دہلی کے بادشاہوں میں تو تاریخی طومار نے کسی کو متعصب اور کسی کو منصف مزاج ہونے کا افتخار دے دیا حالانکہ عموماً بادشاہ متعصب نہیں ہوتے، اُن کو رعایا کی آبادی اور ملک کی آمدنی سے مطلب ہوتا ہے۔ عملہ کو کسی ملکی ضرورت سے بڑھادینے اور گھٹادینے پر متعصب اور غیر متعصب کا لقب دے دینا بڑی تنگ خیالی ہے۔
اسی طرح ہمارے اودھ کے تمام بادشاہ ہمیشہ سے غیر متعصب اور صلح کل واقع ہوئے تھے۔ اُن کی فیاضیاں عام تھیں، اُن کے سلوک ہر قوم کے ساتھ یکساں رہے۔ وہ سب قریب قریب دوسری قوموں کے حق میں اکبر سے کچھ کم نہ تھے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ان کے تاریخی واقعات پر ایسا گہرا پردہ پڑا ہوا ہے جس سے ان کی خوبیوں کا دریافت کرنا مشکل ہے۔
تمثیلاً اس وقت ہم راجا درشن سنگھ معروف بہ راجا غالب جنگ کے حالات پیش کرتے ہیں:
راجا غالب جنگ حیدرآباد کے رہنے والے ایک معمولی حیثیت کے آدمی تھے۔ عہد نواب یمین الدولہ سعادت علی خاں مبارز جنگ میں گردش روزگار سے تباہ اور برباد ہوکر لکھنؤ میں وارد ہوئے۔ ایک روز صبح کو ہندوؤں کی رسم کے مطابق گومتی پر اشنان کرنے گئے، بعد غسل کے رمنہ کی سیر کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ بادشاہ کی سواری برآمد ہوئی۔ غربت اور بے کسی کے آثار اُن کے چہرہ سے روشن تھے۔ حضور نے اپنے ایک خواص سے اشارہ کیا کہ اس مسافر کو اپنے ہمراہ لیتے آؤ۔ در دولت پر ان کا سلام ہوا۔ حضور نے دریافت فرمایا کہ تم ملازمت کی غرض سے لکھنؤ آئے ہو یا سیاحت کے لیے۔ عرض کیا بتلاش روزگار۔ سرکار نے جیب خاص سے تیس روپیہ مہینہ بغیر شرط خدمت کے مقرر فرمایا۔ بندوق کی نشانہ اندازی سیکھنے کے واسطے ایک قدر انداز مقرر ہوا۔ جب اچھے نشانہ لگا دینے والوں میں ان کا شمار ہونے لگا تو بادشاہ نے از راہ پرورش دو سو تیس روپیہ ماہوار مقرر فرمادیا اور کچھ خدمتیں تفویض فرمادیں، غرض اسی طرح بتدریج ترقی ہوتی رہی۔
اس مدت میں بادشاہ کا انتقال ہوگیا اور ١٨١٤ء میں مرشد زادۂ آفاق نواب غازی الدین حیدر خاں بہادر مسند نشین ہوئے۔ نواب معتمد الدولہ مختار الملک سید محمد خاں بہادر ضیغم جنگ عرف آغا میر وزیر ہوئے، یہ بھی مقربان خاص میں ہوگئے اور ہر وقت بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملنے لگا۔ ایک روز باشاہ اور وزیر میں خلوت کی باتیں ہورہی تھیں، لاعلمی سے یہ بھی چلے گئے اور خلوت دیکھتے ہی فوراً الٹے پاؤں واپس چلے۔ لوٹتے وقت حضور کی نگاہ پڑگئی، جلدی میں نام تو یاد نہ رہا، فرمایا راجا کیوں چلے گئے؟ ان کو خوف معلوم ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ کلمہ باشاہ نے طنز سے کہا ہو لیکن دہشت کھاتے ہوئے نہایت ادب سے ہاتھ باندھے ہوئے خدمت میں حاضر ہوئے۔ ارشاد ہوا جاؤ تم کو ہم نے راجا کردیا۔ انہوں نے نذر پیش کی اور دست بستہ عرض کیا کہ حضور ہم تین دوست آوارہ وطن ہوکر لکھنؤ میں وارد ہوئے تھے۔ مروّت سے بعید ہے کہ ایسے وقت میں ان کو بھول جاؤں۔ بختاور سنگھ اور شیودین سنگھ کی بھی عزت افزائی فرمائی جاوے۔ آخر بادشاہ نے ان کی خاطر سے اُن کو بھی خطاب راجا کا مرحمت فرمایا اور جاگیر عطا فرمائی۔ اس عرصہ میں وزیر اعظم سے ان سے ان بن ہوگئی اور بہت سی افترا بندیوں کے بعد یہ قید کرکے فیض آباد کے جیل خانہ میں بھیج دیے گئے۔
