انسانی معاشرہ، اخلاقیات، تہذیب و ثقافت،جاگیر دارانہ نظام ،صنعتی انقلاب،تقسیم ملک،فرقہ وارانہ فسادات،دہشت پسندی ،انسانی زندگی اور اس کی ناہمواریوں، نیز پیچ و خم اور شکست و ریخت پر اکثر تخلیق کاروں نے اپنے مشاہدے اور شعور بھر اظہار خیال کیا ہے۔ آج شاعری اور کہانی دونوں میں ان حقائق کوحتی الامکان پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے عہد کے معتبرفکشن نگارمشرف عالم ذوقی کے یہاں بھی یہ موضوعات بہت روشن ہیں۔ان کے افسانوں اور ناولوں میں یہ موضوعات اور تجربات ایک نئے اختراعی ذہن اور ایک منفرد فکر و نظر کا اعلان کرتے ہیں اور ہمیں ایک نئی سمت ،ایک نئے ڈائمنشن اور ایک نئی سچوئیشن سے متعارف کراتے ہیں، ساتھ ہی تحیر و استعجاب کے ہفت رنگ در بھی وا کرتے ہیں۔یہ وہ خوبی ہے جو آج اردو فکشن میں خال خال نظر آتی ہے۔ ذوقی اپنے ایک مضمون ’جدید حقیقت نگاری بنام آج کی اردو کہانیاں ‘ میںیوںرقم طراز ہیں :
’’ اردو کا اچھا ادب فرقہ وارانہ فسادات یا حادثوں کی کوکھ سے بر آمد ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا بھیانک سچ ہے جس پر از سر نو تحقیق کی ضرورت ہے ۔‘‘
اس مضمون میں انہوں نے ہندستان اور پاکستان کے کئی فکشن نگاروں کے نام لیے ہیں اور اس امر پر اطمینان ظاہر کیا ہے کہ اب ادب نے کھلی ہوا میں سانس لینا شروع کر دیا ہے۔ آسٹریلیا میںمقیم پاکستانی ادیب اشرف شاد کا خاص طور پر ذکر ہے، جن کے دو ناول’بے وطن‘ اور’ وزیر اعظم ‘آج کے پاکستان کی تصویر کشی کرتے ہیں۔اس ٹرائیلوجی کا تیسراحصہ ’صدر اعلیٰ‘ کے نام سے عنقریب منظر عام پر آنے والا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اکیسویں صدی کا فکشن ایک مختلف رنگ اور بامقصد شکل میں ہمارے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ذوقی اس قبیل کے فکشن نگاروں میں خاصے اہمیت کے حامل ہیں۔ان کے افسانے اور ناول اس حقیقت کے غماز ہیں کہ وہ جو کچھ لکھتے ہیں ،بہت سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں۔ اسی کے ساتھ خوبی یہ بھی ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ انتہائی بے باک اور نڈر ہوتے ہیں ، ایسی تمام مصلحتوں اور لاگ لپیٹ سے پرے جو بد قسمتی سے آج زیادہ تر تخلیق کاروں میں پائی جاتی ہے۔اس حوالے سے ’نیلام گھر‘’بیان‘پوکے مان کی دنیا‘’شہر چپ ہے‘اور ’پروفیسرایس کی عجیب داستان وایا سونامی‘ جیسے ناول مشرف عالم ذوقی کی غیر معمولی ذہانت ،زندہ احساس اور عصری شعور کے گواہ ہیں۔ان کا حالیہ ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جو تہہ دار بیانیہ اور دو ٹوک لہجہ میں حقیقت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے، جہاں عقائد، نظریات، اخلاقیات، تہذیب و ثقافت ،سماجی جبر و استحصال، سائنس اورٹکنالوجی کی دوڑتی بھاگتی دنیا، انٹرنیٹ اور گلوبلائزیشن کے اثرات اور ان سب کے مرکز میںموجود ’انسان‘(؟)، اس کی شناخت،حیثیت اور بقا کے معاملات و مسائل پر ایک متردد اوردرد مندذہن ہم سے محو گفتگو ہے۔
اب سائبورگ ganism) (Cybernetic orکی آمد اور مصنوعی ذہانت اور دماغ سازی کو مزید حقیقتوں سے ہم کنار کرنے کی بھر پور کوششوں نے بہت حدتک انسان /فرد یا ذات کے تار و پود کو منتشر کرنا شروع کر دیا ہے اور انسانی رشتوں اور اقدارکاایک نیا زاویہ اور نیامفہوم سامنے آرہا ہے۔یوں اس کی حیثیت ،شناخت اور بقا پر سوالیہ نشان قائم ہو رہاہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ ایسی تمام تر کوششوں کے بعد بھی انسان کو اس کے مقام سے ہٹاپاناکس حدتک ممکن ہو سکاہے یا ہوگا؟اس کی ایک بڑی مثالOn The Origin of Species(1859)میںپیش کردہ ڈارون کا نظریہ ہے۔یہ انسانی اشرفیت کو تار تار کرنے کے لیے کیاکم تھا؟
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں انسانی حوالوں کی نوعیت میں جیسی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے اثرات ہمارے ناول پر بھی مرتب ہوئے۔بیسویں صدی کے اختتام تک ان میں مزید تبدیلیاں رو نما ہوگئیںاور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ انگریزی زبان کے فکشن نگاروں نے ان تبدیلیوںکوبہ طورخاص محسوس کیا اوراس موضوع کی مختلف جہات پر محیط متعدد ناول پیش کیے ،جوعالمی سطح پر نئے ڈسکورس کی بنا بنے۔ Aldous Huxleyکا ناول Brave New World(1932) مستقبل کی طرف دوڑتی ہوئی دنیا میںانسانی تشخص کے زیاں پر محیط خیالات کو اپنے سائنسی فکشن کے کرداروںکے توسط سے پیش کرتاہے۔ Clash of Civilizations(1992) میں Samuel P Huntington اس حقیقت کے معترف ٹھہرتے ہیں کہPost-Cold War Worldمیںانسان کی تہذیبی اور مذہبی شناخت ہی باہم تصادم کی وجہ بنے گی۔ 1996 میںیہی نظریہ کتابی شکل میں The Clash of Civilizations and the Remaking of World Order کے نام سے منظر عام پر آیا۔1992میںشائع ہونے والی Francis Fukuyamaکی کتاب The End of History and the Last Manمیں یہ دلیل پیش کی گئی کہ مغربی آزاد خیال جمہوریت کی آمد انسان کی معاشرتی - ثقافتی تشکیل اور نشو نماکے خاتمے کا اشاریہ ہو سکتی ہے اور یہ انسانی حکومت کی حتمی شکل ہوگی۔ اردو میں ذوقی کا حالیہ ناول ’لے سانس بھی آہستہ‘ ایسے ہی معرکہ آراناولوںکی فہرست میں ایک اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔آگے گفتگو سے پہلے ’لے سانس بھی آہستہ‘ کے آخری حصہ’آخر میں دعا‘ سے یہ فقرے دیکھیں:
’’سب کچھ ختم ہو چکا ہے/ یہاں پرانی نشانیاں تلاش کرنے والے لوگ بھی نہیں/سب کچھ ختم ہو چکا ہے/ایک بھیانک سیلاب/یا ایک بھیانک تباہی/یہاں سب کچھ ہالی وڈ کی فنتاسی کی دنیا سے بھی کہیں زیادہ بھیانک ہے۔‘‘
