یورپ میں نشأۃ ثانیہ اور Refarmation کے بعد نیشن اسٹیٹ کا ظہور فیوڈل یا جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ، نئے سمندری راستوں کی کھوج کے ساتھ ساتھ مرکنٹلزم اور تجارتی اجارہ داری کا چلن اور کولونیل سامراج کے ظالمانہ داستان سرمایہ دارانہ نظام کی تیز پیش رفت اور اس کے متجاوزانہ رسوخ کے ساتھ ساتھ صنعتی انقلاب کی آمد نے غیر مطمئن انسانی روحوں کو ترقی وتمدن کے اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے جہان زند گی مادیت کی تلاش میں مشینوں کے دھوئیں میں دھندلا کے رہ گئی تھی۔ روسو نے شاید اس لیے اپنی کتاب (Discourse on Art and Science) میں نیچر یا فطرت کی طرف لوٹ جانے کی بات کی تھی اور مادیت کو ہی نا برابری اور تمام برائیوں کی جڑ بتاتے ہوئے اپنی کتاب (Origin of inequality among men) کے اندر غیر مہذب زندگی یاما قبل تاریخ کی زندگی کو بہتر بتایا ہے۔ حالانکہ تھامس ہابس نے اس کے برخلاف انسان کو فطرتاً خود غرض مانا ہے۔ روسو نے اپنی کتاب (Social contect) میں سماجی معاہدہ کے ذریعہ مادیت کی بنیادوں پر ضرب کاری لگانے کی کوشش کی ہے مگر (Enlightenment) کی برکتوں کی طفیل لبرلزم فبری ٹریٹر، انفرادیت کی صورت میں ایسے اصول ہاتھ لگے جس نے پوری دنیا کو گلوبلائزیشن جیسے خوبصورت نعرے کے تحت سمیٹ کر اتنا بونا بنادیا کہ جہاں تہذیبوں اور ثقافتوں کا ٹکرائو کوئی حادثہ نہیں بلکہ ناگزیر حد تک امر واقعہ ہوتا چلاگیا۔
’’سورج دھند میں چھپنے کی تیاری کر رہا تھا— درختوں کی نہ ختم ہونے والی قطار پر، چھائی ہوئی دھند نے ماحول کی دلکشی میں چار چاند لگا دیئے تھے— مگر رہ رہ کر وہ چہرہ میرے خیالوں میں برق کی طرح کوند رہا تھا…
پہلا چہرہ ایک مرد کا تھا۔ ایک بیحد عام سا معصوم سا مرد، جسے کسی بھی گھر میں آرام سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اخبار پڑھتا ہوا، آئینہ میں اپنی ٹائی درست کرتا ہوا۔ صبح کے وقت دالان یا گھر کے باہری حصہ میں چہل قدمی کرتا ہوا… یا بیحد شرافت سے، کسی سے گفتگو کرتا ہوا—
دوسرا چہرہ ایک چھوٹی سی معصوم سی بچی کا تھا۔ بے حد معصوم سی چھوٹی سی بچی کا…
لیکن آخر ان دونوں چہروں میں ایسا کیا تھا، جو مجھے خوف میں مبتلا کر گئے تھے—؟ ایک ایسے خوف میں کہ دسمبر کے آخری دنوں کی یہ سرد شام میرے پورے وجود میں آگ کے بڑے بڑے انگارے رکھ گئی تھی…
شاید میں جل رہا تھا…
یا پھر شاید میں کانپ رہا تھا…
یا پھر شاید اپنے اس وقت کے احساس کو میں کوئی نام دینے سے قاصر تھا…
دو چہرے— اور قدرت نے ان دونوں چہروں کے تعاون سے ایک ایسی کہانی لکھی تھی، جو شاید اب تک کی دنیا کی سب سے بھیانک کہانی تھی—
یا سب سے بدترین کہانی—‘‘
(لے سانس بھی آہستہ سے)
