’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ مشرف عالم ذوقی کا ایک ایسا منفرد ناول ہے جس کا موضوع بدلتے وقت کے ساتھ تہذیبی شکست و ریخت ہے۔ اس میں بڑی وضاحت سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پرانی تہذیبوں کا خاتمہ کس طرح ہوتا ہے اورکیسے بالکل غیر محسوس طریقے سے ایک نئی تہذیب وجود میں آجاتی ہے۔ وقت کی نبض کو نہ سمجھنے والا انسان کس طرح تہذیبی بحران کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کا اندازہ متذکرہ ناول کے مطالعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس ناول میںہندوستان کی آزادی کے بعد سے موجودہ دورتک کا احاطہ بڑی خوبی سے کیا گیا ہے۔ آزادی کے بعدملک کی تقسیم، جاگیردارانہ نظام کے بعد سرمایہ دارانہ نظام، وقت کے ساتھ رونما ہونے والے حادثے، فسادات، تقسیم کے بعد کی مختلف جنگوں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی تقسیم، اس وقت کے سیاسی حالات غرض کہ ہر نوع کے واقعات ناول نگار کی فکری دسترس باہر نہیں رہے ہیں۔ تقسیم کے بعدوجود میں آنے والانیا معاشرہ کس طرح اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھتا ہے،کیسے انسان مشین بن جاتا ہے، کیسے آپسی رشتے ٹوٹنے لگتے ہیں۔یعنی کہ آزادی کے بعد سے زمانہ حال تک کا سیاسی، سماجی، معاشی، اخلاقی ہر طرح کا ماحول، ہر طرح کا نقشہ ناول کے ذریعہ ہماری آنکھوں کے سامنے روشن ہو جاتا ہے۔
ناول کا آغازہرمن ہیس کے ناول ’’ڈیمیان‘‘ کے ایک اقتباس سے ہوتا ہے۔ کہ ہر شخص کو اپنے حساب سے سچ اور جھوٹ، جائز و ناجائز کی تعریف کرنی پڑتی ہے کیونکہ جو چیز کسی ایک کے لیے جائز ہووہی دوسرے کے لیے ناجائز ہو سکتی ہے۔
ناول کا نام میر تقی میر کے اس شعر سے ماخوذ ہے۔
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
سچ یہ ہے کہ یہ شعراپنے تمام تر مفاہیم کے ساتھ پوری طرح ناول کی ایک ایک سطر سے چسپاں ہوا ہے۔یہ ناول واضح کرتا ہے کہ انسان قدرت کے ہاتھوں میںمحض ایک کھلونا اور اس کے آگے پوری طرح مجبور و بے بس ہے۔جبر کے زیر سایہ اس دنیا میں زندہ رہنا آسان نہیں ہے۔ انسان کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ مسلسل جد جہد کرتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود کامیابی اور ناکامی کا سارا دار و مدار قدرت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اس ناول میںنور محمد کے کردار کے ذریعہ اس حقیقت کوپوری طرح واضح کیا گیا ہے کہ قدرت نے اس کے مقدر میں جو لکھ دیا ہے وہ بہر حال ہونا ہے۔ بھلے ہی اس سے رائج اخلاقیات کا زیاں اور ایک نئی اخلاقیات کی پیدائش ہورہی ہو، سماجیات متاثر ہو یا خود انسان کا مزاج اسے قبول کر پانے سے عاجز ہو۔
عبدالرحمن کاردار، نور محمد، نادرہ، رقیہ، پروفیسر نیلے اور نگار ناول کے اہم کردارہیں۔ فلیش بیک کی تکنیک پر لکھا گیایہ پورا ناول عبدلرحمن کاردار اور ان کے پڑوسی دوست پروفیسر نیلے کے مابین ہوئے مکالمے کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔عبدالرحمن اور نور محمد دونوں جاگیردارانہ نظام کے پروردہ ہیں۔ہندوستان کی آزادی اور ملک کی تقسیم کے بعد سبھی کے اندرمحنت و مشقت کے ذریعہ آگے بڑھنے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا جذبہ پیدا ہوا تو رفتہ رفتہ معاشرے سے چھوٹے بڑے کا فرق ختم ہو گیا۔ وہ تمام لوگ ترقی کی راہ پر گامزن ہوکر پہلے سے بہتر حالات سے ہم کنار ہوے جو محنت مشقت کر سکتے تھے لیکن جاگیرداروں نے چونکہ کبھی محنت نہیں کی تھی، اس لیے ان کے لیے محنت کرکے ترقی کرنا ممکن نہ ہوا ،اس لیے ایک لازمی نتیجے کی طرح ان کا زوال شروع ہوگیا۔ محنت کرنا ان کی شان کے خلاف تھا۔ عبدالرحمن کا بچپن ایسے ہی ماحول میں گزرا تھاجہاں لوگ جھوٹی شان و شوکت کو قائم رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ توہم پرستی اتنی بڑھ گئی تھی کہ لوگ خود سے زیادہ جن، دیو وغیرہ جیسی ماورائی قوتوں پر بھروسہ کرنے لگے تھے۔ وہ کسی بیماری کا علاج کسی معالج سے کرانے کے بجائے پیروں کی خانقاہوں اور درگاہوں میں جانا پسند کرتے تھے۔ چنانچہ ضرورت تھی تو لوگوں کے عقیدے کے مطابق اس طرح کے سفلی عمل کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی جو مذہب کے نام پر سیدھے سادے شریف لوگوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرتے تھے۔ ناول نگار نے مولوی محفوظ کے کردار کے ذریعے ایسے پیروں کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ مولوی محفوظ پہلے نظر محمد کو ، جو نور محمد کے والد تھے،بے وقوف بناتے ہیں اور ان کی اہلیہ پر سے جنات کا سایہ بھگانے کے نام پر موٹی رقم وصول کرتے ہیں۔ پھر بلند حویلی میں خزانہ دفن ہونے کی جھوٹی کہانی بنا کر عبدالرحمن کے گھر والوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ دھیان سے دیکھیں تو آج بھی ایسے پیروں فقیروںکی کمی ہے نہ ہی ان پر بھروسہ کرنے والے لوگوں کی۔ اس طرح ناول نگار نے اپنے اس ناول میں اس وقت کے لوگوں کی سوچ، ان کے رہن سہن کا طورطریقہ غرض کہ ان کی پوری زندگی کی حقیقی تصویر بڑی کامیابی سے پیش کی ہے۔ لیکن ہمیں حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جاگیردارانہ نظام کے زوال کا اندازہ خوداکثر جاگیرداروں کو بھی تھا۔ چنانچہ ان کی فکر میں بھی نمایاں تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ مندرجہ ذیل اقتباس اسی بات کی واضح عکاسی کرتا ہے:
’’دبی زبان میں ابا حضور کو سمجھایا کرتے۔۔۔۔۔
سب چھوٹے بڑے ہو جائیں گے۔ جو کل تک ہمارے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرتے تھے دیکھو آج کیسے سینہ تان کر چل رہے ہیں۔ یہی آزادی کی سوغات ہے، جس نے بڑے چھوٹے کے فرق کو ہی ختم کر دیا اس آہٹ کو سنو وسیع ورنہ یہ برا وقت تمہیں نگل جائے گا۔
ابا قرآن شریف اور حدیث کو لے کر بیٹھ جاتے۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز۔ کہاں ہے کوئی چھوٹا بڑا؟ جو محنت کرے گا فصل اسی کی ہے۔
کر سکوگے محنت؟
کیوں نہیں؟
سوچ لو۔ اسی جاگیردارانہ نظام میں پلے بڑھے ہو سونے کا چمچہ لے کر۔ اب اس چمچے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی ہندوستانی معاشرے میں کتنی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں تھیں۔ لوگوں کے سوچنے، سمجھنے کا نظریہ بدل رہا تھا۔ ایک باپ اور بیٹا دونوں ہی جاگیردارانہ نظام سے وابستہ ہیں۔ مگر اس کے باوجود دونوں کی سوچ سے نمایاں ہونے والا فرق حیران کن ہے۔ تعریف کی جانی چاہیے کہ ناول نگار نے انتہائی چابک دستی اور مہارت سے جاگیردارانہ نظام کے عروج و زوال کا نقشہ کھینچا ہے۔
