شوکت قریشی ایک کامیاب بزنس مین تھے۔وہ بزنس ورلڈ کے جانے مانے نام تھے۔ان کی فیملی ایک خوشحال فیملی تھی۔۔
شوکت قریشی کے دو بیٹے تھے صائم قریشی اور ریان قریشی جبکہ ایک بیٹی کرشمہ قریشی تھی۔۔ان کی بیوی گھریلو عورت تھیں۔
ریان قریشی ایک سنجیدہ اور بردبار لڑکا تھا۔۔اپنے باپ کے ساتھ مل کر اس نے سارا بزنس سنبھال لیا تھا۔۔۔
صائم ایک شریر اور زندگی کو کھل کر جینے والا لڑکا تھا۔۔ہر وقت دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا گیمز یہی زندگی تھی اس کی۔
____________________________
کامران ہمدانی ایک کامیاب وکیل تھے۔ ملک کے جانے مانے وکیلوں میں ان کا نام شامل ہوتا تھا۔۔۔
ایک کار ایکسیڈنٹ میں ان کی ڈیتھ ہو گئ تھی ۔۔۔
کامران ہمدانی کا ایک بیٹا سہیل ہمدانی تھا جو اپنے باپ کی طرح ہی ملک کا نامور وکیل تھا۔۔۔
تین بیٹیاں تھیں بڑی بیٹی رانیہ ہمدانی جو ایم۔اے اکنامکس کی سٹوڈنٹ تھی۔۔پھر وانیہ اور آنیہ تھی جن میں ایک ایک سال کا فرق تھا۔مگر لگتی جڑواں تھیں ۔ دونوں ایک ہی کلاس میں تھی۔۔کالج سٹوڈنٹس تھیں دونوں۔۔
ان کی ماں ہاؤس وائف تھیں۔۔
____________________________
یار آج کی پریزینٹیشن کی تیاری خوب ہے میری۔۔اس کے بعد پزا کھانے جائیں گے۔۔۔رانیہ مسکراتے ہوۓ کلاس کی طرف بڑھی۔۔
تمہیں پتہ ہے۔۔۔
کیا۔۔۔رانیہ اس کے سرگوشیانہ انداذ پر حیران ہوئ۔۔۔
ہمارے نیو پروفیسر آۓ ہیں۔۔دیکھا نہیں پر سنا ہے بہت سخت ہیں وہ۔۔۔۔۔
اچھا دیکھیں گے ابھی تو کلاس میں چلو۔۔۔رانیہ اپنی دوست کو تقریباً گھسیٹتی ہوئ کلاس کی طر بڑھی۔۔۔
وہ دونوں کلاس میں پہنچی پانچ منٹ باقی تھے ابھی کلاس کی طرف پروفیسر ابھی تک نہیں آۓ تھے۔۔۔۔
وہ دونوں اپنی سیٹس سنبھالتی ہوئ بیٹھ گئیں۔۔۔رانیہ نوٹ پیڈ پر جھکی equation سولو کرنے میں مصروف تھی کہ کلاس میں پروفیسر کے آنے کا شور اٹھا۔۔۔
سب کے ساتھ وہ بھی کھڑی ہو گئ مگر
باقی کے سٹوڈنٹس کی طرح اس کا بھی منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔وہ ایک پرکشش شخصیت والا انسان تھا دیکھنے میں کالج بواۓ لگتا تھا۔بلیک پینٹ کے اوپر وائٹ شرٹ پہنی تھی جس پر واضح خروف میں سرح اور سبز روشنائ سے خان لکھا ہوا تھا۔شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنے ،بالوں کو ڈیسنٹ سا سٹائل دیئے وہ شہزادوں کی آن بان رکھتا تھا۔
پروفیسر نے شاید ان کے تاثرات بانپ لیئے تھے اس لیئے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔سب بیٹھ گۓ۔۔۔۔۔
اس نے آرام سے گلا کھنکارا۔۔ہونٹوں پر سٹوڈنٹس کے ری۔ایشن پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
