مشرف عالم ذوقی سے میرا تعارف بہت پرانا نہیں ہے۔ میں نے جب مطالعہ کرنا شروع کیا تو اردو ادب کے تقریباً تمام ہی لکھنے والوں کو پڑھنے کی جستجو ہوئی۔ انڈیا سے تعلق رکھنے والے ماضی قریب اور ماضیٔ بعید کے تمام اچھے ادیب اور شاعر میرے مطالعے میں شامل رہے لیکن انڈیا کے عصری ادبیوں کو پڑھنے کا اتفاق کم کم ہی رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کراچی میں کتابوں کی عالمی نمائش منعقد ہوتی ہے تو میری تمام تر توجہ انڈین پبلشرز کے اسٹالز پہ ہوتی ہے۔ یہ شاید 2010 ء کی بات ہے کہ اس نمائش میں میں نے ایک کتاب دیکھی ’’ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے‘‘ از مشرف عالم ذوقی۔ تب مصنف کا نام میرے لیے سراسر اجنبی تھا لیکن کتاب کا عنوان مجھے متاثر کررہا تھا، سو میں نے فوراً ہی وہ کتاب خرید لی تھی اور پھر جب میں نے اس کو پڑھا تھا..... تو مجھے لگا تھا میرے ذہن میں سوچ کے نئے دریچے کھل رہے ہیں ۔ اس کتاب میں موجود افسانوں کے عنوان گرفت کرتے ہیں اور افسانوں کے موضوع اس بات کا بعینہ اظہار کرتے ہیں کہ مصنف اپنے ارد گرد کی دنیا کو بہت مختلف نہج سے دیکھتا ہے اور بہت شدید احساس کے زیر اثر کہانی لکھتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ کانٹے کی طرح چبھتی ہوئی کوئی بات جب ذوقی کے دل کو شدید درد سے بھر دیتی ہے تو ان کے ہاں کہانی جنم لیتی ہے ۔
یہ ذکر تھا اس کتاب کا جس کے مطالعے نے مجھے ذوقی کے قلم کا اسیر کردیا تھا۔ تب میں نے سوچا انڈیا کے سفر کے دوران ذوقی صاحب سے ملنے کی سعی بھی کرنی چاہیے ، اور قسمت کی مہربانی سے یہ ملاقات ممکن بھی ہوگئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تاج انکلیو کی سیڑھیاں طے کرتے وقت مجھے امید نہیں تھی کہ یوں اچانک چلے آنے پر وہ صاحب ملاقات کا وقت دیں گے بھی یا نہیں مگر مجھے خوشگوار حیرت نے گھیر لیا تھا جب ذوقی نہ صرف بہت تپاک سے ملے بلکہ اپنا نیا ناول ’’لے سانس بھی آہستہ ‘‘ تحفتاً پیش کیا۔ ذوقی صاحب کا اصرار تھا کہ میں ناول پہ اپنی رائے ضرور لکھ بھیجوں۔ میں کیا اور میری رائے کیا ....ذوقی صاحب کے سامنے محض ایک طفلِ مکتب ہوں جس کے قلم کا سرمایہ تھوڑی بہت کہانیاں ہی ہیں مگر پھر بھی .... پاکستان واپسی پر میں نے پیروں سے گردِ سفر جھاڑی اور ناول کا مطالعہ شروع کردیا۔
’’ لے سانس بھی آہستہ‘‘ اس خوبصورت ناول کا آغاز چونکا دینے والا ہے۔ پہلا صفحہ ہی اس بات کا اعلان کر دیتا ہے کہ اس ناول میں جو کچھ بھی ہے وہ محض ذوقی کے ذہن کی اختراع نہیں ہے ، ذوقی کے تخیل کی پرواز نہیں ہے بلکہ اس میں سماج کی وہ سچائیاں رقم ہیں جن پر ذوقی کی نگاہ پڑتی ہے تو ٹھہر جاتی ہے ۔ اسی لیے اس ناول کے کردار جیتے جاگتے ، سانس لیتے کردار ہیں جنہیں ذوقی صاحب نے بہت قریب سے دیکھا ہوگا، پرکھا ہوگا، ان کا نکتہ رسا ذہن برسوں ان کرداروں کے ساتھ جیا ہوگا تب کہیں جا کے ذوقی کے قلم نے ان کرداروں کو تراشا، اور لکھا .... اور امر کردیا۔
