مشرف عالم ذوقی عمدہ افسانہ نگار ہیں اور ناول کے فن پر بھی ان کی گرفت اب مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ’لے سانس بھی آہستہ ‘سے قبل ذوقی ’بیان‘ اور پوکے مان کی دنیا‘ ایسے اچھے ناول لکھ چکے ہیں ۔’لے سانس بھی آہستہ‘ اپنے موضوع اور اسلوب کی بناء پر شائع ہوتے ہی اردو فکشن کی دنیا میں گفتگو کا موضوع بن گیاہے ۔ یہ ناول ہندستانی مسلمانوں کی سائکی ، سماجی صورت حال اور معاشرتی کشمکش کا منظرنامہ بیان کرتاہے ۔ ہندستانی مسلمانوں کی تہذیبی روایات کے انتشار کا فسانہ ناول کا اہم موضوع ہے لیکن ساتھی ہی ساتھی یہ ناول تقسیم کے نفسیاتی اثرات کا غم گین پورٹریٹ بھی ہے۔ ناول اخلاقیات اور با لخصوص انسانی جبلت اور جنسی اخلاقیات پر نشتر لگا تا ہے اور قار ی کو بے شمار سوالات کے بھنور میں چھوڑ جاتا ہے۔ ذوقی نے اپنے ایک انٹرویو میں اس ناول پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’لے سانس بھی آہستہ دراصل تہذیبوں کے تصادم کی کہانی ہے— میرے ذہن میں اس ناول کو لے کر کئی بنیادی سوال راستہ روکے کھڑے تھے۔ ڈارون سے روسو، والٹیر اورہٹنگٹن تک میں مسلسل اخلاقیاتی نظریے سے ایک جنگ لڑتا رہا۔ کون بناتا ہے یہ نظریہ—؟ جب ایک نظریہ سچ ہے تو اختلاف کی گنجائش ہی کیوں پیداہوتی ہے؟ کیا اخلاقیات ہر بار ہمارے لیے ایک چیلنج ہیں؟ کیا وقت اپنے حساب سے اپنی اخلاقیات کی تھیوری پیش کرتا ہے—؟ کیا آ ج کی ساری بحث صرف اورصرف اخلاقیات تک سمٹ کررہ گئی ہے—؟ گلوبل دنیا اور گلوبل وارمنگ کے اس دور میں الگ الگ اخلاقیات کے عفریت ہمیں حصار میں لیے کھڑے ہیں… کہ پہلے ہم سے الجھو… اورجیسا کہ ان دنوں مغرب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ مغرب کے بنیادی مسائل نہ تو معاشی ہیں اور نہ ہی آبادی کا بڑھنا— بلکہ اصل مسئلہ ہے— اخلاقیات کاگم ہوجانا— ثقافتی خودکشی— اورانہی سب سے ایک نہ ختم ہونے والا سیاسی بحران پیدا ہوگیا ہے— ایک طرف دہشت پسندی اور القاعدہ تہذیب ہے جس کی زمین بنیاد پرستی سے زیادہ دہشت پسندی پر کھڑی ہیں… دراصل اس ناول کو لکھنے کا بنیادی نکتہ یہی تھا— مختلف تہذیبوں کے درمیان عالمی جنگ کے خطرات کے امکانات سے بچنے کی کیاصورت ہوسکتی ہے—؟ کیا دنیا کے حکمراں اس کی تہذیبی فطرت کو قبول کرنے اوراسے بچانے کے لیے تیار ہیں— اندھیرے سے جنم لینے والی ایک نئی دنیا ہے— معاشرتی تبدیلیوں کی دھند میں شناخت گم ہوتی جارہی ہے۔‘‘
ذوقی کا مذکورہ بیان ان کی فکری کشمکش کا اظہار ہے جس کی تپش میں جدید بھارت کے عام آدمی کے لیے سانس لینا بھی دشوار سا ہو گیا ہے۔ خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے، جس میں ہم سب گرفتار ہوئے جا رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا نے ہم سے موجودہ عہد کی حقیقتوں کو چھپانے کا بہانہ بھی چھین لیا ہے ۔ تہذیبی شکست وریخت کا جو سیلاب آیا ہے ،اس کے ریلے میں پرانی اخلاقیات کی ساری کتابیں بہہ رہی ہیں اور ہم صرف خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔ یہ ناول ان خاموش تماشائی لوگوں کے ذات کے ندبے کا بیان بھی ہے۔
