اور ایک خاص بات بتاؤں
وقت کی تو سنو!!
یہ ظالم ہے بہت
بےرحم ہے بہت
مگر اس سے بڑا مرہم کوئ نہیں
جو ماضی کے زخموں پر لگایا جاۓ
وقت دوا ہے
ہر اس درد کی
جب وہ بےرحم بن جاتا ہے
اور حوشیوں کے درخت
زندگی سے اکھاڑ پھینکتا ہے
وقت چکر ہے
وقت جابر ہے
وقت بےانصاف ہے
مگر تم جان لو
وقت سے بڑا رحم دل
بھی کوئ نہیں
وقت سے بڑا انصاف
کا رکھوالہ کوئ نہیں
وقت سے ذیادہ
رحم دل کوئ نہیں۔
دو سال بعد___
وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزر ہی جاتا ہے رو کر نہیں تو ہنس کر ،ہنس کر نہ سہی تو رو کر۔اور یہ ہی حاصیت ہے وقت کی یہ نہ غم میں رکتا ہے نہ خوشی میں کسی کے ہاں ڈیرے ڈالتا ہے۔
منٹ گھنٹوں میں،گھنٹے دنوں میں،دن مہینوں میں،مہینے سالوں میں کٹ گۓ۔اور اس گزرتے وقت کا ایک ایک لمحہ بھاری تھا اذیت ناک تھا درد ناک تھا۔
ہمدانی ہاؤس پچھلے دو سال سے ویران پڑا تھا۔۔کوئ ہنستا تھا نہ بولتا تھا۔۔رانیہ جاتے ہوۓ زبانیں خوشیاں قہقہے سب لے گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمدانی ہاؤس نے چپ سہیلی سے دوستی گاڑ لی تھی اتنی گہری دوستی کہ سکوت پل بھر کو نہ ٹوٹتا تھا اگر ذرا آواز پیدا ہوئ اور سہیلی رحصت۔۔۔
وانیہ اور رانیہ نے ہر ممکن کوشش کی اپنی ماں کو زندگی کی طرف لے آنے کی اپنے بھائ کو ہنسانے کی۔۔۔اپنی ماں کو دیمک کی طرح چاٹتے غم سے نکالنے کی وہ ہر ممکن کوشش کر رہیں تھیں۔
اور کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں۔
بہت مشکلوں سے وہ پہلے جیسا تو نہیں مگر کچھ سنبھال گئیں تھی اپنے بھائ اور ماں کو۔۔۔
ہمدانی ہاؤس کو پہلے جیسا نہیں کر سکتیں تھیں مگر زندہ مکاں کو وہ قبرستاں بننے سے روک سکتی تھیں۔اور وہ قبرستاں جیسے ویراں پڑے اپنے گھر کو رونق سے بھر دینا چاہتی تھیں۔اور وہ کر رہیں تھیں۔
اور وہ کامیاب ٹھہریں تھیں۔
____________________________
زمانے کو جان لینا چاہیئے
محبت سِراب نہیں ہے
محبت دھوکہ نہیں ہے
محبت ایک جذبہ ھے
وہ جذبہ جو ہر ایک
ذہن کی پیداوار ہے
محبت ذہنوں میں نشونما پاتی ہے
اور ہوتے ہوتے دل تک پہنچ جاتی ہے
اپنے من پسند شحص کا زندگی سے نکل جانا ایک جیتے جاگتے انسان کی موت ہوتی ہے. . .
لوگ محبت کو ناسمجھی سے تعبیر کرتے ہیں غلط کرتے ہیں. . . محبت صرف لاپرواہ کو ہی نہیں ستاتی محبت کا مر جانا ایک اچھے حاصے میچورڈ شخص کو بھی خون کے آنسو رلاتا ہے. . . . .
کچھ لوگ محبت کو دھوکے سے تعبیر کرتے ہیں۔غلط نہیں بہت غلط کرتے ہیں۔
جو محبت کو بکواس کہتے ہیں خدا کی قسم بکواس کرتے ہیں۔
ریحان مصطفی ایک میچوڑ اور سمجھدار شحص. . مگر محبت لے ڈوبی۔۔
جب محبت اپنے پر پھیلاتی ہے ناں تو ساری عقل ختم ہو جاتی ہے. . . محبت عقل سے بھی آگے کے جہان کا سفر ہے جہاں خودی نہیں صرف بےخودی ہی بےخودی ہے. . .
وہ بھی اسی جہاں چل پڑا تھا. . .