آہم آہم۔۔میں ریحان مصطفی خان۔۔آپ کا نیا پروفیسر۔۔میں آپ کو اکنامکس پڑھاؤں گا ۔پہلے اسلام آباد میں پڑھاتا تھا اب یہاں پوسٹنگ ہو گئ ہے۔۔۔اس نے سٹوڈنٹس کی طرف دیکھا جو ابھی بھی مطمئن نہ تھے۔۔۔اس نے ایک نظر سب پر ڈالی سب منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔ریخان نے بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی تھی۔
مگر سر آپ کی ایج تو اتنی نہیں ہے ۔۔کیا آپ پیدا ہوتے ہی سکول چلے گۓ تھے یا پیدا ہی سکول میں ہوۓ تھے۔۔۔معصومانہ انداذ میں رانیہ نے سوال کیا۔۔وہ ٹھٹھکا خیرانی سے اس معصوم سی لڑکی کو دیکھا۔پنک لانگ شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراؤزر پہنے گلے میں مفر کے سٹائل میں پنک دوپٹہ ڈالے بالوں مانگ نکال کر دونوں اطراف میں پھیلاۓ وہ معصوم پری لگ رہی تھی۔۔ریخان اپنی مسکراہٹ چھپا گیا۔۔
آپ کا نام۔۔۔پروفیسر ریحان نے اسےگہری نظروں سے دیکھا۔۔وہ معصومانہ سے انداذ میں سوال کرتی اسے بہت اچھی لگی تھی۔
سر ایم رانیہ ہمدانی۔۔وہ ایک دم کھڑی ہو گئ۔۔۔
بیٹھ جائیے مس رانیہ ہمدانی۔۔وہ اس کے انداذ پر دل ہی دل میں مسکرایا۔۔وہ منہ بناتی ہوئ بیٹھ گئ۔۔۔
تو آپ کو میری ایج کنفیوز کر رہی ہے ۔اس نے باری باری سب کی طرف دیکھا۔سٹوڈنٹس نے ایک ساتھ گردن ہاں میں ہِلائ۔میری عمر اڑتیس سال ہے۔۔
واؤ سر آپ کتنے فٹ ہیں پھر بھی۔۔ایک لڑکی امپریس ہوتے ہوۓ بولی۔۔۔۔۔
تو اب سب اپنا انٹروڈکشن کروائیے پھر کل سے کلاس سٹارٹ کریں گے۔۔۔۔۔پروفیسر ریحان ہولے سے بولا۔۔نرمی سے بولنا اس کی شحصیت تھی۔۔وہ بولتا تھا تو اگلا مجسم ہو جاتا تھا بلاشبہ وہ ساخر شخصیت کا مالک تھا۔
اس کے کہتے ہی سب سٹوڈنٹس باری باری کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروانے لگے۔وہ دلچسبی سے سب کو سن رہا تھا مگر اس کی دیھان ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر تعارف کروانے والے کو غور سے دیکھتی ہوئ وانیہ پر تھا۔
____________________________
یہ ہے معروف بزنس مین شوکت قریشی کا گھر۔جہاں اتوار منایا جا رہا تھا۔آج گھر کے سب مکین گھر پر تھے ۔ایسے میں مسز شوکت قریشی کو ایک ہی حیال آتا تھا اپنے ہینڈسم سے ریان قریشی کی شای کا۔۔
شادی کر لو بچے۔۔ریان کی اماں ہر اتوار کی طرح پھر شروع ہو چکی تھیں۔ہر اتوار ریان کے آگے شادی کر لو شادی کر لو کی تسبیخ پڑھنا ان کی شائد عادت ہو گئ تھی۔
ماما میری پیاری ماما۔۔جب مجھے لگے گا میں شادی کے لیئے پرفیکٹ ہوں کمفرٹیبل ہوں تو کر لوں گا۔۔۔وہ ہمیشہ کی طرح ٹال گیا تھا۔اور یہ تھا ریان قریشی کا معمول کا جملہ ۔جسے کبھی کبھی خذف کر کے کانوں کو لپیٹ دیتا کہ کچھ سنائ نہ دے۔اور سنتا تو ایک کان سے دوسرے سے نکال دیتا۔