ایسے میں مذہب اور اخلاقیات کی باتوں کو دیو مالائی قصے اور اساطیر الاولین کی فہرست میں تو رکھا جاسکتا ہے مگر اسے روشن خیالی سے جوڑ کر دیکھا جائے تو عقلی دیوالیہ پن سمجھا جائے گا۔ دنیا ۱۹ ویں صدی میں (Bipolar world ) یا دو قطبی دنیا میں تقسیم ہوکر مادی نظریات کے پیش نظر بھیانک انداز سے ٹکرائی اور پھر بیس سے پچیس برس کے وقفے کے اندر ہی دوسری جنگ عظیم کی خطرناکی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ایٹم بم کی تباہ کاری اس جنگ عظیم کو انجام تک پہنچاتی ہے۔ دنیا پھر بدلتی ہے باٹ وار سے کولڈ وار کی طرف کروٹ لیتی ہے اور کولڈ وار سرد جنگ اپنے انجام کو پہنچتی اس سے پہلے دنیا (Unipolar) یک قطبی ہوچکی ہوتی ہے۔
’’میں کہیں نہ کہیں اس بے حد خوفناک اور چونکا دینے والی کہانی کا ایک حصہ رہا ہوں… سچ، جھوٹ اور اخلاقیات کے وہ صفحے، جو آنکھیں کھولنے کے بعد شاید ہر انسان کا مقدر بن جاتے ہیں— پیدائش کے بعد سے ہی جیسے Ethics، اخلاقیات یا نیتی شاستر کے، ہزاروں سانپوں کے درمیان سے گزرنا پڑتا ہے— گناہ اور ثواب… جائز اور ناجائز— لیکن جیسا کہ ابراکسس نے کہا— سچ اور جھوٹ کی اپنی تعریفیں ہوتی ہیں۔ ٹھیک ویسی ہی تعریف جائز اور ناجائز کی بھی ہے۔ ممکن ہے اخلاقیات کے جس باب میں، کسی کے لیے جو ناجائز ہو، وہ کسی دوسری جگہ، کسی دوسرے ملک، کسی دوسری کائنات میں جائز ہو— جیسے کبھی کوئی ایک تعریف کسی کے لیے بھی مطلق سچ نہیں ہوسکتی— مثال کے لیے جیسے جنگ کے دنوںمیں کسی دوسرے ملک کا فوجی یا سپاہی جب ہمارے ملک میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ دشمن کہلاتا ہے۔ جبکہ یہی دشمن، اس کے اپنے ملک کے لیے ایک وفادار سپاہی کا درجہ رکھتا ہے—‘‘
(لے سانس بھی آہستہ سے)
سکے کے دونوں پہلوئوں پر ایک ہی تصویرہوتی ہے جو اب تک قائم ہے۔ (Farncis Fukuyama)نے اپنی کتاب (The end of the history and last man) میں اس جنگ کے انجام کو (End of the history) خاتمہ تاریخ کے نام سے تعبیر کیا ہے اور ا سے ایک نظریاتی جنگ بتاتے ہوئے ایک نظریے کو دوسرے نظریے پر فاتح قرار دیا ہے برق رفتاری سے بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ اب نیو لبریزم اور امپریلزم جیسی پالیسیوں کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے اور پوری دنیا اب Cybernetic کوزے میں سما چکی ہے، صرف ایک Click کے ذریعہ ہی تصور سے پرے دنیا کی سیر کراتی ہے۔ geostrategic پالیسیوں نے دنیا کو ایک نیارخ دکھایا ہے اور نتیجے میں Highway of death, Computer war, operation desertrorm ویٹریو گیم وار operation finite کی سوغاتیں پیش کی ہیں اور پھر دنیا کو 9/11جیسے بھیانک تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ بدلے میں global war on terror کی مہم نے operation enduring freedom ، operation Iraqi freedom، operation cast lead کی سرخیوں اور سیاہیوں سے داغ بھرے ہیں۔ مادیت کی اس ہوڑ نے جو سماجی پروڈکٹس مہیا کرائے ہیں ان میں ہوموسیکسویلٹی، لیزبین سیکس، گے سیکس، فیملی انسیسٹ، سوشل چیٹنگ سائٹس اور اس کے علاوہ ایسے ان گنت مواد انٹر نیٹ کے سہارے کمپیوٹر کی اسکرین پر صرف ایک کلک کا انتظار کرتی ہیں۔ اس حیرت انگیز انداز میںیہ دنیا صرف پانچ سو سالوں میں اتنی کچھ تبدیل ہوئی ہے جتنا اس سے پہلے ہزارہا ہزار سالوں میں بھی نہیں بدلی تھی، زندگی اور سماج کا کوئی بھی پہلو ان تبدیلیوں کے اثر سے ورے یا پرے نہیں رہ سکا تو پھر ادب اور لٹریچر بھی کیوں اس کی پناہ سے دور بھاگتا؟ ہر زمانے اور دور کے ادب میں اس کا سماجی عکس پوری آب وتاب کے ساتھ جھلملاتا نظرآتا ہے اور ادیب بھی اپنے سماجی تجربات کو اپنے قلم کے حوالے کرتا ہے اورانہیں اپنے فن میں سجا کر صفحہ قرطاس کی سفیدی کو سیاہی میں تبدیل کرتا ہے گو یا ان صفحات میں کسی دور کا ایک سماج چھپا ہوا ہوتا ہے۔ جسے ہوشیار نگاہیں پرکھنے میں دیر نہیں لگاتیں۔
’’کیسے کہوں کہ میں اخلاقیات کی جس نئی اندھیری سرنگ سے گزر رہا ہوں، تم وہاں دیکھنے اور جھانکنے کی ہمت بھی نہیں کرسکتی— سارہ، برسوں پہلے کہیں، کسی خطے میں ایک عجیب سی کہانی شروع ہوئی تھی۔ جس نے شاید لفظوں کے معنیٰ ہی بدل ڈالے— زندگی میں کتنی ہی آسیبی اور ڈراؤنی کہانیاں پڑھی ہیں۔ لیکن تب نہیں جانتا تھا کہ اسی زندگی کی کوئی کوئی کہانی کسی بھوت پریت اور جن کی کہانیوں سے بھی زیادہ خوفناک ہوسکتی ہے…!
اسی زندگی کی کہانی— رشتوں کی کہانی— کبھی کبھی رشتے الجھ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے جیسے قدرت نے کوئی بے رحم مذاق کیا ہو—
آنکھوں کے آگے عمر کی سبز گھاس پر دوڑتے ہوئے ہزاروں گھوڑے— بچپن سے لے کر اب تک کی زندگی کے تمام سفید و سیاہ رنگ میری آنکھوں کی پتلیوں پر روشن ہیں۔ ان آنکھوں نے کتنی جنگیں دیکھی ہیں۔ کیسے کیسے لوگوںسے میرا واسطہ پڑا ہے۔ ہزاروں طرح کے لوگ— بچے سے بوڑھے تک۔ جلے ہوئے جسم سے گولیوں سے چھلنی سینے تک—کیسی کیسی لاشیں ان آنکھوں نے دیکھی ہیں۔ کیسی کیسی چیخیں اور کراہیں سنی ہیں۔ زندگی کے اس لمبے سفر میںکیا کچھ نہیں دیکھا— اپنوں کو مرتے ہوئے— چین کے حملے سے پاکستان کی جنگ— دہشت پسند کارروائیوں سے لے کر 9/11 اور 26/11 کے دل دہلا دینے والے واقعات۔ سنامی سے لے کر گجرات بیکری حادثے تک… واقعات اور حادثات کی ایک نہ ختم ہونے والی تفصیل… ایک سے بڑھ کر ایک خوفناک کہانیاں— بھیانک داستانیں۔
لیکن کیا کوئی داستان یا کہانی اس سے زیادہ بھیانک ہوسکتی ہے—؟‘‘
(لے سانس بھی آہستہ سے)
موجودہ دور کے نت نئے تجربات اور نتائج بھی ادیبوں کی دسترس سے باہر نہیں رہے اور بہت خوبصورت انداز سے برتے بھی گئے، خصوصاً فکشن اور ناول نگاری کو ان میدان میں امتیاز حاصل رہا ہے۔ البتہ اردو ادب میں وجوہات سے قطع نظر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ایسے موضوعات کی کمی رہی ہے مگر یہ بات ایک حد تک کہی جاسکتی ہے ورنہ ذوقی جیسے بے باک فنکاروں سے اردو ادب کا دامن خالی نہیں ہے۔ ذوقی کو نئی نسل اور نئی پودھ کو پرکھنے کا فن آتا ہے اور شاید مزہ بھی۔ اس لیے ذوقی نے بسا اوقات ایسے اچھوتے موضوعات کو چھوا ہے جو اردو ادب میں شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ’لے سانس بھی آہستہ‘ اسی قبیل کی ایک کامیاب پیشکش ہے۔ اس کے اندر ذوقی نے ایک ایسی رگ کو ٹٹولا ہے جو دوسری زبانوں میں بہت پہلے سے زندہ تھی مگر اردو ادب میں اس سے پہلے اس کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ خصوصاً انگریزی ادب اور ناولوں میں فیملی انسیسٹ کا موضوع پرانا ہے۔ سترہویں صدی کے نصف اول کے اواخیر میں ہی اس موضوع پر انگریز ادیبوں کا قلم اٹھ چکاتھا Daniel کا بھائی اور بہن کی بے پرواہ شادی پر مبنی ناول moll flanders اور جان آسٹن کا ناولmansfield park family Incest پر انگریزی ناول اور ادب میں اولین کوششیں ہین۔ ان کے علاوہ Ellan pollak، Aphera behn،Henry feilding نے بھی اس موضوع کو اپنے ناولوں کا Thems بنایا ہے۔ مگر اردو ادب میں یہ اچھوتا تجربہ مشرف عالم ذوقی کا حصہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ مشرف عالم ذوقی موجودہ عہد میں اردو ادب کا ایسا ناول نگار ہے جو اس حیرت انگیز بدلتی ہوئی دنیا کا وہ گواہ ہے جس کے قلم نے اس کے مشاہدے کو ادب کے حوالے کردیا اور اردو ادب کا ایک بڑا قرض ادا کردیا۔
’’کانوں میں بہت عرصہ پہلے پڑھی ہوئی ہر من ہیسے کے ناول ڈیمیان کے لفظ حرکت کرتے ہیں۔ ’سنو سنکلیر… شاید تمہیں ایک بار پھر میری ضرورت پڑے— اگر تم نے مجھے پھر بلایا تو میں یوں گھوڑے کی طرح سرپٹ تمہارے لیے بھاگا چلا آؤں گا… نہیں تم غلط سوچ رہے ہو سنکلیر— میں نہیں آؤں گا— تم نے خود اپنے ہی اندر کی آواز سنی ہوگی— تم دیکھو گے کہ میں تمہارے ہی اندر ہوں— سنوسنکلیر یہ دنیا ایک چھوٹے سے انڈے کی مانند ہے— انڈا ٹوٹنے والا ہے۔ ایک نئی دنیا سر نکالنے والی ہے۔‘
سنّاٹے میں ہوں— مجھے لگا، جیسے میں اپنی ہی آواز کے نرغے میں ہوں۔ میری اپنی آواز… اور سنکلیر کوئی دوسرا نہیں۔ نور محمد ہے… نور محمد…
تو انڈا ٹوٹ چکا ہے… پرانی دنیا کے خاتمے سے ایک نئی تہذیب اپنا سر نکالنے والی ہے— مرغی کے چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرح…
ll
نورمحمد …
پرانی یادوں کی البم سے وہ دھندلی سی تصویر مل گئی ہے، جو نور محمد کی ہے— کون تھا نور محمد؟ اس سے کیا رشتہ تھا میرا۔ شاید اس رشتے کو ابھی، اس لمحے تفصیل سے بتا پانا ممکن نہیںہے— لیکن شاید میں اس مکمل تجزیہ کے لیے تیار ہوں۔ ایک بچہ اس دنیا میں پہلی بار اپنی آنکھیں کھولتا ہے۔ جیسے وہ ایک نئی دنیا کے آداب و نظام سمجھنے کے لیے اچانک زور زور سے رونے لگتا ہے— پھر تھوڑا سا بڑا ہونے پر اسے اسکول میں داخل کر دیا جاتا ہے— جہاں بے حد ہوش مندی کے ساتھ اسے بتایا جاتا ہے کہ Man is a social animal انسان ایک سماجی جانور ہے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے سماج کی شناخت کرتا ہے۔ مگر اس جانور کو کچھ لمحے کے لیے بھول جاتا ہے، جو اب نصاب کی کتابوں سے نکل کر اس کے جسم میں پرورش پا رہا ہے۔ وقفے وقفے سے وہ جانور اس کے اندر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتاہے— مگر ہر بار سماجیات کے ریشمی غلاف میں وہ اس جانور کو چھپا لیتا ہے—‘‘
