قریشی ہاؤس میں گہماگہمی تھی۔شادی کی خوشی ہر شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔
مسز قریشی کو اور کیا چاہیئے تھا ان کی خواہش تھی ریان شادی کر لے تو ریان شادی کر رہا تھا بہت خوش بھی تھا وہ۔۔
صائم کے تو انداذ ہی نرالے تھے۔وہ اتنا خوش تھا کہ بیان سے باہر ہے۔۔
صائم نے اپنے کمرے کی ڈیکوریشن خود کی تھی ایسی ڈیکوریشن کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے۔۔
کیوں اتنے اتاولے ہو رہے ہو. . . . ریان صائم سے کمرے میں داخل ہوا تو کمرہ دیکھ کر حیراں رہ گیا۔بےپرواہ سا صائم اتنی اچھی ڈیکوریشن بھی کر سکتا ہے یقین کرنا ذرا مشکل تھا۔ .
آپ جیسا بورنگ تو ہوں نہیں اور دوسری بات لومیرج ہے میری اتنا تو بنتا ہے برو. .وہ مسلسل مسکرا رہا تھا . . .
واہ یار صائم کیا کمرہ تیار کیا ہے آنیہ دیکھ کر دیکھتی ہی رہے گی۔۔ریان نے کھلے دل سے تعریف کی اور سراہتی نظروں سے کمرے کا جائزہ لینے لگا
بیڈ پر سرخ خوبصورت پھولوں والی بیڈ شیٹ بچھائ ہوئ تھی جس میں کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے سفید پھول اسے اور خوبصورت بنا رہے تھے۔بیڈ کے عین اوپر دیوار پر نکاح کی تصویر فریم کروا کر لگائ گئ تھی. . . . تصویر میں آنیہ سفید میکسی کے ساتھ سرخ دوپٹہ سر پر پہنے صائم کی کسی بات پر ہنستے ہوۓ منہ پر ہاتھ رکھے سر صائم کے کندھے پر ٹکایا ہوا تھا اور صائم بہت غور سے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔
بلاشبہ وہ تصویر وقت کی حسین ترین تصویر تھی۔
سائیڈ ٹیبل پر یونی میں کھینچی گئ آنیہ اور صائم کی خوبصورت تصاویر تھیں۔
دروازے سے اندر داخل ہوتے سامنے جو دیوار نظر آتی تھی اس پر جب آنیہ کو ڈگری ملی تھی تب کا دیوار کے سائز کا فوٹو فریم تھا۔.
پورا کمرہ جگمگ جگمگ کے ساتھ آنیہ آنیہ بھی کر رہا تھا۔۔
____________________________
نہیں جاؤ گی تم دونوں. . . ماما نے صاف انکار کر دیا. . . .
ممی پانچ منٹ کی بات ہے آ جائیں گے. . . . . . وہ منت سماجت پر اتر آئیں. . . . . . . . .
تمہارا بھائ بھی نہیں ہے اور کوئ گاڑی بھی نہیں ہے گھر میں اس وقت کیسے جاؤ گی. . . . . . .
ممی رکشے سے یوں گۓ یوں آۓ. . . . آنیہ وانیہ کا واتھ پکڑ کر دروازے کی طرف بھاگی. . . . مسزہمدانی مسکرا کر رہ گئیں۔
____________________________
اماں کا فون تھا آنیہ کہہ رہی ہیں جلدی پہنچو دونوں۔دو لڑکیاں پیلا جوڑا پہنے ہاتھ مہندی سے بھرے ہوۓ تھے،سفید پاؤں ہلکے پیلے اور سبز رنگ کے کھسوں میں مقید تھے۔پاؤں پر مہندی سے بنے بیل بوٹے پاؤں کی مزید خوبصورت کر رہے تھے۔
دونوں رکشے میں سوار تھیں۔
اب پنکھ تو ہیں نہیں جو اڑ کر پہنچ جائیں آ رہے ہیں۔آنیہ بیزاری سے رکشے سے باہر کے دوڑتے منظر کو دیکھنے لگی۔سڑک پرگاڑیاں آ جا رہیں تھیں۔باقی دنوں کی نسبت ٹریفک قدرے کم تھا۔۔
تم نہ دیتی اتنے دور مہندی کا سوٹ تو نہ آنا پڑتا مجھ مایوں کی دلہن کو ۔۔وانیہ آنیہ کی طرف مڑ کر بولی جو بےپرواہی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔تنگ آ کر وانیہ بھی سامنےدیکھنے لگی۔۔
