کمرے میں گہرا سناٹا تھا اور وہ ایک بار پھر گاوں کی کچی زمین پہ سبز گھنے کھیتوں میں جا چکے تھے جہاں انہوں نے اپنا بچپن اور جوانی کے بہت قیمتی سال گزارے تھے۔
ماتا کتھوں ہو کے آئی ایں؟
تیرے وسطے کڑی ویکھن گئی ساں
کیوں؟
لے بائیاں سالاں دا ہو گیا ایں ویاہ نہیں کرنا کی
اچھاااااا ووٹی ویکھن گئی سی میری
فیر دس کون آئی پسند؟
لے کون تو کیں مطبل؟
ایس پنڈ وچ تن ای تے ہندو کار نیں جنہاں وچ اک ای کار وچ تیرے ہان دی کڑی اے
باقی سارے کار تے مسلے نیں
اوہ بسنتی؟
(ماں کہاں سے ہو کر آئی ہو؟
تمہارے لئے لڑکی دیکھنے گئی تھی
کیوں؟
لو بائیس سال کے ہو گئے ہو شادی نہیں کرنی کیا؟
اچھاااااا دلہن دیکھنے گئی تھی میری
تو پھر بتاؤ کون آئی پسند؟
لو کون سے کیا مطلب؟
اس گاوں میں تین ہی تو ہندو گھرانے ہیں جن میں ایک ہی گھر میں تمہاری عمر کی لڑکی ہے باقی سب تو مسلم گھر ہیں)
گوپال نے ٹیڑھا سا منہ بنا کے بسنتی نام لیا اور کھیتوں میں چلا گیا
بسنتی میں کوئی برائی نہیں تھی سوائے اس کے کہ اسکا رنگ تھوڑا سانولا تھا اور سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی اس نے جبکہ گوپال پٹھان تھا گورا چٹا دہکتا رنگ ساتھ میں اکلوتا آٹھویں پاس۔ گاوں میں سکول ایک ہی تھا اور تھا بھی مسلمانوں کا جس میں ہندو اپنے بچوں کو بھیجنا پاپ (گناہ)سمجھتے تھے۔
لیکن گوپال کے باپ کو اسے پڑھانے کا شوق تھا اس لیے اسے آٹھویں تک پڑھا چکے تھے جب انکی زندگی کے دن پورے ہو گئے اور گوپال نے تعلیم چھوڑ کر انکی جگہ سنبھال لی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسنتی گھونگھٹ نکالے اسکے سامنے بیٹھی تھی۔ گوپال نے اپنا ہاتھ گود میں رکھے اسکے ہاتھ کے برابر رکھ کر اپنا اور اسکا موازنہ شروع کر دیا۔ کچھ لمحے تو بسنتی نا سمجھی کے عالم میں ایسے ہی بیٹھی رہی پر پھر اس نے گوپال کی طرف دیکھا جسکی آنکھوں میں اس کے لیے صرف حقارت ہی حقارت تھی
زندگی ایسے ہی اپنا سفر پورا کر رہی تھی جب دائی نے اسکے امید سے ہونے کی خبر سنائی
اسکی ماتا خوشی سے پاگل ہونے کو تھی جبکہ وہ خوشی کے ساتھ اس خوف کا شکار بھی تھا کہ کہیں اسکا بیٹا ماں پر نہ چلا جائے۔
وہ خود بھی اپنی ماں پر ہی گیا تھا باپ سے اسنے اسکی فطرت چرائی تھی محنت کشی۔۔۔
گوپے وے میں اپنے پوترے دا ناں آپ رکھاں گی
تے جے پوتی ہوئی ماتا تے؟
(گوپال وے میں اپنے پوتے کا نام خود رکھوں گی
پر اگر پوتی ہوی ماتا تو)
اس بات کا جواب بسنتی کو گوپال کے تھپڑ نے دیا تھا اور وہ پیر پٹختا باہر چلا گیا تھا اور باقی کی کسر اسکی ماتا نے پوری کی
نی بد شگنے۔۔۔ شکل پیڑی اے تے گل تے چنگی کر
ساڈے خاندان چ پتر ہی ہوندا اے پتری رے پشتاں اچ کدی ہوئی ای نئیں
(نی بد شگن۔۔۔ شکل بری ہے تو بات تو اچھی کرلو
