شاہی محل کی عالیشان عمارت کے وسط میں صدر مقام پر ایک نفیس بارہ دری بنی ہوئی اور شیشہ آلات سے سجی ہوئی ہے۔ نفیس نفیس جھاڑ، نازک نازک دیوار گیریاں، قلمی تصویریں، خوشخط قطعے لگے ہیں۔ کمروں میں تمام کا فرش بچھا ہے۔ سنہری، روپہلی چلمنیں، زربفت کے پردے پڑے ہیں۔ بارہ دری کے سامنے پُرفضا چمن لگا ہے۔ سنگ مرمر کی نہریں جن میں فوارے چھوٹ رہے ہیں۔ شہ نشین میں صدر مقام پر کارچوبی گاؤ تکیے لگائے ہوئے حضرت شاہ نصیر الدین حیدر بادشاہ غازی جلوہ افروز ہیں۔ اُن کے پہلو میں بڑے تُزک و احتشام سے نواب ملکہ زمانیہ بیٹھی ہیں۔ گردا گرد خواصیں ماہتاب کے ہالے کی طرح، اردلی کی خواص چنور اور مورچھل جھل رہی ہے۔ ڈومنیاں مع سازندہ عورتوں کے بھاؤ بتا بتاکر سریلے سُروں میں گارہی ہیں۔ کوئی چیخ کر بات نہیں کرسکتا۔ نظر سے نظر ملانے کا حکم نہیں ہے۔ کسی کو کھنکارنے کا حکم نہیں ہے۔ جو شخص جو کچھ کہتا ہے، آتو جی سر جھکاکر با ادب عرض کرتی ہیں۔ اتنے میں داروغہ ڈیوڑھی نے خبر بھجوائی “کوئی بی حسینی خانم ہیں، جن کو آتو جی نے محل کی ملازمت کے لیے طلب فرمایا تھا، وہ ڈولی میں آئی ہیں۔ کیا حکم ہوتا ہے؟ ڈولی اتروائی جائے یا نہیں؟” آتو جی نے کہا “ہاں ہاں مجھ سے بیگم صاحبہ نے فرمایا تھا ایک چٹھی نویسنی کے لیے؛ آنے دو”۔
باہر سے ایک خواجہ سرا ہمراہ آیا۔ بی حسینی خانم کی سِٹّی بھول گئی، یا الٰہی کس طرف جاؤں۔ چاروں طرف اچھی پوشاک والی بیبیاں بڑے ٹھسّے سے بیٹھی ہیں۔ پہلے تو انّا کو دیکھ کر سمجھیں شاید یہی بادشاہ بیگم ہیں۔ جھک کر سلام کیا، خواجہ سرا نے کہا آگے چلو۔ اب یہ قدم قدم پر فرشی سلام کرتی ہیں۔ اتنے میں دور سے آتو جی آتے ہوئے دکھائی دیں، اِن کی جان میں جان آئی۔ انہوں نے کہا چلو ہم تو تمہارا راستہ دیکھ رہے تھے۔ بیگم صاحبہ سے تمہارا ذکر کرچکے ہیں۔ غرض سارے محل کے صدقے ہوتی ہوئیں بارہ دری کے زینہ سے تہہ خانہ کے اندر اتریں۔ محلدار ساتھ ساتھ ہوئی۔ محلدار نے کہا سامنے بادشاہ اور بیگم بیٹھے ہیں، ذرا ادب قاعدے سے، پھر آگے بڑھ کر عرض کیا: سرکار عالیہ کے فرمان سے بی حسینی خانم حاضر ہیں، نگہ رو برو! حسینی خانم نے نہایت ادب قاعدے سے سلام کیا اور بادشاہ کی خدمت میں اپنا لکھا ہوا خوشخط قطعہ نذر میں پیش کیا اور بیگم صاحبہ کو پانچ اشرفیاں نذر میں دکھائیں۔ بیگم صاحبہ کے اشارے سے قطعہ اور اشرفیاں آتوجی نے قبول کرلیں۔ بیگم صاحبہ نے بیٹھنے کا حکم دیا اور سرفرازی کا خلعت منگوایا۔ لونڈیاں دوڑتی ہوئی بھاری خلعت کی کشتیاں لے کر حاضر ہوئیں۔ ایک دوشالہ بھاری، ایک رومال سنہری جالدار، ایک تھان کمخواب، ایک تھان سرخ اطلس کا، ڈھاکے کی جامدانی، بنارسی دو ڈوپٹے، مشروع کے دو تھان اور سونے کے کڑے مرحمت ہوئے۔ بادشاہ نے ایک ہزار روپیہ کا توڑا منگوا کر انعام دیا اور پچاس روپیہ ماہوار پر چٹھی نویسوں میں اسم ہوگیا۔
