نقل 61
ایک طالب العلم بڑا بخیل تھا۔ اُس نے کسی دن ایک آشنا کی دعوت کی۔ کھانا تو جو اس کے یہاں نت پکتا تھا سوئی پکا، پر دو انڈے کھانے کے وقت بڑے تکلف سے اس نے دسترخوان پے لا رکھے اور کہا کہ سنو صاحب! ان انڈوں سے ایک جوڑا مرغ کا ہوتا اور جوڑے سے ہزاروں بچے پیدا ہوتے۔ یہ آپ کی خاطر ہے جو میں نے اپنا اتنا نقصان کیا۔ اُس کا آشنا بھی ایک ہی شخص تھا۔ بولا کہ یہ تو آپ نے کیا، پر بھلا گھی بن میں کس طرح کھاؤں گا؟ کہا: میں ابھی لے آتا ہوں، ذرا صبر کرو۔ اتنا کہہ دو پیسے اور پیالا لے وہ مودی کی دکان پر گیا اور اُن نے پیالا اور دو پیسے اُس کے آگے رکھ کے کہا کہ اچھے سے اچھا گھی مجھے دے۔ وہ بولا: ایسا گھی دوں کہ جیسا سفید چرب۔ اس بات کے سنتے ہی یہ پیالا اور پیسے لے چرب والے کی دوکان پر گیا اور اس نے پیالا اور پیسے دے اس سے کہا کہ بھلے سے بھلا چرب مجھے دے۔ وہ بولا کہ ایسا صاف دوں کہ جیسا برف۔ یہ سن وہ وہاں سے پیالا اور پیسے لے برف والے کے پاس گیا اور بولا کہ بہتر سے بہتر برف میرے تئیں دے۔ اُس نے کہا کہ ایسا دوں کہ جیسا آبِ زلال۔ یہ وہاں سے بھی پیالا اور پیسے ہی لے اپنے گھر آیا اور ایک پیالا میٹھے پانی کا بھر کر آشنا کے آگے لے گیا۔ وہ دیکھ کر بولا کہ تم تو گھی لینے گئے تھے۔ یہ کیا لے آئے؟ جواب دیا کہ تین نچوڑ میں یہ ٹھہرا ہے۔ اس سے یہی بہتر ہے کیوں کہ شاعر لوگ بھی مشبہ سے مشبہ بہ کو اعلیٰ جانتے ہیں۔
نقل 62
ایک بنیاں اپنے بیٹے کو بیاہنے برات لیے شہر سے پر شہر کو جاتا تھا۔ راہ میں ایک جنگل ملا۔ اُس میں کہیں دائیں بائیں اس کا بھائی جھاڑے پھرنے گیا۔ اتفاقاً اسے وہاں شیر کھا گیا۔ اس میں دیری جو ہوئی تو بنیاں اپنے من میں یہ سمجھا کہ کسی دین لین والے نے شاید میرے بھائی کو بیٹھا رکھا ہے۔ لگا روزنامہ کھاتے کی بہی دیکھنے۔ جب دیکھتے دیکھتے اُس میں کسی کا دینا پانا نہ ٹھہرا تب گھبرا کے جنگل میں ڈھونڈھنے چلا۔ کتنی ایک دور جائے دیکھے تو ایک شیر لیٹا ہوا ہے اور اس کے بھائی کا ہاڑ چام آگے پڑا ہے۔ یہ دیکھتے ہی بولا: سن تو اوت کے اوت، نہ تیرا ہمارے کھاتے میں نام نہ روزنامے میں۔ تو نے میرے بھائی کو کس حساب سے مارکھایا؟ وہ ہوں کر کے گھرکا، تب بنیاں یہ کہہ روتا پیٹتا پھر آیا کہ ہاں اس حساب سے کھایا ہے تو ٹھیک ہے۔
نقل 63
چار شخص اپنے گانو سے نکلے براہمن، راجپوت، بنیاں اور نائی۔ اور کسی کسان کے کھیت پر جا لگے گنے اکھاڑ اکھاڑ پھاندیاں باندھنے اور چوسنے۔ اُس کھیت والے نے دیکھا اور اپنے جی میں بچارا کہ یے چار اور میں اکیلا۔ جو کچھ کہتا ہوں تو یے مجھے بن ٹھوکے نرہیں گے۔ اس سے کچھ حکمت کیا چاہیے۔ یہ بات دل میں ٹھان وہ ان کے پاس جا رام رام کر بولا کہ سنو صاحب! براہمن ہمارے گرو، راجپوت بھائی، بنیاں مہاجن۔ تینوں آدمی کے گانڈے کھانے کا کچھ مضائقہ نہیں۔ بھلا اس نائی نے کیا سمجھ کے میرے کھیت میں ہاتھ ڈالا۔ اس کا تمھیں نیاؤ کرو۔ یہ بات سن کر وے چپ ہو رہے۔ تب اس نے نائی سے گنے چھین لیے اور اسے جُتیا کر نکال دیا۔ پھر کسان کہنے لگا کہ سنو بھائی! براہمن گرو تم بھائی۔ ہمارا تمھارا مال ایک ہے۔ اس بنیے نے کیا بوجھ کے میرا کھیت اجاڑا۔ بھلا اس کا تمھیں انصاف کرو۔ جو تم ہم اس کے یہاں سے رُپے لیں گے تو کیا یہ اپنا سود چھوڑ دے گا؟ اس بات کو سن وے کچھ نہ بولے۔ تد تو اس نے اسے بھی دَھولیا کے گانڈے چھین نکال دیا۔ غرض اسی طرح سے اس نے ہر ایک کو نکالا اور اپنا مال بچایا۔
اس بات کو سن تعجب کر ایک شخص نے اپنے دوست سے کہا: یہ کیا غضب ہے کہ چار آدمی پر ایک شخص غالب رہے۔ اس نے پوچھا: یہ کیا بات ہے مجھے سمجھا کے کہو۔ اس نے ان کا ماجرا کہہ سنایا۔ تب اس کا آشنا بولا: کیا تم نے یہ مثل نہیں سنی جو اتنا تعجب کرتے ہو کہ “جگ پھوٹا اور نرد ماری گئی”۔
نقل 64
کسی راجا کے یہاں بکٹ خاں نام کلاونت بہ سبب گانے بجانے کے بہت پیش ہوا۔ آٹھ پہر اس کی مصاحبت میں رہے۔ ایک دن اس راجا پر کوئی غنیم چڑھ آیا تو اس نے بھی لڑنے کی تیاری کی اور اپنے رفیقوں کو ہتھیار گھوڑے بانٹے۔ اس وقت بکٹ خاں سے راجا نے کہا کہ تم بھی سلح خانے سے ہتھیار اور اصطبل سے گھوڑا اپنی پسند موافق لے لو۔ کل تمھیں بھی ہمارے ساتھ لڑنے کو چلنا ہوگا۔ اس بات کے سنتے ہی اس کی جان تو سوکھ گئی، پر مارے شرم کے “بہت خوب” کہہ گھوڑا اور ہتھیار پسند کر کسی بہانے سے وہ اپنے گھر آیا اور جورو سے کہنے لگا کہ اس شہر سے ابھی بھاگ چلو۔ نہیں تو راجا کے ساتھ کل مرنے کو جانا ہوگا۔ اس کی جورو عقل مند تھی، بولی: جو لڑائی میں جاتا ہے سو بے اجل نہیں مرتا۔ یہ کہہ اس نے چکی میں چنے دل کر دکھائے اور کہا کہ دیکھ جس طرح اس میں دانے ثابت رہ گئے، ایسے لڑائی میں بھی لوگ بچ رہتے ہیں۔ بولا: جو پس گیا سو میں ہوں۔ اس کم ہمتی کو دیکھ اُس کی عورت جھنجھلا کر بولی کہ سن جو تو ایسے خاوند سے نمک حرامی کر اس کا ساتھ چھوڑے گا تو میں بھی تیرا ساتھ ندوں گی۔ یہ سن شرما لا جواب ہو راجا کے پاس بھور ہی جا حاضر ہوا اور ہتھیار لگا گھوڑے پر سوار ان کے ساتھ ہو لیا۔ جس وقت میدان میں دونوں دَل تُل کر لڑنے کو تیار ہوئے اور لگا مارو بجنے اور گولی گولا بان دونوں اور سے چلنے اور اس کا گھوڑا بھڑکنے، تس وقت بکٹ خاں نے تو مارے ڈر کے راجا سے عرض کی کہ مہاراج! ہوں گرتُ ہوں۔ پر راجا سمجھا کہ یہ کہتا ہے میں حریف کی فوج پے گروں۔ بولا ایسا کام بھی نکیجیو۔ تم میرے ہاتھی کے ساتھ اپنا گھوڑا رکھو۔ دو تین دفع راجا سے اس نے کہا اور راجا نے یہی جواب دیا۔ ندان گھوڑا اسے حریف کے غول میں لے ہی گیا، تب بکٹ خاں نے کمر سے دُپٹا کھول پھرایا۔ اس سے اُس راجا کے لوگ لڑنے سے باز رہے اور اِس کے پاس آئے۔ کہا: تو کیا پیغام لایا ہے؟ بولا: مجھے گھوڑے سے اتارو تو کچھ عرض کروں۔ انھوں نے اسے گھوڑے سے اتارا۔ تد یہ بولا کہ تم کس لیے لڑتے ہو، جس طرح کی معاملت چاہو گے سو ہمارا راجا قبول کرے گا۔ اُس نے کہا کہ دس لاکھ رُپے دے اور اپنی بیٹی ہمارے بیٹے کو بیاہ دے۔ یہی ہم چاہتے ہیں۔ وہ بولا: یہ بات ہمارے راجا کو قبول ہے۔ میں اس کا جواب کل دے جاؤں گا، تم خاطر جمع رکھو۔ اس بات کے سنتے ہی خوش ہو اُس راجا نے اسے ایک بھاری خلعت اور بہت سے رُپے دے رخصت کیا اور لڑائی موقوف کی۔
