نقل 1
ایک ساہوکار پوتڑوں کا رجّا زمانے کے پیچ پاچ میں آ اپنی دولت سب کھو بیٹھا اور لگا نپٹ دکھ پانے اور فاقے کڑاکے کھینچنے۔ نِدان اس کے جی میں یہ خیال گذرا کہ جو میں کسی مہا پُرس یا سِدھ کے پاس جاؤں تو یہ دکھ مٹے۔ کیونکہ سنا ہے سادھ کے درشن سے بیادھ جاتی ہے۔ اتنا بچار چلا چلا ایک جوگی کے پاس گیا۔ یہ اُسے کچھ نہ کہنے پایا کہ اُس نے اپنے جوگ سے اِس کا مطلب دریافت کر کے کہا۔ دوہا ؎
سکھ دکھ پَرَتِ دن سنگ ہیں میٹ سکے نہیں کوے
جیسے چھایا دیہ کی تیاری نیک نہوے
یہ معقول جواب پا وہ بچارا صبر کر اپنے گھر آیا۔
نقل 2
ایک اندھا بیراگی کاشی کے بیچ منکرنِکا گھاٹ پر بیٹھا گہن میں دہی پیڑے کھا رہا تھا کہ دیکھ کر کسی پنڈت نے پوچھا: سورداس جی! یہ کیا کرتے ہو؟ بولا: مہاراج! دہی پیڑے کھاتا ہوں۔ کہا: گہن میں؟ جواب دیا: بابا! میرے گرو کی دیا سے سدا ہی گہن ہے۔ یہ سن پنڈت ہنس کر چپ ہو رہا۔
نقل 3
کوئی راجپوت بہت افیم کھاتا تھا۔ اتفاقاً اسے سفر درپیش ہوا اور کسی منزل میں جا کر اترا۔ وہاں کے لوگوں نے آکر اِس سے کہا کہ ٹھاکر صاحب! یہاں چوری بہت ہوتی ہے۔ آپ چوکسی سے رہیے گا۔ یہ بات سن کر رات تو اس نے جاگ کر کاٹی، پر یہ بات جی میں رکھی کہ چوری بہت ہوتی ہے۔
فجر ہوتے ہی گھوڑے کی پیٹھ لگا، ایک شہر کے بیچ چلا جاتا تھا کہ ایکا ایکی پینک سے چونک کر پکارا: ارے رمچیرا ارے رمچیرا! گھوڑا کہاں؟ وہ بولا: مہاراج! گھوڑے پے تو بیٹھے ہی جاتے ہو اور گھوڑا کیسا؟ کہا: بیٹا! اس بات کا کچھ مضایقہ نہیں، لیکن ہُشیار رہنا خوب ہے۔
نقل 4
ایک بنیاں کہیں گیا تھا۔ دو تین دن بعد وہاں سے آیا تو اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند پایا۔ پکارا: کواڑا کھولیو۔ بھیتر سے اُس کی جورو نے جواب دیا کہ کھولوں ہوں بابا۔ اس نے سن کر کہا: اے رانڈ! کیا بکتی ہے؟ وہ بولی: میری آنکھ دُکھے ہے۔ کہا: آنکھ کی تو سچ ہے میّا۔
نقل 5
پٹھانوں کی کسی بستی میں ایک ملا تھا۔ جو کچھ فاتحہ درود کا ان کے کام ہوتا، اس کو بلا لیتے اور اپنا کام کروا لیتے۔ اِس میں شب برات جو آئی تو ہر ایک کے گھر سے اُسے بلاہٹ ہوئی۔ تب اس کے کسی آشنا نے پوچھا کہ کہو دوست! آج تم اکیلے کیا کروگے اور کس طرح گھر گھر فاتحہ پڑھوگے؟ بولا: بھائی! مجھے فاتحہ پڑھنے سے کیا کام۔ مردہ دوزخ جائے یا بہشت، مجھے اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔
نقل 6
کسی نے ایک گیانی سے پوچھا کہ مہاراج! آدمی جگ میں پیدا ہو کر دکھ سے کیوں کر چھوٹے۔ سو دَیا کر مجھ سے کہو۔ تب اس نے اِس کو جواب تو نہ دیا، پر یہ دوہا پڑھا ؎
بھگت مان بھگتے بنے گیانی مورکھ دوئے
گیانی بھگتے گیان سوں مورکھ بھگتے روئے
نقل 7