تبھی وہ چونکی۔ایک تیز رفتار ٹرک اس طرف آ رہا تھا۔دیکھنے میں پاگل ہاتھی معلوم ہوتا تھا۔۔
بھائ دیکھ ککک. . . . . وانیہ کی بات منہ میں ہی رہ گئ۔تیز رفتار ٹرک بہت زور سے آ کر رکشے سے ٹکرایا. تھا۔۔
رکشہ الٹا ہو کر بہت دور جا گِرا تھا۔آنیہ جو باہر کے منظر سے مخظوظ ہو رہی تھی۔ٹرک کی ٹکر سے وہ رکشے میں سے گھلاٹیاں مارتی ہوئ دور جا گِری۔سر سے بےتحاشہ خون بہنے لگا۔۔ہاتھ میں پڑی شگن کی چوڑیاں ٹوٹ چکی تھیں۔مایوں کا جوڑا لال ہو گیا تھا۔
جبکہ رکشہ بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔وانیہ کی حالت آنیہ سے ذیادہ حراب تھی۔اس کے پورے وجود سے خون کی ندی بہہ رہی تھی۔۔
سڑک پر چاروں طرف خون ہی خون تھا۔۔مایوں بیٹھی دلہنیں نزع کی حالت میں تھی۔
ہاتھوں پر لگی مہندی کے سرح رنگ کو خون کے سرخ رنگ نے چھپا دیا تھا۔۔۔
دور کہیں قسمت کی آواز گونجی تھی۔۔
جب جب شہنائ بجتی ہے موت ساتھ ہی آتی ہے۔۔
____________________________
بھیا یہ نیکلس دیکھیں آنیہ کو دوں گا کیسا ہے۔۔صائم نے ایک خوبصورت نیکلس ریان کی طرف بڑھایا۔۔
بہت خوبصورت ہے. . ریان نے اس کی چوائس کو داد طلب نظروں سے دیکھا تھا۔۔
اور یہ. . . ایک محمل کی ڈبیہ اس کے ہاتھ میں تھی جب کہ الفاظ منہ میں ہی رہ گۓ تھے۔اس کے سینے میں درد کی ایک شدید ٹیس اٹھی۔وہ آہ کر کے رہ گیا تھا۔۔
کیا ہوا ٹھیک ہو صائم تم۔۔ریان نے بڑھ کر اسے تھاما۔۔ . .
جی بھیا بس دل میں اچانک درد کی ٹیس اٹھی پتہ نھیں کیوں۔۔صائم کا چہرہ بتا رہا تھا وہ درد اب بھی سینے میں موجود ہے۔تاثرات درد بھرے تھے. ۔۔۔.
چلو تمہیں ہسپتال لے کر چلتا ہوں۔۔ریان پریشان ہو گیا تھا۔۔.
اب ہارٹ پیشنٹ تو نہیں ہوں میں. . . . . اس نے ٹالا مگر اسے ایک دم سے گبھراہٹ محسوس ہوئ. . دل تیز تیز دھڑکنے لگا. . . . . . . . . . . اس نے بےاختیار دل پر ہاتھ رکھا. . . وہ سینے کو مسلنے لگا جیسے بہت گھٹن ہو رہی ہو. . . . . . .
صائم تم ٹھیک نہیں ہو ۔۔ریان نے اسے صوفے پر بٹھا کر پانی کا گلاس تھمایا۔۔تم یہ پیو میں ماما کو بلاتا ہوں۔۔ریان کمرے سے باہر بھاگا۔۔
صائم کے دل کا درد بڑھ رہا تھا۔۔ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔۔وہ بےبسی سے سینے کو ایک ہاتھ سے مسل رہا تھا۔۔
اور سو میں سے دس محبت کرتے ہیں اور پانچ عشق زدہ ہوتے ہیں۔وہ عشق کے ان پانچ لوگوں میں عشق زدہ ٹھہرا تھا۔۔
____________________________
سڑک پر لوگوں کی بھیڑ جمع ہو چکی تھی۔سب تماشائ تماشہ دیکھ رہے تھے کوئ آگے بڑھ کر ان دونوں کو ہسپتال لے جانے کی زحمت نہیں کر رہا تھا۔
زمانہ بےحس ہو رہا ہے
سینوں میں دھڑکتے
لوتھروں کو
دل کی جگہ
پتھر کے نام سے
جانا جانے لگا تھا۔
بےحسی عروج پر تھی۔
پولیس اور ایمبولنس وہاں پہنچ چکی تھی. . . . . پیلے جوڑے میں ملبوس دو لڑکیاں سڑک پر بےسُدھ پڑیں تھیں. .چاروں طرف خون ہی خون تھا۔ . .