دوسرے دن بھور ہی یہ راجا جب چڑھ کھڑا ہوا تب اُس راجا نے کہلا بھیجا کہ کل تو تمھارا وکیل تمھاری طرف سے دس لاکھ رُپے اور بیٹی دینی قبول کر گیا ہے، اب کیوں لڑنے کو تیار ہوئے ہو۔ سنتے ہی راجا نے فرمایا کہ دیکھو کون آدمی ہماری طرف سے وہاں جا کر یہ بات کہہ آیا ہے، وِسے میرے پاس لاؤ۔ غرض تحقیق کر کے لوگ بکٹ خاں کو ہاتھوں ہاتھ راجا کے سوں ہیں لے گئے۔ تب کسی مصاحب نے اُس سے پوچھا کہ تو کس کے حکم سے دس لاکھ رُپے اور لڑکی دینے کا اقرار کر آیا؟ بولا: اسے حکم کیا چاہیے، جو اس گھوڑے پر چڑھے گا سو اقرار ہی کر آوے گا۔ اس بات کے سنتے ہی راجا نے خفا ہو اُسے نکال دیا اور بڑا افسوس کیا۔ اس میں کوئی مصاحب بول اٹھا کہ مہاراج! آپ نے جو اتنا افسوس کیا سو کیا، یہ مثل نہیں سنی ؎
کہ جس کا کام تِسی کو چھاجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
نقل 65
ایک شخص کی بھینس مر گئی۔ وہ لگا رونے۔ اس میں اس کے ایک پڑوسی نے آ کر پوچھا کہ بھائی! تم کیوں روتے ہو؟ بولا: میری بھینس مر گئی جو سارے کنبے کو پرورش کرتی تھی۔ یہ بولا: بھائی! صبر کرو، ہمیں تمھیں کالے دھن سے لہنا نہیں۔ اُس نے پوچھا: تمھارا کیا نقصان ہوا؟ جواب دیا: میرے بھی پکانے کی ہانڈی پھوٹ گئی۔ اس بات کے سنتے ہی وہ غریب ہنس کر بولا کہ ہاں بھائی، سچ کہتے ہو۔
نقل 66
ایک روز تلسی داس گُسائیں بنارس میں کسی مکان پر بیٹھے تھے کہ ایک روکھڑ فقیر نے آ کے سوال کیا: الکھ۔ اس کے جواب میں تلسی داس نے یہ دوہا کہہ سنایا، دوہا ؎
ہمیں لکھ ہمار لکھ ہم ہمار کے بیچ
تلسی الکھے کہا لکھے رام نام بھج نیچ
اس دوہے کو سن وہ مارے شرم کے لا جواب ہو چپ چاپ چلا گیا۔
نقل 67
کسی شہر کے عامل کا باپ مر گیا۔ وہ اس کے غم میں بہت دلگیر بیٹھا تھا۔ شہر کے سب آدمی کیا دنیا دار کیا فقیر، ہندو مسلمان مل کر اس کے یہاں ماتم پرسی کو گئے اور بیٹھ کر چلے آئے۔ پر چار شخص اُس کی بے قراری دیکھ ان میں سے بیٹھے رہے: بے نوا، بیراگی، سنیاسی اور جوگی۔ اور ہر ایک اپنے اپنے طور کی مثل کہہ چلا آیا۔ بے نوا نے یہ مثل کہی دوست ؎
دید دنیا کا دم بدم کیجے
کس کی شادی و کس کا غم کیجے
بیراگی نے یہ ؎
سادھو یا سنسار میں سبھی بٹاؤ لوگ
کا کو کریں مناونو کا کو کیجے سوگ
سنیاسی نے یہ ؎
آئے ہیں سو جائیں گے راجا رنک فقیر
ایک سنگھاسن بیٹھ کر باندھے جات زنجیر
جوگی نے یہ ؎
جوگی تھا سو اٹھ گیا آسَن رہی بھبھوت
نقل 68