یہاں Alvin Toffler کی تین کتابیںFuture Shock(1970) ،The Third Wave(1980) اور Power Shift(1990)بھی یاد آتی ہیں۔’فیوچر شا ک ‘میںافراد اور معاشرے کی کچھ مخصوص نفسیاتی کیفیات کابیان ہے۔دوسرے الفاظ میںیہ ایک قلیل عرصے میںبڑی تبدیلیوںکا ذاتی ادراک بھی ہے۔’دی تھرڈ ویو‘میں ٹافلر نے معاشرے کو لہروں سے تعبیر کرتے ہوئے اسے تین قسموںمیں تقسیم کیا ہے: زرعی،صنعتی اور تکنیکی۔اصولاًان میں سے ہر ایک لہر قدیم معاشرہ اور تہذیب کو ایک طرف کردیتی ہے ۔موجودہ عہدمابعد صنعتی معاشرے کا عہد ہے، یعنی یہ تیسری لہر ہے، جہاں نئی ٹکنالوجیزمعاشرے کے مزاج کو متاثر کر نے لگی ہیںیا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی ان ٹکنا لوجیز سے مستفید ہونے کے لیے کسی حد تک خود کو تبدیل کرنے لگ گئی ہے۔اب معاشرے میں ہونے والی سرعت انگیزتبدیلیوں،انسانوں پر ان کے اثرات، مستقبل کے چیلنجز اور امکانات،خصوصاًسائنس اور اس کی مختلف شاخوں،میڈیا ، کمپیوٹر،انفارمیشن ٹکنالوجی اور ان سے متاثر ہوتی ہوئی پوری دنیا ایک کش مکش،الجھن اور انتشارکا شکار ہے۔اس صداقت کی دو اہم اور نمایاں پرتیں ہیں۔ایک تو یہ کہ موجودہ صدی میں سائنس اور ٹکنالوجی کے اثرات کے باوجود اس سے بد گمانی باقی ہے اور اس کے منفی اور تخریبی پہلوئوںپر نظریں زیادہ کشادہ ہیں۔ایک عام انسان آج بھی سائنس کی قربت کو لا مذہبیت سے تعبیر کرتا ہے۔یہ تو انسانی رویے کی بات ہوئی، اب دوسرا معاملہ خود سائنس کا ہے کہ وہ اپنی تمام تر اہمیت، عقلیت اور معروضیت کے باوجود ’انسان ‘ سے خود کو علاحدہ نہیں رکھ سکتی اور اس کے معاملات و مسائل کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اب سائنس دانوں کی توجہ اس علم کو انسانی ،اخلاقی اور روحانی بنانے کی طرف ہو رہی ہے۔ آئن سٹائن کے اس قول میںکتنی صداقت اور کیسا شعور پوشیدہ ہے کہ’ بغیر سائنس کے مذہب لنگڑا بن جاتا ہے اور بغیر مذہب کے سائنس نا بینا۔‘لہٰذا تیزی سے بدلتی اس دنیا میں ان دونوں کے بیچ ایک توازن ناگزیر ہے۔اس حوالے سے غالب،حالی،اقبال اور سرسید کی تحریریںاورحقیقت نگار ی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
’لے سانس بھی آہستہ‘ کی زیریں لہروں میںیہ اثرات کافی حد تک نمایاں ہیںاور ہمیںوقت کی اس نئی دستک کو سنتے ہوئے خود کو سنبھالا دینے کے لیے تیار کرنا ہے۔اکیسویں صدی کا فکشن کیسا ہونا چاہیے ،یہ ناول اس کی مثال ہے ۔واقعات و حادثات محض وقتی اور علاقائی نوعیت کے نہیں ہیں، بلکہ ان میں ایک گلوبل ٹچ ہے، جہاں احساسات صرف کہانی یا کردار تک ہی محدود نہیں ہیں، بلکہ ان کے ذریعہ وہ عالمی مسائل کی صورت سامنے آتے ہیں۔ذوقی کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ مختلف علوم سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں،جو ان کی وسیع فکری کینوس کا اظہاریہ ہے۔وہ ایک مکمل طور پر باخبر انسان اورفکشن نگار ہیںاور یہی وجہ ہے کہ پیش نظر ناول' Bare facts' اور'Hard facts' سے عبارت ہے۔اس ناول سے ایسی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے ذوقی کے بین العلومی مطالعہ اور ان کی باخبری کے ثبوت فراہم ہوتے ہیں۔انہوں نے واقعات اور سیاق و سباق کی مناسبت سے نکالائی گوگول کی کتاب ’ڈیڈ سولس‘،چارلس ڈکنس کی’ اے ٹیل آف ٹو سیٹیز‘ ،البیئر کامو کے ناول’ د پلیگ‘ کے کردار ڈاکٹر ریو کے علاوہ آئن سٹائن ،رائیڈرس ہیگررڈ،او ہنری ،میکسم گورکی وغیرہ کے افکار کو حوالے کی صورت میںپیش کیا ہے، جو یقیناً ان کے وسیع مطالعہ کا ثبوت ہے۔ ابن انشا، داغ اورمولانا روم کے اشعار بھی بر محل استعمال کیے گئے ہیں۔ان کے علاوہ ہڑپا،موہن جداڑو سے قدیم مصر،بے بی لون،یونان اور روم کے حوالے تہذیبوں کے آغاز اور خاتمہ کے سلسلوں کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
ناول کے حصہ اول ’کاردار خاندان کے آثار‘ میںافتتاحی چند صفحات کو ہم ناول کا Curtain raiserکہہ سکتے ہیں ۔اس میںجن امور پر نگاہ کی گئی ہے ان میں مذہب اور اخلاقیات، گناہ اور ثواب،جائز اور نا جائز کی انوکھی تقسیم اور انسانی نفسیات،جنسی اخلاق کے پہلو اوران سے وابستہ دل خراش حقائق کی باز گشت ہے توانسانی فطرت، قدرت اور اس کے طریقہء کارکے حوالے ہیں،آسیب،جنات،جھاڑ پھونک اور غیر مرئی قوتوں کاجادو ہے، جنریشن گیپ کا مسئلہ ہے توابراکسس ،والٹیر، روسو ،ہنگٹن، سارترے، ڈارون اور فرائڈکے نظریات کی چھان بین بھی ہے ،جہاںانسانوں سے لے کر جانوروں تک نئی اخلاقیات کی مثالیں ہیں،مثلاًآسٹریلیا میں ایک بلی کے لیے شیرنی کا محافظ بن جانا،کتے اور بھالو کا ساتھ ساتھ کھیلنا، برطانیہ میںماں باپ بننے والے سب سے کم عمر جوڑے کی کہانی- 13سالہ لڑکا ایلفی پیٹن اور 15 سالہ لڑکی چنٹیلے سٹیڈمین اور ان کے ننھے بچے،سائبر ورلڈ،نئی ٹکنالوجی،جینوم ،ڈی ان اے، بدلتی ہوئی دنیا،بدلتا ہوا نظام،گلیشیر کا پگھلنا،سائبیریا میں گھاس کااگنا،ماحولیات کاتحفظ اور کوپن ہیگن کا ڈرامہ ، شئیر بازار کا گرنا،امریکی کرنسی کا ڈپریشن،نئی بیماریوں اور نئے وائرس کے ساتھ لڑتے ہوئے لوگ،جنسی تشدد اور ایک سنگین زندگی کی منہ بولتی تصویریں ہیںتووہیں فسادات، بر صغیر کی تقسیم،بابری مسجد،رام جنم بھومی معا ملہ، 9/11سے گجرات اور 26/11تک ایک خوف زدہ کردینے والی دنیا بھی روشن ہے اوربین الاقوامی معاہدے،سمجھوتے،قوانین،کاغذی قواعد و ضوابط کا بیان بھی ہے...اپنی پوتی سارہ اوراپنے رفیق، مشیر و ناصح پروفیسر نیلے سے راوی عبدالرحمن کی گفتگو ،یہ سب مل کر قاری کے لیے ایک سنجیدہ فضا قائم کرتے ہیں کہ آگے اسے ایک بدلتے موسم کی کہانی کے ساتھ سفرکرناہے۔ ان باتوں کے پیش نظر یہ بھی عیاں کرنا مقصود ہے کہ انسانی ترقی اور کامیابی کی کہانیاں ہی دراصل انسانی بربادی کی بھی اصل وجہ ہیں۔ ذوقی ان تمام سمتوں میں سفر کرتے ہیں اوراس کی روشنی میں حالات و حقائق کا ایک نیا تصور پیش کرتے ہیںاور یہی ان کا اختصاص ہے۔ اس پس منظر میں ناول کا نام ’ لے سانس بھی آہستہ‘اپنے آپ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے اور ناول نگار کی ابلاغی صلاحیت اور اس کی فکری پروازکا مظہربھی۔موجودہ طرز حیات،آزاد روی اور فکری رویوں کے پیش نظر مستقبل کی جس دنیااور جس تہذیب کے اشارے فراہم کیے گئے ہیں ان کی روشنی میںاس ناول کا اس سے بہتر کوئی اور خود آشکارعنوان نہیں ہو سکتا تھا۔