برصغیر پاک و ہند کے خطے میں ’’ تقسیم ‘‘ ایک ایسا آنچ دیتا ہوا موضوع ہے اور تاریخ کا ایک ایسا موڑ ہے ، جس پر اردو ادب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور ابھی تک لکھا جارہا ہے کیونکہ تقسیم محض تقسیم ہی نہیں تھی ، غلامی سے آزادی کا پروانہ بھی تھی اور بیک وقت ایک زندہ اور مکمل تہذیب کے خاتمے کا اعلان بھی تھی۔ اس موضوع پہ لکھے گئے ادب کے اوراق میں کہیں ہجرت کا غم روتا نظر آتا ہے تو کہیں فتح مندی کے ترانے سنائی دیتے ہیں....کہیں شکستہ دلی کے آثار نظر آتے ہیں تو کہیں نئی سر زمین کی کشش دامن کھینچتی نظر آتی ہے ،اس سارے المناک سفر میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا عنصر ’ انسان‘ ہے ۔ انسان ،جس نے ہجرت کی تو ماضی سے کٹ جانے کا دکھ سہا .... اور انسان ،جو ماضی سے جڑا رہا تو اس نے تہذیب کے تاروپود بکھرتے دیکھے۔ اپنی آنکھوں سے اپنے باغوں، کھیتوں اور حویلیوں کا اجڑنا دیکھا۔ تہذیب کے اس انہدام نے یقیناً ایک پوری نسل کو اذیت سے دو چار کیا ہوگا۔ ذوقی کی نظر ان آنکھوں میں چھپے اس دکھ کو دیکھتی ہے۔ محض ایک زاویے سے نہیں، ہر زاویے سے دیکھتی ہے ۔ بلکہ ذوقی کی نظر دیکھنے کے لیے نئے زاویے تراشتی ہے۔ اور جب یہ دکھ ذوقی کی اپنی نظر میں بولنے لگتا ہے، ان کے دل کو لہو کرنے لگتا ہے تب ذوقی لکھتے ہیں نور محمد کی کہانی، کاردار کی کہانی، نگا ر اور نادرہ کی کہانی، جو در حقیقت ذوقی کی اپنی کہانی بن چکی ہوتی ہے اور اس کہانی کو پیرایہ اظہار دینے کے لیے ذوقی کا قلم الفاظ سے یوں کھیلتا ہے، الفاظ کو یوں برتتا ہے جیسے یہ سب الفاظ محض ذوقی ہی کے لیے تشکیل دئیے گئے ہوں۔ ذوقی کا قلم کہانی میں اتار چڑھائو اور واقعات کی بنت کچھ ایسی مشاقی سے کرتا جاتا ہے کہ کرداروں کی جزئیات اپنی پوری نفسیات کے ساتھ کُھلتی چلی جاتی ہیں، یوں پرت در پرت جیسے آنکھوں کے سامنے کردار زندہ کھڑے ہوں اور ہم ان کے اوپر بیتے المناک لمحوں کی روداد دیکھ رہے ہوں۔ خصوصاً نور محمد کی جذباتی کشمکش اور نفسیاتی الجھنیں جس فنکارانہ انداز میں قاری کے سامنے سطر بہ سطر آشکار ہوتی جاتی ہیں، یہ یقیناً ذوقی کے قلم کی بہت بڑی خوبی ہے۔ اس ناول میں ذوقی نے اپنی کہانی کا تانا بانا ہندوستانی مسلمانوں کی مٹتی ہوئی تہذیب اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے بدلتے ہوئے نظریات کے ساتھ اس خوبصورتی سے بنا ہے کہ جس کی وجہ سے یہ ناول محض ایک ادبی فن پارہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی سماج کی زندہ تاریخ بن گئی ہے جس کی بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج سے سو سال بعد جب یہ ناول پڑھا جائے گاتو قاری کے سامنے ہندوستان کی ایک تاریخی دستاویز کھل جائے گی۔ بے شک ذوقی آج کا انسان اور آج کا ادیب ہے لیکن ذوقی کی نظرا ٓنے والی کل پہ بھی لگی رہتی ہے اور ذوقی کی نظر بہت گہری ہے ، یہ منظر کو توڑتی ہوئی، پس منظر تک جا پہنچتی ہے.... اور اس پہ مستزاد ، سماجیات اور سیاسیات کے موضوع پہ ذوقی کا عمیق مطالعہ، اور درد سے لبریز ذوقی کا حساس دل ، ان سب نے مل کر اس ناولوں کو اردو کے چند یاد رہ جانے والے ناول کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