اس عرصہ میں بادشاہ نے انتقال کیا اور ابو النصر قطب الدین سلیمان جاہ حضرت نصیر الدین حیدر تخت نشین ہوئے۔ نواب منتظم الدولہ حکیم مہدی علی خاں وزیر ہوئے تو ظفر الدولہ منتظم الملک کپتان فتح علی خاں بہادر ہیبت جنگ نے محض خدا ترسی اور غم خواری سے ان کی سفارش کی۔ خالص ہمدردی کا اثر یہ ہوا کہ بادشاہ نے ان کو قید سے چھڑا کر دیوان خانہ کا میر منشی کردیا۔ تھوڑے دنوں میں انہوں نے ایسا تقرب حاصل کرلیا کہ ایک دَم کو باشاہ نظر سے غائب نہ ہونے دیتے تھے، اب اعزاز واکرام روز بروز زیادہ ہونے لگا اور ترقی پر ترقی ہونے لگی۔
ایک عمارت کے بنوانے پر یہ مقرر ہوئے اور سرکاری تخمینہ سے دو لاکھ روپیہ بچاکر شاہی خزانہ میں داخل کیا۔ بادشاہ کو معلوم ہوا تو خفا ہوکر ارشاد کیا کہ یہ بات ہمارے خلاف ہے۔ اپنا روپیہ فوراً خزانہ سے لے جاؤ، ہم ہرگز نہیں لے سکتے، وہ تم اپنے گھر لے جاؤ۔ راجا نے عرض کی کہ حضور میں مسکین سوائے در دولت کے گھر نہیں رکھتا، مگر حکم عالی بجا لاؤں گا۔ ایسی ایسی کارگزاریوں سے غالب جنگ کا خطاب ملا اور سرکار سے کرسی عنایت ہوئی۔ آخر ان کے زیادہ رسوخ نے انہیں محسودِ خلایق بنادیا اور دربار والوں نے سازش کرکے بادشاہ کا مزاج ان کی طرف سے منغص کردیا اور یہ قید ہوکر شاہ گڑھ میں بھیج دیے گئے۔
جب نصیر الدین حیدر بادشاہ کا انتقال ہوگیا تو ابو الفتح معین الدین سلطان الزماں محمد علی شاہ تخت نشین ہوئے۔ اُن کو عمارت کا بہت شوق تھا اور تعمیر کی واقف کاری کی شہرت غالب جنگ کی گوش زد ہوچکی تھی۔ سرکار نے حکم رہائی نافذ فرمایا لیکن اہل دربار نے اس جملہ کو ٹال دیا۔ آخر قسمت کی مددگاری سے حضور میں پیش ہوئے۔ پیشتر سے بھی زیادہ عزت ہوئی۔ کلید برداروں کی نظامت اور مفسدوں کی سرکوبی کی خدمت عطا ہوئی اور اطراف اودھ کا انتظام سپرد ہوا۔ دو پلٹنیں، ایک ذوالفقار صفدری، دوسری حسام حیدری حوالہ ہوئیں۔ پانچ سو سوار ہندی اور انگریزی کی افسری،١٢ توپیں ہمراہی میں جاتی تھیں۔ بلرام پور اور نان پارہ کی سرکشی اس وقت قابل درگزر نہ تھی، حالانکہ یہ گھاٹیاں بہت سخت تھیں۔ راہ میں شیروں کے جنگل ایسے حائل تھے کہ پرندہ کا گزر وہاں دشوار تھا، انہوں نے چشم زدن میں محاصرہ کرلیا اور جموگ لگادیا۔ ان فتح مندیوں کے صلہ میں چودہ پارچہ کا خلعت عطا ہوا۔
