فرمان علی بیٹے قربان علی کی پیٹھ پر لمبا لیٹ گیا تھا۔اور بیٹا بھی قریب المرگ باپ کو اینیس Aeneas کی طرح پیٹھ پر لادے شہر شہر گھماتا تھا ۔بیٹے کی پیٹھ دکھتی نہیں تھی ۔ باپ کی قربت میں اس کے چہرے پر سورج کی روپہلی کرنوں کی تمازت ہوتی اور آنکھیں دوپہر کی طرح روشن ۔۔۔۔۔۔
اور بیوی۔۔۔۔۔۔؟؟
بیوی کی آنکھوں میں دھواں ساتیرتا ۔ وہ بڑبڑاتی ۔ ’’ ایک یہی رہ گئے ہیں ۔۔۔۔جیسے اور بیٹے ہیں ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔
اور بیٹے بھی تھے۔ ایک دبئی میں رہتا تھا۔مرجان علی اور دوسرااُسی شہر میں عثمان علی ۔ کہا نہیں جا سکتا کہ دبئی والا بیٹا کرتا کیا تھا۔ہو سکتا ہے جھاڑو لگاتا ہولیکن جب گھر آتا تو رنگ ڈھنگ کمپنی کے مینیجر جیسے ہوتے۔ وہ پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا رہتا اور بیمار باپ کو اس طرح دیکھتا جیسے بستر پر پڑے کسی قریب ا لمرگ کو اس کے دور کا رشتہ دار دیکھتا ہے۔وہ اپنی گفتگو میں انگریزی کے دو الفاظ بار بار دہراتا ’’یس ‘‘ اور ’’ نو ‘‘ ۔ گھر کے آنگن میں چہل قدمی کرتا اور سگار کے کش لگاتا۔
عثمان علی کے لیے آبائی مکان چھوٹا پڑتا تھا اور اس کی بیوی پھیل کر رہنا چاہتی تھی۔وہ کسی آئی ٹی کمپنی میں ملازم تھا اور ا لگ مکان میں رہتا تھا ۔ عثمان علی کی کمپنی باپ کو بھی طبّی امداد بہم پہنچاتی تھی جس کے لیے اسپتال میں بھرتی ہونا لازمی تھا۔ طبیعت کی زرا سی گرانی پر عثمان علی بزرگ باپ کو اسپتال میں بھرتی کرا دیتا اور اضافہ کے ساتھ دوائیوںں کا بل بنواتا لیکن قربان علی نہیں چاہتا تھابار بار اسپتال کامنھ دیکھنا پڑے ۔بوڑھے کو دل کا عارضہ نہیں تھابلکہ پھیپھڑہ کمزور تھا جس سے سانس لینے میں اکثر تکلیف ہوتی تھی۔قربان علی نے آکسیجن ماسک خرید کر دیاتھا لیکن ڈاکٹر نے پھیپھڑے کی ورزش بھی بتائی تھی۔ اس طرح کی ورزش ایک دستی مشین سے عمل میں آ تی تھی جو قربان علی نے فوراً خرید لی۔بوڑھا مشین میں لگی نلکی منھ میں لے کر متواتر الٹی سانسیں لیتا اور پھیپھڑے میں ہوا بھرتا اور خارج کرتا۔ پھیپھڑے کی ورزش سے بوڑھے کو راحت ملی اور قربان علی خوش ہوا لیکن بیوی کی آنکھوں میں دھواں سا تیر گیا۔ اس نے مشین کی قیمت کا دل ہی دل میں اندازہ لگایا اور سوچنے پر مجبور ہوئی کہ اس کی کلائی گھڑی سے سونی ہے ۔ اس دن کھانا دیر سے بنا تو قربان علی نے وجہ پوچھی ۔ وہ جیسے اس سوال کا انتظار کر رہی تھی۔ٹھنک کر بولی کہ اس کی کلائی پر گھڑی نہیں بندھی ہے کہ وقت دیکھ کر کام کرے ۔قربان علی اسے بازار لے گیا۔بیوی نے گولڈن چین والی گھڑی خریدی ۔