’لے سانس بھی آہستہ ‘ کاردارخاندان کی کہانی ہے جس کا روای عبدالرحمن کاردار ہے۔ اس کی پیدائش ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو ہوتی ہے۔ بھارت کی آزادی سے صرف ایک گھنٹے پہلے وہ اس دنیا میں سانس لینا شروع کرتا ہے ۔ عبدالرحمن کاردار کی پیدائش ہی اخلاقیات اور تمدن کی کشمکش کا اظہار کرتی ہے ۔ ذوقی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ عبدالرحمن کاردار کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک غلام ملک کی اخلاقیات بس ایک گھنٹے بعدایک آزاد ملک کی اخلاقیات میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اخلاقیات کا تصادم پورے ناول کی فضا پر چھایا ہو ا ہے۔ یہ تصادم مصنوعی نہیں ہے بلکہ ہم سب سماجی، نفسیانی اور تمدنی سطح پر جن کرائسس سے گزر رہے ہیں ان کے سبب ہمارے تہذیبی وجدان اور مذہبی افکار میں جو ایک سرد جنگ جاری ہے ،یہ اس کا نتیجہ ہے۔ ذوقی نے رحمن کے بچپن، نوجوانی ،معصوم عشق، اور پھر دام ِ زندگی میں گرفتار ہونے کے افسانے کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ رحمن کا نادرہ سے عشق اور نادرہ کی ذہنی زندگی پر تقسیم اور ہجرت کے سبب ہونے والے اثرات،نادرہ کا رحمن کے بچپن کے دوست نور محمد سے شادی کر لینا۔۔۔ایسے واقعات ہیں جو ناول کے پلاٹ کو جاندار بناتے ہیں۔ کاردار خاندان کی حویلی بھی ایک بڑا استعارہ ہے جو مسلمانوں کی تہذیبی اور ثقافتی زوال کا ندبہ پیش کرتی ہے۔ حویلی پلاٹ کا حصہ بن کر ناول کو ایک مرکز عطا کرتی ہے، لیکن یہ حویلی اب اپنی رونق کھو چکی ہے اور اس کی ویرانی کا بیان درد انگیزی پیدا کرتا ہے۔ یہ وہی درد انگیزی اور شوریدگی ہے، جس سے بے شمار ہندستانی مسلمان تاحال گزر رہے ہیں۔
نورمحمد کی نادرہ سے شادی کے بعد وہ ذہنی مرض میں مبتلا ہو جاتی ہے، جس کی جڑیں برِصغیر کی تقسیم، فسادات، انسانی رشتوں کی تقسیم اور اس سے پیدا ہونے والی خلش میں پوشیدہ ہیں ، لیکن گھر کے افراد اور سماج ان امراض کو جناتوں، بھوتوں اورآسیب زدگی سے جوڑ کر ان کا حل مولویوں کے مشوروں میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ ایک بحران بھی رہا ہے کہ ہماری تہذیبی تاریخ میں نفسیاتی امراض کا حل مابعد الطبیعاتی یا مافوق الفطرت عناصر میں ڈھونڈا گیا ہے۔ ذوقی نے اس صورت حال کو بے حد دلچسپ اندا ز میں بیان کیا ہے۔ نادرہ کی حالت جوں جوں گمبھیر ہوتی جاتی ہے ناول کا بیانیہ اس درد کی تفہیم میں اتنا ہی کاری ہوتا جاتاہے ۔ نادرہ کی موت ناول کا ایک اہم پڑاؤ ہے، جہاں وہ ایک بیٹی کو جنم دے کر اس د نیا کی محرومیوں کو الوداع کہہ دیتی ہے۔اسی پڑاؤ سے نور محمد کے کردار میں ایک نئی انسانی روح کا نزول ہوتا ہے اور نادرہ کی محبت میں ساری زندگی وہ اپنی بیٹی کی پرورش میں صرف کرنے کا عہد کرلیتا ہے۔ نور محمد کی کائنات اس وقت دوبارہ منہدم ہو جاتی ہے جب اسے یہ احسا س ہوتا ہے کہ نادرہ نے جس بچی کو جنم دیا ہے وہ پیدائشی طور پر تمام احساسات سے محروم ہے۔نادرہ اور نور محمد کی محبت کی واحد نشانی نگار ہے لیکن وہ بس ایک زندہ لاش ہے جس میں انسانی محسوسات جیسی کوئی صفت نہیں۔ نور محمد اپنی ساری زندگی نگار کی پرورش میں لگا دیتا ہے اور سارے سنسار سے خود کو کاٹ لیتا ہے۔ لیکن جب نگار سترہ برس کی ہو جاتی ہے تو ایک حادثے کے بعد اس میں بدن کی تمازت کاہلکا سا احساس کروٹ لیتا ہے جو رفتہ رفتہ سلگنے لگتا ہے اور ایک روز یہ آگ نور محمد کو جلاکر خاک کر دیتی ہے۔ نگار حاملہ ہوتی ہے اور تب نور محمد ایک گم نام آدمی میں بدل کر اپنی آبائی حویلی کو چھوڑ کر ایک چھوٹے سے گانو میں نئی زندگی کی ابتدا کرتاہے۔گم نامی میں نگار ایک بیٹی کو جنم دیتی ہے جس کا نام جینی ہے۔ جینی کی ولادت کے بعد نگار پر پڑنے والے دورے شدت اختیار کرتے ہیں اور ایک روز وہ بھی اس دنیا کو خیر باد کہہ دیتی ہے۔ جینی ا ور نور محمد باپ اور بیٹی کی زندگی گزار رہے ہیں جہان پر ناول ختم ہوتا ہے، لیکن اصل میں یہی وہ مقام ہے جہاں ناول قاری کے ذہن میں اخلاقیات کی شکست سے متعلق بے شمار سوالات کھڑے کرتاہے۔ کیا اپنی ہی بیٹی سے کسی باپ کا جسمانی رشتہ کسی بھی صورت قابل قبول ہے؟ کس نے مرد اور عورت کے رشتوں کی حدیں طے کی ہیں اور کیا بدلتے وقت کے ساتھ ان کو مسمار کیا جا سکتا ہے؟
