ کے تعارفی ٹائٹلز میں ہمت رائے شرما کا نام نہ دیکھ لیا جائے تب تک یہ معاملہ التوا میں رہے گا“۔
جب ہمت رائے نام ملنے پر بھی آپ نے یہ شرارت کرنی ہے کہ یہ گیت کار ہمت رائے کون ہے؟ تو ٹائٹل پر ان کا نام مل جانے کے بعد بھی آپ کا یہ سوال تو قائم رہے گا۔ سو تادمِ تحریر دستیاب حقائق کی بنیاد پر ہمت رائے شرما جی نے مئی 1936ءسے پہلے ، اردو میں سب سے پہلے ماہیے لکھے تھے اور وہی اردو ماہیے کے بانی ثابت ہوئے ہیں۔
اب میں مرزا حامد بیگ کے مضمون کے بنیادی موضوع سے ہٹ کر ان کی بیان کردہ بعض دوسری باتوںکی طرف آتا ہوں۔ اس سلسلے میں پہلے ان کی تین خوبیوں کا ذکر.... انہوں نے ماہیے کے تینوں مصرعوں کا ہم وزن ہونا غلط سمجھا ہے اور اسے ”دوسرے مصرعہ کی سطح پر ایک بیٹ زائد ہونے کی خرابی “قرار دیا ہے۔ پھر انہوں نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ”ماہیے“ نہ صرف دریافت کئے ہیں بلکہ ان کے دوسرے مصارع میں جو خامی رہ گئی ہے اس کی بھی بڑی حد تک نشاندہی کر دی ہے۔ تیسری خوبی یہ کہ انہوںنے اردو کے تین معروف شعراءمحمد خالد ، غلام حسین ساجد اور ابرار احمد سے ماہیے کہلوائے اور اپنی طرف سے انہیں بطور ماڈل پیش کیا۔ ان ماہیوں سے ہمارے مؤقف کو کئی لحاظ سے زبردست تقویت ملی ہے۔
یہ تین خوبیاں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا کریڈٹ ہیں۔ کاش انہوں نے ہمت رائے شرما جی کے حوالے سے غیر ضروری حد تک برہمی نہ دکھائی ہوتی اور اپنی اس تحقیق کو بھی سلیقے سے بیان کیا ہوتا تو مجھے جواباً تلخ نہ ہونا پڑتا اور ان کا مضمون اردو ماہیے کے فروغ میں ایک اہم مضمون بن جاتا۔ بہر حال مذکورہ تینوں شعراءکے چند ماہیے یہاں بطور حوالہ پیش کر رہا ہوں:
یہ قرض ہوا چکتا
اٹھلا کر رات چلی
کوئی میٹھا بول میاں
دل تو مسافر تھا
ہجر کے ماروںمیں
ہے یہ خلش کیسی
سینے میں میں کہاں رکتا
پھر تیری بات چلی
ذرا دل کو ٹٹول میاں
٭٭٭ (محمد خالد)
جی دے کرجی لیتے
مشکل میںہے جاںمیری
کوئی نور بھرا سایا
روکر کیا پایا
سپنے لوٹ آئے
خواب کے کھلنے کا
کچھ آنسو پی لیتے
آنکھیں ہیںکہاں میری
موسم ہی نہیں آیا
٭٭٭ (غلام حسین ساجد)
مٹی ہے زمانوں کی
کوئی آنکھیں ملتا ہے
کیا رنگ برستے ہیں
بھول گئے خوشبو
دل جب زور کرے
ہم تری بستی میں
آبائی مکانوں کی
پھر بس کب چلتا ہے
روتے ہیںنہ ہنستے ہیں
٭٭٭ (ابرار احمد)
اب ذرا ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے مضمون کی بعض دیگر غلطیوں اور غلط فہمیوں کی نشاندہی بھی کردوں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:”ماہیا کے عروضی آہنگ اور دیگر فنی لوازم پر بات نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے“۔یہ ڈاکٹر صاحب کی اپنی بے خبری ہے وگرنہ اس حوالے سے خاصی بحث بلکہ گرما گرمی ہو چکی ہے۔ چند اہم ادباکے نام لکھ رہاہوں جنہوں ے اس مسئلے کو عروضی حوالے سے گہرائی کی حد تک سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یوسف علی لائق ، شارق جمال ، ناوک حمزہ پوری، احمد حسین مجاہد، عارف فرہاد، ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی ۔ یہ تو وہ نام ہیں جنہوں نے عروضی حوالے سے خاصی محنت کی ہے۔ ان کے علاوہ بہت سارے ادیبوں نے بھی عروضی زاویے سے تھوڑا بہت اپنے خیالات کا اظہا کیا ہے۔ ناوک حمزہ پوری نے اپنے ایک مضمون میں ماہیے کی لوک لے اور عروضی ضابطوں پر گفتگو کرتے ہوئے یہ لکھا” عروض کو آہنگ کے تابع ہونا چاہے نہ کہ آہنگ ہی کو عروض کا غلام بنا دیا جائے”اس بنیادی اصول کے بعد انہوں نے ماہیے کی لے سے مطابقت رکھنے والے عروضی اوزا ن بھی دریافت کئے۔ احمد حسین مجاہد نے مختلف عروضی اوزان میں تسکین اوسط کے عروضی اصول کی بنیاد پر ہم آہنگی کو اجاگر کیا ہے۔ مجھے علم عروض سے زیادہ واقفیت نہیں ہے پھر بھی اپنی بساط کے مطابق میں نے ماہیے کی دھن کو بنیاد بنا کر اس پر پورے اترنے والے اوزان کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے۔اس سلسلے میں اپنے مضمون” ماہیا پابندِ لے ہے“ میں میں نے پانچ اوزان ، جبکہ اپنے تفصیلی خط ”ایڈیٹر ایوانِ اردو۔ دہلی کے نام“ ( یہ خط ایوانِ اردو میں چھپ چکا ہے، میری کتاب ”اردو ماہیے کی تحریک“ میں بھی شامل ہے) میں آٹھ اوزان یکجا کر چکا ہوں۔ میرا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ۔
اردوماہیے کے وزن کی بنیاد ماہیے کی لوک لے ہے۔ جو ماہیا اپنی فطری روانی کے ساتھ اس لے پر پورا اترتا ہے وہ ماہیا ہے۔ اب وہ عروضی لحاظ سے کسی بھی پیمانے کے مطابق ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی تحریک پر محمد خالد ، غلام حسین ساجد اور ابرار احمد نے جو ماہیے لکھے ہیں وہ بالکل اسی وزن کے مطابق ہیں جس پر ہمت رائے شرما نے ماہیے لکھے تھے۔ اور یہ وہی وزن ہے جس کی بنیاد پر ہم گزشتہ دس برس سے ماہیا نگاری کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں۔
ڈاکٹر حامد بیگ اپنے مضمون میں ماہیے کے وزن کی تفہیم میں ہمارے ہی موقف کے حامی ہیں۔ میں اس اتفاق کو مستقبل میں ماہیے کے لئے نیک فال محسوس کرتا ہوںبشرطیکہ وہ میرے ترکی بہ ترکی جواب سے مخالفت برائے مخالفت پر نہ اتر آئیں ۔ اس کا ایک ثبوت تو وہ ماہیے ہیں جو ان کی تحریک پر تین شعراءنے لکھے۔ دوسرا ثبوت انکا یہ رویہ ہے کہ انہوں نے حسرت اور غلام جیلانی برق کے ”ماہیوں“ کے دوسرے مصرعوں میں غلط وزن کی بجا طور پر نشاندہی کی ہے۔ تاہم چونکہ وہ شاعر نہیں ہیں اس لئے جہاں عروضی حساب کتاب کرنے لگے ہیں وہیں ان سے گڑبڑ ہوگئی ہے۔ یہ اصولی بات کرنے کے باوجود کہ ” ماہیا کی دوسری لائن ، پہلی اور تیسری لائن سے ایکBeatکی کمی کے ساتھ مختصر ہوتی ہے“ جب وہ ماہیے کا عروضی نقشہ یوں بتاتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے:
فعلن فعلن فعفعلاتن فعلن فعفعلن فعلن فع
محمد خالد ، غلام حسین ساجد اور ابرار احمد کے ماڈل ماہیے ایسے کسی وزن پر پورے نہیں اترتے اور نہ ہی یہ ماہیے کا وزن ہے۔ تاہم اسے اس سبب سے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ افسانہ نگار حامد بیگ کو عروض کا علم نہیں ہے۔ انہوں نے یہ مشورہ دیا ہے ”پنجابی ماہیا سے متعلق صدیوں سے مقررہ دھن کو بنیاد بنایا جائے“ یہ بے حد صائب مشورہ ہے۔ ہم لوگ گزشتہ دس برس سے یہی گزارش اور اصرار کرتے آرہے ہیں ۔ سو یہاںہمارے مؤقف میں ہم آہنگی خوش کن ہے۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے ماہیے کے لئے تکنیکی سطح پر چند اہم مشورے بھی دیئے ہیں(الف) ”ماہیا میں برتے جانے والے الفاظ کو فارسی عروض پر کس کر سپاٹ بنانے سے گریز کیا جائے، یوں اردو ماہیا پنجابی ماہیا کی طرح واول ساﺅنڈز کوگرا کر جو کام لیا جاتاہے،وہ بھی دکھائی دے جائے گا“۔