ہمارے خاندان میں پہلے بیٹا ہی ہوتا ہے بیٹی تو نسلوں میں کبھی ہوئی ہی نہیں)
اور بسنتی منہ کھولے ماتا کو دیکھ رہی تھی جو خود بھی پتری ہی تھی اور تھی بھی اسی خاندان کی
اب جہاں گوپال کو خوف تھا بچے کے بدصورت ہونے کا وہیں بسنتی خوفزدہ تھی کہ کہیں بیٹی نہ ہو جائے
وقت زیادہ تیزی سے گزرا تھا یا بسنتی کو ہی ایسا لگا تھا جب وہ دن آ گیا تھا جب بسنتی کی گود میں ایک دودھ سی سفید و سرخ و نازک سی بچی ڈال دی گئی تھی۔ وہ بیٹے کی آس لئے تھی پر یہاں بیٹی کو گود میں لئے اسکے ہونٹ آپ و آپ مسکرائے تھے۔ وہ ماں تھی اور ماں تو ہے ہی محبت اور محبت کالے گورے یا بیٹا بیٹی کی تقسیم سے نہیں جڑی ہوتی۔۔۔
پر باہر کہرام مج جکا تھا۔۔ ماتا صف ماتم بچھا چکی تھی اور گوپال جلے پیر کی بلی کی طرح گھر میں پھر رہا تھا۔
توں کمی کمین اک پتر نئی دے سکی۔ مفت دی روٹی کھاندی ری میرے گھر دی
(تم کم ذات ایک بیٹا نہیں دے سکی مجھے بس مفت کی روٹی کھاتی رہی میرے گھر کی)
مینوں معاف کردو جی۔۔
اگلی وار پتر ای جنا گیں۔۔
تے ایس نیش دا کی کراں جیڑی میرے کار نوست پاوے گی؟
(مجھے معاف کردو جی اگلی بار بیٹا ہی پیدا کروں گی
اور اس منحوس کا کیا کروں جو میرے گھر میں نحوست پھیلائے گی؟
نئی جی اے نیش نئی اے ویکھو تے سئی کننی سوہنی اے بلکل تہاڈے ورغی
(نہیں جی یہ منحوس نہیں اے دیکھو تو سہی کتنی پیاری ہے بلکل آپکے جیسی)
اور گوپال نے اسکو اتنا مارا تھا کہ بچی کو دودھ پلاتے اسے یقین تھا کہ اسکی بچی دودھ نہیں بلکہ زخموں سے رستا خون پی رہی ہے۔ اسکا نام بسنتی نے ہی چمبیلی رکھا
سال یونہی پر لگائے اڑتے گئے۔ اس دوران ماتا جی بھی پوترے کی آس لئے دنیا سے رخصت ہو گئیں اور چمبیلی نے بھی چلنا شروع کر دیا
اب وہ بولتی بھی تھی۔ وہ جہاں اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا تھی وہی گوپال کے لئے منحوسیت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں؟
فرشتے نے اپنا سوال پھر دہرایا تھا اور ماضی میں گم گوپال واپس لوٹ آئے تھے۔
میں بیٹے کا طلبگار تھا جب تم پیدا ہوئی۔ پھر تین سال تک تمہاری ماں اور میں بیٹے کی راہ دیکھتے رہے پر بےسود ۔ میں شروع سے تمہیں منحوس سمجھتا تھا اور اب میرا یقین اور بڑھ گیا تھا کہ تم منحوس ہو جب میری دوستی اروند سے ہوئی۔ وہ کچھ مہینوں پہلے ہمارے گاوں میں آیا تھا اور مجھ سے کام دینے کی درخواست کی تھی۔ میں نے اسے کام پہ رکھ لیا تھا۔ وہ عمر میں مجھ سےبڑا تھا اور تجربہ کار تھا۔ میں کبھی شہر نہیں گیا تھا پر وہ اکثر جاتا۔ نئی قسم کے بیج، اچھی قسم کی کھاد اور زیادہ فصل اگانے کے طریقے میں اس ہی سے سیکھ رہا تھا۔
ایک دن میں تمہارے بارے میں سوچ رہا تھا جب اروند نے پیچھے سے آ کر میرے کندھے پہ زور سے ہاتھ مارا تھا۔ میں ایک دم ڈر کے اچھل پڑا تھا
