نقل 21
دو کایتھ عقل مند لکھے پڑھے کسی مکان پر بیٹھے بحثتے تھے۔ ایک کہتا تھا کہ آدمی اُتّم برن میں پیدا ہونے سے پنڈت چتُر ہوتا ہے، اور دوسرا کہتا تھا کہ اچھی سنگت سے۔ ان کا بحثنا دیکھ کسی مردے آدمی نے کہا کہ اس بحثنے سے تو تمھارا قضیہ نہ مٹے گا۔ بہتر ہے کہ اس معاملے میں کسی کو منصف مانو۔ یہ بات اُن دونوں کو پسند آئی اور سورداس جی کے پاس جا کر ہر ایک نے اپنا دعویٰ اظہار کیا۔ سنتے ہی سورداس نے ان کے جواب میں یہ دوہا پڑھا ؎
سوات بوند سیپی مکت کدلی بھیو کپور
کارے کے مکھ بِش بھیو سنگت سوبھا سور
نقل 22
کوئی پوستی جنگل میں بیٹھا پیالے میں پوست گھول رہا تھا۔ اتفاقاً کسی جھاڑ جھوڑ سے ایک خرگوش جو نکل دوڑا تو اس کے دھکے سے اِس کا پیالا لڑھک پڑا۔ یہ خفا ہو بولا کہ تجھ سے کیا کہیں بھلا، تیرے مربّی ہی سے جا کر کہیں گے۔ اتنا کہہ کونڈی سونٹا بغل میں دبا شہر میں جا ہر ایک چوپاے کو دیکھتا چلا۔ ندان ایک گدھے کو جو اس کے رنگت سے مشابہ پایا تو گدھے والے سے جا کر کہا کہ تیرے اس جانور کے بیٹے نے میرا پوست کا پیالا بھرا ہوا لڑھا دیا۔ اس نے کہا کہ جس کے بیٹے نے لڑھایا ہے وِسی سے جا کے کہو۔ یہ سن وہ گدھے کے پاس جا اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ چاہے کہ کچھ کہے، ووہیں اس نے پھر کر ایک ایسی دُلتّی ماری کہ یہ بچارا آہ کر بیٹھ گیا اور ہنس کر بولا کہ کیوں نہو، جس کا مربّی ایسا ہو وِس کا لڑکا ویسا ہوا ہی چاہے۔ اتنا کہہ چلا آیا۔
نقل 23
ایک بادشاہ نے کسی سے کہیں یہ بات سنی تھی کہ پورب کے لوگ بڑے بد لحاظ و بے تمیز ہوتے ہیں۔ اس بات کے امتحان کرنے کو بادشاہ نے چار طرف سے چار رنڈیاں منگوا تربیت کروا اپنی خدمت میں رکھیں۔ کئی برس کے بعد ایک دن بادشاہ محل سرا میں سرِ شام سے بیٹھے ناچ دیکھتے تھے اور چار گھڑی رات پچھلی باقی رہ گئی تھی۔ اُس وقت شاہ نے وہ بات یاد کر کے پہلے پچھم والی رنڈی سے پوچھا کہ رات کتنی ہوگی؟ وہ بولی: جہاں پناہ! رات تھوڑی ہے۔ کہا: تو نے کس طرح جانا؟ عرض کی کہ نتھ کے موتی ٹھنڈے لگتے ہیں۔ پھر دکھن والی سے پوچھا کہ شب کتنی ہوگی؟ جواب دیا کہ عنقریب ہے کہ فجر ہو۔ فرمایا: تو نے کیوں کر دریافت کیا؟ بولی: پان سیٹھا لگتا ہے۔ بعد اتّر والی سے پوچھا: جو رین کس قدر ہوگی؟ کہا: نپٹ تھوڑی ہے۔ ارشاد فرمایا: تیں نے کس ڈھب سے معلوم کیا؟ بولی: حضرت سلامت! چراغ کی جوت مند ہوئی۔ پیچھے پوربنی سے پوچھا کہ نِس کتنی رہی ہوگی؟ اتّر دیا: نہایت تھوڑی ہے۔ بولے: تو نے کیسے جانا؟ عرض کی کہ جہاں پناہ! مجھے پاخانے کی حاجت ہوئی ہے۔ اس بات کے سنتے ہی سب بیگمات اور سہیلیاں کھل کھلا اٹھیں۔ تب شاہ نے خفا ہو یہ کہہ اُسے اُٹھوا دیا کہ اُس شخص نے سچ کہا تھا۔ اُس ملک کے لوگ لائق بادشاہوں کی مجلس کے نہیں۔
