اب آنگن میں پتے نہیں سرسراتے تھے۔ درودیوار پر کسی سائے کا گماں نہیں گزرتا تھا۔ بڑھیا کے آنسو اب خشک ہو چکے تھے۔ وہ روتی نہیں تھی۔ بیٹے کا ذکر بھی نہیں کرتی تھی۔ وہ اب دور خلا میں کہیں تکتی رہتی تھی۔ کبھی کبھی اس کے دل میں ہوک سی اٹھتی تو ہائے مولا کہہ کر چیخ اٹھتی اور پھر خاموش ہو جاتی۔ پاس پڑوس والے بھی اب بیٹے کی بابت کچھ پوچھتے نہیں تھے۔
اس دن بھی وہ ہائے مولا کہہ کر چیخ اٹھی تھی۔پھر دو ہتھڑ سینے پر مارا تھا اور بیہوش ہو گئی تھی۔ شہر میں دنگا اسی دن بھڑکاتھا اور بیٹا گھر لوٹ کر نہیں آیا تھا۔ جب دوسرے دن بھی گھر نہیں لوٹا تو بڑھیا بے تحاشا نیک نام شاہ کے مزار کی طرف دوڑ پڑی تھی۔
بیٹے کو جب بھی کچھ ہوتا وہ نیک نام شاہ کا مزار پکڑ لیتی۔ یہ نیک نام شاہ کا ہی ’’فیض‘‘ تھا کہ بیس سال پہلے اس کی گود بھری تھی۔ ورنہ کہاں کہاں نہیں بھٹکی تھی، کس کس مزار پر چلہ نہیں کھینچا تھا۔ کیسی کیسی منتیں نہیں مانی تھیں۔ آخر کار نیک نام شاہ کی بندگی راس آ گئی تھی اور اس کی گود میں چاند اُتر آیا تھا۔ تب سے بلا ناغہ ہر جمعرات کو مزار پر اگر بتی جلاتی آئی تھی اور بیٹے کی خیر و عافیت کی دعائیں مانگتی رہتی تھی۔
لیکن اس دن آسمان کا رنگ گہرا سرخ تھا اور زمین تنگ ہو گئی تھی۔ وہ مزار تک پہنچ نہیں سکی۔ دنگائیوں نے راستے میں گھیر لیا تھا۔ اس پر نیزے سے حملے ہوئے تھے۔ بڑھیا سخت جان تھی، مری نہیں۔۔۔نیزے کھا کر بھی زندہ رہی۔ عین وقت پر پولیس کا گشتی دل پہنچ گیااور وہ شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچا دی گئی تھی۔
بڑھیا ہسپتال سے اچھی ہو کر آگئی ، لیکن بیٹا نہیں آیا۔ وہ دیوانوں کی طرح سب سے اس کا پتہ پوچھتی رہی۔ محلے کی عورتوں سے لپٹ کر روتی رہی۔ مزار پر سر پٹکتی رہی۔۔۔ لیکن۔۔۔
تلاش مرتی نہیں ہے۔۔۔تلاش آنکھوں میں رہتی ہے۔۔۔ آنکھوں سے گزرتی ہوئی دل کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے۔۔۔ تب آنکھیں دور خلا میں کہیں تکتی رہتی ہیں۔۔۔اور بڑھیا کی آنکھیں ۔۔۔
محلے ٹولے کو فکر تھی کہ بڑھیا کا کیا ہوگا۔۔۔؟ ایک ہی بیٹا تھا۔۔۔ بھری جوانی میں اٹھ گیا۔۔۔کم سے کم لاش بھی مل جاتی تو صبر آجاتا۔۔۔ اور اگر اس بات کی تصدیق ہو جاتی کہ دنگے میں مارا گیا ہے تو ہرجانے کی رقم بھی مل جاتی۔ رقم کثیر تھی۔۔۔ ایک لاکھ روپے۔۔۔۔ رشتہ داروں کو فکر ہوئی کہ لاش کا کیا ہوا۔۔۔؟