(لے سانس بھی آہستہ سے)
ذوقی نے اپنے ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا اختتام مولانا رومی کے اس مصرعے کہ ہر نفس نومی شود دنیا وما… ہر آن ایک دنیا تعمیر ہورہی ہے سے کرکے بے پناہ تیز سے بدلتی ہوئی اس دنیا کے حوالے سے اپنے گہرے مطالعے کا ثبوت دیا ہے، جس کا اظہار خود یہ ناول اور اس کے علاوہ ان کی دوسری تخلیقات ہیں، موجودہ عہد کی نئی پود نے ترقی کے اس دور میں ہر پل بدلتی اس دنیا میں جذبات اور Emotion کے اظہار کو ضیاع وقت سمجھا ہے۔ کمپیوٹر کی اسکرین پر صرف ایک Click کے ذریعہ ایک ان دیکھے چہرے سے دوستی، بے تکلف چیٹنگ اور پھر دوسری Click پر ہی اسےunfriend کر اسے دوستی کی لسٹ سے خارج کردینا، کنزیومرزم اور مارکٹنگ کے اس دور میں برانڈوں پر نگاہیں ٹکانا، بریک اپ منانا، غرض یہ کہ ایک ایسا دور تعمیر ہوچکا ہے جس کی بنیاد پر کسی مستقبل کی پیش گوئی تو دور اس تیز رفتاری میں ایک آن کی بھی پیش گوئی مشکل ہے یعنی ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی ہے۔ ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ کا عنوان میر کے شعر ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا
سے مستعار ہے۔ اور خوب ہے ناول نگار نے شعر کی معنویت کو اپنے منفرد ڈھنگ سے برتنے اور اتارنے کی کوشش کی ہے اور نہایت درجہ کامیابی کے ساتھ ہر لمحہ متغیر دنیا کے نازک تانے بانے کو سلجھاتے اور سنوارتے چلے گئے۔
ناول کے اندر عبدالرحمن کاردار بحیثیت راوی وہ کردار ہے جس کی پیدائش ۱۶؍اگست کو ایک غلام ملک میں ہوتی ہے جس کے آزاد ہونے میں بس ایک گھنٹے کا فاصلہ رہ جاتا ہے، دوچار ہاتھ جبکہ لب بام آگیا اور اگلے ہی گھنٹے اسے آزاد فضائوں کی تازہ ہوائیں نصیب ہوتی ہیں۔ وہ آزادی اورغلامی دونوں کا گواہ بنتا ہے۔ راوی کی پیدائش ہی اخلاقیات وتمدن کی کشمکش کا اظہار ہے۔ ایک غلام ملک کی اخلاقیات پلوں میں ایک آزاد ملک کی اخلاقیات کا روپ لیتی ہے۔ اخلاقیات کا تصادم پورے ناول کی فضا میں بسا ہوا ہے، یہ ٹکرائو بذات خود موضوع تو نہیں ہے البتہ سماجی، نفسیاتی اور تمدنی سطح پر ہم جس بحرانی کیفیت سے گزر رہے ہیں وہ ہمارے تہذیبی وجدان وافکار میں جاری سرد جنگ کا نتیجہ ہے ۔
’’میں آزادی سے ٹھیک ایک گھنٹے پہلے پیدا ہوا—
ایک غلام تہذیب میں— اور اس کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد ایک آزاد مملکت یا آزاد تہذیب میں پھینک دیا گیا تھا—
ابّا کی مکمل زندگی ہنگامے سے بھری رہی— اس وقت کی بہت سی یادیں مجھ میں ایک درد، ایک جنون جگا دیتی ہیں— بلند شہر کی جس بلند حویلی پر دادا اور ابّا کو ناز تھا۔ اس کے کنگورے گر گئے تھے۔ حویلی کی شان رخصت ہو رہی تھی— اندھیرے در و دیوار، بڑے بڑے خوفناک کمرے— اور اس پوری حویلی پر دادا کی سلطنت قائم تھی— جو پل میں تولہ پل میں ماشہ تھے۔ ناراض ہوئے تو ہٹلر کی طرح خطرناک— مسکرائے تو ایک دم کسی ننھے بچے کی طرح شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ—‘‘