پروفیسر محمد حسن نے ناول شناسی کے حوالے سے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ کوئی ناول تین بار کی قرأت کے بعد ہم پر کھلتا ہے۔ پہلی بارپڑھتے ہوئے قاری پوری طرح ناول نگار کے ساتھ ساتھ چلے اوررکے، تاکہ وہ ناول کے مزاج سے خود کوہم آہنگ کر سکے ساتھ ہی وا قعات وکیفیات اور کرداروں سے بھی واقف ہو جائے۔ آخر میںیہ نتیجہ ا خذ کرے کہ اس سفر میں اسے کیسا لگا۔اب دوسری بار ناول کا پہلا حصہ بعد میں پڑھے اور وا قعات وکیفیات اور کرداروں کے درمیان تسلسل اور اثر آفرینی کا جائزہ لے۔تیسری بار ذرا اور گہرائی سے پڑھتے ہوئے اس فضا یا اثرآفرینی کا باہمی ربط پورے ناول کے سیاق و سباق میں پرکھے۔ تب یہ معلوم ہو سکے گا کہ ناول کسی نئی دنیا کی بشارت دینے میں کامیاب ہو پایا ،یانہیں۔’لے سانس بھی آہستہ ‘کے ساتھ میں نے بھی کچھ اسی اصول کی پیروی کی ہے اور ایسا کرتے ہوئے مجھ پرجو نئی دنیا کھل پائی ہے، وہ بہت وسیع ہے۔اس پر کسی ایک حوالے سے گفتگو تشنہ رہے گی ،مگرحقیقت یہ بھی ہے کہ ایک مختصر سامضمون ان تمام حوالو ںکو سمیٹنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔عام طورپرہوتا یہ ہے کہ کسی تخلیق میں موجزن فکر،احساس،ذہانت ،زبان ، بیان، لسانی تشکیلات ،ہنر مندی ،کردار نگاری ،موضوع ، اسلوب،واقعات، وغیرہ وغیرہ پر خوب باتیں ہوتی ہیںاور پھر ’اچھا ،یا’برا ‘ کی سند دے کرخاموشی چھا جاتی ہے۔اس پر کوئی مکالمہ قائم نہیں ہوپاتا۔چلیے ،کوئی عام سی تخلیق ہو تو گوارہ کرلیں، مگرجب ’لے سانس بھی آہستہ ‘ جیسی کوئی تخلیق سامنے آتی ہے، جہاں حیات و کائنات کے رموز و اسرارپنہاںہیں،جہاں انسانی تشخص،اس کی بقا اور اس کے مستقبل کے مسائل زندہ ہیں ،جہاں زمان و مکان کے بدلتے شعور کی باز گشت ہے اور سب سے بڑھ کرجہاںخواب ہیں ،ایسی کسی تخلیق سے سرسری گزر جانا حساس ذہنوں کے لیے ممکن ہی نہیں ہے۔مشرف عالم ذوقی کا یہ ناول اپنی ان ہی انفرادی خصوصیات کی بنا پرہم سے ایک نئے ڈسکورس میں شامل ہونے کاتقاضہ کرتا ہے۔
موجودہ صدی میں اردو فکشن کا بیانیہ ایک نئی تخلیقی قوت اور توانائی کے ساتھ سامنے آیا ہے جس کی ہندستان اور پاکستان میں متعدد مثالیں موجود ہیں۔اس پر آغاز میں مختصرسی گفتگو کی گئی ہے۔ علامتیت اور تجریدیت اب حرف آخر نہیں رہے۔یہ تبدیلی بدلتے عصری تقاضوںکے ساتھ نہ صرف چیلنجز لے کر آئی ہے بلکہ امکانات کا عکس نامہ بھی پیش کرتی ہے۔ آج وہی فکشن پڑھا جائے گا جو کھلے ذہن اور کشادہ دل سے لکھا جائے گا۔مشرف عالم ذوقی کا فکشن ایسی ہی خوبیوں سے متصف ہے۔
’لے سانس بھی آہستہ‘ کاردار خاندان کی کہانی ہے اور عبدالرحمن کاردار ہے جس کی پیدائش ہندستان کی آزادی سے ایک گھنٹہ قبل ہوتی ہے اور وہ ایک غلام تہذیب سے اچانک ایک آزاد تہذیب میںداخل ہوجاتا ہے اور یہیں سے اخلاقی اور تہذیبی تصادم کی کہانی شروع ہوتی ہے۔دراصل اس ناول کی روح اخلاقی نظریے اورتہذیبی نظام کی بنیاد میں پیوست ہے اور جس کا پڑائو مستقبل ہے۔راوی اپنے محسوسات و تجربات ،آلام و مصائب اور حادثات و صدمات کو بیان کر نے کے لیے حد درجہ بے قرار ہے ۔اس حوالے سے راوی اور پروفیسر نیلے کا تجربہ ،گفتگو اور مباحث سے قاری کے لیے راہیں کشادہ ہوتی ہیں تاکہ وہ موجودہ اور خصوصاً آئندہ انسانی تہذیب و ثقافت اورمسائل و معاملات سے صرف آشنا ہی نہیں بلکہ ان سے نبرد آزما بھی ہو سکے۔ لہٰذا یہ حقیقت بہت نمایاں ہو جاتی ہے کہ اردو کے بیشتر ناولوں کی طرح اس ناول کا بیانیہ اکہرا نہیں بلکہ تہہ دار ہے ،یہاں صرف ادراک ہی نہیں نفسیات بھی ہے،یہاں خود نوشت اور تاریخ نگاری کا انداز بھی نظر آتا ہے۔اپنے موضوع اور ٹریٹمنٹ کے لحاظ سے بلاشبہ یہ ناول Off beat زمرے میں رکھا جائے گا۔ موضوع کی سمتیں واضح کرنے اور فکری کش مکش کے اظہار کے لیے ناول کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حالات و معاملات اور ذہنی کیفیات کے اظہار کے لیے ناول نگار نے ہر حصے کی شروعات میں تعارفی اشاروں، مختصر فقروں ، لطیف استعاروں اور جامع تمثیلوں سے اپنا مدعا بڑی خوب صورتی سے ادا کیا ہے، جن سے قاری پر آگے کے صفحات روشن ہو جاتے ہیں۔ کہیں کہیں قاری کے ساتھ براہ راست مکالمہ بھی ذوقی کے منفرد اسلوب واظہار کاثبوت بن کر سامنے آتاہے۔ وسیع الرحمن کاردار اور نظر محمدکاشجرہ بھی اسی خوبی کا مظہر ہے۔ ناول کی زبان میں روانی اور بے ساختگی ہے۔کہیں کہیںعام علاقائی اثرات کے حامل الفاظ کا استعمال اور امتزاج لطف دیتا ہے۔چاپا کل، دانت کھدوا، سینی،مرغیوں کا کڑکڑانا،میئن ، جیسے الفاظ اپنے سیاق و سباق میں ضم ہوتے نظر آتے ہیں اورناول کومشترکہ تہذیب اور حقیقتوں سے قریب کرتے ہیں۔
ناول کا حصہ اول ’کاردار خاندان کے آثار‘ کی شروعات میں ’’پنجرہ ٹوٹ گیا ہے/پرندہ اڑگیا ہے‘‘ اور’’کبھی کبھی قدرت کے آگے ہم بے حد کمزور ہو جاتے ہیں اورسپر ڈال دیتے ہیں‘ ‘جیسے فقرے آگے کے سطور کا پس منظر واضح کر دیتے ہیں جن کی معنویت کہانی کے ساتھ ساتھ کھلتی چلی جاتی ہے ۔ اسی صفحہ پرHermann Hesse کے ناولDemianسے ایک قول نقل کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک یہ انتخاب بہت اہم ہے اورذوقی کے عمیق مطالعے اور باریک بینی کی دلیل بھی۔اس کی دووجوہ ہیں۔اول تو یہ کہHermann Hesse کی طرز فکرمیں ہندستانی مذاہب اور فلسفے کاخاصادخل ہے ۔ دوم یہ کہEmil Sinclair کے عالم شباب کی کہانیDemianادبی تنقید کےBildungsroman یا Coming-of-age stories کے زمرے میں آتی ہے، جہاںکسی کردارکی نوجوانی سے سن بلوغت تک پہنچتے ہوئے اس میں جو نفسیاتی اور اخلاقی بالیدگی پیدا ہوتی ہے ان پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔کردار میںتبدیلی اور اپنی ذات کی دریافت دراصل اس کی بنیادی خصوصیات ہیں۔اس زمرے کی کہانیاں ہمیں ایک ایسے حساس کردارکی نشو ونما کی روداد پیش کرتی ہیں، جوسوالات اور تجربات کے جواب کی تلاش میں سرگرداں رہتاہے۔ یہاں کچھ کے کردار مہّمات اور اندرونی کش مکش و اضطراب سے گزرتے ہیں اور انہیںجنگ ،تشدد،فساد،نسلی منافرت ،سفاکی،بے رحمی اور موت کی سچائیوں کا سامنا کرنا پڑتاہے تو کچھ کے سروکار خاندان،احباب اور معاشرے تک محدود رہتے ہیں۔ اس حوالے سے Great Expectationsاور The Adventures of Huckleberry Finn کی مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔’لے سانس بھی آہستہ ‘جس زمین پر استادہ ہے اور کرداراپنی ذات کو جس طرح دریافت کرناچاہتا ہے ،یا عبدالرحمن کاردار اورنور محمد کے کردار میںجس نفسیاتی اور اخلاقی تضاد و تصادم کی تصویر نظر آتی ہے وہ اسی زمرے کی کہانیوں سے قریب تر ہے۔