نقل 24
ایک دن اکبر بادشاہ نے بیربل سے کوئی بات کہہ کے اس کا جواب پوچھا۔ بیربل نے وہ جواب دیا کہ جو بادشاہ کے دل میں ٹھہرا تھا۔ سن کر شاہ نے کہا کہ یہی بات میرے بھی جی میں آئی ہے۔ بیربل بولا کہ پیر و مرشد! یہ وہی بات ہے جو سو سیانے ایک مت۔ شاہ نے کہا کہ یہ مثل بھی تو مشہور ہے جو سر سر عقل گُر گُر بدیا۔ پھر بیربل نے عرض کی کہ جہاں پناہ! مزاج میں آوے تو اس بات کو آزما لیجیے۔ فرمایا: بہت اچھا۔ اتنی بات کے سنتے ہی بیربل نے شہر میں سے سو عقل مند بلا بھیجے اور دو پہر رات کے وقت بادشاہ کے حضور انھیں ایک خالی حوض بتا کر کہا: حضور کا حکم ہے کہ اسی وقت ہر ایک آدمی ایک ایک گھڑا دودھ کا بھر کر اس حوض میں لا ڈالے۔ حکمِ بادشاہی کو سنتے ہی ہر ایک نے اپنے جی میں یہ بات سمجھ کے کہ جہاں ننانویں گھڑے دودھ کے ہوں گے تہاں میرا ایک گھڑا پانی کا کیا معلوم ہوگا، پانی ہی لا ڈالا۔ بیربل نے شاہ کو دکھایا۔ شاہ نے ان سب سے کہا: تم نے کیا سمجھ کے میرے حکم کو نمانا؟ سچ کہو، نہیں تو بے طرح پیش آؤں گا۔ وِن میں سے ہر کسی نے ہاتھ باندھ باندھ کر کہا کہ جہاں پناہ! خواہ ماریے خواہ چھوڑیے، غلام کے جی میں یہ بات آئی کہ جہاں ننانویں گھڑے دودھ کے ہوں گے وہاں ایک گھڑا پانی کا کیا معلوم ہوگا۔ یہ بات سب کی زبانی سن کر بادشاہ نے بیربل سے کہا: جو کانوں سنتے تھے سو آنکھوں دیکھا کہ سو سیانے ایک مَت۔
نقل 25
ایک شخص بڑا افیمی تھا۔ اُس کے یہاں کوئی خدمت گار نیا نوکر ہوا۔ اُن نے اس سے پوچھا کہ میاں! تو کچھ نشہ تو نہیں پیتا؟ بولا: پیر مرشد! غلام سواے افیم اور کسی نشے سے آشنا نہیں۔ یہ بات سن بہت خوش ہو افیم کی ڈبیا نکال اُن نے آپ کھا اُسے دے کر کہا کہ میاں! آج ہمارا جی چاہتا ہے میٹھے چانول جلدی سے پکا دو تو کھائیں۔ “بہت خوب” کر کے پکانے لگا۔ اس میں پینک جو لگی تو دوپہر گذر گئی۔ آقا نے پکار کر کہا کہ ارے بھائی! چانول پکے یا نہیں؟ بولا کہ خداوند! پک چکے ہیں پر دم دینا باقی ہے۔ کہا: جلدی لاؤ۔ قصہ کوتہ، بہزار خرابی فجر سے پکاتے پکاتے شام کو تیار کر لے گیا۔ دیکھ کر آقا نے کہا: شاباش! کیا جلدی پکا لایا ہے۔ اتنی بات کے سنتے ہی وہ ہاتھ جوڑ کر بولا کہ قبلہ! فدوی سے آپ کی نوکری نہو سکے گی۔ کہا: کیوں؟ جواب دیا: ایسی شتابی میں ایک روز میری جان جاتی رہے گی۔ اور چلا گیا۔