اوئے کی ہویا کتھے گواچے او؟ (کیا ہوگیا کہاں گم ہو؟)
کج نئی یار ایتھے ای آں (کچھ نہیں یار یہیں ہوں)
منہ تے بارہ وجے ہوئے نیں فیر چھیتی دس (چہرے پہ بارہ کیوں بجے ہیں پھر جلدی بتاو)
اور میں سوچ میں پڑ گیا تھا کہ جیسے یہ میری فصل کو ہیرے کی کان بنا رہا ہے شائد اس کے پاس میرے اس مئسلے کا بھی حل ہو۔
میں اسے اپنا سارا مئسلہ بتا چکا تھا۔ میں منتظر تھا کہ وہ مجھے کوئی شہری ٹوٹکہ بتائے گا جس میں کوئی جادوئی دوائی ہوگی اور وہ کھا کر میری بیوی بیٹا پیدہ کردے گی پر اسنے جو بتایا وہ سن کر میں دہل گیا تھا
ویکھ گوپی یار اے پتر یا پتری دینا تے بھگوان دے کم نیں ایدے وچ شہر دا کی رولا؟ ایس وسطے تے سودا وی بھگوان نال ای ہندا اے۔جے تینوں پتر چاہیدا اے تے فیر پتری واپس دیدے جنج میں اک واری ام دے بیہ لینے سی پر دکاندار نے غلطی نال امرود دے بیہ دے دتے سی۔ میں واپس کتے سی امرود دے بیہ فیر ای اوہنے ام دے بیہ دتے سی بلکل ایسے طرح تو وی پتری واپس دے تے پتر لے لا بس (دیکھو گوپال یار یہ بیٹا یا بیٹی دینا تو بھگوان کا کام ہے اس میں شہر کا کیا چکر؟
اس کے لئے تو سودا بھی بھگوان سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ اگر تمہیں بیٹا چاہئے تو بیٹی واپس کردو جیسے میں نے ایک بار سیب کے بیج لینے تھے پر دکاندار نے غلطی سے امرود کے بیج دے دئے تھے تو پھر واپس کئے تھے امرود کے بیج تب ہی سیب کے دئے تھے اس نے بلکل اسی طرح تم بھی بیٹی واپس کردو اور بیٹا لے لو بس)
اس نے کندھے اچکا کر معاملے کا حل نکال بھی دیا تھا
پر کنج؟
بھگوان نوں کتھے لبھاں تے کنج واپس کرا پوتری؟ (پر کیسے؟ بھگوان کو کیسے ڈھونڈوں1 اور کیسے واپس کروں بیٹی؟
اس وقت گوپال کا تجسس آسمان کو چھو رہا تھا
یوں لگ رہا تھا جیسے انکی مراد بر آئی ہو
میرے کول کتاب ہیگی اے منتراں دی۔ میرے دادے دا وی دادا پڑھدا سی اوہ کتاب ہاہاہاہا۔ ساڈی خاندانی وراثت اے میں تینوں دے دیا گا۔ باپو کیندا سی ایس توں جو وی منتر کرو اوہ اثر کردا اے تیرے کم وی کرے گا( میرے پاس کتاب ہے منتروں کی۔ میرے دادا کا بھی دادا پڑھتا تھا وہ کتاب ہاہاہاہا۔ ہماری خاندانی وراثت ہے میں تمہیں دے دونگا
ابا کہتا تھا اس سے جو بھی منتر کرو وہ اثر کرتا ہے تمہارے کام میں بھی کرے گا۔)
ہر روز رات کے آخری پہر میں میں وہ منتر پڑھتا اور تم پہ پھونک کر تمہاری ماں پہ پھونک دیتا۔
چالیس دن تک میں یہ عمل کرتا رہا۔ اسی دوران میں نے اپنا شناختی کارڈ بھی بنوایا تاکہ کام پورا ہوتے ہی میں یہاں سے شفٹ ہو کے لاہور چلا جائوں
اور ایک نئی زندگی شروع کروں اپنے بیٹے کے ساتھ۔
اس کتاب کے مطابق مجھے چالیس راتوں کا چلہ کاٹنا تھا۔ چالیسویں رات دیوی ماتا کے سامنے تمہیں مٹی میں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