ذوقی نے واقعات و کیفیات اور کرداروں کے حوالے سے جس دنیا کی تصویر دکھائی ہے ،اس سے ہماری تھوڑی آشنائی توضرور ہے، مگر یہ محض آشنائی کی حد تک کافی نہیں کہ یہ قدرت و فطرت، تہذیب و ثقافت،اخلاقیات و تہذیب نفس اور انسانی ارتقا وبقا سے متعلق ہے اور ہمیں اس کی طرف انتہائی سنجیدگی سے سوچنے کی طرف مائل کرتی ہے ۔ آج سائنس و ٹکنالوجی اور الکٹرانک میڈیا کی تمام ترقیات کے بعد ہم انسان کا کیا مقام طے کر پائے ہیں؟سوال یہ ہے۔آج جب پوری دنیاایک عجیب سی ذہنی کیفیت اور انتشار میں مبتلا ہے، اخلاقی اور تہذیبی اقداررو بہ زوال ہیں اورتیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنی شناخت سراپا سوال بن کر رہ گئی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس حالت پر غور کریں، خود کے متعلق سوچیں اور یہ طے کریں کہ ہم ایک فرد اور ایک عوام کی صورت کیا ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں؟
یہ ناول واقعات و معاملات کے پس منظر میں جگہ جگہ قاری سے گفتگو کرتا ہے اورایسے سوالات قائم کرتا ہے جو انسانی معاشرہ،اس سے وابستہ مسائل، مستقبل،اخلاقی،تہذیبی اور روحانی اقدار کی از سر نو بحالی کے لیے بہت اہم ہیں۔ ایک نظر ان اقتباسات پر ڈالیں:
’’ ایک بچہ اس دنیا میں پہلی بار اپنی آنکھیں کھولتا ہے، جیسے وہ ایک نئی دنیاکے آداب و نظام سمجھنے کے لیے اچانک زور زور سے رونے لگتا ہے۔ پھر تھوڑا سا بڑا ہونے پر اسے اسکول میں داخل کردیاجاتا ہے، جہاں بے حد ہوش مندی کے ساتھ اسے بتایا جاتا ہے کہanimal Man is a social انسان ایک سماجی جانور ہے۔وہ آہستہ آہستہ اپنے سماج کی شناخت کرتا ہے ، مگر اس جانورکو کچھ لمحے کے لیے بھول جاتا ہے ،جو اب نصاب کی کتابوں سے نکل کر اس کے جسم میں پرورش پا رہا ہے۔ وقفے وقفے سے وہ جانور اس کے اندر سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔مگر ہر بار سماجیات کے ریشمی غلاف میں اس جانورکوچھپالیتاہے۔
یہ حقیقت کا ایک پہلو ہے ۔اب دوسرا پہلو بھی دیکھیں:
...مگر کیا سچ مچ وہ اس جانور کو چھپانے میں کامیاب ہے؟اخلاقیات اور سماجیات کی ہر کہانی اس جانور سے ہوکر گزرتی ہے مگر ایک وقت آتا ہے جب مذہب سے لے کر اخلاقیات کی ایک عظیم الشان دیوار ہم اپنے آگے کھڑی کر دیتے ہیں۔ایک بے حد آسان خط مستقیم پر چلنے والی زندگی، معاشرہ کا خیال ، مذہب کا خوف،ایک چھوٹا سا دائرہ اور اس دائرے میں خود کو سمیٹ کر ہم ایک پوری زندگی گزار دیتے ہیں اور ایسے میں یہ خیال جاگتا ہے کہ مذہب اور اخلاقیات کی یہ دیوار نہ ہوتی تو ...؟جیسے ابتدائی قدیم معاشرے میں ایک آزاد انہ جنسی رویہ پایاجاتا تھا۔لیکن ایک مہذب دور میں سانس لینے کے باوجود اگر ایسے رویے کہیں بھی سانس لے رہے ہیں توکیا اس کا تجزیہ ممکن نہیں؟‘‘
اس تجزیہ کے عمل سے گزرتے ہوئے ناول نگار نے ہندوستان کے1947 سے 2010تک کے سماجی، نفسیاتی، سیاسی اور تہذیبی تغیرات کی تاریخ رقم کر دی ہے،ساتھ ہی ہم زماں مسائل سے بھی علاقہ استوار رکھا ہے۔ناول نگار نے سائنس اور ٹکنالوجی کے کرامات ، میڈیا اور اطلاعاتی عہد کی سچائیوںکے پیش نظر مستقبل کے چیلنجز اور امکانات پربحث کرتے ہوئے انسانی احساسات،جذبات ،وقار،ضمیر اور آزادی کے معنیٰ و مفہوم کی تلاش بھی کی ہے اور یوں انسان کو از سر نو بحال کرنے کی کوشش بھی۔ ’غلامی سے فیوڈل سسٹم کی طرف‘ کے باب میں یہ فقرے غور طلب ہیں:
’’خلافت تحریک سے سوراج اور آزادی تک تہذیبیں ہماری پرورش کر رہی تھیںیا پھر آزادی کے بطن سے ایک نئی تہذیب سانس لینے والی تھی/ایک ڈرائونی تہذیب‘‘
’’وہ بے حد ڈرائونا پرندہ تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا اس تہذیب سے ایسے ہی ڈرائونے پرندے جنم لیںگے۔‘‘
بلند شہر میںعبدالرحمن کاردارکا خاندان آزادی کے بعد کی نئی تبدیلیوں سے سمجھوتہ نہیں کرپاتا ہے ۔کاردار کے دادا اوروالد(وسیع الرحمن کاردار) کے اپنے اپنے خیالات ہیں ۔اب جب کہ ملک آزادہو چکا ہے اور صنعتی انقلاب کے بعد جاگیردارانہ نظام کا زوال شروع ہو گیاہے،سرمایہ دارانہ نظام کی دستک جاگ اٹھی ہے— مگرکاردارخاندان نئی آہٹوں سے سمجھوتہ نہیں کرپاتاہے۔تقسیم ملک ، گاندھی جی سے اختلاف،پاکستان کوہجرت کرنے والے مسلمانوں کا ذکر،ہندستان کو اپنا ملک تصور کرنے والے مسلمان اور ان کا جذبہء وطن پرستی اور پھر زندگی بھر اپنی وفاداری ثابت کرنے کی باتیں ،نئی آزادی کے ساتھ نفرت کا غبار اور فرقہ وارانہ فسادات…اسی انتشار اور نفرت بھرے ماحول میں عبدالرحمن کارداردھیرے دھیرے بڑاہوتاہے۔ اسے یہ بھی احساس ہے کہ اس کے والد سب سمجھتے ہوئے بھی مجبور ہیں۔اس کے ہوش سنبھالنے تک اس کی ’بلند حویلی‘ اپنا وقار کھو چکی ہے۔کارداراب اسکول میں ہے اور آہستہ آہستہ سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہا ہے۔ پڑوس میں نظر محمد کاخاندان ہے۔کوٹھی وہاں بھی ویران ہو چکی ہے۔ ایک بیٹا ہے نور محمد۔ اس کی ماںہمیشہ بیمار رہتی ہے جسے نظر محمد کسی جنات کا سایہ سمجھتے ہیں اور جھاڑ پھونک کا علاج جاری ہے۔کاردارکاتحیریوںظاہرہوتاہے:
’’ایک آسیب زدہ تہذیب کے دروازے کھلے تھے۔میرے لیے یہ سب کچھ حیران کرنے والا تھا۔ کیااس چھوٹی سی دنیا میں یہ سب بھی ہوتا ہے۔ آسیب، جنات،سایہ... میں تہذیب کے نئے لائو لشکر پر سوار نئے نئے لفظوں سے متعارف ہو رہا تھا۔‘‘
حویلی کی ویرانی مسلمانوں کی حالت زار کا بیانیہ ہے توہر قسم کی ذہنی اور نفسیاتی مرض کا علاج جھاڑ پھونک میں ڈھونڈنا تہذیبی بحران کا بیانیہ۔ بارہ برس کا عبد الرحمن کاردارالجھنوں کا شکار ہے ۔اس میںایک فنکار کی آواز یوں گونجتی ہے:
’’میں اور میرا ملک سہانا/دونوں بارہ سال کے ہیں/میں اور میرا ملک سہانا/دونوں ابھی تک بچے ہیں/دونوں ہیںایک کھیل میں گم / دونوں کوڈر لگتا ہے/ میں اور میرا ملک سہانا/ دونوں بارہ سال کے ہیں‘‘
کاردار کی الجھن اور حیرت تب اور بڑھ جاتی ہے جب ایک دن مولوی محفوظ بلند حویلی میں دفن گم شدہ خزانہ کی بابت بتاتے ہیں اورحویلی کے صحن میں ایک مخصوص جگہ پر کھدائی کی تجویز پیش کرتے ہیں۔اس درمیان کاردار کے سفیان ماموںاپنی بیٹی نادرہ کے ساتھ پاکستان سے آتے ہیں۔نادرہ کی آمد کاردارکے روز و شب کو نئے تجربات اور احساسات کے حسین رنگ عطا کرتی ہے:
’’میرا جسم شور کرنے لگا تھا ...اور میں شور کرتے جسم کی آواز میں قید تھا...نیلا آسمان، پیڑ پودے،سرسراتی ہوا،
کسی کا لمس...ایک جادو وہاں تھا اور ایک جادو یہاں ہولے ہولے میرے جسم میں اترتاہوا۔‘‘
کاردار کی فکر اس کی عمر کے ساتھ جوان ہو تی ہے ۔نادرہ سے اس کی یہ گفتگوان ہی بدلتی ہوئی تبدیلیوں کا ہیجان انگیز اظہاریہ ہے:
’’کیسا ہوگا میرا مستقبل ...؟نادرہ ...مجھ میں میری عمر جاگنے لگی ہے اور یہ بڑھتی عمر اب مجھ سے سوال پر سوال کیے جاتی ہے۔ حویلی کا مستقبل کیا ہے اور تمہارا مستقبل؟یہاں آج بھی اس حویلی کے لوگ پرانی دیمکوں کو چاٹ رہے ہیں ...ان لوگوں کے پاس وقت ہی وقت ہے نادرہ...لیکن وقت بدل رہا ہے ...اور میں اس بدلتے وقت کی آہٹ کو محسوس کر رہا ہوں۔کیا تم بھی میری طرح اس بدلتے وقت کی آہٹ کو محسوس کر رہی ہو؟‘‘
نادرہ خاموش تھی۔تمہاری کچھ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں ...اتنا کیوں سوچتے ہو...بولو؟
کیوں کہ سوچنا پڑتا ہے نادرہ ...ان کے دن گزر گئے ...ہمارے شروع ہورہے ہیں ...ان کے پاس جاگیریںتھیں ...ہمارے پاس حویلی کا ڈھانچہ...ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا ...ہمارے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے اور اندھیرا ...اور مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
ان چند اقتباسات سے کہانی میں موجود اس زیریں لہر کو عیاں کرنا مقصود ہے، جہاں ایک فرد کی روز مرہ زندگی دو حصوں میں منقسم ہے۔ایک حصہ گھر کے ماحول، ماضی کی روایتوں اور مذہبی عقائد سے وابستہ ہے ،تو دوسراحصہ باہرکی دنیا اور اس کے نئے مطالبات سے علاقہ رکھتا ہے۔ دراصل ان دونوںحصوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔پہلا حصہ روایت وعقائد، تہذیب و اخلاقیات اور آپسی رشتوں کا تقدس قائم رکھنے میں بڑا کردار ادا کرتا ہے تو دوسرا حصہ ہمیں اپنی شخصیت کو کلیت کے درجہ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ ان میں سے صرف ایک کا بن کر رہ جانا اور دوسرے سے صرف نظر کرناقطعی انسانی بقا کے حق میں نہیںہے۔ ان دونوں کے درمیان اسی توازن کی کارفرمائی ہونی چاہیے، جس کی طرف میں نے اس مضمون کے آغاز میں گفتگو کی ہے۔ہر قاری یا نقاد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طور پر کسی تخلیق کا مطالعہ کرے اور اس کے ابعاداور سمت و رفتار کا تعین کرے۔ میں نے شروع میں ہی اس ناول کے ایسے ابعاداور سمت و رفتار کو نشان زد کر نے کی کوشش کی ہے، جومیرے نزدیک اس ناول کے ایک واضح اور بڑے پیغام سے عبارت ہیں ۔ درحقیقت یہ پیغام ہمیں ایک متوازن اور با شعور زندگی کے رموز تک رسائی کے لیے تیار کرتا ہے۔اس ناول میں فطرت اور قدرت کو اپنی جگہ پر قائم رکھتے ہوئے اور انہیں ان کی مکمل حیثیت کے ساتھ قبول کرتے ہوئے،ساتھ ہی مذہب کے بنیادی اصول و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے تیزی سے تغیر پذیر حالات کے ساتھ اپنی راہ اختیار کرنے کا جو پیغام ہے،دراصل اسی میں انسانی بقا ،تشخص، شخصیت اور اس کی کلیت کارازمضمر ہے۔
ناول کا حصہ دوم’ تہذیبوں کا تصادم‘حویلی اور حویلی سے باہرمعاشرے میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بیانیہ ہے۔ ایک واقعہ سے اس کی شروعات ہوتی ہے، جسے کاردار اپنی زندگی کا ایک بڑا Turning point سمجھتاہے۔ حویلی میں چل رہی کھدائی کی خبر پرپولیس انسپکٹربانکے بہاری کا حویلی آنا اور کا ردار کے والد سے سختی سے پیش آنے کے واقعات کواس کی ماں برداشت نہیں کر پاتی ہے اور پردے میں رہنے والی کاردار کی ماںاسے ساتھ لے کر غصے میں بھری کوتوالی پہنچتی ہے اور انسپکٹر سے جس طرح پیش آتی ہے، وہ ایک غیرمعمولی تبدیلی کاپیش خیمہ ہے ۔ اسے ہم Women liberalization and empowerment کی مثال کہہ سکتے ہیں۔اس واقعہ کاعنوان ’پاپوش پہ لگائی کرن آفتاب کی‘اپنے آپ میں بڑی معنوی وسعت رکھتا ہے جہاںحالات کی مناسبت سے الفاظ ’ پاپوش‘ اور ’آفتاب‘ کااستعمال قابل داد ہے۔ ضروری ہے کہ یہاں یہ دو اقتباسات پیش کیے جائیں:
’’آج اماں نے حجاب نہیں پہنا۔برقع نہیں لگایا۔بے پردہ مجھے لے کر وہ باہر آگئیں ۔موڑ پر کئی محلے والے کھڑے تھے ۔آج اماں کو کسی کی پروا نہیں تھی‘‘۔
’’جیسے لکشمن ریکھا ہوتی ہے۔ اماں پہلی دفعہ اس لکشمن ریکھا کو پار کر گئی تھیںاور اس ریکھا کو پار کرنے کے بعد ہی گھر میں ایک نئی اخلاقیات کا جنم ہوا تھا۔ یایہ کہ ایک نئی دنیا گم شدہ خزانے یا قبر کے راستے ویران ہوتی حویلی سے جنم لے رہی تھی،یا یہ کہ ایک انڈا ٹوٹ گیا تھا۔‘‘
ایک عورت کے ذریعہ نئی تبدیلی کی یہ شروعات اس بات کا اشارہ ہے کہ اب تہذیب، اخلاقیات اورمعاشرے تک بہت کچھ بدلنے والاتھا۔کالونی کلچرکا پھیلائو،عورتوں کا شہر کے بازاروں کا رخ کرنا،گھروں میں پھیری کرنے والی عورتوں اور مردوں کے بچوںکا وقت کے ساتھ بدل جانا،خاندانی غلامی کے دھندے سے چھٹکارہ،آباواجداد کی حویلیوں کی فروخت اور اس خرید و فروخت میں ہندو یا مسلمان کی شرط سے رہائی۔کاردار کی نظر میں انسان دوستی اور باہمی محبت کی مثال دیکھیں:
...’’لیکن میں ان تبدیلیوں سے خوش تھا۔وقت نے عمارتوں پر لکھے مذہب کے نام کو بھی کھرچ دیا تھا۔ایسا محلے میں پہلی بار ہواتھا۔پہلے اگر مسلمان کی کوٹھی یا گھر بک رہا ہوتا تو مسلمان خریدار ہی تلاش کیے جاتے۔یا اگر کوٹھی کسی ہندو کی ہوتی تو وہ ہندو خریدار کی تلاش میں ہوتا۔لیکن تبدیلیوں نے زندگی کے ہر پہلو،ہر گوشے کو متاثر کیا تھا۔یا پھر یہ کہنا چاہیے کہ ان تبدیلیوں نے کچھ وقت کے لیے مذہب کی دیوار اٹھا دی تھی۔جیسے میرے لیے ،آگے بڑھنے کے لیے یا زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ،ان تبدیلیوں نے مجھے ایک نئے فلسفے سے روشناس کرایا تھا۔‘‘
