وہ اندھیرے میں بےسمت دوڑ رہی تھی۔ اسے نہیں پتہ تھا وہ کہاں ہے اور یہاں کیسے آئی وہ بس بھاگ رہی تھی کہ اچانک اس کا پائوں پھسلا اور وہ گہرے گڑھے میں گر گئی۔ وہ گڑھا مٹی سے بھرنے لگا۔وہ جیخنے لگی پر کسی نے اس کی آواز نہ سنی۔ اسے لگا وہ کسی قبر میں دفنائی جا رہی ہے۔ مٹی اس کے نتھنوں تک پہنچ جکی تھی اسکا سانس رکنے لگا اور تبھی اسکی آنکھ کھل گئی۔
وہ ہڑبڑا کہ اٹھی کمرے میں زیرو واٹ کا بلب اون تھا پنکھا فل سپیڈ پہ چلا کہ وہ دسمبر میں بھی شدید گھٹن محسوس کر رہی تھی اس نے جلدی سے کمرے کی کھڑکیاں کھولیں اور گھرے سانس لینے لگی۔ بہت دیر ایسے سانس لینے کے بعد وہ واپس اپنے بیڈ پے بیٹھ گیئ۔ گھڑی رات کے تین بجا رہی تھی پر اب سونے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔
ایسے خواب اسے ہمیشہ سے آ تے تھے۔جب سے ہوش سنبھالا اس نے ایسے خوابوں کو ہی اپنا ساتھی پایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر جلدازجلد اپنے بابا سے ملنا چاہتا تھا۔ وہ ہوا کے دوش پہ گاڑی چلا رہا تھا۔اسے وہ لمحے آج بھی اچھی طرح یاد تھے جب وہ سات سال کا بھی نہیں تھا اور اس نے اس پیاری سی بےبی کا ہاتھ مانگا تھا
بابا یہ baby girl کون ہے؟ اس نے اپنے بابا سے سوال پوچھا۔۔یہ۔۔۔وہ ابھی سوچ رہے تھے شاہ میر کو کیا جواب دیں کہ اس نے خود ہی بولنا شروع کر دیا میں اس کے ساتھ کھیل لوں یہ بہت پیاری ہے میں اسے اپنا دوست بناوں گا اور اس سے شادی کرونگا آپ میری شادی کریں اسسے۔اس کے چہرے پر بہت معصومیت تھی۔ وہ شاہ میر کی بات پہ ہنس پڑے اور پھر پیار سے اسے سمجھانے لگے۔۔۔
جی نہیں آپ ابھی بہت چھوٹے ہو ابھی آپ کی شادی نہیں کر سکتے۔۔۔
نہیں بابا میں بڑا ہوگیا ہوں اور اس نے جلدی سے چھلانگیں لگانا شروع کردیں تاکہ وہ بابا کو لمبا لگے۔اس بار جہانزیب حمدانی کے قہقہے بہت بلند تھے انہوں نے اسے گود میں بھینچ کر بہت سارا پیار کیا اور جب اسے الگ کیا تو وہ اپنی اسی رٹ پہ قائم تھا۔ آخر ہتھیار جہانزیب کو ہی ڈالنے پڑے اور انہوں نے اسے رسانیت سے سمجھایا
شاہ میر آپ بڑے ہو گئے ہو سچی میں۔۔
پر ابھی آپ کو بہت پڑھنا ہے پھر میری طرح ایک گھر بنانا ہے اپنا بزنس کرنا ہے پھر آپ جس سے کہو گے میں آپ کی شادی کردوگا اوکے؟ نہیں پاپا مجھے بس اسی سے کرنی ہے شادی ۔