ماما بھائ نے نہیں کرنی میری کرا دو مجھے کوئ اعتراض نہیں۔۔صائم کچن ٹیبل سے سیب اٹھا کر چھلانگ مار کر صوفے پر ماں کے برابر آ بیٹھا۔
چپ کر شرارتی۔۔۔اس کی ماما نے ہولے سے اس کے سر پر چپت لگائ۔۔۔۔۔
ماما یہ جو آپ کا صائم عرف لاڈلا عرف شرارتی ہے ناں اس نے زندگی کو کبھی سیرئیس نہیں لینا ہر بات مذاق ہے ۔۔تین سال سے گریجوئیشن میں پڑا ہوا ہے اس کے ساتھ کے ایم۔اے بھی کر گۓ۔۔۔ریان نے طنز کیا تو صائم کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئ۔۔۔۔۔۔
اف سارا موڈ عارت کر دیا چلتا ہوں۔۔۔دو تین سیب اور کیلے ہاتھوں میں اٹھاۓ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔۔
مگر آپ کی غلط فہمی دور کردوں مسٹر بھیا قریشی۔۔اس نے ایسے منہ بنایا کہ صائم اور مسزقریشی مسکرا اٹھے۔۔باہر سے آتے مسٹر قریشی کی بےساحتہ ہنسی نکل گئ۔۔ہاتھ میں پکڑی انرجی ڈرنک سینٹرل ٹیبل پر رکھتے وہ مسز قریشی کے برابر میں براجمان ہو گۓ۔
کہ میرا کوئ قصور نہیں سارا قصور کالج والوں کا ہے وہ مجھے پاس ہی نہیں کر رہے دراصل وہ چاہتے ہیں کہ یہ ہینڈسم لڑکا کبھی بھی ان کا کالج چھوڑ کر نہ جاۓ۔کیونکہ پھر کالج میں لڑکیاں ایڈمشن نہیں لیں گی اور کالج کا نقصان ہو جاۓ گا۔۔ریان کی جگہ کچن سے نکلتی کرشمہ نے اس کا جملہ اچک کر باقی کا مکمل کیا۔۔
کرشمہ کی بچی نقل کرتی ہو بھائ کی۔صائم نے مصنوعی غصے والی شکل بنائ۔
نقل نہیں بھیا تین سالوں میں اتنی بار دہرا چکے ہو یہ بات کے میرے میاں مٹھو کو بھی یاد ہو گئ ہے۔۔کیوں مٹھو۔۔صائم کے شانے پر بیٹھے مٹھو کی طرف کرشمہ نے اشارہ کیا۔۔تو وہ ہاں میری کرشمہ ہاں میری کرشمہ کی رٹ لگاتا اس کے کندھے پر آ بیٹھا۔۔
میں بتا رہا ہوں بابا سڑک سے لاۓ ہو آپ مجھے تب ہی آپ کی یہ دونوں اولادیں مجھے اتنی باتیں سناتی ہیں۔۔وہ کہتا ہوا وہیں سیڑھیوں پر بیٹھ کر رونی صورت بنانے لگا۔۔قریب تھا کہ دو تین مصنوعی آنسو نِکل ہی آتے۔
ایک دم ٹھیک کہہ رہے ہو میں بزنس کا ماسٹر مائینڈ کرشمہ گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر اور تم چھی چھی۔۔بہت افسوس ہوتا ہے۔۔۔ریان نے اسے مزید چرایا۔۔
بابا میں بتا رہا ہوں آپ کو پنکھے پر رسی ڈال کر۔۔۔
خودکشی کر لو گے۔۔۔کرشمہ نے پھر سے اس کا جملہ پکڑا۔
پنکھے پر رسی ڈال کر سارے گھر کے پنکھے ایک ایک کر کے اتار کر کباریئے کو بیچ دوں گا۔پھر سڑتے رہنا گرمی میں پہلے تو صرف مجھ سے جل رہے ہو جل ککڑو۔۔اس کی بات پر سب کا جاندار قہقہہ بلند ہوا۔