ll
صدیوں کی غلامی کے بعد آزادی کا یہ احساس خوشگوار تو تھا لیکن یہ نئی نئی آزادی ہزاروں مسائل لے کر آئی تھی— شروع شروع میں دادا ابّا کے لیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کون سا شہر ہندستان کا ہے اور کون سا پاکستان کا۔ وہ اکثر ابّا سے لڑتے ہوئے پائے جاتے کہ ایک گجرات یہاں ہے تو پاکستان میں کون سا گجرات ہے؟ پھر اگر پنجاب یہاں ہے تو پاکستان کا پنجاب کون سا ہے— وہ کافی دنوں تک یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ لاہور اب ہندستان کا حصہ نہیں رہا— وہ اپنے بیحد خاص لب ولہجہ میںہنس کر ابّا سے کہتے تھے…
’تم ہمیں پاٹھ مت پڑھاؤ— سب پتہ ہے۔ تم تو ٹھہرے مسلم لیگی…‘
ابّا کو اس مسلم لیگی کہنے سے چڑھ ہوتی—
’بس آپ ہی نہیں گئے۔ سارے پاکستان چلے گئے—‘
’جانے دو۔ بھائی ہم تو نہیں جائیں گے— یہیں پشتوں کی ہڈیاں دفن ہیں۔ اب ایک دو گز زمین اپنی بھی— اب اس بڑھاپے میں پاکستان جاکر کیا کریں گے…‘
ابّا حضور، وسیع الرحمن کاردار نے نوجوانی میں مسلم لیگ کو جوائن کر لیا تھا— دادا اس کے سخت خلاف تھے۔ وہ اپنی زمین، اپنی جاگیروں میں خوش تھے۔ لیکن کہاں کی جاگیریں— گزرتا ہوا وقت اپنے ساتھ ساتھ ان جاگیروں کو بھی سمیٹ کر لے گیا تھا‘‘
(لے سانس بھی آہستہ سے)
ناول نگار نے کاردار کے بچپن، نوخیزی اس کے عشق کی معصومیت اور پھر گزرتے اور بدلتے وقت کے تانے بانے میں گرفتار اس کی زندگی کو دلچسپ طرز بیان سے گزرا ہے۔ رحمن کا نادرہ سے عشق اور نادرہ کی ذہنی کیفیت پر تقسیم اور ہجرت کے اثرات، نادرہ کا رحمن کے بچپن کے دوست نور محمد سے شادی رچانا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو ناول کے پلاٹ میں جان بھرتے ہیں۔
کاردار خاندان کی حویلی بھی ایک استعارہ ہے جو مسلمانوں کی تہذیبی اور ثقافتی زوال کی کہانی کہتی ہے۔ حویلی پلاٹ کا حصہ بن کر ناول کو ایک محور دیتی ہے۔ مگر بھری پری آبادی والی پررونق حویلی اب ماتم کناں ہے اور اس کی ویرانی کابیان درد انگیزی پیدا کرتا ہے۔ یہ وہی دریدہ حالی ہے جس سے بے شمار ہندستانی تا حال گز رہے ہیں۔ نادرہ کو نورمحمد سے رشتہ ازدواج میں بندھنے کے بعد برصغیر کی تقسیم کے کرب، اجڑے رشتوں کے عوض جنمی خلش اور درد نے اسے ذہنی امراض کا شکار بنادیا۔
افراد خانہ اور سماج نادرہ کی دماغی بے اطمینانیوں کو جناتوں، بھوتوں اورآسیب زدگی سے جوڑ کر ان کا حل مولویوں کے مزاروں میں تلاش کرتے ہیں۔ المیہ یہ بھی ہے کہ ہماری تہذیبی تاریخ میں نفسیاتی امراض کا حل مابعد الطبعیاتی یا ما فوق الفطرت عناصر میں ڈھونڈا گیا ہے۔ ناول نگار نے اس پیدا شدہ نئی صورت حال کو خوبصورت انداز میں ڈھالا ہے۔