دو کلاونت دکھن سے کمائی کیے دلّی کو چلے آتے تھے کہ راہ میں دوڑوں نے آئے لیا اور لگے برچھیاں بھالے اٹھائے اٹھائے مار مار ڈال ڈال پکارنے۔ اُس وقت یے دونوں بھی جھٹ گاڑی سے اتر چٹ پرتل کے ٹٹو پر جا بیٹھے اور لگے ان سے پوچھنے کہ بلیّا لوں! مار مار ڈار ڈار ہی کر ہی کر جانیو ہے، کی کبھو چوپڑ ہو کھیلے ہو؟ اُن میں سے ایک بولا کہ کیوں؟ اِنھوں نے کہا کہ کہوں جُگ ہو ماریو جاتُ ہے۔ اس لطیفے سے وے بہت خوش ہوئے اور انھیں نہ لوٹ ہنس کر چلے گئے۔
نقل 8
کسی ٹھاکر دوارے میں کئی ایک عطائی چین سے بیٹھے گائے رہے تھے اور بہت سے لوگ کھڑے سنتے تھے۔ اِس میں ایک ڈھیٹھ بیراگی آیا اور اُن کے ہاتھ سے تنبورا لے سب کے بیچ میں بیٹھ لگا بے سُرا ہو گانے۔ اُس کا کھٹراگ سن سب اداس ہوئے پر کوئی کچھ نہ بولا۔ ندان ایک چوبے کھڑا سنتا تھا۔ اس نے کہا: بابا جو! بس کرو بس کرو، بہت گائے۔ بیراگی نے کھجلا کے جواب دیا: مہاراج! میں تو اپنے ٹھاکر کو رِجھاتا ہوں۔ اور کوئی ریجھا تو کیا اور نہ ریجھا تو کیا۔ چوبے بولا: سارے مو کوں تو رجھائے ہی نہ سکیو۔ کہا: ٹھاکر مو ہو سوں کوڑھ ہے جو تو رجھائے لیگو۔ یہ سن وہ شرمندہ ہو چپ چاپ اٹھ کر چلا گیا۔
نقل 9
کئی ایک امیر زادے کسی جگہ ایک میخ گاڑ اس پر رُپیا رکھ تیر اندازی کرتے تھے اور شرط یہ تھی کہ جو اس رپے کو اُڑاوے سو لے۔ اتفاقاً کسی آزاد نے جا وہیں اُن سے سوال کیا کہ بابا! کچھ مولا نام کا سودا کرو۔ ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا: شاہ صاحب! نشانہ مارو اور رُپیا لو۔ فقیر نے جھٹ اس کے ہاتھ سے تیر کمان لے یا معبود کرکے ایک اٹکل پچو مارا کہ وہ رُپیا اُڑ گیا۔ وے بولے: واہ وا۔ اِن نے دوڑ کر رُپیا تو اٹھا لیا اور کہا: کیوں بابا! فقیر کو کچھ جواب نہ ملا۔ اُن میں سے ایک نے کہا: سائیں! روپیا تو لیا، اب کیا کہتے ہو۔ بولا: بابا! یہ تو میخ مار کے لیا ہے۔ ابھی فقیر کا سوال باقی ہے۔
نقل 10
ایک واعظ کسی گانو میں کتنے ایک آدمیوں کو وعظ کرتا تھا۔ اِس میں کوئی گنوار بھی وہاں آ بیٹھا اور لگا اُس کا منہ دیکھ دیکھ بے قرار ہو رونے۔ اِس کو روتا دیکھ سب نے جانا کہ یہ کوئی بڑا موم دل ہے جو اتنا روتا ہے۔ ایک نے اس سے پوچھا کہ بھائی! سچ کہہ، تو جو اتنا روتا ہے تیرے دل میں کیا آیا ہے۔ واعظ کو انگلی سے بتا۔ بولا کہ ان میاں کی ڈاڑھی ہلتی دیکھ مجھے اپنا مُوا ہوا پیارا بکرا یاد آیا کہ جب نہ تب اس کی بھی اسی طرح ڈاڑھی ہلتی تھی، اس لیے میں روتا ہوں۔ یہ سن سب کھل کھلا اٹھے اور واعظ شرمندہ ہو دم کھا رہا۔
نقل 11