ٹوٹی چوڑیاں سڑک پر بکھر چکی تھیں. . واقعی نظریں پتھر پھوڑ دیتی ہیں.. . . .
انہیں ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا گیا. . . .
کیا ہوا لڑکیاں ٹھیک ہیں. . . ڈاکٹر روم سے باہر نکل تو انسپکٹر نے پوچھا. . . . .
ایک لڑکی کی موت تو وہیں ہو گئ تھی. . . . ایک کی سانسیں چل رہی ہیں. . مگر نہیں لگتا ذیادہ چلیں گی. . . وہ کچھ کہہ رہی ہے. . . . . ڈاکٹر ماسک اتارتے ہوۓ بولا. . . . . . . .
بھیا. . ماما. . اور صائم. . . بس یہی الفاظ اس کے اٹکتی سانسوں کے درمیان منہ سے نکل رہے ہیں۔
ہم ان کے گھر والوں کو انفارم کرتے ہیں.لگتا ہے کسی شادی پر جا رہی تھیں یا اپنی شادی تھی ان کی. . . . حلیے سے ایسا ہی لگ رہا ہے . . کیا ہم اس لڑکی سے مل لیں. . . . .
جی ضرور. . . . .
انسپکٹر آئ۔سی۔یو میں داخل ہوا. . . سامنے پڑی لڑکی کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں. . . . . مگر اس کے لب ہل رہے تھے. . . . .
صائم کو کک کال کال کرو. . . وہ ہکلائ. . . . .
نمبر. . . . .
اس نے اٹکتے ہوۓ نمبر بولا. . . .
دو تین بیل پر کال پک کر دی گئ. . . . .
ہیلو صائم قریشی سپیکنگ. . .سینے کی بڑھتی گھٹن کی وجہ سے کمرے کے چکر کاٹ رہا تھا . . . . . . .
فوراً سے سٹی ہسپتال پہنچے دو لڑکیوں کا بہت شدید ایکسیڈینٹ ہوا ہے. . . ایک نے آپ کا نمبر دیا ہے آپ آ جائیں. . . . .
کیا ایکسیڈنٹ. . . ریان کی سانسیں اکھڑی۔۔ میں پہنچتا ہوں. . . . دل میں درد کی وجہ جان کر دل ساکن ہو گیا تھا۔۔
ممم میری بات کراؤ صص صائم سے. . . . . . آنیہ بمشکل بولی. . . . . . .
انسپکٹر نے فون اس کی کان سے لگایا. . . .
صائم۔۔. . . صائم اس کی آواز سن سکتا تھا جس میں درد تھا. تکلیف تھی بہت کچھ تھا۔۔. . .
جج جارہی ہوں صص صائم. . سب ادھورا رہ گیا سب کچھ. . . . .
نہیں صائم کی جان کچھ نہیں ہو گا میں آ رہا ہوں. . .تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا کچھ نہیں ۔۔بازو سے آنسو پونجتا وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا۔۔ . .
کوئ فائدہ نہیں . .میرا وقت آ گیا ہے۔ہر ذی روح کو لوٹ جانا ہے جہاں سے وہ آئ ہے . . . آئ لو صائم. . . وہ ٹوٹتی سانسوں کے ساتھ بس اتنا ہی کہہ پائ تھی کہ آخری ہچکی گونجی ۔اجل کا فرشتہ اس نئ نویلی دلہن کو لیئے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کر گیا۔۔ . . .
آنیہ. . . . وہ گلا پھاڑ کر چلاتے ہوۓ زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔۔ .
کیا ہوا صائم ۔ سب ٹھیک ہے. . . . . ریان اور باقی سب بھی اس کی آواز سن کر وہاں پہنچے. . . .
ببھائ وو وہ. . . . . وہ بول نہیں پا رہا تھا. .اس کی آواز اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی الفاظ گلے میں رندھ گۓ تھے۔۔ . .
کیا ہوا بتاؤ نا. . .ریان بھی پریشان ہوا اس کی حالت پر۔۔ .
وہ آنیہ اور وانیہ کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے. . . بھائ ہسپتال چلو. . . . اس کی بات پر آسمان سب کے سروں پر آن گرا. . . سب ساکت ہو گۓ تھے۔۔. .
چلو چلو جج جلدی چلو۔۔ریان کا دل زور سے دھڑکا۔اس کی آنکھوں کے سامنے مسکراتی ہوئ وانیہ کا چہرہ گھوما تھا۔۔اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔شائد درد
سب بھاگے بھاگے ہسپتال پہنچے. . . . . سہیل کو بھی انفارم کر دیا گیا. . . . وہ فقیراں بی ،کرشمہ. مسزہمدانی سب پہنچ گۓ. . . . . .