شاہ جہاں بادشاہ کے یہاں کئی ایک پوستیوں نے مل کر کسی کے کہے سنے سے عرضی دی کہ پیر مرشد! آپ کے عمل میں ہم بھوکھے مرتے ہیں اور سب چین کرتے ہیں۔ حضور سے کھانے رہنے کی جگہ ہو جائے تو ہماری جان بچے۔ عرضی کے پڑھتے ہی شاہ نے وزیر سے کہا کہ پوستیوں کے کھانے رہنے کا بند و بست ابھی کر دو تاکہ یے بچارے کسی بات کا دکھ نپاویں۔ حکم ہوتے ہی پوستی خانہ بنوا وزیر نے تمام شہر کے پوستیوں کو وہاں رہنے کو جگہ دے اُن کا درماہ کر دیا۔یہ خبر سن سارے شہر کے سست کم چور کاہل بے محنت کے رُپے لینے کے لالچ سے وہاں آئے آئے پوستیوں میں نام لکھائے لکھائے رہنے لگے۔ غرض ایک سال کے عرصے میں کئی ہزار پوستی شمار کیے گئے۔ تب پوستی خانے کے داروغہ نے وزیر سے جا کہا کہ خداوند! جو اسی طرح سے درماہا ملے جائے گا تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی برس میں سارا شہر پوستی ہو جائے گا۔ ایک ہی برس میں کئی ہزار جمع ہوئے ہیں۔ وزیر نے جا بادشاہ کو خبر پہنچائی۔ شاہ نے فرمایا کہ اسے تجویز کر کے دیکھو، جو اصل پوستی ہے وِسے رہنے دو اور جو تقلیدی ہے وِسے نکال دو۔ یہ حکم ہوتے ہی وزیر نے گھر آئے سب کی دعوت کی اور بہت سا پوست پلایا۔ جب خوب نشے میں ہوئے تب انھیں کھانے کو مٹھائی دی اور یہ کہا کہ جو کوئی کھانے کے وقت بدن میں ہاتھ نہ لگاوے گا سو ہزار رُپے پاوے گا اور اپنا بدن کھجلاوے سو نہیں۔
غرض مٹھائی کھاتے کھاتے اُن کے بدن میں کھجلاہٹ ہوئی؛ تب تقلیدیوں نے تو مارے لوبھ کے نہ کھجلایا، پر اصل پوستی یہ کہہ کھجلانے لگے کہ اس ایک ایک گھسّے پر ہزار ہزار رُپے صدقے ہیں۔ وزیر نے اُسی دن نہ کھجلانے والوں کو جواب دیا اور کھجلانے والوں کا درماہا دونا کیا۔
نقل 69
ایک کڑوڑ پتی بڑا بخیل تھا۔ اس کے گھر میں کچھ شادی آئی تو اُس نے اپنے باورچی و بکاولوں کو بلا کر کہا کہ ایک سیر کی سولہ روٹی پکاؤ اور دو کے آگے ایک رکھو۔ اس میں کھاوے سو کھاوے، بچے سو باندھ لے جاوے۔ ہر گاہ کسی کو منع نہ کرو۔ وے بولے: بہت خوب۔
یہ بات سن کر کوئی ان کا آشنا بولا کہ بھائی صاحب! یہ شادی یا لوٹا لوٹ؟ جواب دیا: بندۂ درگاہ جب کرتے ہیں تب لوٹا لوٹ ہی کرتے ہیں۔ تم نے یہ مثل نہیں سنی: “کیا لے گئے شیر شاہ کیا لے گئے سلیم شاہ، دنیا میں سخی اور شوم کا نام ہی رہ جاتا ہے”۔
نقل 70
مفت بِرانے مال کے کھانے والے دلی کے بانکے مشہور ہیں۔ ایک دن کوئی بانکا کسی حلوائی کی دوکان کے سوں ہیں جا کھڑا ہوا اور لگا اس کی مٹھائی کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھنے۔ وہ بولا: دیکھتے کیا ہو صاحب؟ اس نے ایک مٹھائی کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: کھاجا۔ اتنی بات کے سنتے ہی یہ جھٹ تھال اٹھا اُس کی سب مٹھائی کھا گیا اور لگا کچھ نقد مانگنے اور کہنے کہ میں نے تیرا حکم بجا دیا، اس کا محنتانہ مجھے دے۔ ندان دھمکا دھمکو کے اُس نے ایک رُپیا لے ہی کے چھوڑا۔ تب کئی ایک آدمیوں نے آ کے حلوائی سے پوچھا کہ میاں! یہ کیا معاملہ تھا، کہہ تو سہی۔ بولا: صاحب! کہوں کیا، اپنا سر؟ یہ وہی مثل ہے جو کانوں سنتے تھے سو آنکھوں دیکھی کہ “الٹا چور کتوالے ڈانڈے”۔
نقل 71