آخر ستّر برس کی عمر میں حضرت ظل سبحانی نے شب سہ شنبہ ١٨٤٤ء کو طرف فردوس بریں کے نہضت فرمائی۔ سنہری برج میں غسل دیا گیا، حسین آباد کے امام باڑہ میں صدر بارہ دری میں مدفون ہوئے۔ بعد ازاں ثریا جاہ محمد امجد علی شاہ نے جلوس فرمایا تو غالب جنگ کو وہی اعزاز حاصل تھا۔ پرچہ لگا کہ قلعہ چھترپت کی رانی جو علاقہ ہڑہا کے نام سے مشہور تھا ڈاکہ زنی کرنے لگی، مسافروں کو لوٹ لیتی تھی۔ رعیت ستمگاری سے نالاں تھی، صفدر گنج سے دس میل تک راستہ بند ہوگیا تھا۔ قصبہ کتہور کے سادات سخت نالاں ہیں۔ بادشاہ نے پانچ پلٹنیں، تیس توپیں، پانچ سو سوار راجا کے جلو میں کیے اور اس کی سرکوبی کے واسطے روانہ کیا۔ اُس نے یہ خبر سن کر قصد کیا کہ صفدر گنج میں مقابلہ کرے، لیکن فوج شاہی نے اتنی مہلت نہ دی اور قلعہ کو گھیر لیا۔ کئی روز تک بڑی خوں ریز جنگ رہی۔ آخر اُس کے اعوان وانصار سب بھاگ کھڑے ہوئے، محض رانی قلعہ میں رہ گئی اور دو چار نمک حلال ملازم باقی رہ گئے۔ تب رانی نے فوجیوں کا دل بڑھانے کو کہا: “ہاں! ایک حملہ زبردست کرو اب دشمن کو مار لیا ہے۔” فوج کے سپاہی تو بندوقیں چلانے میں مصروف ہوئے، وہ آپ نابدان کے راستہ سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ جب فوج نے یہ حال دیکھا، اُس نے بھی پُشت قلعہ سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔ جب قلعہ خالی ہوگیا تو فوج شاہی قلعہ میں گئی اور فتح وفیروزی کے ساتھ بہت سا اسباب جنگ اور مال وخزانہ بیت المال شاہی میں داخل ہوا۔ راجا کو خلعت ہوا۔
ظل سبحانی دموی مزاج تھے اور ابتدا سے مرض آتشک میں مبتلا تھے۔ حکیم مرزا محمد علی مرتعش ہر ہفتہ میں تنقیہ خاص وعام کرتے تھے، بلکہ بادشاہ سے اکثر کہتے تھے کہ اگر کوئی طبیب اخراج خون میں تامل کرے گا ہرگز مزاج قابل اصلاح نہ رہے گا۔ جب حکیم مرزا محمد علی بقضائے طبع فوت ہوئے، حکیم مسیح الدولہ نے احتیاج فصد میں تامل کیا۔ اس لیے کثرت خون فاسد سے تحریک عارضۂ مزمنہ ہوکر عارضۂ سرطان پیدا ہوا، حتی کہ متواتر فصدوں کے لینے سے بادشاہ کا حال غیر ہوگیا اور سرطان باطن کی طرف رجوع ہوا۔ آخر دوشنبہ کے دن ١٨٤٧ء کو انتقال فرمایا، مینڈو خاں کی چھاؤنی میں دفن ہوئے۔
اُن کے بعد حضرت سلطان عالم واجد علی شاہ تخت نشین ہوئے۔ ان کے عہد میں غالب جنگ کی عزت روز افزوں ہوتی گئی۔ جب نواب گورنر جنرل بہادر کی تشریف آوری کی خبر رزیڈنٹ بہادر نے دی تو بادشاہ نے کانپور تک استقبال کا ارادہ کیا۔ غالب جنگ کو حکم ہوا کہ راستہ کا انتظام بہت عمدہ اور ستھرا ہونا چاہیے اور کانپور میں گنگا کے کنارے خیمہ شاہی باشان وشوکت نصب ہو۔ اس کے سامنے ایک باغ نہایت لطیف ہو، جس میں ہر قسم کے پھولوں کے درخت، میوہ دار شجر اور چاروں طرف سبزہ لگایا جائے۔ سبزہ کے چاروں طرف پانی کی نالیاں ہوں۔ تمام ماکول ومشروب لایق صاحبان عالیشان کے اور لشکر کے واسطے سامان رسد موجود رہے۔