کک کیا ہوا ڈاکٹر وہ ٹھیک ہیں نا. صائم کے آنسوؤں نے اسے پورا بھگو دیا تھا۔۔. . . . . . .
ایک لڑکی وہیں موقع پر دم توڑ گئ تھی اور دوسری تھوڑی دیر پہلے مر گئ. . . . .
ڈاکٹر کے الفاظ تھے کہ پگھلا سیسا
سب ڈھے گۓ. . . . صائم تو صدمے کی کیفیت میں تھا. . . اس نے جانا جان جلے جانے سے تکلیف دہ جان سے ذیادہ پیارے شخص کا چلے جانا ہے. . . . . . .وہ زمین پر بیٹھ کر دھاڑیں مار مار کر رو دیا۔۔ .
مسزہمدانی پھوٹ پھوٹ کر رو دیں. . . . ابھی تو ان کی رانیہ گئ تھی اور اب آنیہ اور وانیہ بھی. . . . . . .
ریان رو پڑا تھا اس کی وانیہ اس کی بیوی اس کی محرم مر چکی تھی ۔. . . . سب لوگ رو رہے تھے ہسپتال کا سٹاف ڈاکٹر سبھی. . . . وہ جو رحصتی سے ایک دن پہلے دکھ دے گئیں تھی وہ بھرنے والے نہ تھے. . . . .
صائم کی حالت خراب ہو رہی تھی روتے روتے وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گیا. . . . . . اس کا چیک اپ کیا گیا. . . وہ گہرے صدمے میں چلا گیا تھا. . .وہ کومہ میں چلا گیا تھا کیونکہ وہ عشق زدہ تھا۔۔ . . .
آج پھر دو سال پرانی کہانی دہرائ گئ تھی۔آج پھر شہنائ کے ساتھ ماتم ہوا تھا۔
خوشی شادیانے جب جب
بجتے ہیں۔
تب تب موت خوشیاں
کھانے آتی
قسمت روتی ہے
اپنے پر پھیلاتی ہے
اور پھر،پھر
فرشتہ اجل اپنا جلوہ دکھاتا ہے
جسموں سے روحوں کو لے جاتا ہے
ایک گہرا زحم دے جاتا ہے
جس کی بھرپائ وقت کرتا ہے
کیونکہ وقت سے بڑا
چکریہ کوئ نہیں
مگر کھرنڈ رہ جاتے ہیں
آج پھر سے ہوا
ماتم سنگ شہنائ کے. . . . . . . . .
____________________________
ان کو کفن دفن کے لیئے گھر لایا گیا. . . . وہ گھر جو کچھ پل پہلے شہنائ کی گونج میں تھا وہاں سے ماتم کی آوازیں بلند ہوئیں. . . . . . . . روشنیوں کو اتارا گیا ڈیکوریشن کی توڑ پھوڑ کرتے سہیل رو رہا تھا وہ مظبوط مرد اپنی بہنوں کے مر جانے پر ٹوٹ کر رو دیا تھا. . .
سب کی حالت خراب تھی . مسزہمدانی سکتے میں تھیں. . . . .
کچھ لوگوں کے دل کتنے بےحس ہوتے ہیں دو دو جوان دلہنیں شادی کے دو مر گئیں تھیں مگر احساس کی جگہ لوگ لوٹ مار میں لگے ہوۓ تھے۔
گھر لڑکیوں کے جہیز سے بھرا ہوا تھا وہ بھائ کی لاڈلیاں تھیں۔وہ مر چکیں تھیں۔
لوگ جہیز کا سامان چپکے چپکے لے جا رہے تھے جس کے ہاتھ جو لگا وہ اپنا خق سمجھتے ہوۓ لے گیا۔یوں جیسے مالِ غنیمنت ہو ۔سونا چاندی برتن کپڑا کچھ نہیں چھوڑا تھا لوٹنے والوں نے۔۔
دنیا دوغلے لوگوں سے بھری پڑی تھی۔چہرے پر آنسو لے کر غم میں شامل ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر پیٹھ پر کاری وار کرتے ہیں۔۔
انسانیت چند لوگوں تک محدود ہو گئ ھے باقی مانندہ لوگ اس احساس سے عاری ہیں۔۔
____________________________
مر گئ تھی زندگی میرے
وجود میں ہی کہیں
تین سال بعد______
ہمدانی ہاؤس سے خوشیاں کوسوں دور ہو گئ تھیں۔۔ایک ویرانی سی چھائ تھی۔بیٹیوں کی ناگہانی موت کا صدمہ لیئے مسزہمدانی بھی منوں مٹی تلے جا سوئیں تھیں۔۔
بہت عرصے بعد ہمدانی ہاؤس میں پھر سے خوشیوں کا سورج طلوع ہو رہا تھا۔
سہیل کی دو جڑواں بیٹیاں ہوئ تھیں جن کا نام آنیہ اور رانیہ رکھا تھا. . وہ اپنی شہزادیوں سی بہنوں کو کہاں بھول پایا تھا
ریان کی بھی شادی ہو گئ تھی اس کی بیوی ایک وفاشعار اور خوش مزاج لڑکی تھی. . . ان کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ریان نے وانیہ رکھا تھا. . . . . .
