رات کی تاریکی ایک عجیب سا تاثر پیش کرتی ہے مگر لاہور کی سڑکوں پر رات کے ایک بجے بھی زندگی رواں دواں تھی۔دوکانوں اور ہوٹلوں پر جلتی بجتی روشنیاں،آتی جاتی گاڑیوں کی آواز ماحول کو پررونق کر رہی تھیں۔
ہاں میں ٹھیک ہوں پھپھو ۔جو آپ کو پسند آئ تھی وہی ڈریس لی ہے آپ کے لیئے۔۔شاپنگ مال کے سامنے گاڑی کے ساتھ کھڑا وہ فون پر بات کرتے ہوۓ شاپنگ مال کے ساتھ بنے آئس کریم پارلر میں آتے رنگ برنگے لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔
جی جی سب صیح ہو گیا۔۔گاڑی کا دروازہ کھولتا وہ ایک ٹانگ اندر اور ایک ٹانگ باہر رکھ کر بیٹھ گیا۔تبھی کسی کی جانی پہچانی سی آواز اس کے کانوں نے سنی۔اس نے چونک کر اِدھر اُدھر دیکھا۔تبھی اس کی نظر آئس کریم پارلر کے سامنے غصے سے لال چہرہ لیئے اس لڑکی پر پڑی۔۔وہ پہچان گیا۔وہی یونیورسٹی والی لڑکی تھی جو الٹے سیدھے سوالات کر رہی تھی۔۔۔
اف بھیا پتہ نہیں کس تالاب کے مگرمچھوں سے دوستی ہے اس کی ہر بات پر مگرمچھ کے آنسو بہنے کو تیار ہوتے ہیں۔۔وہ سامنے کھڑی چھوٹی لڑکی کو ڈانٹ رہی تھی۔۔
میری شرٹ پر آئس کریم پھینک دی اففف۔۔وہ بہت غصے میں تھی بولتے ہوۓ اس کی چھوٹی سی ناک پھول جاتی تھی۔بڑی بڑی آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہو جاتیں تھیں۔رانیہ نے وائٹ قیمض کے ساتھ وائٹ پٹیالہ اور گلے میں سرح دوپٹہ مفلر کے سٹائل میں ڈال رکھا تھا۔شرٹ پر آئس کریم کا بڑا سا داغ پڑ گیا تھا۔جسے گلے میں پڑے دوپٹے کو پھیلا کر چھپانے کی کوشش کی گئ تھی۔۔ریحان پر بےخودی سی چھا گئ۔وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا۔
کیا ہوا ریخان۔وہ اتنا کھو گیا تھا کہ بھول گیا کہ پھپھو کال پر ہیں۔۔
کچھ نہیں پھپھو چلیں گھر پہنچ کر کال کرتا ہوں۔جلدی میں اس نے کال ڈسکنیکٹ کی اور نظروں کا زاویہ سامنے کھڑی اس پری پیکر کی طرف موڑا۔۔وہ ابھی تک غصے میں تھی البتہ غصے کی سرخی جو تھوڑی دیر پہلے چہرے پر پھیلی ہوئ تھی اب چہرے سے غائب ہو گئ تھی ۔
بھائ میں بتا رہی ہوں اب یہ دونوں لڑی تو میں نے کسی بند گاڑی کے آگے دھکا دے دینا ہے انہیں یا پھر سوکھے تالاب میں پھینک دینا ہے۔شرارت دونوں کرتی ہیں الزام ایک دوسرے کو دے کر بچ نکلتی ہیں۔۔۔
اس کی بات پر سہیل نے بےساحتہ قہقہہ لگایا۔۔ریحان کی بھی ہنسی چھوٹی تھی۔۔اس پل اس پیاری سی معصوم لڑکی پر بےانتہا پیار آیا تھا اور اپنے اندر اٹھتے ایموشن اسے ازخود حیران کر رہے تھے۔
بھیا اپیا کتنی حطرناک ہو گئ ہیں کہیں یہ کیچب کھا کر مرغی نہ بن جائیں۔۔آنیہ اور وانیہ کو پھر سے شرارت سوجھی دونوں بیک وقت بولیں تھیں۔مگر رانیہ کی خونخوار نظروں سے گھبرا کر سہیل کے پیچھے چھپ گئیں تھیں۔
رخشندہ بھیگم اور فقیراں بی ان کی نوک جھوک کے ساتھ مسکراتے ہوۓ آئس کریم انجواۓ کر رہی تھیں۔۔تھوڑے فاصلے پر گاڑی کا دروازہ کھول کر بیٹھا ریحان رانیہ کا غصے بھرا معصوم لہجہ انجواۓ کر رہا تھا۔
بھیا۔۔رانیہ تیزی سے سہیل کے پیچھے کھڑی وانیہ اور رانیہ کی طرف بڑھی۔سہیل نے رانیہ کے دونوں ہاتھ پکڑے تو آنیہ اور وانیہ تیزی سے سہیل کے پیچھے سے نکل کر بھاگ گئیں۔