اس کی بھپھو لندن میں رہتی تھیں.اسے بھی ساتھ لندن لے گئیں تھیں . . . رانیہ کی موت نے اس کی حالت اپنی حراب کر دی وہ اچھا حاصا سمجھدار شحص آدھا مر گیا تھا۔محبت اور عقل دو ایسی چیزیں ہیں جنہیں زندگی کا راستہ طے کرنے کے درمیان چننا پڑتا ہے اور آپ یہ آپ پر ہوتا ہے آپ کیا چنتے ہو۔ . .
مگر محبت عقل کو کھا جاتی ہے محبت ذات سے "میں" ختم کر کے کائنات کی تلاش میں لگا دیتی ہے. . . .
وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکا تھا ۔وہ حساس تھا بہت حساس وہ ٹوٹ چکا تھا اسے سنبھلنے میں وقت لگنا تھا۔اس کی حساسیت سے لوگ اسے پاگل سمجھ بیٹھے۔کوئ اس سے بھی پوچھتا جب زندہ رہنے کے باوجود سانس لینا دشوار ہو جاۓ تو دماغ کی تاریں ہِل جاتی ہیں . . . .
پھپھو نے اسے اسائلم میں ایڈمٹ کروا دیا. . . وہ پاگل نہیں تھا وہ دیوانہ تھا. .
دیوانگی ایسا روگ ہے جس سے دنیادار ناواقف ہیں. . . .
وہ پاگل نہیں تھا وہ دیوانہ تھا. . . وہ روگ ذدہ تھا وہ جوگی تھا۔ وہ عشق زدہ تھا۔وہ پاگل نہیں تھا۔
محبت روگ ہے سائیاں
محبت روگ ہے سائیاں۔
____________________________
آنیہ اور وانیہ دونوں یونی تک پہنچ گئیں تھیں۔۔ایم۔اے اکنامکس ان کی بہن کا خواب جسے وہ پورا کرنا چاہتی تھیں مگر کچھ خوابوں کی قسمت میں پر نامکمل کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔۔۔
وانیہ کافی حد تک سمجھدار ہو گئ تھی اس نے خود کو بدل لیا تھا اب وہ بھائ اور ماں کو تنگ نہیں کرتی تھی۔وہی چکریہ وقت کا چکر۔ایسے چکر چلاتا ہے وقت کہ عقل خود آ جاتی ہے۔۔البتہ آنیہ ویسی ہی تھی نٹ کھٹ سی مگر بہت سمجھدار ہو گئ تھی۔۔
آنیہ میں اسائمنٹ سبمٹ کروا کر آتی ہوں تو دھیان رکھنا اپنا۔۔وہ اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں کھڑیں تھیں۔۔وانیہ اسے تلقین کرتی جانے لگی۔۔۔
آ ہاں رکھ لو گی رکھ لو گی تم جاؤ۔۔۔وہ لاپراوہی سے بولتی نظریں اِدھراُدھر گھما کر سٹوڈنٹس کو دیکھنے لگی۔کچھ گھاس پر بیٹھے پڑھائ میں مصروف تھے کچھ محبت کی مستیوں میں مست تھے۔بےزاری سے آنکھیں گھماتی وہ پاس پڑے بینچ پر بیٹھ کر موبائل میں لگ گی۔تبھی اسے کسی کی آواز سنائ دی۔کوئ اسے مخاطب کر رہا تھا۔
سنو تم آئ تھنک نیو ہو یونی میں تو تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ ایڈمشن فارم جمع سینئر کرواتے ہیں اور ساتھ پانچ ہزار کا نوٹ بھی دیا جاتا ہے۔۔۔ایک لڑکا اپنی ٹولی کے ساتھ اس کے پاس آ کھڑا ہوا۔۔آنیہ نے نظریں اٹھا کر سر تا پیر اس لڑکے کا جائزہ لیا۔
سیاہ پینٹ پر پیلی شرٹ پہنے براؤن جیکٹ کو کمر کے ساتھ باندھے ، ماتھے تک آتے سلکی سیاہ بالوں اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا وہ لڑکا کافی ہینڈسم تھا۔
ایکسرے ختم ہو گیا ہو تو ایڈمیشن فارم اور ٹِپ کی بات کریں۔خود کو اتنی غور سے دیکھنے پر لڑکے نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں تو آنیہ نے نظروں کا زاویہ موڑا اور پھر سے سر موبائل پر جھکا دیا۔
تو دو ایڈمشن فارم اور پیسے۔۔آنیہ نے کمال لاپرواہی سے موبائل پر تیز تیز انگلیاں چلاتے ہوۓ کہا تو سامنے کھڑا لڑکا اور اس کے دوست خیران ہوۓ۔
ایسے کیوں دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہو دو پیسے۔۔۔ان کی نظریں خود پر محسوس کر کے آنیہ نے موبائل بیگ میں ڈالا اور کمر پر ہاتھ رکھ کر ان سے دو دو ہاتھ کرنے کو کھڑی ہو گئ۔
محترمہ آپ نے سنا نہیں میں نے سینئر کہا۔۔اس ہینڈسم لڑکے نے اپنی بات دہرائ۔
پہلی بات تم وہی ہو نہ. . . . . وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی۔۔۔صائم قریشی جو گریجویشن میں چارسال فیل ہوا ہے اور یونی آ کر بھی ایک سمسٹر میں دو دو چکر لگا رہا ہے۔.