دو گھنٹے یہاں دل بہلا کر بادشاہ سلامت نے بوچہ طلب فرمایا۔ کہاریاں سواری لے کر حاضر ہوئیں، حضور سوار ہوئے۔ ڈیوڑھی کے باہر کہاروں نے کندھا دیا، حضور دربار میں تشریف لائے۔ دربار کی کوٹھی رمنہ میں “فرح بخش” کے نام سے مشہور تھی، تخت شاہی یہیں رہتا تھا۔ جب سواری مع ماہی مراتب اور جلوس کے کوٹھی تک پہنچی، سارے عملے نے سر وقد ہوکر سلامی دی۔ معتمد الدولہ آغا میر وزیر، ظفر الدولہ کپتان فتح علی خاں بہادر، اقبال الدولہ، مکرّم الدولہ، مَجد الدولہ، میر محمد سر رشتہ دارِ عدالت، نواب روشن الدولہ، افتخار الدولہ، مہاراجا میوہ رام، راجا امرت لال عرض بیگی، مرزا کیوان جاہ نے باری باری سے مُجرا کیا اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ بادشاہ نے تخت شاہی پر جلوس فرمایا۔ خُدّام داہنے بائیں چنور لیے کھڑے ہیں۔ پشت پر ایک خواص چھڑ لگائے ہوئے ہے۔ درباری لوگ بہت ادب قاعدے سے بیٹھے ہوئے، نگاہیں نیچی کیے ہوئے، خاموشی کا عالم۔
پہلے معتمد الدولہ آغا میر نے ضروری کاغذات پیش کیے اور اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ حضور نے بعد ملاحظہ دریافت طلب باتیں پوچھ کر دستخط فرمائے۔ پھر مقدمات عدالت پیش ہوئے۔ روبکاری سماعت فرماکر احکام جاری کیے۔ اتنے میں مِردھے نے عرض کیا “شاہ عالم عالمیان نگاہ روبرو نواب عاشق علی حاضر ہو”۔ آپ نے اشارہ فرمایا۔ داروغہ ڈیوڑھی نے کہا آنے دو، بادشاہ نے طلب فرمایا ہے۔ چوبدار نے آواز دی: نواب عاشق علی حاضر ہے، نگاہ روبرو۔ پہلی ڈیوڑھی کے چوبدار نے کہا کہ سب چوبدار یکے بعد دیگرے آواز دینے لگے۔ اس کے بعد رستم علی مِردھے نے بھی آواز دی۔ نواب عاشق علی پھاٹک سے دوطرفہ سلام کرتے ہوئے جھکے جھکے چلے آتے ہیں، دربار کے رعب سے کانپ رہے ہیں۔ راجا امرت لال عرض بیگی نے اِن کو سامنے لے جاکر عرض کیا: ملاحظہ ہو، نواب عاشق علی حاضر ہے۔ نواب نے زمین دوز ہوکر مجرا کیا۔ دس اشرفیاں نذر میں پیش کیں، حضور نے اشارے سے قبول کیں۔ ٢٤ جنوری ١٨٢٨ء کو پیش ہوئے، نذر قبول ہوئی، اُسی روز خلعتِ سرفرازی ہوا، پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی اور عہدۂ سفارت مرحمت ہوا۔ اُسی روز کلکتہ جانے کا حکم ملا۔ تین لاکھ روپیہ نقد سرکار سے واسطے ضروریات کے مرحمت ہوا۔ اِسی طرح نجم الدولہ جعفر علی خاں ابن مظفر علی خاں گوالیار سے آئے، بادشاہ نے بہت مرحمت فرمائی اور عہدۂ توپ خانہ سلمانی عنایت ہوا۔ پانچ سو روپیہ مہینہ مقرر ہوا۔