ایک گسائیں اپنے چیلے کو ساتھ لے کسی شہر سے تیرتھ کرنے کو نکلا اور چلا چلا ایک گانو میں پہنچا۔ تب اس نے چیلے کے ہاتھ بازار سے کچھ کھانے پینے کا سر انجام منگوایا۔ چیلا جو بازار میں جا کے دیکھے تو سب جنس ایک ہی بھاؤ ہے۔ وہ مارے خوشی کے گھی چینی اور میدا لے آیا اور ملیدا بنا جلدی سے گرو کے آگے لا رکھا۔ گرو نے پوچھا: بابا! آج کیا ہے جو تو نے چورما بنایا؟ بولا: مہاراج! یہاں سب چیز ایک ہی بھاؤ ہے، اس لیے میں نے ملیدا ہی کیا۔ یہ سن گسائیں نے چیلے سے پوچھا: اس گانو کا نام کیا ہے؟ بولا: ہرِ بھوم پور۔ کہا: یہاں سے ابھی چلو، نہیں تو کیا جانیے کس بلا میں پڑیں۔ چیلے نے جواب دیا: میں تو اس شہر سے نجاؤں گا، آپ کا جی چاہے تو تیرتھ جاترا کر آئیے۔ ندان گسائیں اکیلا گیا اور چیلا وہاں رہا۔
برس ایک میں وہ کھا پی کر ایسا موٹا ہوا کہ پہچانا نجاتا تھا۔ ایک روز کوئی چور چوری کرتے پکڑا گیا۔ راجا کے یہاں سے اسے سولی دینے کا حکم ہوا۔ کوتوال اُس چور کو سولی کے پاس لے جا کر کیا دیکھتا ہے کہ چور دبلا اور سولی موٹی ہے۔ یہ خبر راجا سے جا کہی۔ راجا نے فرمایا کہ کسی موٹے کو پکڑ کر سولی دو اور چور کو چھوڑ دو۔ راجا کا حکم ہوتے ہی کوتوال اُس گسائیں کے چیلے کو سب سے موٹا دیکھ پکڑ کر سولی کے پاس لے گیا اور چاہے کہ اُسے سولی پر چڑھاوے کہ اِس میں خدا کا چاہا وہ گسائیں بھی وہاں آ پہنچا اور اپنے چیلے کو سولی دیتے دیکھ بولا: او بابا کوتوال! تو اِسے سولی ندے۔ اس کے بدل مجھے دے۔ کوتوال نے پوچھا: کیوں؟ گسائیں نے کہا: اِس سولی پر جو چڑھے گا سو سوَرگ کا راجا ہوگا۔ اِسی دن کے لیے میں بارہ برس کی عمر سے جوگ کماتا تھا، سو دن بھگوان نے آج دکھایا اور میرا منورتھ پورا کیا۔ کوتوال بولا: تجھے کیوں سولی دوں گا، میں ہیں اس سولی پر چڑھوں گا۔ کوتوال کے سولی چڑھنے کی خبر پا کر صوبے نے کہا: تو نچڑھ، میں چڑھوں گا۔ صوبے کی خبر پا کر دیوان نے کہا: میں چڑھوں گا۔ آخر اسی طرح بحثا بحثی کرتے وہاں کا راجا ہی سولی پر چڑھ مرا۔ تب اُس گسائیں نے چیلے سے کہا: کیوں میں تجھے نہ کہتا تھا کہ یہاں نہ رہ۔ اب بھی رہے گا؟ بولا: مہاراج! میری وہی مثل ہے کہ “بھولے بنیے بھیڑ کھائی، پھیر کھائے تو رام دُہائی”۔
یہ کہہ کر وہ اُسی وقت گرو کے ساتھ وہاں سے نکل کھڑا ہوا۔
نقل 72
ایک سپاہی لکھا پڑھا دنیا داری کے کاروبار سے خفا ہو کر فقیر ہو گیا اور لگا ملک بملک پھرنے۔ کسی شہر کے دروازے کی اوپرلی چوکھٹ میں کچھ لکھا تھا سو لگا بانچنے۔ اس میں اُس نے ایک کونے میں لکھا دیکھا کہ “ہمتِ مرداں مددِ خدا”۔ اس عبارت کے پڑھتے ہی خفا ہو بولا کہ جس شہر کے دروازے پر یہ جھوٹھ لکھا ہے اُس کے اندر نہ جانیے کیا کچھ ہوگا۔
یہ کہہ شہر میں نجا اُلٹا پھرا اور کتنی ایک دور جا کر آپ ہی آپ سوچا کہ میں نے بنا آزمائے کسی کے لکھے کو جھوٹھ کہا، یہ بڑی بے انصافی کی۔ اتنا سمجھ پھر پھرا اور یہ ارادہ کر بوریا بچھا اُسی دروازے میں جا بیٹھا کہ اس شہر کے بادشاہ کی بیٹی کو میں بیاہوں گا۔ اس میں اُسے وہاں تین دن بن دانا پانی کے گذرے۔ درمیان اس کے اُس نے نہ کسو سے بات کہی، نہ کچھ کھایا؛ بلکہ شہر کے لوگوں نے کھلانے پلانے کا بہت قصد کیا، پر اِس نے اُنھیں کچھ جواب ہی ندیا۔ یہ خبر وہاں کے بادشاہ کو پہنچی۔ شاہ نے وزیر کو بلا کر فرمایا کہ اِسی وقت تو جا کے فقیر کو جو مانگے سو دے کر کھلا پلا رخصت کر آ۔