اوکے میری جان اسی سے کردوگا ۔
پرامس؟
جی جی پرامس۔
شاہ میر انہیں خیالوں میں گم گاڑی چلا رہا تھا۔ آج وہ اپنا گھر بزنس سب establish کر چکا تھا اور اب پاپا کو انکا وعدہ یاد دلانا تھا جب اسے ایک ہیولا سا گاڑی کی سیدھ میں نظر آیا اس نے جلدی سے بریک پہ پاوں رکھا پر گاڑی اس وجود کو ہوا میں اچھال چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور موذن تہجد کی صدا دے رہا "الله اكبر الله اكبر"نیند کتنی بھی گہری ہو یہ صدا جہانزیب حمدانی کو ہمیشہ جگا دیتی تھی لیکن نماز قائم کرنے سے پہلے وہ گھر سے باہر نکلتے اور دور تک نظر دوڑاتے کہیں کوئی آج بھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے حیوانیت پر نہ اتر پڑا ہو۔ آج بھی وہ سڑک پہ کھڑے ارد گرد کا جائزہ لے رہے تھے جب ان کا موبائل بجنا شروع ہو گیا۔ انہوں نے جیب سے موبائل نکالا نمبر شاہ میر کا تھا انہوں نے جلدی سے کال رسیو کی کہ رات کے اس وقت شاہ میر کی کال کسی خطرے کا احساس دے رہی تھی۔
ہیلو پاپا آپ کہاں ہے جلدی کلینک پہنچیں میں بھی پہنچ رہا ہوں جلدی پلیز اور کال کٹ گئی۔ انہوں نے وہیں سے اپنی وائف کو کال کی اور اپنے کلینک جانے کا انفارم کرکے گاڑی نکالی اور اسے بھگاتے کلینک پہنچے۔ کچھ ہی دیر میں شاہ میر بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے گاڑی سے اترتے ہی چوکیدار سے کلینک سے سٹریچر منگوایا اور جہانزیب اور شاہ میر نے مل کر اس لڑکے کو گاڑی سے سٹریچر پہ منتقل کیا۔ آگے کا کام اب جہانزیب کا تھا وہ جلدی سے لڑکے کو اپنے کلینک لے گئے اور ٹریٹمنٹ دینے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ میر بےچینی سے کلینک میں ٹہل رہا تھا۔ جہانزیب کافی دیر بعد کمرے سے باہر آئے تو وہ سرعت سے انکے پاس پہنچا اور لڑکے کی کنڈیشن پوچھنے لگا۔
پاپا وہ زندہ ہے ٹھیک ہے؟ وہ پتہ نہیں کیسے ایکدم گاڑی کے سامنے تھا میں نے وہیں اسے فرسٹ ایڈ دی تھی پر بہت خون بہ رہا تھا۔ اسکی پریشانی اسکے چہرے سے ظاہر تھی
وہ ایک ہی سانس میں سب کہ گیا ۔
جہانزیب نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور مسکرا کے بولے don't worry he is fine my son۔ تم نے بروقت فرسٹ ایڈ دیکر کسی بڑے loss سے اسکو بچالیا good.