عبدالرحمن اسی بدلتی ہوئی تہذیب کا نمائندہ ہے۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، باشعور اورصاحب عقل شخص ہے۔ بدلتے ہوئے معاشرے پر اس کی گہری نظر ہے۔ اس کے اندر حالات کو بدلنے کی بھی صلاحیت ہے اور حالات کے تقاضوں کے مطابق خود کو بھی بدل سکتا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو حالات کا رخ بدل سکتا تھا۔ مگر اس کی فطرت میں سہل پسندی ہے۔ ناول نگار نے عبدالرحمن کے کردار کے ذریعہ اس دور کے انسان کا نقشہ کھینچا ہے جو کہ صرف اپنی فکر کرتا ہے۔ اپنے لیے جیتا اور اپنے لیے مرتا ہے۔ اگر وہ چاہتا تو نور محمد کو سمجھا کر نگار کو خاموش موت دینے پر مجبور کر سکتا تھا۔ یا تھوڑی سی ہمت دکھا کر نادرہ سے شادی کر سکتا تھا تو جوانجام ہوا اس سے مختلف اور بہتر انجام کی توقع کی جا سکتی تھی۔ مگر وہ حالات کے سامنے سر جھکا دیتا ہے۔در حقیقت عبدالرحمن ساری زندگی صرف آسان راستہ اپناتا ہے۔ اسے جہاں جو راستہ آسان لگا اسے چن لیا۔اس کے مقابلے میں نور محمد کا کردار دوسرے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے آمادہ ہو جانے والا کردار ہے۔ اصل محبت تو نور محمد نے کی، نادرہ کے لیے اس نے اپنی زندگی قربان کردی۔ نور محمد کے کردار کو دیکھ کر فانیؔ کا یہ شعر بے ساختہ یاد آتا ہے ؎
ہر نفس عمر گذشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
نور محمد کو زندگی میںخوشیاں کم دکھ درد اور پریشانیاں زیادہ ملیں۔ بچپن سے ہی ماں کو بیمار اور باپ کو پریشان حال دیکھا۔باپ کی لاکھ کوششوں کے باوجودماں صحت یاب ہونے کے بجائے انتقال کر گئیں۔ کچھ ہی دنوں میںاس کے بعد باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ تب نادرہ اس کی زندگی میں آئی۔ اپنی محبت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جانے پراس کے کچھ دن تو اچھے گزرے لیکن اس کے بعد نادرہ بھی بیمار رہنے لگی۔ اس کے علاج کے لیے اس نے بہت پریشانی اٹھائی مگر نادرہ کی صحت دن بدن گرتی ہی رہی۔ پھر اس کی بیٹی نگار کی پیدائش ہوئی۔ بیٹی کے پیدا ئش نور محمد کے لیے غموں کا ایک اور سیلاب ثابت ہوا۔ کیونکہ اس کی بیٹی عام بچی نہیں تھی۔وہ بیمار تھی۔ اس کو رونے کا دورہ پڑتا تھا۔ رونا شروع کرتی تو اس طرح مسلسل روئے جاتی کہ اسے چپ کرنا یا سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ یہاں تک کہ اس کا جسم نیلا پڑ جاتا، سانسیں اکھڑنے لگتیں اور ایسا لگتا کہ بس اب دم نکلا کہ تب۔ اس نے متعدد ڈاکٹروں سے نگار کا علاج کرایا، پیسہ پانی کی طرح بہایا مگر نگار کی طبیعت میں ذرا بھی افاقہ نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ علاج سے بچی کے رونے میں کمی تو آسکتی تھی مگر وہ پورے طور پر صحت یاب نہیں ہو سکتی۔ لیکن نور محمد پر امید رہا۔ اسے لگتا کہ وہ نگار کا علاج کرا ئے گا۔ جھاڑ پھونک کرائے گا تو وہ ٹھیک ہو جائے گی۔اسی امید کا دامن تھامے نور محمد نے نگار کے لیے درگاہوں، تانترکوں اور ملائوں کے چکر لگانا شروع کردیا، نادرہ سے کیے گئے وعدے کے مطابق وہ اس کی واحد نشانی نگار کے تحفظ اور اس کے علاج کے لیے وہ خود کو بھی بھول جاتا ہے اور پوری طرح سے نگار کی دیکھ بھال میں گم ہو جاتا ہے،جس کے سبب وہ رفتہ رفتہ خود اعتمادی کی دولت سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔چنانچہ اس کی زندگی میں چھوٹا بڑاکسی طرح کا مسئلہ درپیش ہو ، وہ نہ صرف عبدالرحمٰن سے مشورہ کرتا ہے بلکہ اس کی ہر بات کو من و عن ماننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