اردو عروض میںزحافات کی رعایت موجود ہے اور اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ میں بنیادی اہمیت ماہیے کی دھن کو دیتا ہوں۔ چنانچہ جب ماہیے کی لے والے بعض ماہیوں پر عروضی حوالے سے اعتراض ہوئے، میں نے ان کی تردید کی۔ اس سلسلے میں سہ ماہی” اسباق“ پونہ کے شمارہ جولائی تا ستمبر1999ءمیں شائع شدہ اپنے ایک خط کا اقتباس یہاں درج کئے دیتا ہوں تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ میں اس مشورے پر پہلے سے عمل کر رہاہوں:
”محترم اسلم حنیف صاحب ماہیے کے سلسلے میں زیادہ گہرائی میں چلے گئے ہیں۔ جس کی ماہیے کو اتنی زیادہ ضرورت نہ تھی۔ انہوں نے امین خیال اور بشری رحمن کے جن ماہیوں پراعتراض کئے ہیںمناسب نہیں ہیں۔ لفظ ’ماہیا‘ پنجابی تلفظ میں ”مایا“ بھی بولا جاتا ہے اور مذکورہ ماہیوں میں پنجابی تلفظ ہی لکھا گیا ہے۔ چونکہ اسلم حنیف صاحب اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیںاسی لئے مغالطہ میں مبتلا ہو گئے۔ انہوں نے جو دوسرے اعتراض کئے ہیں وہ بھی اس وجہ سے غیر اہم ہو جاتے ہیں کہ زیر اعتراض سارے ماہیے۔ ماہیے کی لے پر پورے اور کھرے اترتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ امین خیال جیسے پنجابی زبان کے اہم شاعر کوماہیے کا وزن اسلم حنیف صاحب بتائیں گے تو بات خاصی مضحکہ خیز ہو جائے گی“۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا ایک مشورہ بایں الفاظ ہے:
”ماہیے میں پہلی لائن کا تعلق براہِ راست دوسری اور تیسری لائن کے ساتھ دکھائی نہ دے لیکن تینوںلائنوں میں ایک باطنی ربط ضرور ہو جو پہلی لائن کو دہرا کر پڑھنے سے اپنا پتہ دے“.... اس حوالے سے بھی گزارش ہے کہ ہمارے اچھے ماہیا نگار ان امور کو اپنے اپنے ڈھنگ سے پہلے ہی ملحوظ رکھ رہے ہیںاور میں نے اپنے بعض مضامین میںان کی نشاندہی بھی کی ہے۔ بطور نمونہ یہ مثالیں کافی رہیں گی:
1۔ ”کلیم شہزاد کے ہاں پہلے مصرعہ کا چوتھی لائن میں دہرایاجانا معنوی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے کسی داخلی حوالے تک بھی لے جاتا ہے۔ ان کے یہ ماہیے دیکھیں اور ان کے مصرعوں کے ربطِ باہم سے پیدا ہونے والے معنوی تسلسل پر غور کریں۔
سب کچھ تھا اشاروں پر
پانی تو بھرنا ہے
جیون یہ بنا روکی
جیون پیاسا تھا
میرا دلبر تو
دکھ زنجیریں ہیں
دریا کے کناروں پر
اک پیار کا جھرنا ہے
خوشیوں نے سزا بھوگی
سب کچھ تھا اشاروں
پانی تو بھرنا ہے
جیون یہ بناروگی
ان ماہیوں میںپہلا مصرعہ چوتھی لائن میں آکر پورے ماہیے کے معنوی ربط میں ایک نئے بُعد کا اضافہ کر رہا ہے۔ پھر تیسرے اور چوتھے مصرعوں کے معانی کی الگ سے کونپل پھوٹتی محسوس ہوتی ہے“ (پیش لفظ ”دہ چاند گواہ میرا“ از حیدر قریشی۔ کتاب مطبوعہ جنوری1999لاہور)