شاہ کے فرماتے ہی وزیر نے فقیر سے جا کے کہا کہ شاہ صاحب! حضور کا حکم مجھے یوں ہے کہ جو فقیر کا سوال ہو سو پورا کر آ۔ جو آپ کو مطلوب ہے سو فرمائیے۔ بندہ لا حاضر کرے۔ فقیر نے کہا: میں بادشاہ کی بیٹی سے شادی کروں گا، تو مجھے لا دے۔ سواے اس کے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ اس بات کے سنتے ہی وزیر لا جواب ہو پھر کر بادشاہ کے پاس پہنچا۔ شاہ نے کہا: کیوں فقیر کو رخصت کر آیا؟ عرض کی: جہاں پناہ! جو فقیر نے بات کہی ہے، تقصیر معاف غلام زبان پر نہیں لا سکتا۔ حضرت نے فرمایا کہ لکھ کر دے۔ اس نے اُن کے فرمانے سے اُس کا سوال لکھ کر گذرانا۔ شاہ نے سوچ سمجھ کے کہا کہ کچھ مضائقہ نہیں۔ اُس سے کہو سوا سیر اَن بیندھے موتی لے آ۔ تیری شادی شاہزادی سے ہوگی۔ بادشاہوں کے یہاں یہ رسم ہے کہ سوا سیر ان بیندھے موتیوں سے شہر دلہن کی گود بھرے۔
وزیر نے پھر جا فقیر سے بادشاہ کی کہی بات کہی۔ وہ “بہت خوب” کہہ بوریا بدھنا باندھ موتی لینے سمندر کی طرف گیا اور وزیر شاہ کے پاس آیا۔ اُس وقت شاہ نے فرمایا کہ جو وہ فقیر صاحب کمال ہوگا تو موتی لاوے گا، نہیں آپ ہی چلا جاوے گا۔ اور جو صاحبِ کرامات ہے تو اسے بیٹی دینے میں ہمیں کچھ ننگ نہیں، کیونکہ وِسکا مرتبہ ہم سے اعلیٰ ہے۔ وہ جسے چاہے بات کی بات میں بادشاہت بخش دے۔
القصہ وہ فقیر سمندر کے کنارے پہنچ کمر باندھ بدھنا ہاتھ میں لے لگا پانی الیچنے۔ جب دن رات الیچتے الیچتے اُسے چوبیس پہر گذرے تب سمندر نے آدمی کی صورت بن آن کے پوچھا کہ فقیر! تو کیوں دریا کا پانی نکال نکال پھینکتا ہے؟ بولا: پانی الیچ کے سوا سیر موتی لوں گا۔ جواب دیا: تجھے سوا سیر موتی ملے، تب تو پانی نہ الیچے گا؟ کہا: نہیں۔ بولا: آنکھ موند، میں تجھے موتی دیتا ہوں۔ اِس نے آنکھ بند کی، اُس نے بہت ہی بڑے بڑے سوا سیر کورے موتی لا اِس کے ہاتھ دیے۔ یہ لے، دعا دے پھر اُسی دروازے میں آ بیٹھا۔ بادشاہ کو خبر ہوئی۔ شاہ نے وزیر کو بھیج اُسے حضور میں بلوایا اور تعظیم تواضع کر مسند پر بٹھایا۔ غرض جب شاہ زادی کو اُس کے سوں ہیں کھڑا کیا، تب فقیر نے موتی کی پوٹلی جھولی سے نکال اتنا کہہ اس کے ہاتھ دی کہ بھینا لے۔ اِس بات کے سنتے ہی بادشاہ نے دانتوں میں انگلی دے کہا: شاہ صاحب! تم نے کیا کہا؟ بولا: بابا! سچ کہا۔ پھر بادشاہ نے پوچھا کہ تمھارا سوال کیا تھا؟ جواب دیا: بابا! سوال جواب کچھ نہ تھا۔ فقیر کو ایک بات کا امتحان کرنا منظور تھا، سو کیا۔ تیرے شہر کے دروازے پر لکھا ہے کہ ہمت مرداں مددِ خدا۔ سو فقیر کے گمان میں جھوٹھ آیا تھا۔ سو نہیں، کسی نے سچ لکھا ہے۔ اتنا کہہ فقیر وہاں سے روانہ ہوا۔
نقل 73