قربان علی نے اور چیزیں بھی خریدیں۔مثلاً شوگر چیک کرنے کے لیے گلوکومیٹر، بلڈ پریشر دیکھنے کا آلہ۔ بلغم نکالنے کا آلہ، اسٹیم لینے کی مشین اور بیوی ہر بار ٹھنکی۔اسے ہر بار کمی کا احساس ہوا۔کبھی کان کی بالیاں بد رنگ لگیں ، کبھی لگا ڈھنگ کے کپڑے نہیں ہیں۔۔۔لیکن جب قربان علی نے آکسیجن کی مشین اور گیس سلینڈرخریدا تو بیوی بستر پر پٹ ہو گئی۔ ’’کوئی پچاس ہزار کا ہوگا ‘‘ اور اس کو احساس ہوا کہ اس کے پاس زیور کی کمی ہے۔اسے دبئی والی بھابی یاد آگئی۔وہ جب دبئی سے آتی تو سونے کے
بسکٹ ایک بیگ سے نکال کر دوسرے بیگ میں رکھتی اور مرجان علی سگار کے کش لگاتا۔
بیوی دو دن تک پٹ پڑی رہی کہ سر میںدرد ہے ۔قربان علی نے سمجھا مائگرین ہو گیا ہے ۔ اس بیچ کام والی بھی نہیں آئی۔ قربان علی نے برتن دھوئے۔ کھانا ہوٹل سے آیا۔ لیکن بیوی نے بوڑھے کے لیے پرہیزی گھر میں بنائی۔ قربان علی خوش ہوا کہ خیال رکھتی ہے اور بیوی ٹھنکی ’’ چوڑیاں گھس گئی ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
قربان علی اسے بازار لے گیا۔ اس نے جڑاؤ کنگن خریدے۔
قربان علی نے گھر کو ہی جیسے پنچ ستار ہ کلینک بنا دیا تھا۔ مریض کی سہولت کی وہ تمام چیزیں گھر میںتھیں جو اسپتال میں دستیاب ہوتی ہیں ۔وہ صبح صبح شوگر چیک کرتا اور بلڈپریشر ناپتا۔ناک اگر نزلے سے بند رہتی تو سر کو ڈھک کر مشین سے بھانپ دیتا۔ پھیپھڑے کی دستی مشین سے سانس کی ورزش کراتا۔بوڑھے کو اکثر کھانسی کا دورہ اٹھتا تھا۔ کھانستے کھانستے اس کی آنکھیں کٹورے سے ابلنے لگتیں۔وہ بہت سا بلغم اگلتا جسے فرمان علی اپنی ہتھیلی پر روکتا۔ ہاتھ دھو کر آتا تودیر تک پیٹھ سہلاتااورپاؤں دباتالیکن اب اس نے بلغم نکالنے کی مشین خرید لی تھی ۔مشین کی کٹوری منھ میں لگا دیتا اور ر بر کی نلکی سے جڑے بلاڈر کو آہستہ آہستہ پمپ کرتا۔بلغم منھ سے نکل کر کٹوری میں جمع ہونے لگتا۔
ایک بار بوڑھے نے پیٹ میں درد بتایا۔ درد شدّت کا نہیں تھا اور بلّی کی نظر چھیچھڑے پر ہوتی ہے۔عثمان علی باپ کواسپتال میں بھرتی کرنے کے درپے ہوا۔ قربان علی کو لگا معمولی سا درد ہے ۔دوا سے ٹھیک ہو سکتا ہے ۔ ڈاکٹر سے فون پر بات کی۔ڈاکٹر نے فون پر ہی دوا تجویز کی اور کھانے میں پرہیز بتایا۔بوڑھے کو دوا سے افاقہ ہوا اور اسپتال میں بھرتی ہونے کی نوبت نہیں آئی۔ عثمان علی ناراض ہوا اور قربان علی کی بیوی مسکرائی ۔