2 ”امین خیال کے ماہیوں میں پنجابی ماہیے کی روایت کے اثرات بہت واضح ہیں۔ پنجابی ماہیے میں بعض اوقات پہلے مصرعے کا باقی ماہیے سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور بعض اوقات سرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا بہت ہی مبہم سا تعلق ہوتا ہے۔امین خیال کے ہاں تینوں مصرعوں کے بامعنی تعلق کی تو کئی مثالیں ہیں تاہم ایسے ماہیے بھی موجود ہیں جن میں نفسِ مضمون کے لحاظ سے پہلا مصرعہ باقی ماہیے سے الگ تھلگ دکھائی دیتا ہے“ (پیش لفظ ”یادوں کے سفینے“ از حیدر قریشی۔ کتاب مطبوعہ 1997ءگوجرانوالہ)
سو حامد بیگ کا یہ مفید مشورہ ایک اچھی یاد دہانی ہے جو ماہیے کی خوبصورتی میں اضافہ کے لئے ہوتی رہنی چاہے اور اس کی مزید پرتیں بھی واضح ہوتی جانی چاہئیں۔ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ نے ایک اور عمدہ مشورہ یہ دیا ہے کہ ” ماہیا آسان سمجھ کر نہ کہا جائے اس لئے کہ پنجابی ماہیا میں جب تک احساس کی سطح پر گہری مارنہ ہو، ماہیا شمار ہی نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں پنجابی کے عمدہ ماہیے ماڈل کے طور پر سامنے رکھے جا سکتے ہیں“....اس مشورہ کی معقولیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔اسی بات کو ماہیے کے مزاج کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا ، ناصر عباس نیر اور خاور اعجاز بہت پہلے کہہ چکے ہیں۔ میں نے بھی اپنے خیالات کا تھوڑا بہت اظہار کیا ہے۔ دوسری تمام ادبی اصناف کی طرح ماہیے میں بھی ہر طرح کے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔ اچھا لکھنے والے ، بہت اچھا لکھنے والے ، برا لکھنے والے ، بہت برا لکھنے والے، اوسط درجے کا لکھنے والے۔ سو آسان سمجھنے اور نہ سمجھنے میں تخلیق کار کی تخلیقی قوت کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ میں نے اپنے اولین مضمون میں بھی اور اپنی کتاب”اردو میں ماہیا نگاری“ کے آغاز میں بھی پنجابی ماہیے کے عمدہ نمونے پیش کئے ہیں۔ تاہم میں یہ بھی محسوس کرتا ہوں کہ پنجابی ماہیا ”خود رو جنگل“ کا حسن لئے ہوئے ہے اور اردو ماہیے کو ”خود رو جنگل“ سے ”آراستہ گلشن“ تک کا سفر کرنا ہے۔ لگے بندھے موضوعات اورانداز سے آگے جانا ہے، لیکن اپنی اصل اور بنیاد سے منسلک رہتے ہوئے یہ سفر کرنا ہے۔ بہر حال مرزا حامد بیگ کا یہ مشورہ بھی ایک اچھی یاد دہانی ہے اور اس کے لئے میں خود بھی ان کا شکر گزار ہوں۔
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے مضمون میںایک دو علمی لغزشیں ایسی ہیں جنہیں میں دانستہ نظر انداز کر رہا ہوں ۔ اس حسن ظن کے ساتھ کہ وہ اپنی گرم مزاجی کے باوجود ماہیے کے تئیں بڑی حد تک مفید دکھائی دے رہے ہیں۔ ہماری جدید نظم اور جدید غزل چند مستشنیات کو چھوڑ کر انتہا پسند تجربوں کے نتیجہ میں دھرتی سے کٹ سی گئی ہے۔ بعض اچھے شعراءجو اپنی انفرادیت رکھتے ہیں وہ بھی اس نامانوس فضا میں معلق دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایسے وقت میں جب اردو شاعری میں سہ مصرعی اصناف کی جستجو بڑھتی جا رہی تھی ،ماہیے کا نمایاں ہو کر اُبھر آناواضح کرتا ہے کہ سہ ماہی اصناف میں بھی ماہیا ہی طاقتور شعری صنف ہے اور اس کے ذریعے سے جہاں ابھی اور بہت سی اہم باتیں سامنے آئیں گی، وہیں یہ تو سامنے کی بات ہے کہ ماہیا اردو شاعری کے انتہا پسند جدیدیت کے تجربوں کو خلا سے پھر زمین کا ، دھرتی کا احساس دلا رہا ہے۔ جن تین شعراءنے مرزا حامد بیگ کی تحریک پر ماہیے لکھے ہیں وہ عمومی طور پر اچھی شاعری کر رہے ہیں لیکن اگر وہ غور کریں تو کہیں کہیں وہ بھی جذبوں سے دور ہو کر ، گہری فکر کے چکر میں نامانوس فضا میں کھو جاتے ہیں۔ یہ ان کا عمومی رنگ نہیں لیکن کہیں کہیںوہ اس کا شکار ضرور ہوئے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ شعراءاگر اسی طرح ماہیے کہتے رہے تو ماہیے کی پیدا کردہ کیفیت خود ان کی دوسری شاعری کے لئے مفید ثابت ہوگی۔
جہاں تک اردو ماہیے کے بانی کے نام کا تعلق ہے۔ پہلے پہل چراغ حسن حسرت کو بانی سمجھا گیا تھا۔ جب ہم نے اصلاحِ احوال کا سلسلہ شروع کیا تب قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی کے نام سامنے آئے۔تحقیق میں پیش رفت ہوئی تو قتیل شفائی اور ہمت رائے شرما جی کے نام سامنے آگئے۔اب حسرت کی طرح جناب غلام جیلانی برق کے ”ماہیے“ بھی نہ صرف سامنے آ گئے ہیں بلکہ ڈاکٹر مرزاحامد بیگ نے ان کا مناسب تجزیہ بھی کردیا ہے۔ اسے کسی کی تردید یا تذلیل کی بجائے تحقیقی پیش رفت کے طور پر لیا جانا چاہئے۔ سردست برق صاحب(میں فکری طور پرانکی بہت عزت کرتا ہوں) کا نام تو چراغ حسن حسرت کے نام کے بھی بعد آرہا ہے۔ مفروضوں کی بنیاد پر کسی کو رد نہیںکیا جا سکتا۔ تحقیقی امور میں اپنے موقف سے زیادہ حقائق محترم ہونا چاہئیں۔سو اگر واقعی ہمت رائے شرما جی سے پہلے کسی ماہیا نگار نے اردو ماہیے کہے ہیں اور ان کا ٹھوس ثبوت مل جاتا ہے تو میں اسے تسلیم کرنے میں کبھی بھی نہیں ہچکچاﺅں گا۔ لیکن کسی آدھی ادھوری تحقیق اور تعصب کی بنیاد پر اور غم وغصہ کے ساتھ کوئی اپنے فرمودات کو تحقیق کا نام دیتا ہے تو اسے کوئی بھی دانشمند قبول نہیں کر سکتا ۔ زمانی لحاظ سے تو ہمت رائے شرما جی کو ابھی تک دوسرے تمام دعوے داروں پر فوقیت حاصل ہے تاہم یہاں اگر ”فرضِ محال“ کے طور پر حسرت اور برق صاحبان کی زمانی اولیت کو مان لیا جائے(جو حقیقتاً ہر گز ہرگز ثابت نہیں) تب بھی ہمت رائے شرما جی ہی اردو ماہیے کے بانی ہیں۔ اس لئے کہ خود ڈاکٹر مرزا حامد بیگ حسرتاور برق کے ”ماہیوں“ کو درست وزن میں نہیں مانتے۔ لہٰذا ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کی خام تحقیق کے باوجود ، درست وزن کے ماہیے کہنے میں اولیت تو ہمت رائے شرما جی کا ہی اعزاز رہتا ہے۔
کیا فرماتے ہیں علماءتحقیق بیچ اس مسئلہ کے؟
بہر حال اپنی تمام تر جوابی تلخی کے باوجود میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے مضمون کے ذریعے مجھے متحرک کیا اور ماہیے کے منظر نامہ کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور دکھانے کا موقعہ عطا کیا۔ یہ ماہیے کی مقبولیت کا ایک اور ثبوت ہے کہ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ جیسے دوست بھی اس طرف توجہ دینے لگے ہیں۔
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔شمارہ مئی ۲۰۰۰ء)
نوٹ: میں نے اس مضمون میں سے چند زیادہ سخت سطور حذف کر دی ہیں۔(ح۔ق)