ایک کایتھ نے گانے بجانے کی صحبت میں کسی گویے سے یہ شعر سنا ؎
عشق کیا شے ہے، کسی کامل سے پوچھا چاہیے
تبھی سے وہ صاحب کمال کی تلاش میں تھا کہ ایک گسانئیں اِسے ملا۔ اِن نے ڈنڈوت کر اُس سے پوچھا کہ مہاراج! عشق کیا شے ہے، مجھے دَیا کر بتائیے۔ اس کی بات سن اُس نے کہا: بابا! میں نے تو اپنے گرو دیو کے مکھ سے یوں سنا ہے ؎
عشق اسی کی جھلک ہے جوں سورج کی دھوپ
جہاں عشق تہاں آپ ہے قادر نادر روپ
نقل 74
ایک دن عالمگیر بادشاہ کو کسی نے عرضی دی کہ جہاں پناہ! آپ کی بادشاہت میں دلال دن دَھولے بیچ بازار کے رعیت کو لوٹتے ہیں۔ مال کسی کا لے کوئی، وے درمیان دو آنے رپیہ لیتے ہیں۔ عرضی کے پڑھتے ہی بادشاہ نے سارے شہر کے دلالوں کو پکڑوا منگوایا۔ اور پوچھا کہ تم کس بات کی کوڑی کھاتے ہو؟ عرض کی: جہاں پناہ! بازار میں کوئی چیز آوے، پہلے ہم اس کا مول تول کر دیتے ہیں، تب خریدار لیتے ہیں۔ اسی بات کی کمائی کھاتے ہیں۔ شاہ نے فرمایا: ہمارا مول تول کر دو تو، تو خیر۔ نہیں تو سب کو شہر سے نکال دوں گا۔ اتنی بات کے سنتے ہی اُن میں جو چودھری تھا، سو بانٹ کانٹا لے آگے بڑھ بیٹھا اور لگا ادھر ادھر نکتی میں بانٹ ڈال تولنے۔ اس میں کچھ دیر ہوئی تو بادشاہ نے کہا: کہتا کیوں نہیں، گھڑی گھڑی تولتا کیا ہے۔ اُس نے ہاتھ باندھ کھڑے ہو جواب دیا کہ پیر مرشد! آپ تول میں تو جتنے سب آدمی ہیں وِتنے ہی ہو، پر مول میں نہیں کہہ سکتا۔ کیوں کہ ایک رتی مجھے نہیں ملتی۔ جو رتی ہاتھ لگتی تو وہ بھی کہہ دیتا۔
اس لطیفے کے سنتے ہی بادشاہ نے اُن سب کو پان دے یہ کہہ چھوڑ دیا کہ دلالی کھانا تمھارا حق ہے، شوق سے کھاؤ اور عرضی دینے والے کو نکال دیا۔
نقل 75
ایک متھرا کا چوبے کہیں بیل پر سوار پوریاں کھاتا چلا جاتا تھا۔ کسی کانھ کُبج پنڈت نے دیکھ کر طعن کی راہ سے پوچھا کہ چوبے جی! تم چوکے میں نہ بیٹھ بیل پر بیٹھے پوریاں کھاتے جاتے ہو، سو اس کا پرمان کیا ہے؟ جواب دیا کہ پرسدھ کو پرمان کچھو نا ہیں چاہیت۔ بولا سو کیا۔ اس نے کہا کہ چوکا یاہی کے مارگ سوں نکسیو ہے۔ اس بات کے سنتے ہی وہ پنڈت ہنس کر رہ گیا۔
نقل 76
ایک سپاہی بڑا جواری تھا۔ جب جیتتا تب مارے خوشی کے ایسا غافل ہو جاتا کہ کوئی اس کے پہرنے کے کپڑے بھی اتار لیتا تو بھی اسے معلوم نہ ہوتا۔ اسی امید سے دس پانچ شہدے ہر وقت اس کے ساتھ لگے رہتے اور جد قابو پاتے تد اُس کا مال اڑاتے۔ ایک روز وہ کسی غیر محفل میں جوا کھیلنے کو گیا اور لگا جیت جیت رُپے اپنے آگے سے پیچھے کھسکانے اور اس کے ساتھ لقندرے لگے اڑانے۔ اس میں کسی نے دیکھ کر ایک سے کہا کہ دیکھو، کسی کی کوڑی کوئی اڑاوے۔ دوسرے نے جواب دیا: کیا تم نے یہ مثل نہیں سنی جو تعجب کرتے ہو کہ “اندھی پیسے کتا کھاتے، پاپی کا مال اکارتھ جائے”۔
نقل 77
شاہ جہاں بادشاہ نے دیوان خاص سے لے قلعے کے صدر دروازے تک ایک رسّا بندھوا دیا تھا اور اُس میں گھنٹالیاں گنتھوا چھور اُس کا بیچ بازار میں ڈلوا دیا تھا۔ اس واسطے کہ جو کوئی فریادی آوے سو اُس رسے کو کھینچے۔ گھنٹالیاں باجیں اور فریادی کی فریاد حضور میں بے وسیلے پہنچے۔