وانیہ کو وہ کبھی بھی نہیں بھول سکتا تھا. . . چند منٹ کا نکاح تھا ان کا مگر ہمیشہ یاد رہنے والا رشتہ تھا. . وہ صائم قریشی کی محبت تھی اس کی محرم تھی۔۔ .
اور صائم قریشی. ایک عشق زدہ شخص. . . .
وہ دنیا جہان سے بیگانہ ہو گیا تھا. . . . اس کی محبت عشق بن چکی تھی . . . .
ڈیڑھ سال پہلے وہ کومہ سے باہر آیا تھا. . چپ چاپ بیٹھا آنیہ کی تصاویر دیکھتا رہتا جو ابھی بھی اس کے کمرے میں رنگ بکھیر رہیں تھیں. . . . .اس نے کمرے کی ڈیکوریشن کو ہاتھ بھی نہ لگانے دیا تھا اس کا کمرہ آج بھی آنیہ آنیہ کر رہا تھا۔۔
وہ گھنٹوں بیٹھا آنیہ کی دیوارگیر تصویر کو دیکھتا رہتا تھا۔باتیں کرتا اور پھر رو پڑتا تھا۔۔
ایک سال لگا تھا اسے سنبھالنے میں۔گھر والوں نے ہر ممکن کوشش کی تھی اسے زندگی کی طرف لانے کی اور وہ آ بھی گیا تھا مگر اس کی زندگی رنگوں سے کوسوں دور تھی۔وہ بلیک اینڈ وائٹ ویران زندگی گزارنا چاہتا تھا۔۔. .
اس نے کہا تھا وہ ایسا چپ ہو گا ایک دن کے سب ترسیں گے اور سچ ہوئ اس کی بات سب ترس رہے تھے. اس کی نٹ کھٹ سی باتوں کے لیئے شرارتوں کے لیئے مگر وہ باتیں وہ قہقہے گزرا زمانہ ہوا تھا۔۔
وہ سنبھل چکا تھا مگر زندگی نۓسرے سے شروع نہیں کرنا چاہتا تھا. . . وہ کہتا کہ شادی اک بار ہونی تھی ہو گئ بس آنیہ کے بعدکوئ نہیں. . .
وہ زندگی کو صرف یادوں کی دنیا میں رہ کر جینا چاہتا تھا مگر یہ زندگی ہے جہاں قدم ڈگمگا کر بندہ گِرنے لگتا ہے تو ہمسفر کی ضرورپ پڑتی ہے۔۔
جانے والوں کو دل سے نہیں نکالا جا سکتا مگر زندگی ایک لاحاصل کے سہارے بھی نہیں جئ جا سکتی۔۔
ہاں فی الوقت زندگی اس کے وجود میں ہی مر گئ تھی جسے دوبار زندہ کرنے میں وقت لگنا تھا۔۔
____________________________
تیرے بعد اس قدر اکیلے ہو گۓ ہیں
یہ جو اک لفظ ہے نا "ہم"مجھے اب اچھا نہیں لگتا۔۔
لال رنگ کی گاڑی ایک قبرستان کے پاس رکی. . . لال رنگ اس کی آنی کو پسند تھا اور صائم نے اس کی ہر پسند کو خود پر لاگو کر لیا. . .وہ رنگوں سے روٹھ گیا تھا مگر لال رنگ اسے آج بھی بہت پسند تھا۔۔ . . . . . .