اور وہ مسکراتی تھی اور اسپتال کے منظر نامے کو دوربین سے دیکھتی تھی کہ دھان کوٹے قربان علی اور کوٹھی بھرے عثمان علی لیکن قربان علی کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ کتنا دھان کوٹھی میں گیا اور کتنا اس کے کھاتے میں آیا۔وہ اپنے فعل سے مطلب رکھتا تھا اورباپ کے علاج پر بے دریغ خرچ کرتا تھا۔بوڑھے باپ کو زیادہ سے زیادہ آرام پہنچانا اس کی زندگی کا نصب ا لعین تھا اور باپ کبھی سرہانے اڑ کر بیٹھنا چاہتا تو پیچھے تکیہ لگا دیتا۔تکیہ لگا کر چلا نہیں جاتا تھا ۔ دور کھڑا دیکھتا اور خوش ہوتا کہ باپ کو آرام مل رہا ہے۔ بوڑھے کو کلین شیو رہنے کی عادت تھی۔قربان علی روز اس کی داڑھی بناتا ناخن کترتا، غسل دیتا۔بھیگے جسم کو تولیے سے خشک کرتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں مسکراتے ہوئے جھانکتا۔۔۔۔ اور وہ لمحات مقدّس ترین لمحات ہوتے ۔اس وقت کوئی باپ نہیں ہوتا۔ کوئی بیٹا نہیں ہوتا۔دو انسان ہوتے۔۔۔۔۔۔ان کے درمیان محبت ہوتی۔ ۔ ۔ الوہی بندھن ہوتا۔۔۔۔ فرمان علی کے چہرے پر ایک سکون سا ہوتا قربان علی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہوتا۔دونوں کی آنکھیں ان دیکھی چمک سے خیرہ ہوتیں ۔۔۔۔اور دونوںہونٹوں پر دھوپ جیسی مسکراہٹ لیے ایک دوسرے کو نہار رہے ہوتے ۔ انبساط کی بے کراں لہروں میں ڈوب رہے ہوتے۔۔۔۔۔ ابھر رہے ہوتے۔۔۔۔۔۔
دوبئی والی بھابی سال میں ایک بار آتی تھی۔ اس بار آئی تو اس سے پہلے کہ سونے کے بسکٹ اس بیگ سے نکال کر اس بیگ میں رکھتی نند نے جڑاو کنگن پہن لیے اور گلے میں سچّے موتیوں کی مالا بھی ڈالی جو ان دنوں لی تھی جب قربان علی نے باپ کے لیے اسٹیم لینے والی مشین خریدی تھی۔
مرجان علی باپ کے سرہانے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کھڑا ہو گیا۔ ایک نظر ڈالی۔
’’ نو۔۔۔۔نو۔۔۔۔بہت کمزور ہو گئے ہیں۔‘‘
قربان علی کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔ کمزور ہو گئے ہیں تو اور احساس دلاؤ۔۔۔ـ؟ بیوی کو بھی برا لگا۔مرجان علی باپ کے لیے کوٹ بھی لایا تھا۔قربان علی خوش ہوا لیکن بیوی نے محدّب شیشے سے دیکھا۔کوٹ کا ایک بٹن دوسرے رنگ کا تھا۔اس نے کوٹ الماری میں سینت دیا۔’’ ہمارے اتنے برے دن بھی نہیں آ گئے ہیں کہ بزرگ باپ کو اُ ترن پہنائیں‘‘ ۔ قربان علی کو بھی برا لگا۔ مرجان علی چلا گیا تو اس نے نیا کوٹ خریدا ۔
کسی بوڑھے کے پاس بیٹھ جاو تو وہ ماضی میں چلا جاتا ہے ۔قربان علی سے فرمان علی کی والہانہ باتیں ہوتی تھیں لیکن بزرگ نے کبھی اپنی عمر گذشتہ کی کتاب نہیں کھولی۔ وہ مصری صنمیات کے قصّے سناتا اور کبھی بزرگان دین کے۔ طوفان نوح کے ذکر میں یہ بات ہمیشہ دہراتاکہ ایک عظیم سیلاب کا تذکرہ ہر قوم میں ملتا ہے۔قربان علی بہت انہماک سے سنتا ۔کبھی کبھی سوال بھی کرتا۔وہ ایسے سوال بھی کرتا جس کا جواب اس کو معلوم ہوتا۔اصل میں اس نے محسوس کیا تھا کہ سوال پوچھنے پر باپ کو خوشی ہوتی ہے۔