ذوقی نے ’سے سانس بھی آہستہ ‘ کے ذریعے اخلاقیات کے نظام پر سوالات قائم کئے ہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ انسانی اخلاقیات انسان کے نہیں بلکہ قدرت کے ہاتھ میں ہے۔ قدرت اپنے پھیلاؤ، ارتقاء اور دفاع میں انسانی فکر کو ہمیشہ شکست دیتی رہی ہے۔ زندگی بہر حال ارتقاء سے عبارت ہے اور انسان اس زمین پر قدرت کا اسیر ہے۔ قدرت اپنے قوانین، اصول اور نظریے خود انسانوں کے توسط سے خلق کرتی ہے۔ کہیں اس کے خلاف انسان بر سرِپیکار بھی ہوتا ہے اور اپنے ذاتی قوانین کو فوقیت دینے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ قدرت کی سفاکی اور آفاق کی کار گہی کے سامنے جیت نہیں پاتے، بلکہ ایسے افراد قدرت کے قوانین سے ٹکرانے کی صورت میں خود ہی ڈائنو سورس کی طرح اپنا وجود مٹا دیتے ہیں۔
ذوقی نے اس ناول میںتقسیم ِوطن، ہجرت، خون خرابے اور جنگوںسے پیدا ہونے والے کرائسس کو بھی پیش کیا ہے اور یہ درشایا ہے کے بچوں کی جذباتی اور ذہنی زندگی کو یہ آسیب کیسے آہستہ آہستہ دیمک کی طرح کھا کر کھوکھلا کر دیتے ہیں اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے، جب ان کا ربط دنیا سے کٹ جا تا ہے اور وہ درد اور کرب کی ایسی تاریک کھائی میں گر جاتے ہیں۔۔جہان ان کی شخصیت ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے لیکن ان کے رونے کی آواز ہمارے کانوں پر دستک دیتی رہتی ہے۔ ۔۔یہ رونے کا مرض بڑھتا جاتا ہے لیکن، اس کا اعلاج نہ کسی ڈاکٹر کے پاس ہے نہ کسی تاریخی و تہذیبی مطب میں ۔۔۔لوگ اس حالت کو جناتوں اور غیر مرئی قوتوں سے منسوب کرتے ہیں لیکن یہ سب شکستِ ذات کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ ناول کی کہانی آزادی کے دور سے شروع ہوتی ہے اور موجودہ بھارت کی سیاسی اور سماجی تاریخ کو پیش کرتی ہوئی بابر ی مسجد کے انہدام تک سفر کرتی ہے۔
’لے سانس بھی آہستہ ‘ ایک ایسا ناول ہے جس کے بیانیہ کی شادابی، تکنیک کی ہنرمندی، کردار نگاری،اور موضوع پر ابھی کئی مضامیں لکھے جائیں گے۔ یہ مختصر عبارت تو بس ابتدا ہے۔ ذوقی نے فینتاسی، تجسس، مافوق الفطرت عناصر کی طلسمی دنیا کے خوب صورت استعمال سے ناول کے کینواس کو تازگی عطا کی ہے۔ ناول قاری کو اپنی گرفت میں کر لیتا ہے اور یہ کسی بھی ناول کا بنیادی وصف ہونا چاہیے۔ ناول نقاد وں کے لیے نہیں بلکہ قارئین کے لیے تحریر کیا جاتا ہے۔ افسوس اردو میں نقادوں کی ایک ایسی بد بخت نسل پیدا ہوئی جس نے پژمردہ تحریروں کو ہی خالص ادب کہلوانے کی حماقت کی۔ ایسے نقادوں نے بے معنی اور زندگی سے محروم نثر پاروں کو ناول کہا اور اس کے پرچار میں تن اور من سے جٹے رہے تاکہ تھوڑا دھن بھی مل جائے۔ یہ ادب کی بنیادی خوبی پر حملہ تھا اور ایسے حملوں سے ہمارے یہاں کچھ ناول حاملہ ہوئے جن کی پیدائش کو میں موت کی کتاب سمجھتا ہوں۔ ایسے مردہ نثر پاروں کے مدِ مقابل ’لے سانس بھی آہستہ‘ جیسے ناو ل اردو میں منظر عام پر آرہے ہیں اور یہی جواب ہے ان بگڑے ہوئے نقادوں کی خوشامد میں لکھنے والے قلم کاروں کے لیے۔ ذوقی کے ناول میں ان کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ موت کے شب خون سے نکل کر ادب کی رعنائی اور شادابی کی طرف مراجعت ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