چنوا کالا کلوٹ تھا ۔ اور لگائی غزال چشم تھی ۔سرو جیسا قد ،سڈّول بازو ۔۔۔۔۔ بال کمر تک لہراتے ہوئے اور جامنی کساوٹ سے بھرپور لب و رخسار۔
غریب کا حسن سماج کی آنکھوں میں چبھتا ہے۔حسن طبقہ اشرافیہ کے لیے ہے۔کبھی سنا کہ کوئی شہزادی بد صورت بھی تھی ؟ یا کسی دلت کے آنگن میں کبھی چاند بھی اترا ہو ؟ لیکن چنوا کے پہلو میں چاند ہنستا تھا اور بلبل چہکتی تھی اور مولوی تاثیر علی یہ منظر غلیل کے پیچھے سے دیکھتے تھے۔ان کے سینے میں دھواں سااٹھتا ۔۔۔۔کنجڑے کی بیوی اتنی حسین۔۔۔۔؟ اتنی۔۔۔۔؟
چنوا پھل بیچ کر گذارہ کرتا تھا۔کوئی دکان نہیں تھی۔ ایک ٹھیلہ تھا جس پر پھلوں کو سجائے گلی گلی ہانک لگاتا ۔شام کو تھکا ماندہ گھر لوٹتا تو بچے ہوئے پھل لُگائی کے سپرد کر دیتا ۔وہ اچھے پھلوں کو چن کر الگ کر دیتی۔ جو پھل سڑنے کے قریب ہوتے انہیں تراش کر چنوا کو کھلاتی ۔چنوا نے بکری بھی پال رکھی تھی ۔ ایک میمنا بھی تھا ۔بکری کو داڑھی تھی لیکن دودھ دیتی تھی۔ لُگائی چنوا کو بکری کا دودھ بھی پلاتی لیکن دودھ پینے میں وہ آنا کانی کرتا ۔ وہ ضد کرتی تو کٹورہ اس کے ہونٹوں سے لگا دیتا کہ تو بھی پی۔۔۔۔ دونوں باری باری ایک ہی کٹورے سے دودھ پیتے۔
جامع مسجد کے بہت پیچھے ندی کی طرف پڑتی زمین تھی جہاں ا ملتاس کے درخت تھے۔وہاں پرکچھ مزدوروں کی جھوپڑیاں تھیں۔چنوا نے بھی وہاں اپنی مڑئی گاڑ رکھی تھی۔ اس کی مڑئی کشادہ تھی۔ چنوا کی مڑئی میںدھوپ جیسے آٹھوں پہر ٹھہر گئی تھی۔ کسی گوشے میں اندھیرا نہیں تھا۔ چنوا کا من چنگا تھا اور کٹھوتی میں گنگا تھی ۔ اس کو کسی سے شکایت نہیں تھی ۔ اس کو سبھی اچھے لگتے تھے۔ پھر بھی ایک کسک تھی۔شادی کو دو سال ہو گئے تھے اور للنہ نہیں تھا کہ مڑئی میں کلکاریاں بھرتا۔ چنوا پھل بیچنے نکلتا تو لگائی میمنے سے کھیلتی ۔وہ اچھل کر بھاگتا تو اس کے پیچھے دوڑتی۔اسے پکڑکر سینے سے لپٹا لیتی اور دلار کرتی ’’ اتھن پتھن بدھوا متھن ‘‘ ۔اس نے میمنے کا نام رکھا تھابدھوا۔ دلتوں کے نام بھی دلت کی طرح ہوتے ہیں، بدھوا ۔۔۔چنوا۔۔۔۔ کلوا۔۔۔منوا۔۔۔۔۔۔ طبقہ اشرافیہ کا میر قاسم علی دلت کے یہاں کسوا ہو جاتا ہے اور رضوان اللہ رجوا ۔
شروع شروع میں چنوا مولوی تاثیر کے گھر کے سامنے والے چوک پر ٹھیلا لگاتا تھا۔لگائی بھی ساتھ ہوتی۔کوئی گاہک آتا توپھل تراش کر دونے میںپیش کرتی۔ دیکھتے دیکھتے گاہکوںکی بھیڑ جمع ہو جاتی۔گھنٹے دو گھنٹے میں سارا پھل بک جاتا۔لگائی نے محسوس کیا کہ سب کی آنکھوں میں یرقان ہے۔جموا ترچھی نگاہوں سے دیکھتا تھا اور خواہ مخواہ بھی ٹھیلے کے پاس کھڑا رہتا۔ جموا مولوی تاثیر علی کا ایلچی تھا۔مولوی تاثیر علی آنکھوں میں جلن لیے ادھر سے گذرتے تھے ۔