لیکن ادھر کچھ دنوں سے گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا۔بوڑھا موت کے قصّے بیان کرنے لگا تھا۔امام غزالی کے بارے میں بتایا کہ ان کو موت کی آگاہی ہو گئی تھی۔پانی منگا کر وضو کیا ، نماز پڑھی اور چادر تان کر سو گئے تو پھر نہیں اٹھے ، اس نے ایک جسم سے دوسرے جسم میں جان منتقل کرنے کے بارے بھی بتایا کہ کس طرح جوگی اور صوفیائے کرام لمس کے زریعہ کسی بیمار کی رگوں میں جان منتقل کرتے ہیں۔لاہری مہاشئے کی مثال دی کہ وہ جسم لطیف میں چلتے تھے اور پران ٹرانسفر کرتے تھے۔ رانی کھیت میں اپنے حاکم کی بیمار بیوی کو اسی طرح صحت یاب کیا تھا۔پھر اس موضوع کی مزید وضاحت کی تھی کہ تم جب کسی کو چھوتے ہو تو لمس ایک رابطہ قائم کرتا ہے۔اس رابطے میں ان دیکھی قوت بھی شامل ہوتی ہے۔جس طرح دو تاروں کو جوڑنے سے ان میں بجلی رواں ہو سکتی ہے اسی طرح لمس کے ذریعے ایک سے دوسرے جسم میں توانائی بحال کی جا سکتی ہے۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ تمہارے جذبات میں شدّت اور روح میں طاقت کتنی ہے۔پھر بوڑھے نے بابر بادشاہ کی مثال پیش کی تھی۔وہ یہ کہ ہمایوں جب بیمار پڑا اور دوا بے کار گئی تو بابر نے بیمار ہمایوں کی چارپائی کا طواف کیا اور دعا مانگی کہ اس کی زندگی ہمایوں کو مل جائے۔ ہمایوں اچھا ہونے لگا اور بابر بیمار رہنے لگا۔ ادھر ہمایوںمکمّل طور پر صحت یاب ہو ا ادھر بابر نے داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔لیکن بوڑھے نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعہ کا ذکرکسی تاریخ میں نہیں ملتا۔پھر بھی اس کا مثبت پہلو ہے۔اس کا ذکر ہوتے رہنا چاہیے۔ وہ واقعہ جو مثبت اقدار کا حامل ہے۔ وقت کے ساتھ تاریخ میں اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔
فرمان علی کو بھی موت کے سپنے آنے لگے۔وہ عجیب و غریب خواب دیکھنے لگا۔ایک بار دیکھا کہ بہت بوڑھا ہو گیا ہے اور ایک قبرستان سے گذر رہا ہے۔اچانک ایک نوجوان سامنے آ گیا۔وہ نوجوان اس کا باپ تھا۔اس نے خواب فرمان علی کو سنایا تووہ ہنسنے لگا۔اس نے فرائڈ اور یونگ کی بابت بتایا کہ فرائڈ نے خواب کو لاشعور تک پہنچنے کی شاہراہ بتایا ہے اور یونگ نے خواب کے تحیّر آمیز تجزیے کیے ہیں۔اور تب اس نے بیٹے کے خواب کا تجزیہ کیا کہ اس کے لاشعور میں یہ بات پنپ رہی ہے کہ باپ کو مرنا نہیں چاہیے، اس لیے اس کو جوان دیکھا اور خود کو بوڑھا۔یعنی اس کے بڑھاپے تک بھی باپ تنومند رہے۔پھر اس نے سرگوشی کی کہ موت سے کس کی رستگاری ہے۔۔۔؟