پاپا میری وجہ اسکا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور آپ مجھے good کہ رہے ہیں۔ اسے اپنے پاپا کی یہ شاباشی پسند نہیں آئی تھی۔ اسکی اس بات پہ جہانزیب ایک لمحے کو خاموش ہوئے ۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتا انہوں نے اسے ٹوک دیا اور خاموشی سے گھر جانے کو کہا۔
وہ کرسی پہ بیٹھے اس لڑکے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ بروقت فرسٹ ایڈ نے یا پھر پہلے دیکھ لیے جانے پر شاہ میر کے بریک لگانے نے اس لڑکے کو زیادہ جسمانی نقصان سے بچا لیا تھا ٹانگوں پر چوٹ گہری تھی۔گھٹنے کے جوڑ متاثر ہوئے تھے پر امید تھی 2یا 3ماہ کے اندر وہ پھر چلنے کے قابل ہو جائے گا
پر۔۔
رات کی تاریکی نے پھر کسی کو حیوان بنایا تھا اور وہ اس حیوانیت کا شکار ہوا تھا۔ اور یہ نقصان زندگی بھر کا تھا
وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے اب انہیں کیا کرنا چاہیے؟ لڑکے کو anasthesia دے دیا گیا تھا تاکہ وہ ذہنی اور جسمانی اذیت سے کچھ دیر دور رہے پر کیا وہ پولیس کو بلائیں گر بلائیں تو وہ اس لڑکے سے تفتیش کے چکر میں کئی بار پھر اسے اس اذیت میں مبتلا کریں گے اور بات سرعام ہو جائے گی اور وہ جانتے تھے اگر یہ بات کسی کو بھی پتہ چلی تو دنیا کبھی بھی اس لڑکے کو عزت سے جینے نہیں دے گی۔ اور بس انہوں نے اس بات کو راز ہی رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور اس کے گھر والوں کو ڈھونڈنے کی پوشیدہ کوشش کرنے لگے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کے پہلے سے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوتے گوپال ٹھکر کو بہت غصہ آیا
انکا بیٹا 18سال کا تھا پر طبیعت میں بہت لاپرواہی تھی اسی کے نتیجے میں محترم درواذہ بند کیے بنا سو رہے تھے
سفر کی تھکن کے باعث اسے ڈانٹنے کا ارادہ ملتوی کرتے وہ راہداری سے گذرتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ شاور لے کر وہ کچھ فریش ہوئے تو اپنے بیٹے کے کمرے کا رخ کیا۔کمرے کا دروازہ یہاں بھی پہلے سے کھلا تھا۔وہ اندر داخل ہوئے سامنے اجمیر کا بیڈ تھا پر یہ کیا۔۔؟ وہاں گچھم گچھا ہوئی بیڈ کی چادر انکا منہ چڑھا رہی تھیں۔ لیفٹ سائڈ کے اٹیچڈ باتھ کا دروازہ بھی کھلا تھا۔ کمرے کی تمام چیذیں بے ترتیب گری پڑی تھیں۔ پر جس چیز نے انہیں چونکا دیا وہ ہنومان جی کی ٹکڑوں میں بٹی چھوٹی مورتی تھی جسے اجمیر ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا یہاں کیا ہوا ہے اور انکا بیٹا کس حال میں ہے۔
انہوں نے جیب سے موبائل نکالا اور پولیس سٹیشن کا نمبر ملایا۔
ہیلو اٹس انسپکٹر معاذ۔۔
سر میرے گھر میں شاید کچھ بہت برا ہوگیا ہے آپ پلیز ۔۔۔۔گوپال ٹھکر کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی تھی۔ وہاں بیڈ کی سائیڈ پہ رسی کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا شاید باقی حصہ چادر میں تھا۔
ہیلو آپ گھر کا ایڈرس بتائیں ہم پہنچ رہے ہیں۔