نادرہ کی حالت آہستہ آہستہ گمبھیر ہوتی چلی جاتی ہے۔ ناول کا بیانیہ بھی ساتھ ہی ساتھ اس درد کی تفہیم میں کاری و پر اثر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نادرہ کی موت ناول کا ایک اہم پڑائو ہے جہاں وہ ایک بیٹی کو جنم دے کر اس دنیا کی محرومیوں کو الوداع کہہ دیتی ہے۔ یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں نورمحمد کے کردار میں ایک نئی انسانی رو کا نزول ہوتا ہے اور نادرہ اپنی خالص محبت نبھانے کے لیے ساری زندگی وہ اپنی بیٹی کی پرورش میں صرف کرنے کا عہد باندھتا ہے۔ نورمحمد کی کائنات ایک بار پھر اس وقت اجڑتی ہے جب اسے یہ آگاہی ہوتی ہے کہ نادرہ نے جس بچی کو جنم دیا ہے وہ پیدائشی طور پر معذور اور تمام احساسات سے محروم ہے۔ نادرہ اورنورمحمد کی بے لوث محبت کی اکلوتی نشانی نگار ہے مگر وہ کسی زندہ لاش سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
نور محمد خود کو دنیا کی دوسری مشغولیات سے الگ کر ساری عمر اپنی محبت کی اس اکلوتی معذور، محروم مگر بے حد پیاری نشانی کی پرورش میں لگادیتا ہے۔ اور سترہ برس کی دہلیز کو چھونے کے ساتھ ساتھ ایک حادثے کے بعد نگار میں بدن کی تمازت کا ہلکا سا احساس کروٹ لیتا ہے جو رفتہ رفتہ سلگنے لگتا ہے اور ایک روز یہ آگ نور محمد کو جلا کر خاک کردیتی ہے۔ نگار حاملہ ہوتی ہے اور تب نورمحمد آبائی حویلی کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے گائوں میں ایک گمنام زندگی کی ابتدا کرتا ہے۔ گم نامی کے اس سفر میں نگار ایک بیٹی کو جنم دیتی ہے بیٹی کانام جینی تجویز پاتا ہے۔
’’جینی کا تصور مجھے پریشان کر رہا تھا۔ میں چاہتا تو بہت آرام سے نور محمد سے اس کے بارے میں دریافت کرسکتا تھا۔ مگر نہیں جانتا وہ کیا بات تھی، جواب تک مجھے اس کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے سے روکے ہوئی تھی۔ کمرے میں آنے کے بعد اور بستر پر لیٹنے تک ایک نئی دنیا کے دروازے میرے لیے کھل گئے تھے۔ ساری دنیا اچانک ایک نئی تبدیلی کی ریس میں شامل ہوگئی تھی۔ یہاں نئے انسان بن رہے تھے۔ امریکہ میں بیٹھا ہوا ڈاکٹر ہندستانی مریض کا وہیں سے علاج کر رہا تھا— سائنس نئے انسان کی تلاش کے بعد اب موت پر فتح پانے کی تیاری کر رہا تھا اور ادھر نئی تکنالوجی، ڈیجیٹل ویڈیو ، لیپ ٹاپ میں ایک ولولہ انگیز دنیا نئے نتائج سے دوچار ہو رہی تھی— کیا تہذیب محض مذہب اور جنگ کے درمیان کی چیز ہے—؟ جس کی بنیاد میں مذہب اس پر کنٹرول رکھنے کا کام کرتا ہے—؟ لیکن مذہب انسانی جسم پر کتنا کنٹرول رکھ پاتا ہے؟ تہذیبوں کی تشکیل نو کے ساتھ اس وقت پوری دنیا میرے سامنے تھی اور میں قطعی طور پر یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ مغرب زدہ سانچے ہماری تہذیبوں کا معیار بھی بدل رہے ہیں۔ در اصل تہذیب جیسی کوئی چیز کبھی تھی ہی نہیں۔ ہاں مذہب کے خوف نے الگ الگ تہذیبی سرنگوں کی بنیادیں ڈال دی تھیں۔ ادھر خوف کے بادل ہٹے اور ادھر تہذیبوں کے پل ٹوٹنے شروع۔‘‘
(لے سانس بھی آہستہ)
جینی کی ولادت کے بعد نگار پر پڑنے والے دور ے شدت اختیار کرتے ہیں اور بالآخر ایک روز وہ بھی اس دنیا کو خیرآباد کہہ کر اپنے ابدی سفر کو کوچ کرتی ہے۔ نورمحمد اورجینی باپ بیٹی کی زندگی گزار رہے ہیں اور پھر ناول ختم ہوتا ہے۔ مگر دراصل یہ وہی مقام ہے جہاں ناول قاری کے ذہن میں اخلاقیات کی شکست سے متعلق بے شمار سوالات کھڑے کرتا ہے۔