ایک روز کسی سقے کا بیل معہ بھری پکھال اُس رسے کے پاس آن کر کھڑا ہوا۔ سقا کسی کے یہاں مشک ڈالنے گیا تھا۔ بیل نے رسے سے سر کھجلایا۔ اس کے سینگ کا جھٹکا جو لگا، ایک بارگی سب گھنٹالیاں باج اٹھیں۔ سنتے ہی شاہ نے فرمایا: دیکھو کون ہے۔ لوگوں نے جھٹ خبر دی کہ پیر مرشد! اور تو کوئی نہیں، ایک بہشتی کا بیل ہے۔ حکم کیا کہ اُسے اس کے مالک سمیت لے آؤ۔ لوگ فی الفور لے گئے۔ شاہ نے فرمایا کہ اس کی پکھال کا پانی تولو کہ کتنا ہے۔ تول کر عرض کی کہ جہاں پناہ! ساڑھے پانچ من ہے۔ سنتے ہی بادشاہ نے حکم کیا کہ آج سے ساڑھے تین من پانی سے زیادہ شہر میں کوئی پکھال نہ بناوے۔۔ اسی وقت منادی پھر گئی۔ تبھی سے ساڑھے تین من پانی سے زیادہ پکھال نہیں بنتی۔
نقل 78
دو دلی کے بانکے بِرانے مال کے اڑانے کھانے والے کسی مکان سے یہ منصوبہ کر کے اٹھے کہ آج بازار میں چل کر بن کوڑی پیسے مفت کی مٹھائی کھایا چاہیے۔ اور آگے پیچھے ہو بازار میں پہنچے۔ ایک تو جاتے ہی رُپے کی مٹھائی تلوا لگا حلوائی کی دکان پر بیٹھ کھانے۔ اور دوسرے نے اُسی حلوائی سے آٹھ آنے کی مٹھائی اور ادھیلی کے ٹکے لے اپنی راہ لی۔ حلوائی نے دوڑ کر اس کا دامن پکڑا اور کہا: میرا رُپیا دو۔ وہ بولا: میں دے چکا ہوں۔ اس میں دونوں سے رد بدل ہونے لگی اور بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ تب اس بانکے نے کہا کہ میں نے ایک بھلے آدمی کے دیکھتے اِسے رُپیا دیا ہے، نہ مانے چل کر پچھوا دوں۔ لوگوں نے کہا: اچھا تو کہتا ہے تو دکان پر کیوں نہیں لے جاتا۔ لوگوں کے کہے سنے سے حلوائی نے دکان پر جا اُس مٹھائی کھانے والے سے پوچھا کہ میاں صاحب! آپ سچ کہیے، اس نے مجھے رُپیا کب دیا ہے؟ وہ بولا: ابے اِنھوں نے تو رُپیا میرے دیکھتے دیا ہے، پر کہیں میرا رُپیا نہ بھول جائیو۔ یہ کہہ وے دونوں اُسے احمق بنا مٹھائی کھا چلے گئے اور وہ بچارا رو جھینکھ کر بیٹھ رہا۔
نقل 79
کسی دن تلسی داس گسائیں کتنے ایک آدمیوں کے بیچ کہیں بیٹھے گیان چرچا کرتے تھے۔ اس میں اُس راہ سے کسی کی برات آ نکلی۔ اُس کے باجے کی آواز سن سب کے من دُچِتے ہوئے۔ تب تلسی داس ہنسے۔ اُن کو ہنستا دیکھ وِن میں سے کسی نے پوچھا: مہاراج! آپ کیا دیکھ کر ہنسے؟ جواب دیا: دنیا کی بھول دیکھ کے۔ بولا سو کیا، اوتر دیا ؎
پھولے پھولے پھرت ہیں آج ہمارو بیاہ
تلسی گائے بجائے کے دیت کاٹھ میں پائے
نقل 80
ایک بڑا سوداگر کسی صاحب کمال فقیر کے یہاں جا کر مرید ہوا اور پیر کی خدمت میں آٹھوں پہر حاضر رہنے لگا۔ خدا کا چاہا چھ مہینے کے عرصے میں اس کا ایسا کام بگڑا کہ کھانے پینے کو بھی کچھ پاس نرہا۔
ایک روز پیر نے اِسے اداس دیکھ کہا کہ بابا! کیا تو نے یہ مثل بھی نہیں سنی جو اتنی فکر کرتا ہے ؎
الہ داد کرتا کی باتیں کیا نکرتا کیا نکرے
ہاتھی مار گرد میں ڈالے ادنی کے سر چھتر دھرے
ریتے بھرے بھرے ڈھلکا وے
مہر کرے تو پھیر بھرے