آپ کے مضامین اور افسانے اخبارات وجرائد میں پڑھتارہا ہوں اور آپ کی تخلیقی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتارہا ہوں۔ انشاء اللہ وقت نکال کر یہ ناول ضرور پڑھوں گا۔ ناول کے چند ابتدائی ،درمیانی اورآخری صفحات کو الٹ پلٹ کر مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اس میں بعض سماجی مسائل کے علاوہ ان پیچیدہ مباحث سے بھی تعرض کیاگیا ہے جو ایک عرصۂ دراز سے اہل علم ونظر کا موضوع بحث رہے ہیں، یعنی اخلاقیات کا مسئلہ، وقت اور قدرت کا جبر وغیرہ۔ لیکن آپ میرے اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ اصحاب علم کی پیہم دماغ سوزیوں اور فکری ہنگامہ آرائیوں کے باوجود یہ مسائل ہنوز اپنے صحیح جواب کے منتظر ہیں۔ اس سلسلے میں تھوڑی سی خامہ فرسائی کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
’’اخلاقیات‘‘ دراصل انسان اورجانور کے درمیان حد فاصل ہے۔ انسان ایک مادی وجود کے ساتھ ایک اخلاقی وجود بھی ہے جو اس کو کائنات کی دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔ کیا کوئی شخص عام حالات میں اس دریا کے پانی کو پینا پسند کرے گا جس میں غلاظت شامل ہو اور وہ بدمزہ اور بدبودار ہوگیا ہو؟… جانور اس پانی کو پی لے گا، اور پیتا ہے، کیونکہ وہ گندے اورصاف پانی میں امتیاز سے قاصر ہے۔ کیا کوئی شخص مردہ جانور کا گوشت کھائے گا، بشرط یہ کہ وہ مفطر نہ ہو؟… جانور اسے شوق سے کھاتا ہے۔ کیا کوئی آدمی مجمع عام میں عورت سے جنسی اختلاط پسند کرے گا؟… جانور سب کے سامنے کھلم کھلا یہ کام کرتا ہے۔ کیا کوئی شخص کسی شاہراہ پر بیٹھ کر رفع حاجت کرے گا؟ جانور جب چاہتا ہے اور جہاں چاہتا ہے اخراجِ بول وبراز میں ذرا بھی پس وپیش نہیں کرتا۔ مزید آگے بڑھیں… کیا کوئی صحیح الدماغ شخص کہہ سکتا ہے کہ وجل وفریب، بغض وحسد، بدعہدی، چغل خوری، خیانت، تکبر، چوری اور رہ زنی، قتل ناحق، زنا بالجبر، اور بچوں کا جنسی استحصال وغیرہ پسندیدہ افعال ہیں؟ یہ دوسری بات ہے کہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں یہ برائیاں سماج میں موجود رہی ہیں اورآج بھی ہیں، اور کچھ زیادہ ہی ہیں، اس کے برخلاف حق گوئی، محبت واخوت، ایثار وقربانی، دوسروں کے مال وجان اورآبرو کا احترام، امانت داری، تواضع، دیانت داری، پابندی عہد، عفت وپاک دامنی اوراخلاص وخیر خواہی وغیرہ جیسے اعمال کو ہر دور میں انسانوں کی کثیر تعداد نے پسند کیا ہے اورآج بھی بکثرت لوگ ان کو پسند کرتے ہیں۔
جس کو ہم موت کہتے ہیں وہ دراصل آئندہ انقلاب کا پیش خیمہ ہے، یایوں کہہ لیں کہ مادی دنیا سے غیر مادی دنیا کی طرف مراجعت ہے، اردو کے معروف شاعر میر تقی میر نے اس کو ’’وقفہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیںگے دم لے کر
اس وقفہ کے بعد جو محض