ریحان گیا تھا اپنی پھپھو کا جوڑا لینے پورے ہوش و حواس میں مگر واپس بےخود سا آیا تھا۔جوڑا لینے کے راستے میں اسے اپنا آسمان کی وسعتوں میں بنا جوڑا ٹکرا گیا تھا۔
وہ پھپھو کو جوڑا تو لے آیا مگر دل وہیں آئس کریم پارلر میں غصے سے سرخ ہوتے چہرے والی پری پیکر کے پاس چھوڑ آیا تھا۔
____________________________
آنے والے دنوں میں رانیہ کی پروفیسر ریحان سے اچھی حاصی دوستی ہو گئ۔۔
ریحان ایک ویل مینرڈ اور اچھا انسان تھا۔اس کی شخصیت مسحور کن تھی۔جو اس سے بات کرتا دوسری دفعہ بھی کرنا چاہتا تھا۔بلاشبہ وہ ایک اچھا دوست تھا اسے دوستی اور محبت دونوں نبھانے آتے تھے۔
سہیل بھی متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکا تھا۔اس کی ریحان سے بہت اچھی دوستی ہو گئ تھی۔اتنی اچھی کہ اپنی پیاری سی بہن رانیہ کے لیئے اسے سہیل ہر لخاظ سے پرفیکٹ لگا تھا۔سہیل نے جانا کوئ اس کی بہن کو خوش رکھ سکتا ہے تو وہ ریحان کے علاوہ کوئ نہیں ہو سکتا۔
اور پھر ایک دن سب کی باہم رضامندی سے دونوں کی منگنی کر دی گئ۔رانیہ خوش تھی جبکہ ریحان کی خوشی کی تو کوئ انتہا نہ تھی خوشیوں کا کوئ پیمانہ ریحان کی خوشی کو اس وقت ماپ نہ پاتا۔
شادی رانیہ کا ایم۔اے حتم ہونے کے بعد طے کی گئ۔۔
مگر جہاں حوشیاں ہوتی ہے دکھ وہیں ڈیرہ ڈالتے ہیں جہاں زندگی رقص کرتی ہے وہاں موت جھومتی نظر آتی ہے۔۔۔
____________________________
کچن سے آتی خوشبو نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔۔وہ سیدھی کچن میں داخل ہوئ تھی۔۔
واہ ممی سواد ہے آپ کے ہاتھ میں ماننا پڑے گا۔پتیلے سے ڈھکن ہٹا کر کھانے کی خوشبو کہ اپنے اندر اتارتی وہ خوشی سے بولی۔
بیٹا آپ فریش ہو جاؤ تب تک آنی اور وانی بھی آتی ہوں گی سب مل کر لنچ کرتے ہیں۔۔
جی ممی میں فریش ہوتی ہوں پلیز جلدی سے کھانا لگا دیں بہت بھوک لگی ہے۔۔پیٹ پکڑ کر شرارت سے کہتی اپنا بیگ اٹھا کر وہ کچن سے نِکل آئ۔۔
روم میں داخل ہوتے ہی بیگ بیڈ پر پھینکتے ،دوپٹہ گلے سے کھینچ کر صوفے پر ڈالتے وہ واش روم میں فریش ہونے گھس گئ تھی۔۔
افف اتنی ٹھنڈ ہے ۔شاور کھولتے ہی وہ کپکپا گئ تھی۔گیزر نہیں لگایا آج ماما نے۔خود کلامی کرتی ہوئ وہ گیزر آن کرنے لگی۔۔تبھی مین سوئچ میں شارٹ سڑکٹ ہوا۔۔وہ پانی پر کھڑی تھی جیسے ہی اس نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ رکھا اسے جھٹکا لگا۔۔۔
بجلی اسے اپنی پکڑ میں لے چکی تھی۔۔اس نے چلانا چاہا مگر خلق سے آواز نہ نکلی۔۔
"اے انسان تم جان لو موت برخق ہے اور اس کی پکڑ بہت مظبوط،جب موت اپنے مظبوط پنجے گاڑتی ھے تو زندگی جینے کی ساری دعائیں رائیگاں چلی جاتی ہیں۔اے انسان موت آنی ہے ۔ہر شے فانی ہے،تم تیار رہو کسی بھی وقت کسی بھی پل جب تم پر خوشی غالب ہو اور تم جھوم رہے ہو جب شہنائ بج رہی ہو تب تب موت آتی ہے دکھ بارشوں کی صورت تم پر برستا ہے "
موت کو ایک سویا پنچھی سمجھو اور تم جان لو جب جب شہنائ کی آواز گونجتی ہے تو یہ سویا پنچھی جاگ جاتا ہے"
اس نے بہت ہاتھ پیر مارے مگر سب بےسود گیا۔۔موت نے اسے اپنی پکڑ میں لیا۔۔فرشتہ اجل اس کی روح سفید پروں میں لیئے آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔۔
اس کا جسم بےجان پڑا تھا فرش پر۔۔۔۔
آج احتتام ہوا۔۔
زندگی کا
اور زندگی کا احتتام تو لازم ہے
