لے سانس بھی آہستہ کا آخری باب پڑھتے ہوئے بائبل کے حوالے سے مجھے بابا نوح علیہ السلام کہ طوفان عظیم کے بعد ان کی بیٹیوں نے انہں شراب پلائی اور پھر ہم بستری کی تاکہ ان کی نسل آگے چل سکے لیکن جب میں نے بائبل کھولی تو اس میں ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں تھا۔ اس واقعے کی درست تفصیل کے لیے بائبل کا تفصیلی مطالعہ ضروری تھا جس کی باری ’لے سانس بھی آہستہ‘ پڑھنے کے چند دن بعد آہی گئی۔ یہ واقعہ در اصل حضرت لوط علیہ السلام سے منسوب ہے۔ یہ واقعہ پڑھ کر ایسا لگا کہ ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا آخری باب غیر حقیقی نہیں ہے یا تو یہ دونوں واقعات درست ہیں یا پھر دونوں نادرست… گو اسلامی نظر سے یہ غلط ہے… اس کی اہم بحیثیت مسلمان تائید نہیں کرتے۔
حوالہ کچھ یوں ہے۔
’’ اور لوط صفر سے نکل کر پہاڑ پر جابسا اور اس کی دونوں بیٹیاں ساتھ تھیں کیوں کہ اسے صُفر میں بستے ڈر لگا اور وہ اور اس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگے۔ تب پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بڈھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو دنیا کے دستور کے مطابق ہمارے پاس آئے۔ آئو ہم اپنے باپ کو مئے پلائیں اور اسے ہم آغوش ہوں تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو انہوں نے اس رات اپنے باپ کو مئے پلائی اور پہلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی پر اس نے نہ جانا کہ وہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی۔ اور دوسرے روز یوں ہوا کہ پہلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات کو میں اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی۔ آئو آج رات بھی اسے مئے پلائیں اور تو بھی جاکر اس سے ہم آغوش ہوتا کہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اس رات بھی انہوں نے اپنے باپ کو مئے پلائی اور چھوٹی گئی اور اس سے ہم آغوش ہوئی پر اس نے نہ جانا کہ کب لیٹی اور کب اٹھ گئی۔ سو لوط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں۔‘‘
بائبل پیدائش ۱۹: ۳۰۔۳۵
اس ناول میں مشرف عالم ذوقی نے تہذیبوں کی تشکیل نو پر اپنے تھیسس کو بڑی خوب صورتی سے سمویا ہے اور یہ ایک مشکل کام ہے۔ کہانی کی بنت بہت مضبوط ہے۔ تمام ناول میں دلچسپی قائم رہتی ہے اور یہ دلچسپی کہیں بھی نہیں ٹوٹتی۔ مولوی محفوظ کے آنے کے بعد کہانی کے بہائو میں بہت تیزی آجاتی ہے اور مجیب الرحمن کے ذکر کے بعد کچھ ٹھہرائو آتا ہے۔ جیسے ایک پر شور دریا کوزرا سستانے کا موقع مل گیا ہو۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کہانی سست پڑ گئی ہے۔
’’بتائو تو… وہ کیا ہے جو اچانک گوند کی طرح ہمیںایک دوسرے سے چپکا دیتی ہے؟
زمان ومکان سے بے خبر…
جنگ اور تباہیوں سے الگ…
تبائو تو… وہ کیاہے… جو دھماکوں کے باوجود ہونٹوں پر مسکراہٹ لادیتی ہے…
اندھیرے کے باوجود آنکھوں میں چمک…
وہ کیا ہے… جو یاد کی رہ گزر پر آپ کو بے سہارا نہیں چھوڑتی… مرنے نہیں دیتی…
اور پینٹنگس سے نکل کر چپکے سے اڑ جانے والی تتلی کہتی ہے… محبت… یہ تو بس محبت ہے…‘‘
اس ناول سے ہندستان کے مسلمانوں کی بٹوارے کے بعد کی سوچ کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کے سماجی حالات کا بھی۔ مزید یہ کہ اس ناول سے نئے الفاظ بھی جاننے کو ملتے ہیں مثلا سینی یا سکھر، چاپاکل، شمشیر، دانت کھودتا، پن ڈبہ وغیرہ…
آپ نے بالکل صحیح کہا کہ اب مستقل کی بات بیکار ہے۔ کیونکہ مستقل ایک گہرے اندھیرے یا اندیشے میں چھپ گیا ہے۔ یہ ان کے لیے بھی نہیں جو اس کاتحفظ چاہتے ہیں۔ ان کے لیے بھی نہیں جو اسے برباد کررہے ہیں۔
ایک اچھے لکھاڑی کاکام ہے کہ وہ قاری کے لیے سوچ کے نئے درواکرے اور آپ نے ایسے بے شمار درواکئے ہیں۔
’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ ایک خوب صورت ناول ہے۔ جسے محنت سے لکھا گیا ہے۔