لُگائی سب کی نگاہوں سے پریشان ہو گئی ۔ اس نے گھر سے نکلنا بند کردیا ۔
ایک دن تاثیر علی نے ایلچی کے زریعہ چنوا کو بلا بھیجا ۔ چنوا دوڑا دوڑا آیا۔ مولوی تاثیر علی نے ایک پیٹی انار کی فرمائش کی ۔چنوا انار کی پیٹی لے کر پہنچا تو دبی زبان میں بولے۔
’’ لگائی کو بھیج دیا کر۔ ملکائن کو تیل لگا دیگی۔ بیس روپے روز دوںگا۔ ‘‘
لگائی ایک دن گئی دوسرے دن نہیں گئی۔چنوا نے بھی پھر نہیں بھیجا ۔ملکائن بار بار ڈکار لیتی تھی اور مولوی تاثیر پردے کے پیچھے سے جھانکتے رہتے ۔
چنوا اپنی زندگی سے خوش تھا۔۔۔۔۔، بس ایک کسک تھی۔۔۔۔للنہ ہوتا تو مڑئی میں ٹپ ٹپ چلتا۔دونوں ہر جمعرات کو گھورن پیر کے مزار پر اگر بتّی جلاتے ۔۔۔۔۔یا پیر۔۔۔؟ پیر سن نہیں رہے تھے لیکن چنوا کی عقیدت میںکوئی فرق نہیں آیا تھا۔کسی نے کہا کہ جمع کی نماز میں دعا قبول ہوتی ہے۔چنوا جمع کی نماز بھی پڑھنے لگا لیکن لگائی کی گود ہری نہیں ہوئی۔
معلوم ہوا کہ دیوی ماں کے مندر سے کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ کھپّر پوجا کے موقع پر ماں دیوی کی ڈالی یاترا نکالی جاتی تھی۔ مندر کوئی چار سو سال پراناتھا جس کی تعمیر میں الرکھو میاں اور سپھو میاں راج مستری کا بھی ہاتھ تھا۔ڈالی یاترا کی روایت گزشتہ دوسو برسوں سے چلی آرہی تھی۔ کہتے ہیں کہ یاترا کے دوران آگ سے نکلی خوشبو جہاں تک جاتی ہے وہاں قدرتی عذاب نازل نہیں ہوتے اور مہاماری بھاگ جاتی ہے ۔ایک زمانے میں پھلواری شریف میں مہاماری پھیلی تھی۔ماں نے خواب میں ہدایت دی کہ میری یاترا نکالو اور کھپّر پوجا کرو۔یاترا نکالی گئی اور تب سے کھپّر پوجا جاری ہے اور کہیں کوئی بیماری نہیں پھیلی۔
اس بار پرانی جگہ سے قریب بیس فٹ ہٹ کر وسیع پنڈال کی تعمیر کی گئی تھی جس میں پیلے کپڑے اور تھرماکول کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ پنڈال اونچے برقی تاروں سے دور رہیں۔ پنڈال کی اونچائی ساٹھ فٹ اور چوڑائی پچیس فٹ رہی ہوگی۔پنڈال کی سجاوٹ دیدنی تھی۔جگہ جگہ رنگین قمقموں کے ساتھ رنگ برنگ کی برقی چرخی اور رالیکس بھی لگائے گئے تھے ۔
اس بار یاترا میں پچاس ہزار لوگ شامل ہوئے۔صبح سے ہی لوگوں کی آمد و رفت شروع ہو گئی تھی۔عورتیں بھجن گانے میں مصروف رہیں۔ جل ابھیشیک کے ساتھ پوجا ارچنا بھی ہوتی رہی۔ دور دراز سے لوگ منّتیں لے کر ماں دیوی کی پرتیما کے آگے جھولی پھیلا کر فریاد کر رہے تھے۔ان میں چنوا اور اس کی لگائی بھی شامل تھے ۔چنوا آنکھیںبندکیے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا اور لگائی آنچل پھیلائے فریاد کر رہی تھی۔