حسب فرمان شاہی راجا فوراً کانپور تشریف لے گئے اور دریا کے کنارے چمن بندی ہونے لگی، ریحان وسنبل کے انبار لگا دیے گئے۔ نہروں کے کنارے کنارے سبزہ خودرو کیا لہلہاتا تھا، گویا معشوقوں کے رخسار پر سبزہ خط نمایاں تھا۔ باغ کی تیاری کے بعد خیمہ میں چاروں طرف موقع مناسب پر قد آدم تصویریں لگائی گئیں۔ تمام فرنیچر انگریزی ساز وسامان سے سجایا گیا۔ تمام بازار آراستہ کیے گئے۔ لکھنؤ سے اس قدر سامان رسد گیا کہ اس ہنگامہ میں روپیہ کا تین سیر گھی، ایک من کا چنا، تین پیسے سیر آٹا بکنے لگا۔ اس بازار کا نام اردو بازار رکھا گیا۔ ایک طرف خوانچہ والوں کا غل، حلوائی، نان بائی، ترکاری فروش، تنبولی، بزاز، غرض کہ ضرورت کی ہر شے مہیا تھی۔ بارگاہ سلطانی میں عمدہ رونق تھی، غرض کانپور بالکل لکھنؤ بن گیا تھا۔ جب سب سامان درست ہوگیا تو بادشاہ کو اطلاع دی گئی۔ بادشاہ بنفس نفیس لکھنؤ سے تشریف لائے۔ خیمہ میں فروکش ہوئے۔ غالب جنگ کا انتظام اور سب سامان دیکھ کر بادشاہ سلامت بہت خوش ہوئے۔ گورنر جنرل بہادر سے بڑے لطف کی ملاقات ہوئی۔ صاحب بہادر کے ہمراہ راجا بھی لکھنؤ آئے۔ راستہ میں رسد کا انتظام اور سامان بھی بہت معقول تھا۔
آخر بمقتضائے كُلُّ نَفسٍ ذَائِقَةُ المَوت راجا کا پیام اجل آگیا۔ ایک چھوٹا سا دانہ ماتھے پر نکلا جس میں بہت سوزش رہی، تیسرے دن منہ دھونے میں وہ دانہ پھوٹ گیا، اُس سے جو مواد نکلا وہ زرد زرد پانی تھا، جہاں جہاں وہ پانی لگ گیا دانے نکل آئے، تمام چہرہ مُشبّک ہوگیا۔ جرّاحوں نے بہت کچھ علاج کیا، کچھ سود مند نہ ہوا:
از قضا سرکنگبین صفرا فزود
روغن بادام خشکی می نمود
آخر انتقال کیا۔ کروڑوں روپیہ چھوڑ گئے۔
ناظرین ملاحظہ کریں کہ ایک غریب الوطن مسافر کے ساتھ جو نہ شہر کا باشندہ، نہ ہم قوم تھا، نہ کوئی وسیلہ اور سفارش رکھتا تھا، یہ شاہی فیاضیاں تھیں۔ اسی طرح شاہی دربار میں غیر قوموں کے ہزاروں لوگ پرورش پاتے اور بادشاہ ہر مذہب کے لوگوں کے ساتھ یکساں سلوک کرتے تھے۔ چنانچہ راجا ٹکیت رائے، مہاراجا میوہ رام، راجا بختاور سنگھ، مشیر الدولہ مہاراجا بال کرشن جسارت جنگ، راجا کندن لعل، راجا امرت لال، عرض بیگی راجا بینی بہادر وغیرہ سب شاہی فیاضیوں کے نمونے تھے۔ اسی طرح شاہان اودھ کی اولوالعزمیاں روز روشن کی طرح منور ہیں۔
شاہان اودھ اگر مذہبی تعصب رکھتے ہوتے تو رعیت تباہ اور برباد ہوجاتی۔ حالانکہ واجد علی شاہ آخری شاہ اودھ کے عہد میں سولہ لاکھ کی آبادی خاص لکھنؤ کی تھی۔ اصل یہ ہے کہ بادشاہوں کے مزاج میں عموماً تعصب نہیں ہوتا۔ غلطی سے لوگ محض کسی تہدید پر اپنی طبیعت کے موافق اُن پر تعصب کا الزام لگا دیتے ہیں۔ ورنہ غور سے دیکھا جائے تو نہ عالمگیر متعصب تھا، نہ اکبر دہریہ۔ اپنے اپنے عہد کی پالیسی تھی۔ دونوں پر تعصب اور دہریت کے الزام محض بے بنیاد ہیں۔ بادشاہوں کی نیت کا حال رعیت کی سر سبزی سے معلوم ہوتا ہے۔ اگلی سرسبزیاں دیکھنے کے بعد ہرگز یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تعصب اور نامنصفی کے وجود کے ساتھ یہ سلاطین اتنے بڑے حصہ ملک پر اس اطمینان سے حکمرانی کرتے تھے۔