مشرف عالم ذوقی کا تازہ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ میں نے چنددنوں میں پڑھ لیا۔ جلدی اس لیے نہیں پڑھا کہ اُن کی طرف سے جلدی پڑھنے اور رائے زنی کی تاکید تھی ، بلکہ ناول اس قدر رواں، خوب صورت اور دلچسپ تھا کہ ایک بار شروع کیا تو پھر ختم کر کے ہی دم لیا۔ آج کل اُردو ناول بہت کم لکھے جا رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ناول بہت زیادہ لکھے جاتے تھے۔ دورِ حاضر کی برق رفتاری میں ناول کی جگہ افسانے نے لے لی ہے۔ دور حاضر میں نہ لکھنے والے کے پاس وقت ہے اور نہ ہی پڑھنے والے کے پاس، اِس لیے کہنے والا چار پانچ صفحات میں اپنی بات کہہ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن آج بھی بڑے موضوعات کے لیے ناول کا ہی سہارا لیا جاتا ہے کہ افسانے کی نسبت ناول میں تنگئی داماں کا احساس کم ہوتا ہے۔
ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ کی کہانی تقسیمِ پاک و ہند کے پسِ منظر سے اُبھر کر عصرِ حاضر تک کا احاطہ کرتی ہے۔ میرے لیے ذاتی طور پر اس ناول اور کہانی کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ میری نظر سے اب تک کسی انڈین رائٹر کا لکھا ایساناول نہیں گزرا جو تقسیم کے بعد ہندوستان کے حالات اور اس کے سماج میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں ،خاص طور پر مسلمانوں کے اس دور حالات و واقعات کا پتا دیتا ہواور مغل دور کے نوابوں اور بڑے گھرانوں سے ہٹ کرعام مسلمانوں کی زندگی پر روشنی ڈالتا ہو۔ پاکستان کے ممتاز ناول نگار رشید اختر ندوی کے ناول ساز شکستہ، تشنگی، نشیمن، سوزِ دروں، تلخیاں، پندرہ اگست، کانٹوں کی سیج، الجھی رائیں اور یہ جہاں اور ہے، اس کمی کو بہت حد تک پورا کرتے ہیں۔ اسی طرح، اس ذیل میں اعظم کریوی ایک بڑا نام ہے جنہوںنے ابتدائی دور میں افسانے کی ترویج و اشاعت میں بڑا کردار ادا کیا۔ ان کے ناولوں کی کہانیاں اور رضوانہ سید علی کے ناول’’خواب گزیدہ‘‘ کی کہانی بھی بہت حد تک تقسیم کے خونچکاں المیئے کے بعد دونوں ممالک کے حالات و واقعات اور پسِ منظر کی عکاسی کرتی ہے۔جبکہ مشرف عالم ذوقی نے اپنے ناول کے لئے شعوری طور پرہندوستانی پس منظر کا انتخاب کیا تاکہ تقسیم کے بعدوہاں رہ جانے والے مسلمانوں کے حالات اور انکی فکر کا احاطہ کیا جا سکے۔ اس لحاظ سے یہ انتہائی مفید اور اہم ناول ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں اسکی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائیگا۔خاص طور پر اس دور میںجب اس پس منظر میں اچھے ناول خال خال لکھے جا رہے ہیں۔