ہے مائی۔۔۔ایگو للنہ چاہیں۔۔۔ایگو للنہ ۔۔۔۔۔اس نے آرتی بھی کی۔ رات ساڑھے سات بجے مندر کے پجاری مندر کے احاطے سے کھپر میں آگ لے کر نکلے تو جے ماں کالی کا نعرہ لگاتے ہوئے ہجوم بھی شامل ہو گیا۔ یاترا میں عورتیں بچّے اور بوڑھے بھی شامل تھے ۔یاترا جس سڑک اور گلی سے گذرتی لوگ نعرہ لگاتے ہوئے شامل ہو جاتے ۔ چنوا اور لگائی بھی ساتھ تھے۔ یاتراٹم ٹم پڑاو اور مسجد چوراہا سے ہوتے ہوئے صدر بازار سے گذر ی تو جموا کی نظر چنوا پر پڑ گئی۔ جموا اس وقت بنارسی کی دکان سے کھینی خرید رہا تھا۔ ڈالی یاترا پوٹھیا بازار اور بلاک آفس سے ہوتے ہوئے مندر کے احاطے میں لوٹ آئی۔ماں دیوی کی آرتی کے بعد پرشاد تقسیم ہوئے۔ دونوں پرشاد لے کر گھر لوٹے۔
صبح عجیب بدرنگ تھی۔ میمنا خاموش تھا اور مڑئی سے باہرکوؤں کا شور تھا۔ سیاہ بادل گھر آئے تھے۔ ہوائیں ساکت تھیں۔ چنوا کا دم گھٹنے لگا۔وہ مڑئی سے باہر آیا تو کوّے کا شور بڑھ گیا ۔ چنوا حیرت سے افق کے مشرقی کناروں کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سیاہ بادل جمع ہو رہے تھے۔ سامنے ا ملتاس کے پیڑ پر ایک گدھ بیٹھا تھا۔وہ اڑ ا تو پیڑ کے پیچھے سے جموا نمودار ہوا۔وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا مڑئی کی طرف آرہا تھا۔ لگائی نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو اندر چلی گئی۔جموا کے تیور اچھے نہیں تھے۔اس نے جارحانہ انداز میںمولوی تاثیر علی کا فرمان سنایاکہ فوراً دربار میں حاضر ہو۔چنوا پہلے خوش ہوا کہ انار کی مانگ ہوگی۔ ایک پیٹی انار میں اسے تین سو کا منافعہ ہوتا تھا۔ لیکن جموا کے جارحانہ رویّے سے اُسے تشویش ہونے لگی ۔چنوا نے پوچھاکہ کس لیے بلایا ہے تو اس نے ٹکا سا جواب دیا کہ جانے پر معلوم ہوگا۔چنوا نے دوبارہ پوچھا تو جموا کرخت لہجے میں بولا۔
’’ تو ہندو ہو گیا ہے ۔‘‘
مولوی تاثیر علی مسند پر بیٹھے حقہ گڑ گڑا رہے تھے۔
’’ تو کھپّر پوجا میں شامل تھا۔‘‘
چنوا نے اعتراف کیاکہ وہ یاترا میں شامل تھا۔
’’ تو نے دیوی کے نعرے لگائے۔‘‘
چنوا کا جواب تھا کہ اللہ ایشور ایک ہی نام ہے تو دیوی سے بھی مانگ لیا اللہ سے بھی مانگ لیا۔
مولوی تاثیر علی گرجے۔
’’ کمبخت۔۔۔۔کفریہ کلمات ادا کرتا ہے۔‘‘
چنوا مڑئی میں واپس آیا تو عورتیں کھسر پھسر کر رہی تھیں۔
’’ چھی چھی ۔۔۔دیوی پوجا کرتی ہے ۔ ‘‘
خبر پھیل گئی کہ چنوا ہندو ہو گیا ہے۔
مولوی تاثیر علی نے غلیل سنبھالی ۔ امارت دین کا رخ کیا۔ مفتی دین نے فتویٰ جاری کیا۔