انسپکتر معاذ گھر کا تفصیلی جائزہ لے رہے تھے۔ گوپال ٹھکر کو گھر سے باہر ٹھہرنے کو کہا گیا تھا۔ وہ بہت احتیاط سے فنگر پرنٹس collect کر رہے تھے۔ رسی پر skin(جلد) کے کچھ ذرات اور خون بھی تھا انہوں نے رسی ،ہنومان جی کی مورتی کے ٹکڑے چادر اور تمام ضروری مواد لیبارٹری ٹیسٹ کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
مسٹر گوپال پلیز آپ ہمارے ساتھ پولیس سٹیشن چلیں۔ آپ سے کچھ پوچھ گچھ کرنا باقی ہے۔
گوپال زندگی کی متاع ہارے ہوئے جواری کی طرح پولیس جیپ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اجمیر انکی متاع کل تھا۔اجمیر کو پانے کے لیے وہ ہر حد تک گیے تھے۔اپنی اندھآگنی کے پاگل پن کا موجب بنے اور زندگی کے 9 ماہ اس پاگل عورت کے ساتھ گزارے پر جس کے لئے یہ سب کیا وہ پھر ان سے کھو رہا تھا۔ وہ نڈھال سے جیب میں بیٹھ گئے۔معاذ انہیں تسلی دینا چاہتے تھے پر کسی انہونی کے ہونے کے جتنے واضح ثبوت ملے تھے ان کو جھٹلانا ناممکن تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانزیب اس لڑکے کے کپڑوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے جن میں وہ ایکسیڈنٹ کے وقت وہاں آیا تھا۔ لڑکے کو یہاں آئے دوسری رات تھی۔پر وہ ابھی بھی غنودگی میں تھا
شرٹ کی فرنٹ پاکٹ پہ کسی مشروب کے بھر کر خشک ہونے کے نشان تھے۔ انہوں نے اسے ناک کے قریب کیا تو شدید بدبو محسوس ہوئی۔ یہ بدبو شراب کی تھی۔ جیسے کسی نے اس کے سر پر شراب انڈیلی ہو تو کچھ حصہ جیب میں بھر گیا ہو۔ انہوں نے مزید تلاشی لی۔ اب انکا ہاتھ پینٹ کی جیب میں تھا۔ وہاں انہیں کچھ سخت سا محسوس ہوا جسے انہوں نے جلدی سے باہر نکالا۔ یہ چار تہوں میں مڑا تڑا ایک کاغذ تھا۔ جو اصل میں اسکی رولنمبر شیٹ تھی۔ اس میں ایف ایس سی پارٹ ٹو کا انگلش کا question paper بھی تھا۔
یہ سب اسکے گھر والوں تک پہنچنے کے لیے کافی تھا
۔۔۔۔۔۔
فرشتے میں اندر آجاوں؟
فرشتے نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
تم پہلے ہی اندر آ چکے ہو۔
اور شاہ میر کی نظر اپنے پیروں پہ گئی جو دروازہ پہلے سے کھلا ہونے کی وجہ سے دہلیز سے کچھ آگے بڑھ چکے تھے۔
وہ بنا کچھ کہے آگے آیا اور صوفے پہ بیٹھ گیا۔ شاہ میر کی نظروں کی تپش وہ اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی پر چہرہ نوٹ بک پہ جھکائے وہ خود کو اس سے بلکل لاتعلق ظاہر کر رہی تھی۔
کیا سوچا اب تم نے کیا چاہتی ہو تم اب۔
تم جانتے ہو میں کیا چاہتی ہوں۔
لیکن پاپا نہیں پوری کر رہے تمہاری ضد تو میرا کیا قصور؟
مجھے کس بات کی سزا دے رہی ہو تم؟ صرف اس بات کی کہ میں نے تمہیں وہ سچ بتا دیا؟
ہاں اسی بات کی سزا دے رہیں ہوں میں تمہیں۔ تم نے مجھ سے میری پہچان چھین لی
لیکن تمہاری پہچان یہ تھی بھی کب؟ اور تم مجھے بھائی نہ کہتی تو میں تمہیں کبھی یہ سب نہ بتاتا۔ شاہ میر شرمندگی سے نظریں جھکا کر منمنایا تھا۔ اور اگر تم مجھے یہ نہ بتاتے تو میں تمہیں آج بھی بھائی ہی سمجھتی۔۔۔فرشتے واپس اپنی نوٹ بک پہ جھک چکی تھی۔۔۔مطلب بات ختم۔۔۔۔
وہ جانتا تھا کہیں نہ کہیں چاروناچار وہ محبت میں خودغرض ہوا تھا۔
کیا کبھی کوئی محبوب اپنی محبت کو پانے کے لیے ایسے بھی خود غرض ہوا ہو گا جیسے اسے ہونا پڑا تھا۔اسکے ذہن میں وہ دن کسی فلم کی طرح چل رہا تھا اور فرشتے کے بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