کوئی بڑا دولت مند تھا، پر اُس کے فرزند نہ تھا۔ اُس نے لڑکے کی خاطر بہتیرے تردد کیے اور رُپے خرچ لیکن نہ ہوا۔ تب اس نے ہار مان ایک غریب لڑکے کو گود لیا اور اپنے مال اموال کا مالک کیا۔ کتنے ایک دن بعد وہ مر گیا۔ یہ اُس مال کو پاتے ہی لگا اندھا دھند لٹانے اور کُچال چلنے۔ اس کی یہ چال دیکھ کسی نے ایک سے پوچھا کہ اس کا کیا سبب جو یہ دولت پاتے ہی بُکلایا۔ اُس نے اُس کے جواب میں یہ دوہا پڑھ سنایا ؎
کنک کنک تیں سوگُنی ما دِکتا ادِھکائے
دُہ کھائے بَو رات ہے یہ پاے بورائے
نقل 12
متھرا کے چوبے بڑے ٹھٹھے باز ہوتے ہیں۔ ایک دن کوئی چوبے بازار سے مارو بینگن خرید لایا۔ دیکھ کر اُس کی جورو نے پوچھا: کہا بھرتا کروں؟ یہ بولا: موتیں کہا چوک پری۔ اُس نے جواب دیا: لوگ تمھیں جویسی کہت ہیں۔ یہ سن چوبے لاجواب ہوا۔
نقل 13
لاڑ کپور نام دو کلاونت اکبر کے یہاں تھے۔ اکثر بادشاہ ان سے چہل کرتے۔ اس سے وے بھی گستاخ ہو رہے تھے۔ ایک دن بادشاہ نے اُن میں سے کسی کو کہا: گاؤ۔ وہ بولا: نہیں جہاں پناہ! بیل۔ پھر حضرت نے فرمایا: ابے کچھ بول۔ جواب دیا: مول بیس رُپے۔ پھر شاہ نے کہا: کیا حرام زادہ ہے۔ اس نے کہا: حرام زادہ ہو تو کوڑی نہ لوں۔ اتنی بات کے سنتے ہی بادشاہ نے خفا ہو کر انھیں کہا کہ میرے ملک میں رہے تو بے طرح پیش آؤں گا؛ اور قلعے سے نکلوا دیا۔ یے مارے ڈر کے دن کو تو دو کوسی چو کوسی شہر کے باہر گانو میں نکل جاتے اور رات کو آتے۔ اسی بھانت نت شام کو آؤتے اور دو گھڑی کے تڑکے چلے جاتے۔
اتفاقاً ایک روز یے ادھر سے جاتے تھے اور اُدھر سے شکار کیے بادشاہ گھوڑے پر سوار چلے آتے تھے۔ یے دور سے دیکھتے ہی ایک اونچے بڑ کے درخت پر جا چڑھے اور انھوں نے بھی گھوڑا مار اسی پیڑ کے نیچے لا کھڑا کیا اور انھیں پہچان کر کہا: کیوں بے! میں نے جو تم سے کہا تھا کہ میرے ملک میں نرہنا۔ جواب دیا: بلیّا لیوں! ہم سب ملکن میں پھر آئے، جہاں دیکھیو تہاں آپ ہی کو ملک دیکھیو۔ یا تیں ہار مان اب آسمان کی راہ لئی ہے۔ اِس لطیفے سے خوش ہو بادشاہ نے ان کی تقصیر معاف کی اور نوکری بحال۔
نقل 14
کسی کنجڑن کے چالیس برس کی عمر میں بڑی آرزو کرتے کرتے ایک بیٹی ہوئی۔ اُن نے نپٹ لاڑ پیار سے اس کا نام فضیحتی رکھا۔ قضاکار وہ دو تین برس کی ہو کر مر گئی۔ اُس کے غم سے وہ نت شام صبح نام لے لے رویا کرے۔ ایک دن سو “ہاے میری فضیحتی ہاے میری فضیحتی” کر کے رو رہی تھی کہ اِس میں اُس کا خاوند آیا اور سمجھانے لگا کہ سن نیک بخت! ہماری تمھاری حیات باقی اور خدا کا فضل چاہیے تو ایک فضیحتی کو کیا روتی ہے، بہتیری فضیحتی ہو رہیں گی۔
نقل 15
ایک کایتھ کم سوار گھوڑے پر بیٹھا بازار میں چلا جاتا تھا۔ کسی شاہ سوار نے اسے مینڈکی سے بھی پیچھے ہٹا بیٹھا دیکھ کے کہا کہ بھیا جی! ذرا آگے ہٹ بیٹھو۔ بولا: کیوں؟ کہا: آسن خالی ہے۔ پھر اس نے جواب دیا: کیا تمھارے کہے سے ہٹ بیٹھیں گے۔ جیسے سائیس نے بیٹھا دیا ہے تیسے بیٹھے چلے جاتے ہیں۔