اگلے مہینے شہر میں پستک میلہ لگا تو بوڑھا مچل گیا کہ میلہ گھومے گا۔ بیٹے نے گھبراہٹ سی محسوس کی۔ اصل میں بوڑھے کی ٹانگیں جواب دے رہی تھیں۔ وہ واکر کی مدد سے کسی طرح بستر سے کھانے کی میز تک کی دوری طے کر تا تھا۔ پھر بھی قربان علی وقتاً فوقتاً باپ کو تفریح گاہوں اور جلسوں میں لے جایا کرتا کہ معذوری کا کوئی احساس نہ ہو ۔میلے میں گردبہت اڑتی تھی۔ پھیپھڑے میں انفکشن کا خطرہ تھا۔یہی وہ بات تھی کہ قربان علی کو میلہ جانے میں قدرے تامّل تھا۔ لیکن باپ بہ ضد تھا۔ آخر اس نے وہیل چیئر نکالی۔ بیوی بھی ساتھ ہو لی۔دونوں نے مل کر بوڑھے کو وہیل چیئر پر بٹھایا۔ بیوی چیئر چلاتی ہوئی بوڑھے کو کار تک لائی ۔ کار میں واکر رکھا۔ بیگ میں پانی اور جوس پیک رکھا۔ قربان علی نے باپ کو گود میں اٹھا کر کار کی اگلی سیٹ پر بٹھایا۔
میلہ پہنچ کر بزرگ خوش ہوا۔وہ اسٹال پر طائرانہ سی نظر ڈالتا توقربان علی کتاب کا نام پوچھتا لیکن باپ اگلے اسٹال کی طرف اشارہ کرتا ۔۔۔۔ پھر اگلے اسٹال کی طرف ۔۔۔۔۔ کئی اسٹال جھانکنے کے بعد بھی بوڑھے نے کوئی کتاب پسند نہیں کی۔قربان علی کو حیرانی تھی کہ آ خر تلاش کس چیز کی ہے ؟ تب بوڑھے کی آنکھیں چمکیں ۔ اس نے سرگوشیوں کے انداز میں کہا کہ تم کسی کتاب کو ڈھونڈتے ہو تو کتاب بھی تمہیں اسی شدّت سے ڈھونڈتی ہے اور تمہیں کھینچ کر اپنے پاس لے آتی ہے۔ پھر ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ گیلری کے آ خیر میں کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے اسٹال کی طرف اشارہ کیاکہ کتاب وہاںبلا رہی ہے ۔ بہو نے وہیل چیئر کا رخ ادھر موڑ دیا۔اسٹال پر آتے ہی اس نے ادھر ادھر نظرڈالی اور اچانک بچّے کی طرح خوش ہو کر بولا ۔’’ وہ دیکھو۔۔۔ ابن خلدون کا مقدمہ ‘‘ قربان علی کا چہرہ حیرت و مسرّت سے کھل گیا۔ بیوی حیران ہوئی لیکن متاثر نہیں ہوئی۔اس نے سوچا اسٹال پر پبلشر کا نام پڑھ کر اندازہ لگایا ہوگا۔
کتاب خرید کر وہ فوڈاسٹال پر آئے۔ بیٹے نے برگر لیا ، بیوی نے گول گپّے کھائے اور باپ نے جوس پئیا جو بہو گھر سے لے کر آئی تھی ۔واپسی میں قربان علی نے اپنے لیے ڈائری خریدی، بیوی نے اسلامیہ بک ڈپو سے کچھ تغرے خریدے اور ایک نعتیہ سی ڈی لی۔
میلے سے آکر بوڑھے کو کھانسی رہنے لگی۔ ایک دن سینے میں درد ہوا۔قربان علی نے اسے اسپتال میں بھرتی کر دیا۔ڈاکٹر نے پھیپھڑے میں ورم بتا یا۔چار دنوں تک وہ آئی سی یو میں رہا ۔قربان علی نے بھی اسپتال میں ڈیرہ جمایا۔ اس کو الگ سے اٹینڈنٹ روم مل گیا تھا۔بیوی گھر سے ٹفن لے کر آتی تھی۔ عثمان مزاج پرسی کے لیے آتا تھا۔کبھی صبح آتا کبھی شام۔ڈاکٹروں سے بات کرتا ۔ چارٹ پر دوایئوں کی انٹری چیک کرتا اور چلا جاتا۔لیکن قربان علی دن بھر سرہانے بیٹھا رہتا ۔ آنکھوں میں تفکّر کے بادل گھر آئے تھے۔۔۔۔چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا بیوی نے قربان علی کو اس سے پہلے اتنا پریشان نہیں دیکھا تھا۔ وہ دلاسہ دیتی کہ اﷲ کارساز ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