اس نے منہ بنا کر سب کو یوں ہنستے دیکھا پھر سر کجھاتا ہوا چھلانگ لگا کر مسٹرقریشی کے قدموں میں بیٹھ کر ان کے ساتھ ہی ہنسنے لگا۔زندگی قریشی ولا میں دوڑتی تھی۔
____________________________
بھیا۔۔آپ کو پتہ ہے ہمارے نۓ پروفیسر آۓ ہیں اتنے ینگ ہیں اتنی ذیشنگ پرسنالٹی ہے انیس بیس کے لگتے ہیں۔۔۔
کیا اپیا پاگل ہو انیس بیس کے پروفیسر کیسے لگ گۓ۔۔۔آنیہ نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔۔
ارے بات تو پوری سنو چھٹکی۔۔۔
عمر ان کی اڑتیس ہے بھیا پر لگتے نہیں ہیں۔۔۔
تو بیٹاجانی آج کل ہر بندہ خود کو فِٹ رکھتا ہے اور اڑتیس کوئ اتنی ذیادہ ایج بھی نہیں ہے اتنی حیران کیوں ہو رہی ہو۔۔۔بھیا فائلوں پر جھکے کسی کیس پر کام کر رہے تھے۔۔۔
اچھا نہ بھیا اپیا بور کر رہی ہیں آئسکریم کھانے چلتے ہیں۔۔۔آنیہ اور وانیہ بھیا کا بازو پکڑ کر بیٹھ گئیں۔۔۔
میں تو لے چلوں میری اینگری برڈذ مگر اتھارٹی کی پرمیشن کون لے گا۔۔سہیل نے کن اکھیوں سے کچن میں کام کرتی ماں کو دیکھا۔۔۔
چھپ کر جاتے ہیں بھیا ایڈونچر ہو جاۓ گا مزہ آۓ گا۔۔یہ پلان وانیہ کا تھا جس پر تینوں نے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا۔۔
ہاں بھیا موصوفہ کی عقل شریف چیک کریں چھپ کر چلتے ہیں۔۔واہ چلے بھی جائیں واپسی پر نصرت فتخ علی خان کی روح جو گھسی ہو گی مسزہمدانی میں تو قوالی کون سنے گا۔۔۔آنیہ نے چباچبا کر کہا ساتھ وہ وانیہ کو ایسے دیکھ رہی تھی کہ ابھی سالم نگل جاۓ گی۔۔۔
لاحول ولا قوۃ ماں کو نصرت فتح علی حان کہہ رہی ہو۔۔۔بھیا نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔
ویسے صیح کہہ رہی ہو۔۔۔بھیا مسکراۓ پھر سب کا جاندار قہقہہ لاؤنج میں گونجا۔۔۔
لطیفہ مجھے بھی سنا دو۔۔۔سلاد کی پلیٹ کچن ٹیبل پر رکھتیں مسز قریشی ان کی ہنسی سن کر باہر آ گئیں۔
ماما آئسکریم کھانے چلیں ہم۔۔رانیہ نے معصوم شکل بنائ۔۔ہاۓ مر نہ جاۓ کوئ اس معصومیت پر۔آنیہ نے دل ہی دل میں اپنی بہن کی معصومیت بھری ایکٹنگ کو داد دی۔
کیا آئسکریم کھانے اس وقت۔۔ماما اونچا بولیں تو سب چپ ہو گۓ۔۔
قفیراں بی۔۔!؛سنا آئسکریم کھانے جانا ہے۔۔وہ منہ کچن کی طرف کر کے بولیں جہاں فقیراں بی پلاؤ کو دم دے رہی تھیں۔۔۔
جی رحشندہ بٹیا سنا پھر۔۔فقیراں بی نے کچن سے سر نکال کر پوچھا۔۔
پھر چلتے ہیں سب۔۔برنر بند کر کے آ جائیے چلو کریو۔۔۔ماما نے کہا تو سب کے بے جان پڑتے چہروں پر ہنسی دوڑ گئ۔
تھوڑی دیر میں پھر سہیل ،رانیہ،آنیہ،وانیہ،ماما،فقیراں بی سب آئسکریم کھانے نکل گۓ۔۔۔
_____________________