وطن عزیز کے مختلف تعلیمی اداروں میں چالیس برس تک تدریس اردو بالخصوص لسانیات کو میری توجہ کے محور کی حیثیت حاصل رہی۔ پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی، ڈاکٹر بشیر سیفی، ڈاکٹر صابر کلوروی، ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاس گنجوی، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، شبیر احمد اختر اور دیوان احمد الیاس نصیب نے لسانیات کے شعبے میں میری مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اردو اور دکنی زبان پر میرے کلاس نوٹس کو میرے نوجوان بیٹے سجاد حسین نے کمپیوٹر پر کمپوز کر کے محفوظ کر دیا۔ چھے جولائی دو ہزار سترہ کو میرا نوجوان بیٹا سجاد حسین حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث دائمی مفارقت دے گیا۔ ہمارے گھر کے آنگن سے اجل کا لشکر گزرا تو پورا گھر حواس باختہ، غرقاب غم اور نڈھال تھا۔ کچھ بروٹس قماش کے درندے غم گساری کی آڑ میں مگر مچھ کے آنسو بہا کر فریب کاری میں مصروف رہے۔ یہ سطور لکھ رہا ہوں اور آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہے۔ آہ! سجاد حسین لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ تم فوت ہو گئے ہو۔ تمھارے بعد مجھ پر زندہ رہنے کی تہمت لگی ہے۔ میں تو چھے جولائی دو ہزار سترہ ہی کو زینۂ ہستی سے اُتر گیا تھا۔ تم زندہ ہو تمھارا کام ابد آشنا ہے۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اِس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی
فقیر
غلام شبیر