فرمان علی چار دنوں بعد صبح قریب گیارہ بجے اسپتال سے ڈسچارج ہوا ۔اس بار بل ایک لاکھ چوالیس ہزار کا بنا تھا۔ عثمان علی بہت خوش تھا ۔دھان کوٹے قربان علی اور کوٹھی۔۔۔۔اور بیوی کی آنکھوں میں جلن ہو رہی تھی ۔ اس نے ڈسچارج سمری سے فرمان علی کی آئی ڈی چپکے سے نکال لی۔عثمان علی کو پتہ نہیں چلا کہ بل کے ساتھ آئی ڈی نہیں ہے۔
فرمان علی اسپتال سے گھر آیا تو کمزور ہو گیا تھا۔اس کی ٹانگوں کا درد بڑھ گیا تھا۔واکر سے چلنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ اب کھانا بستر پر ہی کھانے لگا۔ باتھ روم تک کسی طرح چلا جاتا لیکن غسل کرنا پسند نہیں کرتا تھا، غسل کے عمل میں جانفشانی تھی۔ اس کا داڑھی بنانہ بند نہیں ہوا تھا۔ قربان علی بھیگے کپڑے سے جسم پونچھ دیتا اور سر پر مالش کردیتا۔واڑھی بناتا کریم لگاتا بالوں میں کنگھی کرتا اور باپ ہنستی ہوئی آنکھوں سے بیٹے کو دیکھتا۔اس کا جسم کمزور ہو گیا تھا لیکن چہرے پر نور تھا۔وہ کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا لیکن قربان علی کو باپ نہ بوڑھا نظر آیا نہ کمزور۔وہ بس خدمت میں لگا تھا اور زیادہ سے زیادہ وقت دے رہا تھا اور بیوی بڑبڑاتی۔۔۔۔ جیسے ایک یہی رہ گئے ہیں۔۔۔اور بیوی کو لگتا بوڑھا باپ مکڑی کا جالہ ہے جس میں بیٹا مکھی کی طرح پھنسا ہوا ہے۔
پھیپھڑے کی ورزش اب رک گئی تھی۔وہ الٹی سانس نہیں لے پاتا تھا۔ آکسیجن سلینڈر کا ماسک لگا کر زور زور سے سانس لیتا۔بوڑھا بسترسے لگ گیا۔ کپڑے گیلے رہنے لگے۔ بیوی بستر بدل دیتی ۔ کپڑے قربان علی دھوتا ۔ باپ کو جب ہلکا ہلکا بخار بھی رہنے لگا توبیٹے کو تشویش ہوئی۔خون جانچ کے بعد ڈاکٹر نے کچھ دوائیوں کے نام لکھے۔لیکن دوائیاں کام نہیں کر رہی تھیں اور بخار تھا کہ اتر نہیں رہا تھا۔فرمان علی کی قوت مدافعت جیسے ختم ہو گئی تھی۔ٹسٹ کی ایک دوا رہ گئی تھی جو کہیں مل نہیں رہی تھی۔یہ دوا امید کی کرن تھی۔ قربان علی کو یقین تھا کہ اس کے استعمال سے بخار اتر جائے گا۔اس نے انٹرنیٹ پر بھی کھوج کی۔آخر گوگل سرچ سے معلوم ہوا کہ دوا کرشنا فارمیسی ممبئی میںدستیاب ہے قربان علی نے صبح صبح ممبئی کی فلائٹ پکڑی اور رات تک دوا لے کر آ گیا۔