’’ کفریہ کلمات کہنے ،دیوی کے نعرے لگانے اور اللہ کے ساتھ ایشور کی بھی پوجا کرنے پر پھل فروش چنوا خارج از اسلام ہوا ۔چنوا مرتد قرار دیا جاتا ہے اور اس کی بیوی نکاح سے خارج ہوئی۔ایسے شخص پر تجدید ایمان، تجدید نکاح اور توبہ استغفار لازم اور ضروری ہے۔جب تلک تجدید ایمان تجدید نکاح اور توبہ استغفار نہ کرے تمام مسلمانوں کے لیے اس سے کسی طرح کے تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں۔ایسے شخص کے فتنہ سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ ‘‘
چنوا کے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ خلا میں ٹنگ گیا۔ اب ٹھیلہ کہاں لگائے ۔ لوگ حقارت سے گھورتے ہوئے گذر جاتے۔ وہ کسی سے معا ملات نہیں کر سکتا تھا۔ ۔ وہ اب مسلمان نہیں تھا۔ اگر مر جاتا توقبر نصیب نہیں ہوتی ۔ کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ جہاں بھی جاتا فتویٰ کو خود سے الگ نہیں کر سکتا تھا۔
چنوا نے مولوی تاثیر علی کے پاؤں پکڑلیے۔ مولوی تاثیر اُسے لے کر امارت دین آئے۔امارت سے اعلان جاری ہوا۔
’’ پھل فروش چنوا نے امارت دین آکر توبہ کی ہے۔اپنے غیر شرعی بیان پر ندامت و شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے مفتی امارت دین اور دیگر علما کے سامنے اپنی غلطیوں پر توبہ و استغفارکیا اور ایمان کی تجدید کی اور کلمہ شہادت پڑھا۔ وہ اب مسلمان ہے۔اس کے ساتھ مسلمان جیسا سلوک کیا جائے۔
چنوا اب مسلمان تھا۔
اور لُگائی۔۔۔۔۔۔؟
لگائی نکاح سے خارج ہو چکی تھی۔وہ مڑئی میں میمنے کو لپٹائے زاروقطار رو رہی تھی۔ چنوا سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا ۔ اس کے سینے میں جلن تھی۔ آنکھوں میں دھواں تھا۔ چنوا اس کو اب چھو نہیں سکتا تھا۔ وہ حرام ہو چکی تھی ۔ تجدید نکاح کے لیے اس کا حلال ہونا ضروری تھا۔
حلال کون کرے ؟
باہر املتاس کے پیڑوں پر گدھ جمع ہونے لگے تھے۔ مڑئی میں حبس کی فضا تھی۔مڑئی کی دیوار پر ایک پتھر پڑا۔
’’ نا محرم کو لے کر اندر بیٹھا ہے۔ باہر نکل ۔ ‘‘
’’ حرام کاری نہیں چلے گی ۔‘‘
’’ یہ زنا ہے ۔ ‘‘
مولوی تاثیر علی نے غلیل سنبھالی۔جموا کو اشارہ کیا ۔وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا مڑئی میں گھسا۔
’ مولوی صاحب سے حلالہ کرا لے۔‘۔۔۔۔وہ اوروں سے بہتر ہیں۔‘‘
لگائی کے سینے سے دلخراش چیخ نکلی ۔ مڑئی میں اندھیرا چھا گیا۔ چنوا نے چاہا ہاتھ بڑھا کر لگائی کو تھام لے لیکن گدھ اندر گھسنے لگے ۔ پروں کی پھڑپھڑاہٹ کے شور میں لگائی کی چیخ دب گئی ۔ اندھیراگہرا گیا۔
چنوا کی مڑئی میں پھر روشنی نہیں ہوئی۔ اس کا دم گھٹ گیا۔مڑئی قبر میں تبدیل ہو گئی۔
٭