گاڑی سے اتر کر وہ قبرستان میں داخل ہوا. .قبرستان میں ہو کا عالم تھا ۔ویرانی ہی ویرانی تھی۔۔
ایسے لوگ بھی دفن ہیں ان قبروں میں جو زندگی خدا بن کر جیتے ہیں۔
کچھ ایسے لوگ جنہیں تنہا رہنے سے بھی حوف آتا ہو اور اب وہ اس ویران قبرستان میں اکیلے ایک قبر میں پڑے تھے۔
ایسے لوگ بھی دفن ہوتے ہیں جو کسی کی سانسیں چلنے کیوجہ ہوتے ہیں۔جو جینے کا آسرا ھوتے ہیں اور پھر مر جاتے ھیں۔
قبرستان ایک ایسی جگہ ہے جہاں امیر غریب،کال گورا،موٹا پتلا، سب ایک ہی جگہ پر بغیر کسی مخالفت کے ہوتے ہیں۔۔
وہ قبروں کے پاس سے گزرتے ہوۓ ایک ایک قبر کا کتبہ پڑھا رہا تھا۔۔ایسے ہی پڑھتے پڑھتے وہ ایک قطار میں بنی قبروں کے پاس پہنچا۔۔وہیں وہ ایک قبر کے پاس بیٹھ گیا۔۔سر جھکا کرقبر پر رکھ دیا۔آنکھوں سے بےشمار آنسو نکلے تھے۔۔آنکھیں غم اور آنسوؤں کی شدت سے لال ہو رہیں تھیں۔۔
جھکا سر اٹھا کر کتبے پر ہاتھ پھیرنے لگا. . . کتبے پر آنیہ صائم قریشی لکھا ہوا تھا. . . . اک آنسو آنکھ سے بہتا ہوا قبر پر جا گِرا۔۔
تمہیں پتہ ہے ایم۔اے میں گولڈمیڈل ملا مجھے. . تمہاری خواہش تھی نہ میں ٹاپ کروں اور میں پاگل فیل ہی ہوتا رہتا تھا. . . . وہ رو رہا تھا آنسو آنکھوں سے نکلتے ہوۓ شرٹ کو بھگو رہے تھے۔۔
ہم بھی کتنے عجیب لوگ ہیں کوئ مر جاتا ہے تو اس کی خواہشیں جن کو بےپرواہی کی بھول بھلیا میں چھوڑ دیتے ہیں شدت سے یاد آنے لگتی ہیں۔اور پھر ہم سرتوڑ کوشش کر کے ان خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔۔مگر کیوں۔؟؟خواہش کرنے والا تو جا چکا ہوتا ہے۔۔۔
ہم اتنی ہی اہمیت زندہ انسان کو دیں تو شائد کچھ پل وہ اور جی لے۔۔
آنیہ کی قبر کے ساتھ وانیہ اس کے ساتھ رانیہ اور مسٹرہمدانی کی قبر تھی. . . قطار بنی ہوئ تھی ایک ہی خاندان کے چار لوگوں کی قبریں تھیں۔ہنستی کھیلتی فیملی کے چار زندگی کو جینے والے ایک ساتھ نیند کی آغوش میں تھے۔۔. . . . . . .
آنیہ لوگ پوچھتے ہیں اتنا بھی کیا درد. . . . یار وہ محبت کریں تو جانیں یہ جو محبوب کی جدائ کا درد ہوتا ہے ناں تمام دردوں پر بھاری ہوتا ہے. . .بازوؤں کو قبر کے دھانے پر رکھ کر اس نے اوپر اپنا سر رکھا۔. . . .
وہ روز آنیہ سے بات کرنے آتا تھا اور گھنٹوں لگا رہتا. . وہاں کوئ آتا تو دیوانہ سمجھ لیتا تھا اسے. . . وہ ہر شے سے بےپرواہ ذیادہ وقت وہیں گزارتا تھا۔۔
لوگ پوچھتے ایسا بھی کیا درد کے وہ ہر وقت ایک تڑپ اور اذیت کا شکار رہتا. . . . مگر لوگ کہاں سمجھیں گے دیوانے کے درد کو. . . . . . .