ماموں نے تھانے میں سانحہ درج کرادیا۔ سانحہ میں بتایا گیا کہ اس دن وہ گھر سے بانکا کے لیے روانہ ہوا تھا۔ سرخ رنگ کی ٹی شرٹ اور سیاہ پتلون پہنے ہوئے تھا۔ دائیں ہاتھ کی انگلی میں ایک سونے کی انگوٹھی تھی جس میں انگریزی کا حرف ’’اے‘‘ کندہ تھا۔
شہر میں جیسے جیسے امن لوٹنے لگا اڑتی پڑتی خبریں بھی ملنے لگیں۔ کسی نے بتایا کہ اس دن وہ علی گنج میں دیکھا گیا تھا۔ دوستوں نے بہت روکا مت جائو۔ خطرہ ہے۔۔۔لیکن وہ یہی کہتا تھا کہ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ وہ رات بہرام کے ہاں رُک جائے گااور صبح تڑکے اپنے گھر چلا جائے گا۔۔۔
پھر خبر ملی کہ ڈی وی سی چوک کے قریب موب نے اس کو گھیر لیا تھا۔ محلے والے بھاگ کر بہرام کے ہاں چھپ گئے تھے، لیکن وہ۔۔۔
بتانے والے نے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ سرخ رنگ کی شرٹ میں ملبوس تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بریف کیس بھی تھا۔۔۔ پھر یہ کہتے کہتے رکا تھا کہ لاش چوک کے قریب ہی ایک کنویں میں۔۔۔
ماموں نے علاقہ کا چکر کاٹا۔ ڈی وی سی چوک سے شمال کی طرف جانے والی سڑک پر دور تک گئے۔ ایک جگہ ان کا ماتھا ٹھنکا۔ آم کے باغیچہ کے قریب ایک کنویں کی منڈیر پر دو چار گدھ منڈلا رہے تھے۔ قریب جاکر کنویں میں جھانکا تو بدبو کا ایک بھبھکا سا آیا۔ ایک گدھ اُڑ کر پیڑ پر بیٹھ گیا۔ آس پاس کے مکانوں کی کھڑکیاں کھل گئیں راہ گیر رک رک کر دیکھنے لگے۔ پھر ان میں چہ میگوئیاں بھی ہونے لگیں تو ماموں کو محسوس ہوا کہ فضا میں تنائو پھیلنے لگا ہے ۔ ماموں نے تھانے میں عرضی دی کہ لاش کا پتہ چل گیا ہے اور یہ کہ لاش برامد ہونے پر علاقہ میں تنائو پھیل سکتا ہے۔ اس لیے پولیس کی ایک ٹولی ساتھ کی جائے گی تاکہ لاش کنویں سے باہر نکالی جا سکے۔ ایس پی نے ایک دن ٹال مٹول کیا اور پھر اجازت دے دی اور ایک حوالدار اور چند کانسٹیبل ساتھ کر دئیے۔
ماموں کنویں پر پہنچے۔ ساتھ میں کچھ رشتہ دار اور محلے کے چند نوجوان بھی تھے۔ مزدوروں کو بھی ساتھ لیا گیا، ٹھرے کی بوتلیں بھی لی گئیں۔
کنویں پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ اندر جھانکا۔
’’بہت بدبو ہے‘‘
’’صاحب۔۔۔ٹھرا منگائیں۔۔۔‘‘ ایک مزدور بولا۔
ماموں نے جھولے سے ٹھرے کی بوتل نکالی۔
’’موب نے اس چوک پر گھیرا تھا۔ ‘‘ایک رشتہ دار نے سامنے اشارہ کیا۔
’’دوستوں نے بہت روکا لیکن۔۔۔‘‘
’’وہ گھر سے باہر کیوں نکلا۔۔۔؟‘‘