نقل 26
شاہ جہاں بادشاہ دارا شکوہ شاہزادے کو بہت چاہتے تھے۔ ایک روز انباری دار ہاتھی پر سوار اور دارا شکوہ خواصی میں چلے جاتے تھے۔ اس میں شاہزادے نے ایک طرف دیکھا جو کوئی ساہوکار بچی سولہ سترہ برس کی جس کا چاند سا مکھڑا کاجل مسّی لگائے پان کھائے نکھ سکھ سے سنگار کیے جوانی کا مد پیے دونوں ہاتھ کواڑ کے دونوں بازؤں پر دیے بے حجاب کھلے بندوں کھڑی دیکھتی ہے۔ وِس کی بے باکی دیکھ شاہزادے نے ریجھ کر باپ سے کہا: جہاں پناہ! دیکھیے یہ عورت کس بے حجابی سے ادھر دیکھتی ہے۔ شاہ نے شہزادے کی بد طینتی دیکھ فرمایا: بابا جان! باپ بھائی کے روبرو حجاب کیا چاہیے۔ یہ سن شہزادہ شرما کر چپ ہو رہا۔
نقل 27
کسی تیرتھ کے نزدیک ایک مٹھ میں کتنے ایک فقیر راماوت نیماوت نانک پنتھی دادو پنتھی سنیاسی بیٹھے آپس میں مت کا بِباد کر رہے تھے۔ کوئی کسی کی بات نمانتا تھا۔ اپنے اپنے پنتھ کی چوڑائی بڑائی کرتے تھے۔ نِدان جھگڑتے جھگڑتے تونبے کھپّر پھوٹنے کی نوبت پہنچی۔ اس میں ایک ابدھوت بولا: سادھو کیوں لڑ مرتے ہو، اس دوہے کے ارتھ کو تو سمجھو ؎
گھٹ گھٹ میں مورت وہی لال جو نہیں وِویک
جیسے پھوٹی آرسی کھنڈ کھنڈ مکھ ایک
نقل 28
ایک امرا بڑا بخیل تھا کہ کبھی جھوٹھے ہاتھ سے کتا بھی اُس نے نہ مارا تھا اور کھانے کھلانے کا تو کیا ذکر۔ ایک روز کوئی کلاونت بھولا بھٹکا اس کے یہاں جا پہنچا اور اسے بڑا آدمی جان تنبورا ملا خوب گایا اور اُن نے بھی ریجھ کر داد دی۔ بارے اتنے میں بکاول نے آ عرض کی کہ خداوند! خاصا تیار ہے۔ بولا کہ میرے سر میں درد ہے، ابھی رہے ایک نیند لے کر کھاؤں گا۔ یہ بہانہ کر منہ ڈھک سو رہا اور کلاونت بھی اس کے مکر کرنے کے مقصد کو دریافت کر پلنگ کے تلے پاینتی لوٹ رہا۔ پہر ایک کے بعد امرا نے کسی اپنے چاکر سے پوچھا کہ ابے! وہ بلا گئی؟ اس میں کلاونت نے جواب دیا کہ بلیّا لوں، یہ بلا تو قد من لگی ہے۔ بن کھانا کھائے کب جات ہے۔ اِس لطیفے کو سمجھ خوش ہو اُس نے اِسے اپنے ساتھ کھانا کھلا کچھ دے رخصت کیا۔
نقل 29
کسی گانو میں ایک لڑکا چھ دام کی کوڑی لے بھڑ بھونجے کی دوکان پر چبینا لینے گیا۔ اس نے چبینا کوڑی لے تول دیا۔ اِس نے کھنبھے کو کھپچی میں کر دونوں ہاتھ بڑھا لیتے تو لیا پر ہاتھ نہ نکال سکا۔ تب رونے لگا۔ اس کا رونا سن بہت سے لوگ وہاں جمع ہوئے اور ہاتھوں میں کھنبھا دیکھ حیران۔ کسی کی عقل کچھ کام نکرتی تھی۔ نِدان ایک نے ان میں سے کہا کہ بھائی لال بجھکڑ آوے تو یہ لڑکا بچے۔ نہیں تو اس کا بچنا دشوار۔ یہ سن کوئی اس کا مالک لال بجھکڑ کو بلا ہی لایا اور آتے ہی وِنھوں نے دیکھ کر فرمایا کہ ؎