مگر یہ احتتام بہت حطرناک ہے۔۔
اور روحوں کی اصل جگہ
وہ وسیع آسمان ہے
جہاں سے بھیجا گیا تھا
وہیں لوٹ کر جانا ہے۔
______________________________________________
ہمدانی ہاؤس کے مکینوں پر آسمان آ گرا تھا۔۔وہ گھر جو ہنستا تھا اس کی درودیوار تک قہقے لگاتی تھیں وہاں اداسی رقص کر رہی تھی۔۔۔
رانیہ ہمدانی زندگی کا رنگ زندگی کی ترجمان مر چکی تھی۔۔
کوئ سہیل ہمدانی سے پوچھتا دکھ کیا ہوتا ہے۔۔؟کوئ اس ماں کا کلیجہ دیکھتا جو جوان اولاد کی ڈولی کا حواب سجاۓ تابوت سجا رہی تھی۔۔کوئ ان بہنوں کا درد سمجھتا جنہیں رانیہ کے بغیر حوف آتا تھا۔؟؟اور کوئ تو اس شحص کا دکھ جان پاتا جس کے گھر اس کی من پسند دو مہینے بعد دلہن بن کر اترنے والی تھی۔۔؟؟وہ اڑتیس سالہ میچوڑ شحص تابوت سے لگا پھوٹ پھوٹ کر رو دہا تھا۔۔۔
محبت کو پاگل پن کہنے والے آج پاگل پن دیکھ رہے تھے۔زندگی تب مشکل نہیں لگتی جب آپ تکلیف میں ہوتے ہو زندگی کی سانسیں آپ پر تب تنگ ہوتی ہیں جب دل کے مکین دنیا چھوڑ جاتے ہیں۔
سو فیصد میں سے دس فیصد لوگ محبت کرتے ہیں۔اور ان دس فیصد میں سے پانچ فیصد مستقل مزاج ہوتے ہیں جو جیتے ہیں تو سانسوں پر محبوب کے نام کی تسبیخ کرتے اور مرتے ہیں تو سانسیں محبت کو دان کر کے آنے والے پانچ فیصد لوگوں کی محبت کو سانس دے جاتے ہیں۔
ریحان مصطفی خان۔ایک مسحور کن شحصیت کا مالک ،محبت ہوتی ہے کی مجسم تصویر تھا۔وہ ایک بادشاہوں سا مرد تھا جو محبت کے بچھڑ جانے پر بھکاریوں سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکا تھا۔
ہر آنکھ اشک بار تھی اس جواں سالہ موت پر۔ریحان کا دکھ،سہیل کی اذیت،رخشندہ ہمدانی کا چھلنی چھلنی کلیجہ،أنیہ اور وانیہ کی چیخیں ہر ذی روح کو تڑپ تڑپ کر رونے پر مجبور کر رہی تھیں۔
آخر وہ وقت بھی آیا رانیہ کو لے جایا گیا۔۔وہ جسے سرح جوڑے میں بیجھنا تھا وہ سفید کفن میں رحصت ہوئ۔۔۔
مسزہمدانی ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئیں تھیں۔۔اور وانیہ اور آنیہ انہیں تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی وہ ماں کو سنبھالیں یا جاتی ہوئ بہن کو روکیں۔۔۔وہ روکنا چاہتی تھیں اپنی بہن کو اپنی زندگی کو مگر جانے والوں کو روکنا ناممکنات میں شامل تھا شامل رہا ہے۔۔
کون جانتا ہے دکھ ان ماؤں کے
جو جوان اولادوں کی
ڈولی کا خواب سجاۓ
تابوت سے لپٹ لپٹ کر
رو رہی ہوتی ہیں۔
اور کون جانتا ہے دکھ ان بھائیوں کے
جو بہنوں کو بچوں کی طرح
لاڈوں میں پال کر
زندگی بنا کر
سرخ جوڑے میں رخصتی
کے سپنے بُنتے ہیں
اور پھر کانپتے ہاتھوں سے
سفید کفن پہنانا پڑتا ہے
اور کون جانتا ہے دکھ ان بہنوں کے
جو بڑی بہنوں کو ماں
کا روپ جانتی ہیں،مانتی ہیں
جو بڑی بہن کے بازو پر
سر رکھ کر
خواب و خرگوش کے مزے لیتی ہیں
وہی بہن پھر منوں مِٹی تلے جا سوتی ہے
اور آخر کون جان سکتا ہے دکھ
اس ایک شخص کا
جو سو میں سے دس ہے
دس میں سے پانچ ھے
جو اپنے جوڑے کا انتظار کرتا ہے
پھر آسمانوں کے مالک سے مانگتا ہے
جو اپنی محبت کو اپنی دلہن
بنانا چاہتا ہے
اور پھر وہ سب چھوڑ کر
مٹی کے ڈھیر میں جا سوتی ہے
ارے۔۔!! کون۔۔؟؟؟
جانتا ہے دکھ ان سب لوگوں کا
جو مل کر بچھڑ جاتے ہیں۔
___________________