اس درمیان ہونے والی دیگر تبدیلیوں،حادثات و سانحات میں نور محمد کی والدہ کا انتقال،اس موقع پر نورمحمدکے لیے نادرہ کا جذبہء ہمدردی اور کاردار کی الجھن،سفیان ماموں کی ایک بیوہ سے دوسری شادی اور نادرہ کا ان کے ساتھ نقل مکانی ،کاردار کے والد کا گزرجانا اور والدہ کے بولتے لبوں پر مہر خاموشی...مریم بوا کا انتقال ، علی بخش پر بیماری کا حملہ اور اپنے گائوں کو واپسی ...حویلی میں سناٹا ...والدہ کا کاردار کی شادی پر اصرار اوررقیہ سے شادی، شان الرحمن کی پیدائش... اور پھر ایک بڑا فیصلہ حویلی فروخت کر نے کا، جس معاملہ پر کاردار اپنے والد سے اکثر الجھتا رہا ہے، مگر اس کے والد ایسا قدم اٹھانے کے سخت خلاف رہے۔ اب اس فیصلے سے والدہ کی ناراضگی، مگر کاردار کا حویلی کو فروخت کر دینا اورکہکشاں منزل کو اپنا گھر بنا لینا،والدہ کا اس نئی زندگی سے سمجھوتہ، کہکشاں منزل کے قریب ایک مکان میں ٹرسٹ اور بچوں کے اسکول کا قیام،دوبرسوں بعد والدہ کا انتقال، پرانی یادوں سے آزادی ...مگر نادرہ کے خیال میں قید کاردار کی زندگی ایک نئی روش پرگامزن،ادھر نادرہ کو سوتیلی ماں کا راس نہ آنا،حکیم سفیان ماموں کا بیوی میں مگن رہنااور اپنے مطب اور مریضوںمیں گھرے رہنا ،نادرہ کی گرتی صحت،نور محمد کے والد کا انتقال، نورمحمد کے دل میں نادرہ کے لیے محبت اور اس سے شادی کی خواہش،کاردار سے اس میں پیش رفت کی گزارش ...کاردارکے وجود میں زلزلہ، تذبذب کا شکار کاردار کی ممانی سے ملاقات اور نادرہ کی گرتی صحت اور اس کا تعلق نور محمد کی کوٹھی میںآسیبی اثر سے قائم کرنا اور رشتہ قائم کرنے میں رکاوٹ کی اپنی سی حکمت عملی ،نور محمد کے سامنے اپنی دوستی اور اس حوالے سے اپنی کوشش کا بھروسہ دلانا اور نورمحمدکا یقین کرلینا،کاردار کی شکست اور نورمحمد کی فتح،سفیان ماموں کا نادرہ اور نور محمد کی شادی پر رضامند ہونااور پھر شادی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ہندستان اور پاکستان آمنے سامنے تھے،ہندستان میںاندرا گاندھی کی گونج تھی ،ہندستانی اخبارات شیخ مجیب الرحمن کو ہیرو کی طرح پیش کر رہے تھے اور پاکستان ہند ستان کے خلاف زہرا گلنے میں مصروف تھا۔مشرقی پاکستان سلگ رہاتھا۔بھٹو کا نام بچے بچے کی زبان پر تھا۔ان تمام تبدیلیوں ،حادثات و سانحات کے پس پردہ ناول نگار نے بڑی فن کاری سے انسانی زندگی،لامتناہی خیالات و احساسات،مختلف تہذیبوں کے درمیان جنگ کی صورت حال،بنیاد پرستی اور دہشت پسندی،اندھیرے سے پیدا ہونے والی ایک نئی دنیا،سائنس اور ٹکنالوجی کے تقاضے،قدرت کے اپنے اصول اور معاشرتی تغیرات میں گم ہوتی شناخت اوررو بہ زوال اخلاقیات جیسے مسائل سے بحث کی ہے۔ ذوقی کی تحریروں میں نئی صدی اور انسانی رشتوں کی بازگشت بہت صاف سنائی دیتی ہے ۔ان کے افسانوی مجموعہ ’صدی کو الوداع کہتے ہوئے‘کا انتساب’’نئی صدی میں گم ہو رہے انسانی رشتوں کے نام ، جو کھو گئے تو ادب بھی باقی نہیں رہے گا‘‘ان کی اسی فکر کا غماز ہے۔ یہ کہنا مناسب ہے کہ انہوں نے اس موضوع کو ایک مشن کے طور پراختیار کیاہے اور اس حوالے سے مسلسل فکر کر رہے ہیں اور یوں نئی صدی میںادب اور انسان کی از سر نو بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔
یہاں کاردار کا نادرہ سے چھپا چھپا ساعشق بھی ہے جس کا وہ صاف طور پر اظہار نہیں کر پاتا اورکچھ ایسی ہی کیفیت نادرہ کی بھی ہے ،لہٰذا اس کی شادی کاردار کے دوست نور محمد سے ہوجاتی ہے۔ آگے کہانی کے ایک جذباتی موڑ پر کاردار اور نادرہ اس کا ایک دوسرے سے اظہار کرتے ہیں ،شکایتیں ہوتی ہیں، حسرتوں کی دنیاانہیں اپنے ماضی کی یاد دلاتی ہے اور ایک بڑی غلط فہمی سامنے آتی ہے۔کہانی میں ایسے رومانی اور معصوم جذبات کے عکس بھی نظر آتے ہیں، جن کو ذوقی بڑے دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں اور یہاںان کا اسلوب اس بیانیہ سے قطعی مختلف نظر آتا ہے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ اسی کے ساتھ’ نئے انسان‘ کی آمد کا اعلان بھی ہے۔ اس ’نئے انسان‘ کو اپنی بقا کے لیے کن چیلبجز کا سامنا ہے اور اسے کن ممکنات کی تلاش ہے ،بلا شبہ اس ناول میں یہ سوال ایک عالمی مسئلہ کی صورت ہمارے سامنے آیا ہے، جس کو واقعات و حالات کے تناظر میں ذوقی جس شدت اورحدت سے پیش کرسکے ہیں وہ بس ان کا ہی حصہ ہے:
’’میرے دماغ میں مسلسل ایک فلم چل رہی تھی...کوٹھی میں آسیب اور جنات کا ہنگامہ---بلند حویلی کے زوال کی درد ناک داستان ---ماضی سے لپٹے ہوئے لوگ --- گم شدہ خزانے کی تلا ش ---آسمان پر منڈلاتے طیارے---ہندستان اور پاکستان کی جنگ---آنکھوں میںسمائی ہوئی نفرت--- پاکستان کی تقسیم---دونوں ملکوںکے آپسی رشتوںکاتکلیف دہ حدتک خراب ہو جانا---سفیان ماموں کا آنا ---نادرہ کی شادی اور...نگار کا جنم...مسلسل خوف کی بارشں. . . جنگیں --- تباہیاں ...اور ایک نئے انسان کی آمد۔‘‘
’لے سانس بھی آہستہ‘ کو پڑھتے ہوئے ہم کئی موڑ سے گزرتے ہیںاوربیانیہ کی کئی پرتیں دریافت کرتے ہیں۔کہانی کا ایک اہم موڑ وہ ہے جب نادرہ کی کاردار کے دوست نور محمد سے شادی ہو جاتی ہے ۔ اس موڑ سے ہم وہاں تک پہنچتے ہیں جہاں نادرہ کے ذہنی مرض کا بیان ہے، جب اس پر ٹھہر ٹھہر کر دورے پڑنے لگتے ہیں۔اس کا مرض ایک معمہ بنا رہتا ہے اور اسی کیفیت میں وہ نگار کو جنم دے کررخصت ہوجاتی ہے ۔نگارکو پیدائش کے وقت سے ہی مستقل رو نے کا مرض لاحق ہو جاتاہے۔ ایک نو زائیدہ بچی کا اس طرح مستقل رونا سب کو حد درجہ پریشان کر دیتا ہے۔یہ رونا کیا ہے؟ اس میں کیسے اشارے پنہاں ہیں؟نگار مستقبل کی بیٹی ہے تو کیا یہ رونا مستقبل کے سماج سے عبارت ہے؟ ایسے واقعات کے پس پردہ ناول نگار نے میڈیکل سائنس اور انسانی نفسیات پرڈاکٹر ابھیتوش کے ساتھ تبادلہ ء خیالات کرتے ہوئے عمیق معلومات بھی فراہم کر دی ہیں ۔ناول نگار کایہ انداز بیان معاشرہ اور حقیقت نگاری کے باب میںاپنی مثال آپ ہے ۔ایسی کئی مثالوں سے یہاں صرف ایک مثال دیکھیں:
"Mental health, disorders in children and adolescents are caused by biology, environment are a combination of the two. Examples of biological factors are genetic, chemical imbalances in the body, and damage to the central nervous system, such as a head injury. Many environmental factors also can affect mental health, including explosion to violence, extreme stress, and the loss of an important person. Families and communities, working together, can help children and adolescents with mental disorders. A broad range of services is often necessary to meet the needs of these young people and their families."