’’بانکا جانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟‘‘
’’جنابر ہے۔۔۔‘‘ ایک مزدور وہاں سے چلایا۔
’’جناور کہاں سے آگیا۔۔۔؟‘‘
ماموں جھلا اٹھے۔ ایک بار پھر سب نے ایک ساتھ کنویں میں جھانکا۔
’’کوئی بیگا ہوگا صاحب۔‘‘ دوسرا مزدور بولا۔
’’جانور ہی ہے۔‘‘
’’سوئور مرل با۔۔۔‘‘
ماموں نے غور سے دیکھا۔ سوئور ہی تھا۔
’’ یہ تو سراسر بدمعاشی ہے۔‘‘
ایک رشتہ دار نے آس پاس مکانوں کی طرف دیکھا۔
’’یہ لوگ نہیں چاہتے کہ لاش نکالی جائے۔۔۔‘‘
’’ لاش نکل گئی تو سب پھنس جائیں گے۔۔۔‘‘
’’کوئی پھنستا وستا نہیں ہے۔ آج تک نہیں سنا کسی دنگائی کو پھانسی ہوئی ہے۔۔۔‘‘
’’ صاحب۔۔۔۔پہلے سوئور نکالے کے پڑی۔۔۔‘‘
’’ سوئور نہیں۔۔۔پہلے لاش نکالو۔۔‘‘
’’لاش کا کچھ پتہ با۔۔۔‘‘
ایک مزدور نے رسی نیچے لٹکائی۔ عورتیں چھت پر چڑھ کر دیکھنے لگیں۔ ایک سپاہی کھینی ملنے لگا۔
’’ بیچارے کی حال میں منگنی ہوئی تھی۔‘‘
’’ وہ گھر سے باہر کیوں نکلا۔۔؟‘‘
’’جب جانتا تھا کہ شہر میں تنائو ہے تو۔۔۔‘‘
’’کیا معلوم تھا دنگا اسی دن بھڑکے گا۔۔‘‘
’’موت تھی۔۔۔‘‘
’’قسمت کا لکھا۔۔۔ بڑھیا بچ گئی۔ اکلوتا جوان بیٹا اُٹھ گیا۔‘‘ ماموں نے سرد آہ بھری۔
’’ بہت کچرا ہے اندر۔۔۔‘‘ مزدور کنویں کے اندر سے چلایا۔
ماموں نے اثبات میں سر ہلایا۔ پھر آہ بھرتے ہوئے بولے۔
’’ظالموں نے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینکا ہے۔‘‘
’’علی گنج میں رُک جاتا۔۔۔‘‘
’’ موت کھینچ کر لائی۔۔۔‘‘
’’کہتا تھا بہرام کے گھر جائوں گا۔۔۔ بیچارہ چوک پر ہی پکڑا گیا۔۔۔‘‘
سپاہی نے کھینی کو تال دیاتو ایک کوّاپیڑ سے اُڑ کر سامنے ایک مکان کی چھت پر لگے اینٹا پر بیٹھ گیا۔
نیچے جو مزدور تھااس نے سوئور کی ٹانگوں کو رسی سے باندھا لیکن اوپر سے کھینچنے میں نہیں بن پڑا،تب ایک اور مزدور نیچے اُترا۔ دنوں نے مل کر سوئور کو اوپر اُٹھایا۔ باقی مزدوراں نے کنویں کی منڈیر پر کھڑے ہو کر رسی اوپر کی طرف کھینچی۔۔۔ سوئور کی لاش باہر آئی تو پیڑ پر کوئوں کا شور بڑھ گیا۔ سوئور کا پیٹ پھولا ہوا تھا۔
سڑک کی طرف سے ایک کتا بھاگتا ہوا آیا اور قریب آکر بھونکنے لگا۔
’’ہش‘‘ سپاہی نے زور سے ایک پائوں زمین پر پٹکا۔ کتا کچھ دور پیچھے بھاگا اور پھر بھونکنے لگا۔ سپاہی نے جھک کر پتھر اُٹھایا تو کتا بھاگ کر سڑک پر چلا گیااور وہاں سے زور زور سے بھونکنے لگا۔
کچرا باہر نکالنے کے لیے ایک ٹوکری نیچے لٹکائی گئی۔ ماموں نے بیڑی سلگائی اور زمین پر بیٹھ کر دم مارنے لگے۔