____________________________________________________________________________
ایک سال بعد۔۔۔
میم وہ پیشنٹ اب ٹھیک ہیں بلکل ۔۔آپ نے ان کو مشکل گھڑی سے نکالنے کے لیئے بہت مخنت کی ہے۔۔وہ آپ سے ملنا چاہتا ھے۔۔وہ وارڈ میں کھڑی مریض چیک کر رہی تھی جب ڈاکٹر ایلف انہیں آگاہ کرنے لگی۔۔
وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتا ہے۔۔میں نہ سائیکیٹرسٹ ہوں نہ کوئ نجومی۔۔وہ مصروف سے انداذ میں بولی تھی۔۔صاف لگ رہا تھا وہ بات کو ٹال رہی ہے۔۔
پھر بھی ڈاکٹر ردا آپکو اس سے ملنا چاہیئے آپ کو اچھا لگے گا۔۔ڈاکٹر ایلف سلیس انگلش میں کہتی دوسرے وارڈ کے پیشنٹس کی طرف بڑھ گئیں۔۔
مریض کو چیک کر کے کچھ ضروری ہدایات کرتی اسٹیتھوسکوپ گلے میں لٹکاۓ وہ وارڈ سے نکل آئ تھی۔۔
اس کا دل بضد تھا اس دیوانے سے ملنے کو۔وہ چھ سال سے اسائیلم میں تھا اور ردا نے پورے تین سال اس پرمحنت کی تھی۔اسے زندگی کی طرف لائ تھی۔۔وہ کوئ نفسیات کی ڈاکٹر نہیں تھی۔پھر بھی وہ نفسیات اور اس کے علاج کو سمجھ لیتی تھی۔۔
اور اس معاملے میں تو وہ خود کو بےبس محسوس کرتی تھی۔وہ خودبخود کھنچی چلی جاتی تھی اس کے پاس۔۔
ابھی بھی بےبسی سے مٹھیاں بھینچتے وہ گاڑی کی چابی اٹھاۓ ہسپتال سےنکل آئ تھی۔۔
گاڑی سٹارٹ کر کے اس نے سڑک پر ڈالی۔رخ اسائیلم کی طرف تھا۔۔
اسائیلم پہنچ کر اسنے گاڑی روکی اور نیچے اتری۔سامنے لگے بورڈ پر اجلے خروف میں اسائیلم لکھا تھا۔
اردگِرد ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے وہ گھٹنوں تک آتے لانگ کوٹ کے جیبوں میں ہاتھ ڈالے اندر داخل ہوئ۔۔
اسائیلم کا عملہ اس سے واقف تھا۔سبھی آتے جاتے مسکرا کر اسے دیکھ کر گزر جاتے تھے جواب میں وہ سر کو ہلکا سا خم دیتی تھی۔۔
راہداری سے گزرتی وہ ایک کمرے میں پہنچی جہاں وہ پچھلے تین سالوں سے لگاتار آ رہی تھی۔۔جس کا نتیجہ تھا کہ مریض عشق صحت یاب ہو رہا تھا۔۔
کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے سفید جینز پر سفید شرٹ پہنے جس کے اوپر سبز اور سرخ روشنائ سے خان لکھا ہوا تھا ایک ہینڈسم سا آدمی کھڑا تھا۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اسنے مڑ کر دیکھا اور سامنے ردا کو پا کر دھیمے سے مسکرایا۔۔
آپ آ گئیں ڈاکٹر میں بس نکل ہی رہا تھا۔۔وہ فریش لگ رہا تھا مگر اس کی مسکراہٹ چھ سال کی مسافت میں بہت اداس ہو گئ تھی۔۔
مجھے تو آخر یہیں آنا تھا۔۔ردا کی بات پر وہ چونک کر مڑا۔۔مطلب آپنے بلایا تھا۔۔گڑبڑا کر جلدی سے ردا نے بات سنبھالی۔۔
ہمم شکریہ ادا کرنا تھا آپکا۔۔وہ پھر سے مسکرایا تھا۔۔لگتا تھا وہ زبردستی مسکراہٹ کو ہونٹوں سے جدا نہیں ھونے دے رہا۔۔
آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں ریحان مصطفی خان۔۔وہ اپنے سامنے کھڑے خود سے کئیں سال بڑے شخص کو دل کا حال بیان کر رہی تھی جس کے لئیے اس نے بڑی ہمت جمع کی تھی۔۔
شکریہ۔۔وہ جان کر بھی انجان بنا۔۔
شادی کریں گے مجھ سے۔۔سارے لخاظ بالاۓ طاق رکھ کر ردا نے اسے پرپوز کر ڈالا۔۔ریحان تو حیرانی سے اسے دیکھے گیا۔
ایج کیا ہے تمہاری۔۔ریحان نے بیگ زمین پر رکھا اب وہ پوری طرح سے اس کی بات پر توجہ دے رہا تھا۔۔
ستائیس سال۔۔دس نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔
میری 43 سال۔۔وہ اسے خقیت دکھانا چاہتا تھا۔۔