مشرف عالم ذوقی ایک ایسا حسّاس اور زیرک قلم کار ہے جس نے نہایت چابکدستی سے زمانۂ قدیم و جدید کو اپنی کہانی میں یوں سمویا ہے کہ کہانی میںجان ڈال دی ہے۔ قاری جوں جوں آگے بڑھتا ہے توں توں ناول میں اس کاتجسّس اور دلچسپی بڑھتی جا تی ہے۔ ایسے ناول کی بُنت وہی قلم کار کر سکتا ہے، جس کی مشرق و مغرب کے کلاسیکی و جدید ادب پر گہری نظر ہو اور اس نے زندگی کے تجربات کو کڑے معیار کی کسوٹی پر پرکھ کر ان نتائج کی روشنی میں، زندگی کے بارے میں خیالات و نظریات قائم کیے ہوں۔ مشرف عالم ذوقی بلا شبہ ان معیارات پر نہ صرف پورا اُترتے ہیں بلکہ ان کا سبک رَو ذہن و قلم ہماری اُمیدوں سے کہیں آگے نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ناول کی کہانی حقیقی کرداروں کے درمیان میں جکڑی ،بندھی ہوئی یوں روانی سے چلتی ہے کہ ذرا بھی کہیں فکشن کا گمان نہیں گزرتا۔ یہ ناول سہیج سہیج کر پڑھنے کے بعد میرا دل و دماغ گواہی دینے لگا ہے کہ بلند شہر، ولاس پور اور پہاڑی علاقے میں واقع کاٹیج کے درمیان کے سارے کردار اور واقعات تاریخی حقائق کا پتہ دیتے محسوس ہوتے ہیں۔ اسی لیے ناول کی کہانی حقیقت کے انتہائی قریب محسوس ہوتی ہے۔یا پھر ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ مشرف عالم ذوقی زندگی کے ساتھ اس قدر جڑے ہوئے ہیں اور روز مرہ زندگی کے کرداروں اور واقعات کا اس قدر خلوص سچائی اور گہرائی کے ساتھ مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں ان کے فکشن پر بھی حقیقت کا گمان ہونے لگا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے ناول اورکہانیوں کے کردار جانے پہچانے اور اپنے اپنے سے لگتے ہیں ۔
اس ناول کا مرکزی کردار عبدالرحمن کا ردارکہانی کے اختتامی منزل پر بیٹھا کہانی سنا رہا ہے ۔یوں وہ ناول کے دیگر کرداروں کے ساتھ رہ کر کہانی کا حصہ بھی ہے اور کہانی کے دوسرے سرے پر بیٹھا ’’داستان گو ‘‘بھی ہے ۔ کاردار تقسیم پاک و ہند سے محض ایک گھنٹہ پہلے ۔ 14اگست 1947رات گیارہ بجے پیدا ہوتا ہے ،یو ں پاک و ہند کے ہر پڑھنے والے کو مرکزی کردار سے اپنائیت سی ہو جاتی ہے ۔ کاردار بلند شہر کی ، بلند حویلی کے مکینوں کے جاگیر دار انہ اور نوابی کے مذاج کے بالکل الٹ آرٹسٹ مزاج کا مالک ہے ۔ سکول ہی کے زمانے سے شعر و ادب کا رسیا ہے ۔اس کی سوچ اس کے نظریات اس کی شخصیت کی طرح حسین ہیں، وہ انسان دوست اور فطرت کا دلدادہ ہے ۔ناول کی کہانی بلند شہر کی ، بلند حویلی میں پروان چڑھتے ہوئے ،روانی سے چلتی ہوئی باہر نکلتی ہے اور پھر ایسے ایسے خطرناک موڑ کاٹتی اور پہاڑی رستوں سے بل کھاتی ریل کی مانندیوں گزرتی ہے کہ قاری کا سانس رک رک جاتا ہے ۔عبدالرحمن کاردار کے ساتھ قسمت عجب مذاق کرتی ہے ۔ پاکستان سے نقل مکانی کر کے واپس آنے والے سفیان ماموں کی بیٹی ، نادرہ کو تقدیر کاردار کے عزیز ترین دوست نو ر محمد کی جھولی میں ڈال کر ہنس دیتی ہے ۔دوسری جانب نور محمد کی بڑی چاہتو ں کے بعد پیدا ہونے والی بیٹی نگار بھی نور محمد کی ماں کی طرح حویلی کے طلسماتی اثرات سے بچ نہیں پاتی اور اس کی دماغی حالت پیدائشی طور پر درست نہیں ہوتی ۔ دن رات روتے روتے اسکا بچپن گزرتا ہے ۔ لڑکپن میں ماں بیمار ہو کر فوت ہو جاتی ہے۔ نگاردیکھتے ہی دیکھتے جوانی میں قدم رکھتی ہے مگر اسکا ذہن بچگانہ اورغیرمتوازن رہتا ہے۔ ایک ایک کر کے تمام آیائیں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ ایسے میں جوان بیٹی کو سمبھالنے کیلئے نور محمد اکیلا رہ جاتا ہے ۔ جوان جسم کی اپنی ضرورتیں اور اپنے تقاضے ہیں، جبکہ باپ کی اپنی حدود اور مجبوریاں ہیں۔ ان حالات میں نور محمد،نگار کے ہمراہ، اپنی آ بائی حویلی بیچ کر یو پی کے ایک چھوٹے سے گاوٗں ولاس پور منتقل ہو جاتا ہے کہ اجنبیت میں بہت سے بھرم قائم رہتے ہیں۔ اکیلے نور محمد پر جو جو قیامتیں گزرتی ہیں وہ تمام تفصیلات سے ایک خط کے ذریعے اپنے دوست اور ہمدمِ دیرینہ کاردار کو آگاہ کرتا ہے۔ایسے میں کاردار کی جو حالت ہوتی ہے، وہ ناول پڑھنے کا تقاضا کرتی ہے۔
کاردار کا رقیہ بیگم سے ایک بیٹا شان ہے اور شان کی بیٹی سارہ جو اپنے دادا کاردار کا بہت خیال رکھتی ہے۔ کاردار ، نادرہ کی اکلوتی نشانی ، نگار کی ذہنی حالت اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے سخت پریشان، چاروںطرف سے مشکل حالات میں گرا،کڑے امتحانات سے گزر تا ہے ۔سبھی اس کے اپنے، پیارے اور عزیز از جان ہیں ۔ کاردار تقدیر کے انہونے فیصلوں پر ثابت قدمی کے ساتھ سب کے لیے قربانیاں دیتا چلا جاتا ہے ۔ کاردار کبھی کبھی دکھی ہو کر دل میں توحرفِ شکایت لاتا ہے مگر قدرت کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم ِخم کیے رکھتاہے ، زبان پر حرف شکایت نہیں لاتا ۔
کاردار نے اپنے تلخ ماضی کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے شہر سے دورپہاڑی کاٹیج کو اپنے لئے جائے پناہ کے طور پر چنا ہے مگر یادیں ہیں کہ بار بار تنہائی میں کبھی کھڑکی توکبھی دروازے پہ دستک دینے لگتی ہیں۔ کبھی کاردار خود سے سہانی یادوں کی پرانی البم کھول کر اپنے پیاروں کی تصویروں سے کھیلنے لگتا ہے ۔کبھی کبھی شہر سے کاردار کی پوتی سارہ کے آ جانے سے کاٹیج میں رونق بڑھ جاتی ہے ۔یوں وقفے وقفے سے کہانی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ پروفیسر نیلے امریکہ سے واپس آکر کاردار کے بنگلے سے ذرا فاصلے پر اپنی بیوی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ کاردار دیرینہ مسائل و معاملات کو جدید دور کے تیزی سے تبدیل ہوتے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر کے دیکھنے کا عادی ہے۔ کاردار کو جب بھی ماضی یا حال کا کوئی حل طلب سوال ستاتا ہے تو وہ پروفیسر نیلے کے کاٹیج کا رخ کرتا ہے۔کاردار اور پروفیسر نیلے کے درمیان وقفوں وقفوں سے دنیا بھر کے اہم موضوعات پر ہونے والی عالمانہ گفتگو نے ناول کے معیار و مقام کو اور بلند کر دیا ہے۔ چار سو اسی صفحوں کے ضخیم ناول کی تمام جزیات و تفصیلات ایک مختصر کالم میں نہیں سما سکتیں۔ تاہم یہ دلچسپ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔میں اپنے بھائی مشرف عالم ذوقی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے مذید ناول لکھنے کی سفارش کرتا ہوںکہ انکا ذہن و قلم ناول کیلئے بہت رواں ہے۔
<[email protected]>