بوجھے لال بجھکڑا اور جو بوجھے کو
چھان بلینڈا دور کرو اسے اوپر کر کے لو
نقل 30
لاڑ کپور ایک دن اکبر بادشاہ کے رو برو خوب گائے۔ شاہ نے ریجھ کر ہاتھی دیا، یے لے آئے۔ برس ایک کے بعد اُن دونوں بھائیوں کے جی میں آیا کہ آج ہاتھی کی خوراک چل کر دیکھیں کہ کتنا کھاتا ہے اور کس طرح کھاتا ہے۔ غرض راتب کے وقت موڑھا بچھا بچھا ہاتھی کے پاس جا بیٹھے اور اُس کا کھانا دیکھ نہایت حیران و فکر مند ہو آپس میں کہنے لگے کہ بھائی صاحب! بادشاہ نے یہ ہمارے پیچھے کوئی بڑی بلا لگا دی۔ نہ اسے بیچ سکیں، نہ کسی کو دے سکیں۔ جو یہ چند روز یہاں رہا تو اس کے کھانے کے آگے ہمارا گانا بجانا سب خاک میں مل جائے گا۔ اتنا کہہ کچھ دل میں سمجھ ڈھولک تنبورا اس کے گلے میں ڈال چھوڑ دیا۔ اُن نے شہر میں جا دھوم کی اور شہریوں نے جا بادشاہ کے یہاں فریاد۔ شاہ نے فرمایا: دیکھو کس کا ہاتھی ہے۔ کسی نے آ عرض کی کہ جہاں پناہ! لاڑ کپور کا۔ حکم کیا کہ انھیں بلواؤ۔ کہنے کے ساتھ ہی وے آن حاضر ہوئے۔ دیکھتے ہی خفا ہو حضرت نے کہا: کیوں بے، تم نے ہاتھی کیوں چھوڑ دیا؟ انھوں نے ہاتھ باندھ عرض کی: قبلۂ عالم! غلام کو جو ہنر آتا تھا سو برس روز میں سب سکھلا ڈھولک تنبورا اُس کے ہاتھ دیا۔ اس لیے کہ شہر بادشاہی ہے۔ اس میں جا کر کماوے اور کچھ وِس میں سے آپ کھا ہمیں کھلاوے۔ اس لطیفے کے سنتے ہی خوش ہو بادشاہ نے ان کا قصور معاف کیا اور ہاتھی کے عوض ایک گانو دیا۔
نقل 31
کوئی بنیاں بٹوہی باٹ بھول کے ایک بن میں جا نکلا۔ وِسے وہاں اور تو کوئی نہ نظر آیا، پر ایک جوگی دکھائی دیا۔ اُس نے اِسے ڈنڈوت کر کے پوچھا: ناتھ جی! آتے ہو کہاں سے اور جاؤ گے کہاں؟ جواب دیا: بابا! ہنگلاج جوالا مکھی ہردوار کُرچھیتر کر کے تو آتا ہوں اور کاشی ہو گنگا گوداوری کا میلا کر سیت بندھ رامیشور کو جاؤں گا۔ بنیے نے کہا: مہاراج! ایک بات پوچھوں جو خفا نہو۔ بولا: بابا! ایک نہیں دو۔ کہا: مہاراج! ہم گرھستی ہیں جو دیس دیس پھریں تو کچھ دوش نہیں۔ آپ فقیر ہو، بھٹک بھٹک کیوں بھرم گنواتے ہو۔ ایک ٹھور بیٹھ کر کس لیے اپنے بھگوان کا دھیان نہیں کرتے؟ کہا: بابا! تو نے یہ کہاوت نہیں سنی ؎
بہتا پانی نرملا بندھا گندھیلا ہوئے
سادھو جن رمتا بھلا داگ نہ لاگے کوئے
نقل 32