حقائق کا اس اندازسے اظہار ذوقی کی انفرادیت کاثبوت ہے۔مختلف امراض اور اس کے متعلق ایسا Documentationکوئی آسان کام نہیں،اس کے لیے صرف تلاش ہی کافی نہیں ہوتی ،شعور بھی درکار ہے، جوذوقی کے یہاں اپنی پوری چمک کے ساتھ موجود ہے۔ Anxiety disorderاورEmotional attackدور حاضر کی تلخ سچائیاں ہیں، جن پرناول میں تخلیقی اور تنقیدی دونوں اعتبار سے بڑی گہری نگاہ ڈالی گئی ہے ۔بظاہر یہ بیماریاں ہیں اور میڈیکل سائنس انہیں اپنی تحقیقات کا اوزار سمجھتی ہے، مگر دراصل یہ نتیجہ ہیں ان معاشرتی، اخلاقی ،تہذیبی اور نفسیاتی کرائسس کا ، جنگوں اور فسادات کا اور لمحہ بہ لمحہ رو بہ زوال انسانی تشخص کا، جن سے ہمارا نیا ذہن متاثر ہورہا ہے اورایک نیا انسان جنم لے رہا ہے۔
مشرف عالم ذوقی نے اس ناول میں بیان اور کرداروں کے توسط سے جس انسانی تہذیب اور آئندہ دنیا کی جھلک پیش کی ہے اس سے ہم سہم ضرور اٹھتے ہیں مگر یہ سچائی کی صورت ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال رہی ہے۔ اس حوالے سے ایک اورمنظرنامہ ہمارے شعور اور ہماری بصیرت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتاہے اور جائز،ناجائز، تہذیب اور اخلاقیات کے سارے فلسفے کہیں گم ہو جاتے ہیں۔وہ گناہ جوحددرجہ مجبوری کی حالت میں نور محمد کرتا ہے ،آج گلوبل اطلاعاتی عہد میں زنائے محرم) (Incestکی ایسی ہزاروں تصویریں اور ان گنت واقعات کیا ہمارے وجود کو یخ بستہ نہیں کررہے ہیں؟یہاں ذراٹھہریے کہ کہانی ایک بار پھر بھرپور شدت اور توانائی کے ساتھ ایک تلخ حقیقت کا بیانیہ بن گئی ہے ۔کاردار سے نور محمد کی گفتگو ہمارے اندرون میںکئی طاقت ور بموں کے دھماکے پیدا کرنے کو کافی ہے:
’’ایک بیٹی، ایک بیوی بن گئی تھی۔میں کیا کرتا بھیا---کیسے برداشت کیا ہوگا یہ سب---آپ سوچ سکتے ہیں ---آپ نہیں سوچ سکتے---یہ عذاب ہے۔قدرت کا عذاب---اور قدرت نے اس عذاب کے لیے میرا انتخاب کیوں کیا ۔میں بس یہ نہیں جانتا---کیا کبھی ایسا سوچنا بھی آسان تھا کہ مقدس رشتے یوں تار تار ہو سکتے ہیں؟اور وہ بھی اس طرح---ایک بیمار نظام،ایک بیمار گھر،کوٹھی کی بے روغن دیواریں---لیکن ایک تہذیب یہاں بھی روشن تھی بھیا---بلکہ برسوں سے---صدیوں سے---اور ایسی تہذیب کہاں نہیں تھی---تب سوچنے اور سمجھنے کا موقع بھی نہیں ملا کہ میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟یا میں کیا کر رہا ہوں---یا جو کر رہاہوں وہ کس حد تک جائز ہے---یا ناجائز---یا جیسے میں سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت سے باہر نکل آیاتھا۔ایک کٹھ پتلی---جسے وقت کا فرمان ماننا تھا---اور جو ہو رہا تھا ،اسے آنکھیں بند کرکے تسلیم کرنا تھا---‘‘
سسکیوں سے ادا ہوتے ہوئے نور محمد کی داستان کاردار کو مضطرب کر دیتی ہے اور وہ پروفیسر نیلے سے ملتا ہے ۔ کمپیوٹر اسکرین پر پروفیسرنیلے اسے اس حوالے سے نیٹ کی جو دنیادکھاتے ہیں اور مقدس رشتوں کی پامالی کے جیسے منا ظر روشن ہوتے ہیں،وہ آنکھوں کو خیرہ کیے دیتے ہیں :
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
جنسی اشتعال انگیزی اور شہوت انگیزی پر جو بیانات درج کیے گیے ہیں،وہ انسانی ہوش و حواس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔یہاں Google ہے ، Facebook, Webshots, Smugmug, Youtube,Picasa,Vimeu,Zoom اورPadora بھی ۔گروپ سیکس، بھائی بہن میں سیکس ،سوتیلی بہن کے ساتھ،ماں اور بیٹی کے ساتھ اور باپ کا دونوں کو بدقماشی پر اکسانا … دراصل ایسے تمام مناظر کہانی کے کردار نورمحمد پر پڑے برے وقت اور اس کی مجبوری کی ایک حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں ۔ جو فعل نور محمدکی نظر میں گناہ ہے اوروہ اس پر ندامت کے آنسو روتا ہے ،خدا سے معافی کا طلب گار ہے ،مگر سب کچھ صرف اس لیے کررہا ہے کہ اسے ہر حال میں نگار کی زندگی عزیز ہے۔مگر دوسری طرف ایک دنیا وہ ہے, جہاںیہ فعل اپنی مرضی کا ہے،باعث تسکین و راحت۔ یہاں کہانی کے ساتھ ساتھ ہماری نظر میں ایک بے حد بھیانک سچائی ابھر آتی ہے، جہاں ایک نئی تہذیب،ایک نئی ماحولیات کا جنم ہو چکا ہے اور کہانی کار ہم سے مکالمہ کر رہا ہے،کسی علامت یا اشارے کی مدد سے نہیں بلکہ کھل کر بیانیہ انداز میں اپنی بات کہہ رہا ہے۔یہاں حقیقت نگارسعادت حسن منٹو کی یاد بھی آتی ہے، جن کی کہانیاں اس لیے یاد رکھی جائیں گی کہ ان میںانسان کی گفتگو ہے،اس کی شکستگی کی بات ہے،صرف ادراک ہی نہیںبلکہ روحانی،تہذیبی اور انسان دوستی کی فضا بھی ملتی ہے۔ ذوقی بھی اپنے اس ناول سے ایک ایسے ہی حقیقت نگار بن کر سامنے آتے ہیں،اگرچہ اس سے قبل بھی ان کے ناول خصوصاً’بیان‘اور ’پوکے مان کی دنیا‘ان کے اسلوب نگارش کے بڑے ثبوت پیش کر چکے ہیں۔یہاں اس ذیل میں اسلامی فلسفے بھی روشن ہیں جس سے ناول نگار کا مطمح نظر واضح ہوتا ہے :
’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے جنس کی عورتیں بنائیں تاکہ تم کوان کے پاس آرام ملے اور میاں بیوی میں محبت بڑھے۔‘‘
اس کے علاوہ بدھ مت اور عیسائیت کے حوالے بھی درج ہیں اور ان فلسفوں کی آگہی سے بھی بحث کی گئی ہے ،یوں یہ بیان محض انٹر نیٹ کا ایک منظر ہی نہیں رہ گیا ہے، بلکہ ہمارے سامنے صحیح اور غلط کی تشریح میں معاون بھی ہے۔حصہ سوم’ نیا انسان ‘کے یہ فقرے ہمیں آگاہ کرتے ہیں:
’’وہ پیدا ہو چکا ہے،اور یقین مانو وہ پیدا ہو چکا ہے/تمہاری اس دنیا میں /تیر کمان اور بھالوں سے الگ کی / اس خطرناک دنیا میں /جس کے لیے تم انتہائی مہذب ہونے کی دہائی دیتے ہو...وہ پیدا ہو گیا ہے کینسر اور ایڈز جیسی بیماریوں کے عہد میں /جہاں گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں/سائبیریا کے برفیلے علاقوں میں اگنے لگی ہے گھاس/بدلنے لگا ہے موسم کا مزاج/وہ پیدا ہو گیا ہے۔‘‘
یہاں پروفیسر نیلے کی گفتگو بھی بڑی معنٰی خیز ہے:
’’یقیناً تم نے اس دنیا کے بارے میں سنا ہوگا، لیکن شاید تم اس دنیا کے بارے میں اتنے قریب سے نہیں جانتے ہو گے اور I repeatیہ دنیا تمہارے بچوں نے ضرور دیکھی ہو گی۔اورٹھیک اسی طرح جیسا میں نے پہلے کہا ، پیپسی پیتے ہوئے یا پھر برگر اور پزا کا ذائقہ لیتے ہوئے اور تمہاری طرح وہ تہذیب کے ختم ہونے کے فلسفے میں نہیں ہوں گے…تم نے کبھی Hot chatکیا ہے؟ میں چونک گیا تھا۔‘‘