اس کی بیٹی نگار دھیرے دھیرے بڑی ہونے لگتی ہے۔عمر کے ساتھ ساتھ اس کے رونے اور اسے آنے والے جھٹکوں میں کمی آنے لگتی ہے۔ لیکن اسی عمرکے بڑھنے کے ساتھ ہی نور محمد کو اس کی دیکھ بھال میں پریشانی ہونے لگتی ہے۔ ایک ہوش و حواس سے عاری جوان لڑکی کہ نہلانا، دھلانا ، اس کے کپڑے تبدیل کرانا، یہ سارے کام خود اسے ہی کرنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ ایسی بیمار لڑکی کی پرورش و پرداخت کے لیے کوئی ملازمہ بھی تیار نہیں ہوتی۔ایک باپ کے لیے یہ مرحلہ انتہائی سخت تھاپھر بھی وہ ہار نہیں مانتا ۔ وہ خود پر قابورکھ کر نگار کی دیکھ بھال کرتا ہے ۔ ایک دن نور محمد کے گائوں کا ایک رشتہ دار انور آتا ہے۔ عبدالرحمن کے مشورے کے برخلاف وہ اسے اپنے گھر میں رکنے کی اجازت دے دیتا ہے۔لیکن ساتھ ہی وہ انور کو سخت ہدایات دیتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے۔ دوسرے ہی دن جب نور محمد دفترسے واپسی پر دیکھتا ہے کہ نگار کپڑوں سے بے نیاز بے ہوش پڑی ہے اور کمرے کا سارا سامان بکھرا ہوا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ انور نے اس کی بیٹی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ضرور کیا ہے۔ اس کا غصے سے برا حال ہو جاتا ہے۔ایک طویل تو تو میں میں کے بعد وہ انور کو اپنے گھر سے نکال دیتا ہے۔ لیکن اس حادثے کے نتیجے میں نگار کی زندگی میںکچھ انقلابی تبدیلی آتی ہے۔اس کی آنکھوں میں حرکت پیداہوتی ہے تو نور محمد خوش ہو جاتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ اس میں نفسانی خواہش بھی بیدار ہو جاتی ہے۔دونوں کا ہر وقت ساتھ رہنا اور لڑکی کا وقت بے وقت اس سے اپنی خوہش کی تکمیل کی کوشش کرتے رہنانور محمد کے لییت خاصا صبر آزما مرحلہ تھا۔چنانچہ ایک دن وہ اپنے آپ پر قابو رکھنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور ایسا بہت کچھ ہو جاتا ہے جس کی سماج کسی بھی حالت میں اجازت نہیں دیتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ نگار کی ضد کے آگے خود کو مجبور اور بے بس پاتا ہے۔اور قدرت کی اس آزمائش میں اسے ناکامی کا منھ دیکھنا پڑتا ہے۔ نگار حاملہ ہو جاتی ہے اور اس طرح ناول کی کہانی ایک ایسے موڑ پر پہنچ جاتی ہے کہ قاری کے دل پر ہتھوڑے برسنے لگتے ہیں۔
یہاں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ نور محمد کی زندگی میں جبرکا اظہار کرنے کے لیے ناول نگار نے اتنا بڑا قدم اٹھانے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اور بھی کئی راستے ممکن تھے جن کی مدد سے کہانی کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ مثلاً دونوں خودکشی کر لیتے یا نگار کو پیدائش کے بعد خاموشی سے موت کے حوالے کر دیا جاتا یا پھر اس کو کسی اسپتال، یتیم خانے یا کسی دوسری محفوظ جگہ پر بھیج کروہ اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کر تا۔ مگرمصنف نہ یہ سب نہیں کیا۔ کہانی کی روانی اور صورت حال کا تقاضا ظاہر کرتا ہے کہ مصنف کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ مصنف نے شاید یہی ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان کا وجود قدرت کے ہاتھ میں ایک کھلونا ہے، اس کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ سب کچھ اسی قدرت کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت وقوع پذیرہوتا ہے۔ اور انسان محض وہ کرتا ہے جو اس کا مقدر ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہ ناول ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘ایک ماہر فن کار کا بے مثال کارنامہ ہے۔اس ناول کو پڑھنے سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اب اردو ناول ایام بلوغت میں داخل ہو رہا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ مصنف کے قلم سے ابھی اس نوع کے اور بھی ناول منظر عام پر آئیں گے۔