افسانے کا سفر پرانی داستانوں سے شروع ہوا تھا۔ آج وہ اُس جگہ پر آپہنچاہے جہاں اس میں اور شاعری میں فرق کم رہ گیا ہے۔
میرا خیال ہے افسانہ ابھی شاعری کے زینے تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ اس میں افسانے کی بڑائی یا سُبکی کی تلاش فضول ہے، لیکن افسانے کا یہ طویل اور لمبا سفر کب تک جاری رہے گا یہ کوئی نہیں بتاسکتا۔ مجھے تو کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ میرا سفر بھی ایک انجانا سفر ہے۔ میں مدتوں سیدھے خطوط پر چلتا چلتا اب پچھلے چند برسوں سے غیر محسوس طور پر غیر متوازی خطوط پر چل پڑا ہوں۔
میں جب کبھی کسی تجربے کو گلے لگاتا ہوں تو وہ مجھے ڈستا ہے، کبھی کبھی وہ میرے وجود سے چمٹ کر میری اپنی شخصیت کا جُزو بن جاتا ہے۔ افسانہ اور اس کے اجزائے ترکیبی ہمیشہ میرے لیے ایک معمّہ بنے رہے۔ ممکن ہے اس کا حل بعض نقادوں کے پاس ہو تو میرے پاس نہیں۔
وہ کردار جس نے سعادت حسن منٹو سے اچھی کہانیاں لکھوائیں اب ہم میں نہیں رہا اور اب خود شناسی کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کی بازیافت کا مسئلہ بھی آکھڑا ہوتو لازماً میں کردار سے آنکھ ملا کر بات کرنے کا بھی اہل نہیں رہا۔ افسانے کے منظرنامے میں کہیں میرا نام ابھرتا بھی ہے یا نہیں مجھے اس کی کوئی خاص فکر نہیں ہے۔ ویسے ہندوپاک کے کئی باشعور ادیبوں اور نقادوں نے میری بیشتر کہانیوں کو سراہا ضرور ہے۔ شاید اسی حوصلہ افزائی کے سبب اب تک میری کہانیوں کے پانچ مجموعے چھپ چکے ہیں۔
’’کنواں، آدمی اور سمندر‘‘ میرے افسانوں کا چھٹا مجموعہ ہے، جو آپ کی نذر ہے۔ ممکن ہو تو اُسے پڑھیے اور اپنی گراں مایہ رائے مجھے لکھ بھیجئے۔
٭٭٭