یہاں وہ دو اقتباسات بھی دیکھیں جو اس سوال سے منسلک ہیں، جس پر کاردار چونک اٹھا ہے:
’’سارہ سے ملنے گیا تو وہ کمپیوٹر سے چپکی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے دیکھ کر وہ ذرا سا خوف زدہ ہوئی تھی،لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے احساس پر قابو پا لیا۔میرے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ وہ کسی ایسے سائٹ کو دیکھ رہی تھی، جسے میری موجودگی نے کسی حد تک ڈسٹرب کر دیا تھا۔ان باتوں کو سمجھنے کے لیے یا اس نادان عمر کے تجزیہ کے لیے میرے پاس بھر پور جواب موجود ہے،جیسے آپ لاکھ منع کریں ،آپ بچوں کے تجسس کو روک نہیں سکتے ۔جب ساری دنیا اور دنیا کی تہذیبیں ان کے سامنے ہیں تو اپنے تجسس کے پرندے کوذرا سا آزاد کرتے ہوئے اسے سمجھنا بھی چاہیں گے ۔مثال کے لیے جسم ۔جسم کی بھوک کو۔‘‘
’’سارہ کو تلاش کرتا ہوا میں اس کے کمرے میں آیا تو وہ نیٹ پر چیٹنگ میں مصروف تھی۔ایک لمحے کے لیے مجھے پروفیسر نیلے یاد آگئے ۔پزا،برگر اور پیپسی کی ہیبت ناک دنیا میری نگاہوں میں روشن ہو گئی۔‘‘
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ ذوقی اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے بیانیہ کی مطابقت سے فقرے جوڑتے ہیں ،لہٰذا حصہ چہارم ’جبلت‘ تک پہنچتے ہوئے کہانی ایک وارننگ دیتی ہے :
’’یہاں سب کچھ بے حد سنگین ہے اور موت دبے پائوں ہمارا پیچھا کر رہی ہے...جنگ ہر بار ایک اپاہج معاشرہ کو جنم دیتی ہے/دھماکہ ہونے والا ہے، لیکن یہ نئی تہذیب کا دھماکہ ہے۔‘‘
جہاںایک طرف ملک کی رتھ یاترائوں کی نئی اخلاقیات جمہوریت کو زخمی کر رہی ہے اورہندو مسلمان کو لڑانے والی سیاسی جماعتوں کی سازش کام کر رہی ہے، وہیںہمارا فکشن نگار قدرت ،مذہب،اخلاقیات اور انسانی سرشت کی ایک جیتی جاگتی تصویرپیش کرنے میں مصروف کار ہے اور کئی اہم رموزکی طرف اشارے کر رہاہے۔ ہماراآج کی نئی اخلاقیات میں تہذیب کے کھلے پن کو دیکھنا تو دوسری طرف یوروپی ممالک کے عام ذہن کااس کھلے پن سے گھبرا کر یوگ،سادھنا اور آشرم میں پناہ لینا اور اخلاقیات کے سلسلوں کا بازار سے وابستہ ہوجانا، دراصل زندگی کے تحیر آمیز تضادات اوراخلاقیات کے نئے تماشوںکا پس منظرواضح کرتا ہے اور یوں منقول شعر’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔ آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا‘ قدرے نئے اور بڑے مفہوم میں ہم پر عیاں ہوتاہے۔
’اور آخر میں دعا‘کے تحت قاری سے مکالمہ ناول کے پیغام کا درد مند اظہاریہ ہے۔ نور محمد اپنی حویلی بیچ کر اور اپنے کام چھوڑ کرذہنی طور پر معذور اور حاملہ نگار کے ساتھ ولاس پور منتقل ہو جاتاہے۔ یہیں اس کی بیٹی جینی کی پیدائش ہوتی ہے ۔نور محمدکی گزارش پر کاردار ولاس پور جاتاہے اور اسے بیمارپاتاہے ۔ نگار کا انتقال ہو چکا ہے۔ نور محمد سے گفتگوکے دوران جینی کی بابت انکشاف اخلاقیات کے سارے بتوں کو ایک لمحہ میں چور کر دیتا ہے اور قدرت کے اصول اور کرشمے روشن ہو جاتے ہیں:
’ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے انسان بھول گیا کہ قدرت کے انتقام لینے کے اپنے طریقے ہیں۔ وہ نظریات پہ نظریات اور نئی نئی اخلاقیات کا سہارا لیتا رہا لیکن اس پردے میں آخر آخر تک صرف ایک ہی بات ہوتی رہی ۔ اس پورے نظام نے فرد کو تنہا کر دیا۔ مشین کاایک بے جان کل پرزہ جہاں خواہشات نفس کی تسکین کے سوا کوئی دوسری خوشی اس کے لیے باقی نہیں بچی ۔‘‘
ایک طویل عرصے کے بعد ہونے والی کارداراور نور محمد کی یہ ملاقات ایک نئی دنیاکی بشارت بھی ہے اور انسان کی فطرت کی طرف واپسی کے اشارے بھی۔یہ اشارے ہمیں وہاں بھی فراہم ہوتے ہیںجب رقیہ کی موت کے بعد کاردار بلند شہر چھوڑ کر قدرتی آشیانے پہاڑوں میںجا بستا ہے۔ اس کا بیٹا شان الرحمن ہاسٹل سے کبھی کبھی اپنی فیملی کے ساتھ اس سے ملنے آجاتاہے۔ یہی کہانی پروفیسر نیلے کے ساتھ بھی ہے، جو ایک عرصے تک امریکہ میں اپنے بچوں کے ساتھ رہے اور پھرپہاڑوں پراپنی اہلیہ کے ساتھ آبسے۔پروفیسر نیلے اور کاردار کی گفتگو میں پہاڑ،جنگل اور قدرت اکثر حوالے بنتے ہیں جن کے پس پردہ ایک اور تہذیب جلوہ گر ہو تی ہے اور ناول نگار کا شعور رہنمابنتا ہے:
’’آپ خود کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے ۔بالکل پہاڑوں کی طرح۔جو جیسے ہیں ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ ہاں! بے رحم انسان انہیں کاٹتاہی چلا جا رہا ہے اور وہ یہ بھی نہیں سوچتا کہ پہاڑ اور درخت ختم ہو جائیں گے تو وہ بھی نہیں بچے گا اور ایسا کرتے ہوئے وہ بھیانک تباہی کی طرف بڑھ رہاہے۔ ‘‘
شکست و ریخت کے درمیان زندگی کرتے رہنا... اٹھارہ برسوں بعد کاردار اور نور محمد کی ملاقات اور اس کا مثبت نتیجہ ...پھر ایک بے رحم اور سفاک کہانی کا پر سمیٹ لینا نئے سورج کے طلوع ہونے سے عبارت ہے ۔کہانی کے اس آخری موڑ پر گائوں آباد ہے،اس کا سکون اور لہلہاتی فصلوںکی شادابی ہے اور ان سے وابستہ ایک سنبھلااور بدلا ہوا سانور محمد اور اس کی مسکراتی بیٹی جینی ہے جو اپنے ماں باپ کے ماضی سے بے خبر ہے۔یہاںانسانی زندگی کی ایک خوش آئنداوررجائی تصویر پیش کی گئی ہے، جہاں فی الحال کہانی ٹھہری ہوئی ہے ،اسے اختتام نہیںکہنا چاہیے کہ ہمارے سامنے تہذیب کی ایک بار پھر یہ بدلی ہوئی شکل ہے،کیا خبر مستقبل میں یہ تہذیب بھی قصۂ پارینہ بن جائے۔ہم توبس’ ایک جنگ سے نکل کر دوسری جنگ کی طرف بڑھتے ہیں جیسے ایک تہذیب سے نکل کر دوسری تہذیب کی طرف‘۔ مولانا روم کی بانسری کی گونج ’ہر نفس نو می شوددنیا و ما‘سنائی دیتی ہے اورہر آن ایک نئی دنیا تعمیر ہو نے کا عمل جاری رہتا ہے:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جب کسی فکشن نگار کی یہ خوبی عیاں ہوجائے کہ اس کی کہانی پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہو گویا اس نے اپنی ذات پر وہ کرب جھیلے ہیں اوران مسائل و معاملات کااز خود تجربہ اورمشاہدہ کیا ہے جو بیان کی صورت میںقاری تک پہنچے ہیںتو ایسی کہانی سے قاری کے ذہن و شعور کا متحرک ہونا طے ہے اورمجھے مشرف عالم ذوقی کی بیشترکہانیاں پڑھتے ہوئے یہی محسوس ہوا ہے۔
٭٭٭