کسی تاجر کا لڑکا بڑا خانہ جنگ ہوا۔ جب وہ خانہ جنگی کر کے پکڑا جائے تب اس کا باپ رپے دے کر چھڑا لائے۔ ایک روز وِس کے باپ سے کسی اُس کے بھائی نے سمجھا کر کہا کہ جو تم اسی طرح بیٹے کی مامی پی کے نت ڈانڈ بھرو گے تو ایک دن سب دولت کھو بھوکھے مرو گے۔ اُس نے پوچھا: میں کیا کروں؟ جواب دیا: اب خانہ جنگی کر کے قید پڑے تو نہ چھڑاؤ، پھر آپ ہی سیدھا ہو جائے گا۔ کہا: بہت اچھا۔ غرض وہ خانہ جنگی کر قید میں پڑا اور اِس نے نہ چھڑایا۔ پانچ چار برس وہیں رہنے دیا۔ اِس میں کسی بھلے آدمی نے آ کر اُن سے کہا کہ اب تمھارے بیٹے نے خانہ جنگی سے ہاتھ اٹھایا اور توبہ کی۔ اِنھوں نے اِس کی بات مان اُسے چھڑا منگایا۔ ایک دن وہ باتوں ہیں باتوں میں کسی پر خفا ہوا، تد اُس کے باپ نے کہا: میاں! یہ وہی مثل ہے “رسی جل گئی پر بل نہ گیا”۔
نقل 33
سنتے ہیں ابراہیم ادھم کی سیج سوا من پھولوں سے سنواری جاتی تھی۔ ایک روز باندی نے سیج تیار کر کے اپنے جی میں بچارا کہ اِس بچھونے پر سونے سے کیا آرام جی کو ہوتا ہوگا، یہ سوچ ادھر اُدھر دیکھ وہ جوں اُس پر لیٹی توں آرام پا کے بے ہوش سو گئی اور پھولوں کے اندر پیٹھ بے معلوم ہو گئی۔ پہر ایک پیچھے بادشاہ نے بھی آ اُسی پر آرام فرمایا۔ گھڑی دو ایک بعد اُس نے جو کروٹ لی، شاہ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے کہ دیکھو اس پلنگ میں کیا بلا ہے؟ ایک کے کہتے دس دوڑ آئے اور انھوں نے باندی کو نکال باہر کیا۔ دیکھ کر حضرت نے فرمایا کہ اِس مُردار کے میرے رو برو سو تازیانے مارو۔ بات کے کہتے ہی لوگوں نے سو کوڑے گن کر بے دریغ لگائے۔ اُس نے پچاس ہنس ہنس کر اور پچاس رو رو کر کھائے۔ تماشا دیکھ بادشاہ نے اُسے پاس بلا کے پوچھا کہ سن تو! مار کھانے سے آدمی روتا ہے۔ تو جو ہنسی اور روئی، اِس کا کیا سبب؟ عرض کی: جہاں پناہ! پھولوں کی سیج پر پہر بھر سونے کی سزا خدا کے یہاں نہو یہاں ہیں ہوئی۔ اس بات کو تو سوچ کے میں ہنسی اور آپ کو خدا کے یہاں اس سیج پر نت سونے کی نہ جانوں کیا سزا ہوگی، یہ اندیشہ کر کے روئی۔
کہتے ہیں کہ ابراہیم ادھم اس بات کے سنتے ہی بادشاہت چھوڑ فقیری لے جنگل کو چلا گیا۔
نقل 34
شاہ جہاں بادشاہ کے شہزادہ دارا شکوہ کو چڑیاؤں سے بہت شوق تھا۔ ایک روز فرمایا: شہر میں منادی پھیر دو کہ جس کے یہاں جو جانور شکاری اڑنے لڑنے بولنے والا ہے، لے کر کل فجر حضور میں حاضر ہوئے۔ اس خوش خبری کے سنتے ہی جتنے شہر میں شوقین تھے، اپنے اپنے پرندوں کو اڑائے لڑائے بلائے دوڑائے تیار کر بڑے تکلف سے لے گئے اور کوئی تماش بین تماشا دیکھنے کے لالچ سے ایک کوے کو پنجرے میں بند کر کئی ایک عمدہ غلاف اس پر ڈال ان کے پیچھے لیے چلا گیا۔ وہاں سب کے جانور کھلے اور دکھلائے گئے۔ ہر کسی نے اپنے جانور کی تعریف کی اور انعام پایا۔ جب اس کی نوبت آئی تو یہ اپنے دل میں گھبرایا۔ غرض لوگوں نے اس کے ہاتھ سے پنجرا لے غلاف اتار کوا شہزادے کو دکھایا۔ دیکھتے ہی ہنس کر شہزادے نے اس سے پوچھا کہ میاں! ان سب کے جانوروں کا تو وصف دیکھا اور سنا۔ اب تم اپنے جانور کا بیان کرو کہ یہ کیا وصف رکھتا ہے۔ ہاتھ باندھ کھڑا ہو بولا: پیر مرشد! کسی کا اڑنا لیا ہے، کسی کا لڑنا، کسی کا بولنا، کسی کا دوڑنا۔ پر اس کا غرّا ہی لیا ہے۔ اس حاضر جوابی سے خوش ہو دارا شکوہ نے انعام سب کے ساتھ اس کو بھی دیا۔
نقل 35
کسی روز اکبر بادشاہ اور بیربل ایک باغ کے برج پر بیٹھے کھیتوں کا سبزا دیکھ رہے تھے۔ اس میں بادشاہ نے ایک مور کو ارہر کے کھیت میں جاتے دیکھ پوربی زبان میں از راہ ظرافت بیربل کو کہا: بیربل! دیکھ تور میں مور جات ہے۔ سمجھ کے ووں ہیں وِسی بولی میں بیربل نے بھی جواب دیا: جہاں پناہ! تور پھاٹت جات ہے مور پیٹھت جات ہے۔ سن کر بادشاہ چپ ہی ہو رہے۔
نقل 36
ایک کبیشور اپنے شاگرد کو ساتھ لے کسی شہر میں روزگار کے لیے گیا اور وہاں کے عمدہ لوگوں سے ملاقات کر کے کئی برس وِس جگہ رہا۔ پر کچھ اسے فائدہ نہ ہوا، کیوں کہ وہاں کے لوگ اپنی جہالت سے اس کے گن کو نہ سمجھے۔ تب اس کے شاگرد نے یہ دوہا اس کے سوں ہیں پڑھا ؎
جہاں نہ جاکو گن لہے تہاں نہ تاکو ٹھاؤں
دھوبی بیٹھ کہا کرے دیگنبر کے گاؤں
اِس کے جواب میں استاد نے بھی یہ دوہا کہہ سنا ؎
جہاں نہ جاکو گن لہے تہاں نہ دکھ سکھ بات
بن میں تج مکتان کوں پہرت گُنج کِرات
نقل 37
کوئی مَردے آدمی کسی طالب العلم کی زبانی ایک عالم کے علم کی تعریف سن کر مشتاق ہو اُس کے گھر ملاقات کو گیا۔ وہ اپنے دروازے پر بیٹھا کتاب مطالعہ کرتا تھا۔ یہ سلام کر اس کے سوں ہیں مُاَدّب بیٹھ بولا: حضرت سلامت! یہ کون سی کتاب ہے۔ جواب دیا: تو کون ہے جو مجھ سے پوچھتا ہے؟ کہا: آپ کا خادم ہوں۔ بولا: جا تجھے اس کے سمجھنے کی لیاقت نہیں۔ اس نے کہا: بس معلوم ہوا کہ آپ علم غیب کی کتاب دیکھتے ہیں کہ جس سے بے ملاقات آپ نے میری لیاقت دریافت کی۔ اس بات کو سن وہ شرمندہ ہو بولا: اخلاق کی کتاب ہے۔ تب اس نے ہنس کر یہ کہا کہ آپ اسی سے ایسے صاحب اخلاق ہیں۔ اور اپنی راہ لی۔
نقل 38