دوا کا کچھ اثر ہوا۔بخار کم ہو گیا لیکن ایک دم نہیں اترا۔قربان علی کو کچھ راحت ملی۔اس دن عثمان علی بھی پہنچے۔ آتے ہی مژدہ سنایا کہ ایک لاکھ چوالیس ہزار کا بل منسوخ ہو گیا۔بل کے ساتھ آئی ڈی نہیں تھی۔قربان علی سے الجھ گیا کہ ڈسچارج سمری کے ساتھ آئی ڈی کیوں نہ چیک کی ۔قربان علی کو ہوش کہاں تھا۔وہ تو باپ کے وائرل بخار میں الجھا پڑا تھا۔اچانک باپ کو کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔قربان علی دوڑکر پہنچا۔بلغم حلق میں پھنس گیا تھا۔باپ اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ بلغم اگل نہیں پا رہا تھا۔اس کی آنکھیں ابلنے لگیں اور سانسیں اکھڑنے لگیں ۔ قربان علی گھبرا گیا۔اس کو لگا باپ کا دم سینے میں گھُٹ جائے گا۔اس کے حلق میں اپنا ہاتھ ڈالا اور پھنسے ہوئے بلغم کو صاف کیا۔ایسا متواتر دو تین بار کیا تو باپ کی سانسیں ہموار ہوئیں۔عثمان علی کھڑا دیکھتا رہا۔ قربان علی نے ہاتھ دھوئے۔
باپ کابخار تو اتر گیا لیکن بیٹے پر چڑھ گیا۔شام تک بخار بہت تیز ہو گیا۔ بیوی گھبرا گئی۔اس نے فیملی ڈاکٹر کو فون کیا۔ اس نے آکر دیکھا اور دوائیاں لکھ دیں۔کوئی افاقہ نہیں ہوا۔فرمان علی کا بدن جیسے آگ میں جل رہا تھا۔بیوی رات بھر سرہانے بیٹھی رہی۔ صبح ڈاکٹر پھر آیا۔خون کی بھی جانچ ہوئی لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ مرض کیا ہے۔ ڈاکٹر کو تشویش ہوئی۔ قربان علی کوما میں چلا گیا ۔
ادھر باپ بھی بستر مرگ پر پڑا تھا۔اس کا پرسان حال کوئی نہیں تھا۔ بیوی کا روتے روتے برا حال تھا۔بوڑھے کے کانوں میں سب کی آواز جا رہی تھی لیکن کوئی اسے کچھ بتا نہیں رہا تھا۔وہ چپ چاپ بستر پر پڑا چھت کو گھور رہا تھا۔رات تک بھی قربان علی کو ہوش نہیں آیا۔بیوی سجدے میں چلی گئی۔
آدھی رات کے قریب کمرے میں کھٹ کھٹ کی آواز گونجی۔بوڑھا واکر گھسیٹتا ہوا قربان علی کے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا۔بیوی ایک طرف کرسی پر گٹھری بنی اونگھتے اونگھتے سوگئی تھی۔باپ کسی طرح بیٹے کے بستر تک پہنچا اور سرہانے بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ پرسکون تھا۔اس نے ایک بار دونوں ہاتھ اوپر کی طرف اٹھائے ۔ دعا مانگی۔بیٹے کے چہرے کا دونوں ہاتھوں ستے کٹورا سا بنایا ۔ پیشانی چومی ۔ پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانے لگا۔ وہ اس کے سارے جسم پر آہستہ آ ہستہ ہاتھ پھیر رہا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر بیٹے کے جسم پر ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔
صبح بیوی کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا فرمان علی بیٹے پر لمبا بے جان پڑا تھا اور بیٹا بھیگی آنکھوں سے چھت کو گھور رہا تھا۔
٭