نہیں ۔ مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ میرے قتل کی وجہ نہیں تھا۔ قطعی نہیں ۔ گو لمحۂ مرگ مجھے اِس کا کامل یقین تھا۔
میرےقتل کا سبب تو وہ قدیم ترین جذبہ تھا، جو انسان کو گوندھتے سمے اُس کیسرشت میں داخل کیا گیا۔ جس سے ہابیل اور قابیل کی لازوال اساطیر نے — فطرتکو مکمل کرنے کی غرض سے، ایک متوقع سانحے کے مانند — جنم لیا۔
جذبۂ رقابت، بے شک۔ میری حسین محبوبہ، بلا شبہہ۔
ہاں، اِسی جذبے نے 24 مارچ 1947 کو دہلی پر اترنے والی دھند میں لپٹی ایکصبح، جب میرے قدم مندر کی سمت اٹھتے تھے، پیچھے سے وار کیا۔ اور میرا سر دوٹکڑوں میں بانٹ دیا مجھے ختم کر دیا!
کائناتکے مرکز میں دھڑکتا میرا دل شاید ابد تک اِس انکشاف سے کوسوں دور جہل کےصحرا میں بھٹکتا رہتا کہ یہ مجھ پر، بڑے ہی غیر متوقع انداز میں ، اور ایکحد تک خاموشی سے اتر آیا۔
یہاُس وقت کی بات ہے، جب میں تیس کے پیٹے میں تھا۔ اور ایک ضعیف العمر شخص— ایسی صبح جب حادثات غیر امکانی معلوم ہوتے تھے — گرجے چلا آیا۔ یسوع کےکاندھوں کا بوجھ بڑھانے کے لیے۔ میرے روبرو اِس شریفانہ اعتراف کے لیے کہاُس نے برسوں قبل، بٹوارے کے سمے، اپنی خوب رو بیوی پر تسلط قائم رکھنے کےلیے اُس شخص کو قتل کر دیا تھا، جو اُس کی عزت میں نقب لگانے کو تھا۔
اِساعتراف نے، جسے اُس نے ایک مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیا، مجھے اتیت کےاُن پنوں تک رسائی کا موقع فراہم کیا، جن کا تعلق میری موجودہ زندگی سےنہیں تھا، بلکہ گذشتہ زندگی سے تھا۔ بیت چکی زندگی سے۔ ختم ہو چکی زندگیسے۔
میںنے اُن پنوں تک رسائی حاصل کی، جو میرے خوابوں میں گم ہو گئے تھے۔ اور یوںمیں دھند میں لپٹی ایک ایسی صبح میں داخل ہوا، جو اِس شہر پر تین دہائیوںقبل اتری تھی۔ اس وقت، جب میں زندہ تھا، اور مرنے والا تھا۔
مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ میرے قتل کا موجب نہیں تھا۔ اور اب میں یہ جانتا تھا۔
میرےہاتھ میں سریا تھا۔ اور میں اپنے قاتل کی جانب — جس نے گزرے زمانوں میںمجھے قتل کیا تھا — بڑھ رہا تھا۔ وہ یسوع کی شبیہ کے سامنے سرجھکائے بیٹھاتھا۔ اِس بات سے لاعلم کہ ٹھیک ویسے ہی، جیسے اُس نے تین عشروں قبل مجھ پرایک گھاتک حملہ کیا تھا، میں بھی اُس پر حملہ کرنے والا ہوں ۔
حملہ جو اس کے سر کو ٹکڑوں میں بانٹ دے گا۔
٭٭٭
بمبئی پر شام اتر چکی تھی۔ حبس نے شہر کو جکڑ رکھا تھا۔
میں اسٹول پر کھڑا تھا۔ گلے میں پھندا تھا۔ ہوا دان سے گرجے کا مینار دکھائی دیتا تھا، جہاں ایک لاش پڑی تھا۔
میںنے کوئی تحریر نہیں چھوڑی۔ میں اپنی موت کی وجہ بیان نہیں کرسکتا تھا کہیہ انتہائی گنجلک تھی کہ میری خودکشی کا سبب سمے کی ندی میں بہتا قدیم، مگربساند سے پاک جذبۂ انتقام تھا۔
اسروز — جب میں اتیت کی جان کاری سے لیس تھا — خود کو قتل کرنے والے کو قتلکرنے کے بعد مجھ پر لازم ٹھہرا کہ خود کو مرگ کے الاؤ میں جھونک دوں کہ ایکمذہبی پیشوا کا سفاک قاتل کے روپ میں سماج کے سامنے آنا — خصوصاً اس باعثکہ خداوند نے اپنے دشمن کو معاف کرنے کی نصیحت کی ہے، اور اس باعث بھی کہمقتول ایک بوڑھا شخص تھا — کسی طور مناسب نہیں ۔
سو 24 مارچ 1979کو بمبئی پر نازل ہونے والی اُس حبس زدہ شام میں نے، بڑی سہولت کے ساتھ ، خود کو موت کے حوالے کر دیا۔
میں نے کوئی تحریر نہیں چھوڑی کہ میں خودکشی کا کوئی جواز پیش نہیں کرسکتا تھا۔ اور اگر پیش کرتا بھی تو بھلا کون یقین کرتا؟
اساطیر حقیقت نہیں ہوتیں۔
٭٭٭
24 مارچ 2013 کو لاہور پر حملہ کرنے والی وہ دوپہر، ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی۔
اورایسے میں اگر اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کسی صحافی کے قتل کی خبرجنم لے، تو جھلسے ہوئے ذہنوں میں جنبش کرنے والا پہلا خیال ماسوائے اِس کےاور کیا ہو گا کہ اُسے بے باکی اور بے احتیاطی کی سزا سنائی گئی۔ بس!
