فرشتے میرے یہ کپڑے پریس کردو جلدی۔
کیوں بھائی آپ خود نہیں کر سکتے؟
اس نے ہٹ دھرمی کے ساتھ منہ پھلا کہ انکار کیا تھا۔
وہ دسویں کے امتحان سے فارغ ہوی تھی اور کام سے جی جاں سے بھاگتی تھی۔
میں نے تمہیں ہزار دفعہ کہا ہے مجھے بھائی مت کہا کرو نہیں ہوں میں تمہارا بھائی۔
شاہ میر غصے سے دھاڑا تھا۔ ایک تو کام سے انکار اوپر سے بھائی کی تکرار۔جلتی پہ تیل کا کام تھا بلکل۔
آہا میں آپکو بھائی کیوں نہ کہوں۔۔؟ وردہ بھی تو آپکو بھائی کہتی ہے اور نائلہ بھی جبکہ کام وہ آپ کا ایک بھی نہیں کرتیں پر تب تو آپ بڑے خوش ہو تے ہو۔ میں ہی بھائی کہوں تو گلا پھاڑتے ہو اپنا بس۔
فرشتے پہ اسکی دھاڑ کا کوئی اثر نہیں ہوا نہ ہی کبھی ہوا تھا بلکہ وہ اسے اور چڑانے پہ تل گئی تھی۔ اور اب شاہ میر بھائی کی گردان کئے جا رہی تھی۔ اور وہ واقعی چڑ نہیں بلکہ تپ گیا تھا۔
نہیں ہو تم میری بہن تم میری ہونے والی بیوی ہو۔ محبت کرتا ہوں میں تم سے تب سے جب تم شائد 3 سال کی بھی نہیں تھی اور میں شائد 7 سال کا تھا۔ تب تمہیں پاپا ہمارے گھر لائے تھے اور تب ہی میں نے پاپا کو بول دیا تھا تم صرف میری ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر غصے میں پیر پٹختا وہاں سے جا چکا تھا اور وہ اپنی جگہ بےحس و حرکت کھڑی اسکی بات میں کسی غلط فہمی کا عنصر ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔
اسکی یادداشت میں بہت سی باتیں گھوم رہی تھیں ۔ اوئے تم پٹھان ہو نہ؟ اسکی کلاس فیلو ردا نے باتوں باتوں میں پوچھا تھا۔
نہیں تو میں ٹھیٹ پنجابی ہوں جی ماما پاپا دونون کی طرف سے
واقعی۔۔؟ پھر تمہارے نانا دادا کی طرف سے کوئی پٹھان رہا ہوگا۔ ہاں ہو سکتا ہے مجھے کیا پتا۔ فرشتے نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے پر ردا اسے کھینچ کے کلاس روم کی کبڈ پہ لگے شیشے کے سامنے لے آئی۔
یار دیکھ تو سہی تو کتنی خوبصورت ہے بلکل پٹھانوں جیسی گوری چٹی سرخ اف۔۔۔ تیرے بال کتنے سنہری ہیں۔ پٹھانوں کے بالوں جیسے اور تیری آنکھیں اتنی نیلی۔
کیا تیرے گھر والے بھی ایسے ہی ہیں۔؟
نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ اس نے ایک ساتھ اپنے پاپا ماما اور بھائی تینوں کو سوچا تھا۔ پر تینوں کے ہی بال کالے سلکی آنکھیں بلیک انڈ براون مکس اور رنگ صاف گندمی تھا۔ اسکی ماما کا رنگ گورا تھا پر ایسا سرخ انگارہ نہیں جیسے فرشتے کا تھا۔ اسے اس احساس نے خوشی دی تھی کہ وہ بہت مختلف اور پیاری ہے پر آج شاہ میر کے الفاظ جسم سے اسکی روح کھینچ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو جب فاطمہ ضروری خریداری کرکے واپس لوٹیں تو فرشتے کو اپنا منتظر پایا۔