تو محبت اس قید سے آزاد ہے۔۔اس کا مؤقف خاظر تھا۔۔
پر میں مخبت کی قید میں ہوں۔میری مینٹلی کنڈیشن صیح ہو گئ ہے مگر دل چھ سال پیچھے ہی اٹکا ہوا ہے۔۔
آپ کو رونے کے لیئے کسی کندھے کی ضرورت پڑے گی تو میرا کندھا خاضر ہو گا۔۔وہ بضد تھی۔۔
اپنے احسان کا بدلہ چاہتی ہو۔۔
نہیں بس یہ بتا رہی ہوں جس شے کو آپ ترسے ہو کسی دوسرے کو مت ترساؤ پھر چاہے وہ مخبت ہو یا کچھ اور۔۔۔
میں محبت نہیں کر سکوں گا۔۔فیصلہ سنایا گیا۔۔۔
محبت میں کر لوں گی۔۔جواب فوراً آیا۔۔
مخبت کے بعد محبت ممکن نہیں۔۔
ناممکن بھی نہیں۔۔وہ جوابات کے ساتھ خاضر تھی ۔
مجھے سوچنے کے لیئے وقت چاہیئے۔۔اس کی محبت کے آگے وہ ہارنے لگا ۔۔
آپ کو ٹائم دیا میں نے۔۔وہ ہولے سے مسکرائ جانتی تھی وہ مان چکا ہے۔۔
____________________________________________________________________________
صائم آج بڑے دنوں بعد یونی آیا تھا۔۔ڈگری لینے کے بعد بھی وہ اکثر یہاں آتا تھا۔۔
یونی کے تمام سٹوڈنٹس پروفیسرز اس سے واقف تھے کبھی کبھا وہ بھی بلا لیتے تھے کوئ کلاس لینے کے لیئے کسی کو فلسفہ سمجھانے کے لیئے۔
اور کمال کی بات اس دنیا بھر کے نالائق کو عشق نے محنتی بنا کر ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کیا تھا۔۔
یونی میں معمول کی گہماگہمی تھی۔۔آتے جاتے ستوڈنٹس ۔ٹولیاں بنا کر جگہ جگہ بیٹھے تھے سٹوڈنٹس۔۔
صائم کو آج پروفیسر راج نے بلایا تھا جو کہ اردو کے ٹیچر تھے۔صائم عشق زدہ تھا تو اس سے یہی کچھ پوچھا جاتا تھا۔۔
آج اس نے مخبت کے تین پہر جو رات سے متشابہہ رکھتے ہیں بتاۓ تھے۔۔
کلاس لینے کے بعد وہ گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا جب ایک آواز نے اس کے قدم منجمند کر دیئے تھے اور مڑ کر دیکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
شٹ اپ ریگنگ کرنے کی سوچنا بھی مت ورنہ میری سینڈل ہو گی اور سینڈل کے نیچے ہو گا تمھارا سر۔۔وہ ہاتھ نچا نچا کر مقابل کے چھکے چھڑوا رہی تھی۔۔
صائم دلچسبی سے اسے دیکھے گیا۔۔آنیہ کے بعد پہلا چہرہ تھا جسے دیکھ کر اسے دلچسبی محسوس ہوئ۔ہونٹ خودبخود مسکراۓ تھے۔۔
صائم کو لگا وہ حال سے ماضی میں چلا گیا ہے۔سامنے کھڑی لڑکی میں اسے آنیہ دکھی تھی جس نے صائم کے صیح چھکے چھڑاوۓ تھے۔۔
اور پنگہ مت لینا مجھ سے ورنہ دیکھ لوں گی۔آنیہ درانی نام ہے میرا۔۔انگلی اٹھا کر وارن کرتی وہ ایک لڑکے کو زور سے دھکا دے کر سامنے سے ہٹاتی بیالوجی کے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئ۔۔۔نظروں سے اوجھل ہو جانے تک صائم نے اس کی پشت کو مسکراتے ہوۓ دیکھا تھا۔۔
سنو۔۔!! پھرکچھ سوچتے ہوۓ اس نے لڑکوں کی اس ٹولی سے جسے ابھی وہ بےعزت کر کے گئ تھی بلوایا۔۔
جی سر۔۔
یہ میرا کارڈ ہے اس لڑکی کو دے دینا۔۔کہہ کر گلاسز پہنتا وہ گاڑی کی طرف بڑھا۔۔
مگر سر وہ کچا کھا جاۓ گی۔۔لڑکا اس کی زبان کے جوہر دیکھ چکا تھا تبھی ڈر گیا تھا۔۔
کچھ نہیں ہو گا تم یہ کارڈ دے دینا۔۔لڑکے کو خوصلہ دیتے وہ گاڑی سٹارٹ کر کے زن سے بھگا لے گیا۔۔
زندگی کہیں بھی نہیں رکتی۔۔اکثر زندگی میں ہم ان مراحل سے گزرتے ہیں جب لگ رہا ہو زندگی ختم ہو رہی ہے تو وہیں سے زندگی شروع ہوتی ہے۔۔
کسی کا جانا دل کی دنیا ہلا کر رکھ دیتا ہے مگر زندگی جینی پڑتی ہے پھر بھی اور زندگی جینے کے لیئے ہمسفر کی ضرورت رہتی ہے۔۔
__________________
ختم شد