مگر اِس بار بھی، گذشتہ بار کی طرح، یہ میری موت کا حقیقی یا پھر اکلوتا سبب نہیں ہو گا۔ قطعی نہیں ۔
اِسواقعے کے وقوع پذیر ہونے کی — جو ہونے کو ہے — ایک وجہ تو وہ درجنوں مشتعلافراد ہیں ، جو مذہبی منتروں کا جاپ کرتے ہیں ۔ اور ہشاش بشاش ہےں ۔ جواُس مکان کی سمیت، جس میں مَیں خود کو موجود پاتا ہوں، بستی کے کئی مکاناتکو نذر آتش کر چکے ہیں ۔ وہ میری بے ضرر تحریروں کو اپنے اشتعال کی، جواُن کے نزدیک ایک نیک جذبہ ہے، وجہ بتاتے ہیں ۔ البتہ یہ نہیں بتاتے کہاُنھیں بھیجنے والے اِس اقلیتی بستی کی زمین پر قبضے کے متمنی ہیں کہ یہشہر کے بیچوں بیچ ہے۔ اور قیمتی ہے۔
وہ یہ وجہ چھُپا جاتے ہیں ۔
جبجلتی ہوئی دیواروں میں سرکتی حدت پہلی بار میرے بدن تک پہنچی، اور موت کےامکان نے انگڑائی لی۔ تب، ٹھیک تب — ٹھیک ویسے ہی جیسے برسوں قبل گرجا گھرمیں کچھ وقوع پذیر ہوا تھا — کچھ وقوع پذیر ہوا۔
ایک انکشاف مجھے پر اترا۔
مجھے اپنا پچھلا جنم یاد آگیا۔ اور پھر، یقینی طور پر، اُس سے پچھلا۔
اورمیں نے کرم کے قانون کو سجدہ کیا۔ اور پھر اِس ماجرے کو ضبط تحریر میںلانے کے لیے’’ لیپ ٹاپ‘‘ کے سامنے آن بیٹھا۔ حدت سے جوجھتے ہوئے یا اُسےبرداشت کرتے ہوئے، سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ تک رسائی حاصل کی۔ یہ سوچکر کہ کاغذ پر لکھے شبد تو جل کرخاکستر ہو جائیں گے، مگر سائبر اسپیس کیلامتناہی دنیا اِس کی حفاظت کرے گی۔
تومیں قتل ہونے کو ہوں ۔ اپنی بے باکی اور بے احتیاطی کے باعث نہیں ، بلکہاُن شعلوں کی وجہ سے، جنھیں مذہبی تعصب کے پنکھ ہوا دیتے ہیں ۔ یا پھریاپھر اُس عفریت کی وجہ سے، جس نے پل بھر پہلے زمین کی اتھاہ گہرائی میں کروٹلی ہے کہ جس نے میرے پیروں تلے لرزا طاری کر دیا ہے۔ اور مجھے یہ ادراکعطا کیا ہے کہ برسوں بعد زلزلے کے شکار اِس بیتتے لمحے کا ادراک اپنےانوکھے پن کے ساتھ ایک بار پھر مجھ پر اترے گا۔
ہاں ، اگلے جیون میں ۔ ٹھیک اُس لمحے، جب پچھلے جیون کے کرم تعاقب کرتے مجھ تک آن پہنچیں گے۔
اور مرگ کا عظیم لمحہ خود کو موجود کرے گا۔
٭٭٭