مشرف عالم ذوقی کا شمار نئی نسل کے عمدہ فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ افسانوں کے علاوہ بیان، مسلما ن، اور پو کے مان کی دنیا جیسے کامیاب ناول لکھ کر ادب کی دنیا میں انھوں نے ایک اعتبار قائم کیا ہے۔
ان کا تازہ ناول ـ’لے سانس بھی آہستہ‘ فی ز مانہ اردو کے ادبی حلقوں میں گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ان کے پچھلے ناولوں میں ’پوکے مان کی دنیا‘ سائبر کرائم پر ایک عمدہ ناول تھا۔ تازہ ناول ’ لے سانس بھی آہستہ‘ تہذیب و اخلاقیات کے انتشار کا نوحہ بیان کرتا ہے۔ دراصل ذوقی ٹکنالوجی اور صارفی کلچر کے اس دور میں تہذیب و اخلاقیات کے تئیں کافی فکر مند نظر آتے ہیں۔ انھوں نے ایک جگہ کہا تھی ہے کہ’لے سانس بھی آہستہ‘ ۔۔۔ـ’دراصل تہذیبوں کے تصادم کی کہانی ہے۔‘ وہ اپنی کہانیوں اور ناولوں کے ذریعے نئے نئے سوالات اٹھاتے رہتے ہیں جن کا حتمی جواب نہ سماج کے پاس ہے نہ مذہب کے پاس مگر یہ سوالات ہمیں سوچنے اور غور کر نے پر مجبور کرتے ہیں۔
’لے سانس بھی آہستہ‘ کے نصف اول میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرتی کش مکش کو بیان کیا ہے۔ کاردار خاندان کی حویلی دراصل ہندوستانی مسلم معاشرے کا استعارہ ہے۔ عبدالرحمن کاردار اور اس کے گھر والے مولوی محفوظ کے مشورے پر کسی گمشدہ دفینے کی تلاش میں حویلی کی کھدائی شروع کرتے ہیں۔ لیکن خزانہ ہاتھہ نہیں آتا، کوئی پولیس کو خبر کرتا ہے۔پولیس انسپکٹر کاردار سے پوچھتا ہے کہ ’آپ نے یہ گڈھا کیوں کھودا؟‘ کاردار انتہائی جھلاہٹ ، مایوسی اور بیزاری سے جواب دیتے ہیں۔ ’’ میں خود اپنی قبر کھو د رہا ہوں۔‘‘
دراصل کاردار کا یہ بلیغ جواب اس پورے واقعہ مرکزی نکتے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غور کرنے پر اس کے کئی معنیاتی اور تمثیلی پہلو اجاگر ہونے لگتے ہیں۔
غالباً حویلی روایتی مسلم معاشرے کا استعارہ ہو سکتا ہے ،جواب حویلی کی طرح فرسودہ اور ازکار رفتہ ہو چکا ہے۔ دفینے کی تلاش دراصل اسی فرسودہ معاشرے میں نئی روح پھونکنے کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ مولوی محفوظ دراصل مولویوں کے اس گروپ کے نمایندہ ہیں جس نے مسلم معاشرے کو ہمیشہ غلط مشورے دیے اور گمراہی کے راستے پر ڈالا۔ کاردار کا جواب کہ میں خود اپنی قبر کھود رہا ہوں۔ اس بات کی علامت ہے کہ پرانی تہذیب اور اخلاقیات کو اب زمیں دوز کردینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
ناول کے حصہ دوم میں نور محمد کے گھر میں ایک ایسی بچی پیدا ہوتی ہے جو ذہنی طور پر نہ صرف معذور ہے بلکہ اس کے احساسات تک مردہ ہیں، البتہ اس کی جسمانی نشوونما معمول کے مطابق ہوتی ہے۔ اس دوران نور محمد کی بیوی مرجاتی ہے اور اس بچی نگار کی نگہداشت کی ذمے داری نور محمد کو اٹھانی پٹرتی ہے۔ اسے کھلانے ، پلانے اور نہلانے کے علاوہ اپنے ساتھی سلانا بھی پڑتا ہے۔ اور اسی دوران وہ حادثہ یا سانحہ وقوع پذیر ہوتا ہے جو قاری کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
نگار بالغ ہو چکی ہے اور اس کی جنسی اشتہا ایک مرد کی متقاضی ہے۔۔آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ نور محمد کی اپنی ہی بیٹی کے جنسی اشتعال کو شانت کرنے کے لیے اس کے ساتھ جنسی رشتہ قایم کرنا پڑتا ہے۔ نتیجے کے طور پر وہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ نور محمد اپنی حویلی کو خیر باد کہہ کر اپنی بیٹی کے ساتھ ایک دور افتادہ گاؤں جا کر بس جاتا ہے۔ وہاں نگار ایک بچی کو جنم دیتی ہے جس کا نام جینی رکھا جاتا ہے۔ بچی کے جنم کے بعد نگار مرجاتی ہے اور نور محمد جینی کے ساتھ ایک نئی زندگی شروع کرتاہے۔ اپنے کلائمکس کو پہنچتے پہنچتے ناول اخلاقیات اور انسانی رشتوں پر سوال اٹھاتا ہے کہ جینی نور محمد کی کون ہے؟ بیٹی۔۔یا بیٹی ک بیٹی یعنی نواسی؟ ہر چند یہ واقعہ پڑھتے ہوئے بے حد ناگوار اور پریشان کن معلوم ہوتاہے مگر ’ لے سانس بھی آہستہ‘ میں اس رشتے کی جس نفسیاتی مہارت کے ساتھ گرہ کشائی کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مشرف عالم ذوقی کے قلم میں اب وہ پختگی اور صلابت پیدا ہوگئی ہے جو سخت سے سخت موضوع کو موم بنانے کی استعداد رکھتی ہے۔بلاشبہ ’لے سانس بھی آہستہ‘ معاصر اردو فکشن میں ایک اہم کارنامے کی حیثیت سے یا د رکھا جائے گا۔