یہ ناول غلام اورآزاد ہندستان کا حقیقی اور بھیانک چہرہ قارئین کے ذہنی پردے پر مرتسم کرنے میں کامیاب ثابت ہوتا ہے۔ ناول میں کرداروں کا ہجوم ہے۔ مگر کردار واضح اور ممتاز ہیں قارئین کو کسی الجھائو اور پیچیدگی میں پڑنے سے بچاتا ہے۔ ہر کردار اپنی الگ الگ پہچان اور خوبیوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلم حیثیت رکھتا ہے۔
ناول میں ذوقی نے فلیش بیک تکنیک کابھی استعمال پوری فن کاری اور مہارت کے ساتھ کیا ہے۔ اس ناول کا آغاز پہاڑوں میں آکر بسے ہوئے بوڑھے عبدالرحمن کاردار کی کہانی سے ہوتا ہے جو اسے بار بار ماضی کی پگڈنڈیوں میں لے جاتے ہیں۔ اور ماضی کے واقعات اس کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں وہی ناول کا اصل موضوع قرار پاتا ہے۔ اس طرح ناول نگار نے پورے بیانیہ میں تجسس کی فضا بنارکھی ہے جو آخر تک قائم رہتی ہے اور یہ ناول کی خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی تجسس قارئین کو اخیر تک ناول پڑھنے کے لیے مجبور کردیتا ہے۔
ذوقی کا امتیاز اظہار کا وہ اسلوب ہے جس کو انہوں نے خود ایجاد کیا ہے۔ وہ ایک صاحب طرز فن کار ہیں۔ فن کی سطح پر ان کے حیرت انگیز تجربے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مگر بات ان کے اسلوب اور زبان وبیان کو لے کر کی جائے تو اس میں بھی ان کا اپنا مختلف اسٹائل اور انداز ہے۔ اپنے ناولوں میں بیانیہ کے ساتھ ساتھ وہ خوبصورت علامتوں، استعاروں یہاں تک کہ طلسمی حقیقت نگاری کا بھی سہارا لیتے ہیں۔
یہ ان کی تکنیک کا ہی کمال ہے کہ وہ آسانی سے اپنے ناولوں میں داستانی رنگ پیدا کرلیتے ہیں اور موضوع کو بھی بوجھل ہونے سے بچا لیتے ہیں۔ ہلکے پھلکے لفظوں کو بھی سنبھال سنوار کر اس خوبصورت رچائو کے ساتھ معانی پہنا دیتے ہیں کہ وہ آسانی سے قاری کے ذہن پر اثر چھوڑ جاتے ہیں یہ ناول تین نسلوں پر مبنی ہے۔ ذوقی کا یہ امتیازی اسلوب ہے کہ وہ ایک ساتھ حال، ماضی اور مستقبل کو ایک دوسرے سے وابستہ کرتے ہوئے سلیقے اور قرینے سے کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں ناول کی ابتدا تو ۲۰۱۰ سے ہوتی ہے لیکن یہ کہانی پھیلتے پھیلتے تقسیم اور غلامی کی ہولناکیوں اور بے رحم دنوں کی یادوں سے جوڑتی ہے۔ بلکہ اس دائرے کو پار کرتے ہوئے ذوقی چند قدم آگے بڑھا لیتے ہیں اور عصر حاضر کے حالات کو بھی گواہ بنا لیتے ہیں ناول صدی بھر کے واقعات کو آہستہ آہستہ ذہنی کینوس پر ابھارتا ہے۔
اور میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ذوقی نے اس ناول کے ذریعہ اردو ناول نگاری کو ایک نئے رخ اور اچھوتے موضوع سے آشنا کرایا ہے۔ ناول کااختتام رومی کے مصرعے ہر نفس نومی شود دنیا وما… ہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہورہی سے کرنا یہ ذوقی کی فکری وسعت کا غماز ہے ۔ یہ مصرعہ ہی مکمل ناول کا ایجاز ہے۔