تو تمہیں بتا دوں مسٹر ریان قریشی ایم۔اے کی سٹوڈنٹ ہوں ریگنگ کرنے کی سوچنا بھی مت۔۔ورنہ میری مہربانی سے دو چار سال اور ایک ہی سمسٹر میں نکالنے پڑے گے۔۔۔۔وہ غصے سے لال ہوتے چہرے کے ساتھ کہتی اپنا بیگ اٹھاۓ آگے بڑھ گئ جبکہ صائم کا منہ ابھی تک کھلا ہوا تھا۔
اور ہاں..!! وہ جاتے جاتے پلٹی۔۔بچ کر رہنا مجھ سے بہت خطرناک ہوں میں۔۔۔وہ انگلی اٹھا کر وارن کرتی تیز تیز چلتی وہاں سے نکل گئ۔اور صائم قریشی خیران پریشان کہ وہ سب کو بےوقوف بناتا تھا اور یہ لڑکی اسے ہی ہری جھنڈی دکھا گئ۔۔۔
ہاہاہا. . . ویسےکیا بستی کی ہے لڑکی نے تیری مزا آ گیا۔۔۔اسکا دوست ہنستا چلا گیا۔۔۔
. . . بوتھا توڑ دوں گا چپ کر۔۔۔ایک دھموکہ اسے کی کمر میں رسید کرتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا. . . . . . . . .
____________________________
آج اتوار تھا اور اتوار کا دن سٹوڈنٹس کے لیئے آکسیجن سیلینڈر جیسا ہے یہ وہ دن ہے جب سب سٹوڈنٹس کھل کر سانس لیتے ہیں ۔جی بھر کر سوتے ہیں۔من مانیاں کرتے ہیں۔سٹوڈنٹس کا انڈیپینڈنٹ ڈے ہے سنڈے۔۔
یہی حال ہمدانی ہاؤس میں بھی تھا۔آج سنڈے تھا رخشندہ ہمدانی کچن میں گھسی ہوئ تھیں۔سہیل ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا احبار کی تازہ سرخیاں پڑھ رہا تھا۔آنیہ اور وانیہ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہیں تھیں۔
گیارہ بجے وہ دونوں اٹھی. . . . فریش ہو کر باہر آئ تو خیران رہ گئیں۔
باہر پکنک کا سارا سامان تیار رکھا تھا۔۔۔فقیراں بی کھانا پیک کر رہی تھیں۔۔۔بھیا فروٹس باسکٹ میں ڈال رہے تھے. . . . ماما ان دونوں کے لیئے ناشتہ بنا رہی تھیں. . . . .
واہ بھیا ہم گھومنے جا رہے ہیں. . . .آنیہ دوڑ کر سہیل کے گلے لگ گئ۔
جی میرا بیٹا آپ دونوں ناشتہ کر کے ریڈی ہو جاؤ پھر چلتے ہیں. سب فریش فریش ہو جائیں گے۔۔آنیہ کے سر پر بھوسہ دے کر سہیل فروٹ باسکٹ اٹھاتا باہر نکل گیا۔
اماں ناستہ دے دو ریڈی ہونا ہے پھر۔۔دونوں ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتی کچن کی طرف منہ کر کے زور سے بولیں۔۔
آۓ ہاۓ کیوں مجھ بوڑھی جان کی جان نکالنے پر تلی ہو۔پیک ہوا کھانا اٹھاۓ باہر جاتی فقیراں بی ان کے پاس سے گزریں تھیں۔۔وہ دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔۔
ان کے لیئے ناشتہ لاتی رخشندہ بھیگم نے بہت غور سے اپنی بیٹیوں کو دیکھا۔دل کو سکون ملا تھا۔وہ مسکرا اٹھیں۔
بہت دنوں بعد ہمدانی ہاؤس میں قہقہہ گونجا تھا کوئ دل سے مسکرایا تھا۔
آج ہمدانی ہاؤس کی رونق پھر سے شروع ہوئ تھی۔
____________________________
کدھر کی تیاریاں ہے لوگو. . . وہ ابھی ابھی جاگا تھا نائٹ سوٹ میں ہی ملبوس وہ سیڑھیاں پھلانگتا ہوا آیا. . .اپنی ماں اور بہن کو زور و شور سے تیاریوں میں مصروف دیکھ کر وہ چونکا۔۔
سی سائیڈ. . . کرشمہ خوشی سے بولی. . . .