نقل 16
ایک بنیاں جو بٹ لاتا سو نِت کا نت غریب بھوکھے پیاسوں کو بانٹ دیتا اور آپ نہنگ لاڑلا ہو رہتا۔ ایک دن اس کے بڑے بھائی نے پانچ چار پڑوسیوں کو بٹھائے اس سے کہا کہ بھائی جی! ہم مہاجن ہیں۔ ہمیں پونجی رکھ بیوہار کیا چاہیے۔ اس طرح بے ٹھور ٹھکانے دیا کریں تو ہماری مہاجنی کیوں کر رہے۔ جواب دیا: بھائی صاحب! کیا تم نے یہ دوہا بھی نہیں سنا جو ایسی بات کہتے ہو ؎
سب سے دیا انوپ ہی دیا کرو سب کوئے
گھر میں دھرا نپائے جو کر دیا ہوئے
نقل 17
کوئی غصے ور اندھا کہیں کو چلا جاتا تھا کہ ایک اندھے کوے میں گر پڑا اور لگا پکارنے کہ چلیو دوڑیو لوگو! میں کوے میں گر پڑا۔ لوگ رحم کھا دوڑ کے وہاں گئے اور کوے کے من گھٹے پر کھڑے ہو اس کے نکالنے کا تردد کرنے لگے۔ کچھ دیر جو ہوئی تو بھیتر سے خفا ہو بولا کہ جلدی نکالتے ہو تو نکالو، نہیں تو میں کدھر ہی کو چلا جاتا ہوں مجھے پھر نپاؤ گے۔
نقل 18
کسی بڑے آدمی کے پاس ایک خوش مسخرا آ بیٹھا تھا اور ان کے یہاں کہیں سے گڑ آیا۔ اس نے ظرافت سے کہا کہ خداوند! میں نے عمر بھر میں تین دفعہ گڑ کھایا ہے۔ بولا: بیان کر۔ کہا: ایک تو چھٹھی کے دن جنم گھونٹی میں کھایا تھا اور ایک کان چھدایا تھا تب اور ایک آج کھاؤں گا۔ اُن نے کہا: جو میں ندوں۔ بولا: دو ہی دفعہ کھایا سہی۔
نقل 19
پانچ چار پوستی کسی مکان پر بیٹھے زٹل مارتے تھے کہ ان میں سے ایک کا پیالہ جوں مَل کر تیار ہوا، بولا: پوستی نے پیا پوست نو دن چلا اڑھائی کوس۔ یہ سن کوئی دوسرا بول اٹھا کہ وہ پوستی نہوگا، کوئی قاصد ہوگا۔ پوستی نے پیا پوست تو کونڈے کے اِس پار یا اُس پار اور جو بیچ میں جگہ پاوے تو وہیں مقام کرے۔
نقل 20
دو آشنا مل کر سیر کو نکلے اور چلے چلے دریا کنارے پر پہنچے۔ تب ایک نے دوسرے سے کہا کہ بھائی! تم یہاں کھڑے رہو تو میں جلدی سے ایک غوطہ لگا لوں۔ اُس نے کہا: بہت بہتر۔ یہ سن وہ بیس روپے اِسے سپرد کر کپڑے کنارے پر رکھ جوں پانی میں بیٹھا توں اس نے چالاکی سے وے روپے کسی کے ہاتھ اپنے گھر بھیج دیے۔ اس نے نکل کپڑے پہن رُپے مانگے۔ یہ بولا: حساب سن لو۔ اس نے کہا: ابھی دیتے دیر بھی نہیں ہوئی، حساب کیسا۔ غرض دونوں سے تکرار ہونے لگی اور سو پچاس آدمی گھر آئے۔ اُن میں سے ایک نے رُپے والے سے کہا کہ میاں! کیوں جھگڑتا ہے، حساب کس لیے نہیں سن لیتا۔ ہار مان اس نے کہا: اچھا کہہ۔ وہ بولا: جس وقت آپ نے غوطہ مارا، میں نے جانا ڈوب گئے۔ پانچ رُپے دے تمھارے گھر خبر بھیجی۔ اور نکلے تب بھی اور پانچ رُپے خوشی کی خیرات میں دیے۔ رہے پانچ سو میں نے اپنے گھر بھیجے ہیں۔ وِن کا کچھ اندیشہ ہو تو مجھ سے تمسک لکھوا لو۔ یہ دھاندھل پنے کی بات سن وہ بِچارا بولا: بھلا صاحب بھر پائے۔