ایک بہرا گڈریا جنگل میں اپنی بھیڑیں چراتا تھا۔ قضا کار اُس کی ایک بھلی بھیڑ کھوئی گئی۔ تب اس نے ایک لنگڑی بھیڑ کی طرف دیکھ کر کہا کہ جو وہ بھیڑ ملے تو اسے میں کسی کو خدا کی راہ پر دوں گا۔ اتنا کہتے ہی بھیڑ ملی، تد وہ لنگڑی بھیڑ کا کان پکڑ کسی کو دینے لے چلا۔ اس میں سوں ہیں سے ایک اور بہرا آیا۔ اس نے وِس سے کہا کہ یہ بھیڑ تو لے۔ وہ بولا: خدا کی قسم! میں نے اِس کی ٹانگ نہیں توڑی۔ غرض یہی کہتے کہتے دونوں قاضی کے یہاں گئے۔ قاضی بھی بہرا تھا اور اپنے گھر میں کسی سے خفا ہو بیٹھا تھا۔ انھیں دور سے آتے دیکھ اُن نے اپنے جی میں جانا کہ شاید یے اُسی کا پیغام لیے آتے ہیں۔ یہ سمجھ اتنا کہہ اپنے گھر بھیتر بھاگ گیا کہ اس بد ذات کی بات مَیں کبھی نہ سنوں گا۔
نقل 39
کسی امرا کے دو بیٹے تھے۔ ایک سخی دوسرا بخیل۔ سخی تو اچھے اچھے جوانوں کو بڑے بڑے درماہے کر کے نوکر رکھتا اور بخیل چھوٹے چھوٹے لوگوں کو کم مہینے پر چاکر رکھتا۔ ایک روز ان کے باپ نے وِن دونوں کو کسی غنیم سے لڑنے کو بھیجا۔ جنگ میں سخی کی جیت ہوئی اور بخیل کی ہار۔ اِس بات کے سنتے ہی ان کے باپ نے کسی اپنے مصاحب سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب جو ایک ہارا اور ایک جیتا۔ اس نے جواب دیا کہ پیر مرشد! آپ نے یہ مثل نہیں سنی ؎
جو مارے ٹٹو سنگرام
تو کیوں خرچیں تازی کو دام
نقل 40
ایک کچھوے اور کوّے سے بڑی دوستی تھی۔ کام پڑنے سے ایک ایک کی مدد کرتا۔ ایک روز کسی چڑی مار نے کوے کو پکڑا تب کچھوے نے چڑی مار سے کہا کہ تجھے اس کے لے جانے سے بازار میں کیا ملے گا؟ بولا: دو پیسے۔ کہا: جو تو اسے چھوڑ دے تو میں تجھے ایک موتی دوں۔ کہا: اچھا۔ اُس نے غوطہ مار کے موتی لا دیا، پر اِس نے کوے کو نہ چھوڑا۔ تد کچھوے نے کہا کہ میں نے موتی تو تجھے لا دیا۔ اب اسے کیوں نہیں چھوڑتا؟ بولا: ایک موتی اور لا دے تو چھوڑ دوں، نہیں تو نہیں چھوڑوں گا۔ اس نے کہا: اچھا، تو اسے چھوڑ دے میں لا دیتا ہوں۔ وہ بولا: میں تیری بات کا کیسے اعتبار کروں؟ کہا اس نے: میں جھوٹھ نہیں بولتا۔ اس بات کے سنتے ہی اس نے کوے کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا موتی لا دیا۔ پھر چڑی مار دوسرے موتی کو چھوٹا دیکھ بولا کہ یہ میں نہ لوں گا۔ اسی کے برابر کا لا دے۔ اس نے کہا: یوں تو نہیں، پر جو تو یہ موتی مجھے دے تو میں اس کے برابر کا وہیں سے دیکھ لاؤں۔ مارے لالچ کے اس نے موتی دیا۔ وہ لے غوطہ مار بیٹھ رہا۔ ایک پہر کے پیچھے اس نے گھبرا کے وِسے پکارا، تب اس نے آ کر خفا ہو کہا کہ تو بڑا بے وقوف ہے جو مجھے پکارتا ہے۔ کیا تیں نے یہ کہاوت نہیں: جو کچھ خدا کرے سو ہو، لینا ایک نہ دینا دو۔ یہ سن چڑی مار نراس ہو اپنے گھر گیا۔