اے لو جی کھدیا پہاڑ تے نکلیا چوہا. ن. . سی سائیڈ کا سنتے اس کی پھیلی مسکراہٹ سمٹ گئ تھی۔وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔
تم انسان کب بنو گے. . . . لاؤنج کے صوفے پر لیپ ٹاپ میں جھکا ریان اس کی طرف دیکھتے اونچی آواز میں بولا۔۔
اس جنم میں تو ممکن نہیں ہے مسٹر بھیا قریشی۔وہ آواز بدل کر ایکٹنگ کرنے لگا تھا۔
چلو باتیں کم کرو کبھی چپ رہا کرو۔۔مسٹر قریشی نے اس کی طرف دیکھا۔اور جاؤ تیار ہو جاؤ۔
ہر کوئ مجھے خاموش ہی کرواتا رہتا ہے۔۔صدمے خاموش کر دیتے ہیں. . . دعا کریں صدمہ ہی لگ جاۓ. . پھر خاموش ہو جاؤں گا ایسا کہ آپ لوگوں کی جان ہوا ہونے لگے گی. . . . وہ بتا رہا وہ جو سب کو اذیت دینے والا تھا. . .
اللہ نہ کرے جب بھی بولنا فالتو ہی بولنا. . مسزقریشی تو دہل کر رہ گئیں. . .
آپ پریشان نہ ہوں ماما جس انسان کو اس کا باربارفیل ہونا صدمہ نہیں پہنچا رہا اسے دنیا کی کوئ طاقت صدمہ نہیں پہنچا سکتی۔۔۔کرشمہ نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑا۔۔
ماما پہلی فرصت میں اس بلا کو تو رحصت کریں۔۔۔وہ جل بھن گیا تھا اسکی بات پر. . .
اورسنیں گے پاپا. . . . . منہ صائم کی طرف موڑے اونچی آواز میں باپ کو مخاطب کیا تھا۔یہ اشارہ تھا وہ صائم کا کوئ بانڈہ پھوڑنے والی ہے۔.
موصوف خود کو اتنا ذیادہ عقل مند سمجھتے ہیں کہ کل یونی میں ایم۔اے کی لڑکی کی ریگنگ کرنے کی کوشش کی۔۔۔وہ پلٹا اسے آنکھیں۔۔دکھائ مگر وہ چپ نہ ہوئ دل ہی دل میں عادل کو خوب کوسا جس نے فوراً سے بات پہنچا دی تھی. . . . . . . .
پھر. ۔۔لیپ ٹاپ پر چلتی ریان کی انگلیاں ٹھہری۔وہ اور مسٹرقریشی ایک ساتھ بولے۔
لڑکی بولی مجھ سے جونیئر ہو یہ ریگنگ کا چکر کہیں اور چلانا ورنہ بہت حطرناک ہوں میں یہ نہ ہو ہر بار کی طرح اس بار بھی ایک سمسٹر میں چار سال لگانے پڑ جائیں۔۔۔اس کے آنکھیں نکالنے کا بھی کرشمہ پر کوئ اثر نہ ہوا.ساری بات باپ اور بھائ کو بتا کر چڑانے والی مسکراہٹ صائم کی طرف اچھالی۔صائم نے خونخوار نظروں سے کرشمہ کو دیکھا۔ .
واہ دل خوش کر دیا لڑکی نے. . . مسٹرقریشی اور صائم مسکراۓ. . . . . . .
کرشمہ کی بچی تو ہوئ ضائع آج میرے ہاتھوں. . . وہ سیڑھیاں پھلانگتا کرشمہ کے پیچھے بھاگا جو پہلے ہی اس کے تیور جان کر رفو چکر ہو گئ تھی. . . . .
مسٹرقریشی صائم اور مسز قریشی ان کی نوک جھوک پرمسکرا اٹھے.
_______________________