کہاں تھیں ماما آپ؟ بیٹا بازار گئی تھی کچھ کپڑے لینے گئی تھی تمہارے لئے۔گرمیوں کی نیو کولیکشن آئی ہوئی ہے نا۔ لو دیکھو ذرا تمہیں پسند آئیں گے انشالله ۔ انہوں نے کپڑوں کا شاپر آگے بڑھایا پر فرشتے نے شاپر پکڑنے کے بجائے ان سے جو سوال کیا وہ انکے پیروں نیچے سے زمیں کھینچ لینے جیسا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما میں کس کی بیٹی ہوں؟ میں جانتی ہوں میں آپکی بیٹی نہیں ہوں پر کس کی بیٹی ہوں اور پاپا مجھے کہاں سے اور کیوں لائے تھے؟ آپ کو میری جان کی قسم ہے سچ بتائیں ۔۔
وہ فاطمہ کی آنکھوں میں دیکھتے بہت پر یقین دکھنے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ دعا وہ اب بھی یہی کر رہی تھی کہ شاہ میر جھوٹا ہو۔
پر شاہ میر جھوٹا نہیں تھا یہ بات اسے اپنی ماں کی چور آنکھوں نے کہ دی تھی۔۔
وہ بنا کچھ مزید کہے روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔ اس سے زیادہ کچھ جاننے کی اس میں ہمت بھی نہیں تھی۔
ایک دم سے وہ اتنے سب اپنوں میں غیر ہو گئی تھی۔
رات کے 11 بج چکے تھے اسے بھوک لگی تھی پر کچھ بھی کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اچانک اسے دروازے پہ آہٹ کا احساس ہوا۔ فرشتے اٹھو کھانا کھا لو۔ بھوک نہیں ہے مجھے۔ فرشتے نے دل کڑا کر کے انکار کیا تھا.
are u sure.?
سپائسی کھچڑی بنائی ہے تمہاری فیورٹ وہ بھی پودینے کی چٹنی کے ساتھ۔ کھانے کی خوشبو اسے پہلے ہی امتحان میں ڈال چکی تھی اب پودینے کی چٹنی بھی ساتھ تھی تو وہ پھولے منہ کے ساتھ اٹھی اور اب سب بھول بھال بڑے بڑے کھچڑی کے گولے منہ میں ڈالنے میں مصروف تھی۔
جب وہ کھانا کھا چکی تو فاطمہ نے طمانیت کے ساتھ اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں
فرشتے تم ہماری بیٹی ہو ہماری جان ہو
پولیس اجمیر اور اروند کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن کہیں انکا سراغ نہیں ملا تھا ابھی۔ گوپال اجمیر کے کمرے میں زمین پہ بیٹھے سسکیوں کے ساتھ رو رہے تھے۔ انہیں ہر طرف اجمیر کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں رکھی دیوی ماتا کی مورتی کے سامنے آئے تھے۔
کس پاپ کی سزا دی آپ نے ہمیں؟
آپکے لئے میں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ آپ کا سچا بھگت تھا میں۔ اجمیر آپ ہی نے دان (دیا)کیا تھا مجھے۔لیکن آپکی موجودگی میں یہ سب ہوا اور آپ نے کچھ نہیں کیا۔ میرے بیٹے کی چیخیں اس گھر میں گونجیں اور آپ سنتی رہیں بس؟ یا پھر آپ کو سنائی نہیں دیا؟ کیا واقعی آپ بس مٹی کی ایک مورت ہو؟ واقعی آپ نہ دیکھ سکتی ہو نہ سن سکتی ہو؟ واقعی آپ کچھ نہیں ہو؟ اخبار میں لکھے ایک کالم میں مورتیوں کے بارے میں انہوں نے یہ سب پڑھا تھا اور اب وہ مورتی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑے سوال کر رہے تھے
انکی موبائل ٹون بجی۔ بہت تیزی سے انہو نے دایاں ہاتھ جیب میں ڈالا موبائل نکالنے کے لئے مورتی وزنی تھی۔ بایاں ہاتھ ڈول گیا اور اب مورتی دو ٹکڑوں میں بٹی انکے پیروں میں پڑی تھی
اور انہیں اپنے سب سوالوں کا جواب مل چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