کچرے کی صفائی میں یکایک قمیص برآمد ہوئی ۔ قمیص کے ساتھ لپٹا ہوا ہاتھ کا ایک بازو بھی تھا، سبھی چونک کر دیکھنے لگے۔ قمیص کیچڑ میں لت پت تھی، خون کے دھبے جگہ جگہ سیاہ ہو گئے تھے۔ ماموں نے غور سے دیکھا۔ قمیص کا رنگ سرخ معلوم ہوا۔
’’پتلون بھی ہو گی۔۔۔‘‘ ایک رشتہ دار بولا۔
’’ پنجہ دیکھو۔۔۔ پنجہ۔۔۔‘‘
’’ بازو کے ساتھ پنجہ نہیں ہے۔۔۔‘‘ ماموں نے کنویں میں جھانک کر کہا۔ حوالدار نے ہدایت دی کہ بازو اور قمیض کو کچرے سے الگ رکھا جائے ماموں نے چادر بچھائی اور لکڑی کے ایک ٹکڑے سے قمیض کو بازو سمیت اُٹھا کر چادر پر رکھا۔
کچرے کی ٹوکری پھر باہر آئی تو ایک کٹی ہوئی ٹانگ برآمد ہوئی ۔
’’ پنجہ کہاں گیا۔۔؟؟‘‘ ماموں نے پھر کنویں میں جھانکا۔
’’اندر دھنس گیا ہوگا۔۔۔‘‘
’’ تھوڑی اور صفائی کی ضرورت ہے۔‘‘
’’ تھوڑا اور کچرا باہر نکالو۔۔۔‘‘
اس بار کچرے کے ساتھ پنجہ برآمد ہوا ۔ ماموں نے دیکھا۔۔۔ پنجہ ہی تھا۔ لیکن انگوٹھی نہیں تھی۔ انگلیاں مڑی ہوئی بالکل سیاہ ہو رہی تھیں۔
’’انگوٹھی نہیں ہے۔ ۔۔‘‘ ماموں آہستہ سے بڑبڑائے۔ پھر غور سے دیکھا۔
’’ یہ تو بائیں ہاتھ کا پنجہ ہے۔‘‘
’’دائیں ہاتھ کا پنجہ کہاں ہے؟‘‘
’’اندر سجھائی نہیں دیتا صاحب۔۔۔‘‘
ماموں نے نے چینی سے ِادھر اُدھر دیکھا۔ شام ہو چلی تھی۔ سارا وقت تو سوئور نکالنے میں لگ گیا تھا۔
’’ دیکھو۔۔۔ کوشش کرو۔ دائیں ہاتھ کا پنجہ چاہیے۔۔۔‘‘
’’ اب چلیے۔۔۔‘‘ حوالدار نے ڈنڈے سے اشارہ کیا۔
’’ حوالدار صاحب۔۔۔تھوڑی اور کوشش کر لینے دیجئے۔۔۔‘‘
ماموں نے پھر کنویں میں جھانکا۔ مزدورباہر نکل رہے تھے۔
’’کیا ہوا‘‘
’’اب ٹائم نہیں ہے۔۔۔‘‘
’’ پنجہ ضروری ہے۔۔۔‘‘
’’اندر سجھائی نہیں دیتا ہے تو کیا کریں۔۔۔؟‘‘
’’چلیے۔۔۔‘‘ حوالدار نے زمین پر ڈنڈا کھٹکھٹایا۔
ماموں نے چادر سمیٹی۔۔۔ سب جیپ پر بیٹھے۔ جیپ آگے بڑھی۔ یکایک چوک پر بڑھیا نظر آئی۔ ماموں کو حیرت ہوئی۔ جیپ رکوائی اور جھنجھلاتے ہوئے نیچے اُترے۔ بڑھیا کسی سے کچھ پوچھ رہی تھی۔
’’ بہرام کا گھر دیکھتی۔۔۔‘‘
’’ اب بہرام کا گھر دیکھ کر کیا ہوگا۔۔۔؟‘‘ ماموں کی جھنجھلاہٹ بڑھ گئی۔
’’بچہ کہتا تھا بہرام کے گھر جائوں گا۔ سب بہرام کے گھر چھپے تھے۔۔۔ ذرا دیکھتی۔کتنی دور اس کا گھر رہ گیا تھا۔۔۔؟‘‘
ماموں نے چہرہ کا پسینہ پونچھا۔ بڑھیا حسرت سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی اور دفعتاََ اس کی آنکھوں میں بجھی ہوئی لو کا دھواں تیرنے لگاتھا۔
٭