نئے جوگی کو مقام خاص میں بھی جٹّہ ہوتا ہے ۔
وہ نیا جوگی تھا ۔عالمی ہندو سنستھان کا نیا نیا ممبر۔۔۔۔۔۔
بات بات پر دھمکی دیتا۔
’’ پاکستان بھیج دوں گا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
جوگی ہر یانہ کا رہنے والا تھا۔اس نے بنارس ہندو یونورسٹی سے ہسٹری میں ایم اے کیا تھا اور آگرہ کے ایک کالج میں لکچرر تھا۔ کالج کے ایک جلسے میں اس کی ملاقات سنستھان کے سر براہ جتین کباڑیہ سے ہوئی تھی ۔ کباڑیہ کو جوگی میں ایک اصلی ہندو نظر آیا ۔ کباڑیہ نے اس کو سنستھان کا ممبر بنا لیا ۔ سنستھان میں قدم رکھتے ہی اس نے ایک کارنامہ انجام دیا کہ آگرہ میں کچھ مسلمانوں کی گھر واپسی کرا دی ۔
سنسد میں ہنگامہ ہو گیا کہ مسلمانوں کو ڈرا دھمکا کر ہندو بنایا گیا ہے۔ جوگی نے بیان دیا کہ سب نے اپنی مرضی سے ہندو دھرم اپنایا ہے بلکہ یہ لوگ بہت دنوں سے ایک مورتی کی مانگ کر رہے تھے کہ پوجا کر سکیں ۔ جوگی کی منطق تھی کہ کوئی مارے باندھے کسی سے ہون نہیں کرا سکتا ؟
جوگی کی حیثیت سنستھان کے ایک دبنگ لیڈر کی ہو گئی ۔
جوگی کے جسم میں پہلے جٹّہ نہیں تھا ۔ جب سے سنستھان کا رکن ہوا تھا۔ جٹّہ اُگنا شروع ہو گیا تھا۔مونچھیں کڑی ہو کر اوپر کی طرف اٹھ گئی تھیں۔۔۔ ۔مٹّھیاں اس طرح بھینچی رہتیں جیسے کٹار پکڑ رکھی ہو ۔چلتا تو ہاتھ سر کے اوپر لہراتے گویا بازو نہیں تلوار ہیں جو ہوا میںلہرا رہے ہیں ۔ لوگ دور سے ہی سمجھ جاتے کہ جوگی آ رہا ہے۔ تب کتّے بھونکنا بند کر دیتے ۔ہوائیں ساکت ہو جاتیںـــ۔۔۔۔پتّوں میںسرسراہٹ تھم سی جاتی۔۔۔۔۔
اصل میںیہ سوچ اب زور پکڑ رہی تھی کہ ہندوستان کے مسلمان پہلے ہندو تھے جنہیں مغل دور میں جبراًمسلمان بنایا گیا ۔اب ہمارا دور ہے تو پھر سے ہندو بنا کر ان کی گھر واپسی کی جا ئے ۔
اب اُن کا دور تھااورجوگیوں کے جٹّے اُگ رہے تھے ۔بھارت سیوک سنگھ کی چاندی تھی ۔ہر جگہ کمل کے پھول کھلے تھے اور سیّاںکو توال ہو گئے تھے ۔کباڑیہ اٹھلا کر چلتا تھا۔
گذشتہ دس بارہ سالوں سے علی گڑھ میں 25 دسمبر کو گھر واپسی کی رسم منائی جا تی تھی۔ بھارت سیوک سنگھ کا دعویٰ تھا کہ ہر سال ہزار بارہ سو مسلمانوں کی گھر واپسی ہوتی ہے ۔اس سا ل بھی یہ رسم زور شور سے منائی جاتی لیکن سنگھ کے ضلع صدر انیل مصرا کو اچانک کشف ہوا کہ ہم نا پاک ہندوؤںکی نسل تیار کر رہے ہیں۔ اس طرح جو مسلمان سے ہندو ہو رہے ہیں ان میں مسلمانی انش تو باقی رہیں گے۔انیل مصرا نے اعلان کیا کہ علی گڑھ میں یہ رسم منانے کی اجازت اب کسی قیمت پر نہیںدی جائے گی ۔ ۔اس سے اچھا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان بھگا دیا جائے۔ ایسے حالات پیدہ کر دیے جائیں کہ ملیچھ سرحد پار جانے پر مجبور ہو جائیںلیکن ملیچھ ہندو ہو رہے تھے تو ۔ہندو بھی ملیچھ ہو رہے تھے اور کہیں کہیں ہندو کرشچن بھی بنائے جا رہے تھے ۔ گورکھ پور کے محدّی پور ہائڈل کالونی میں ہندوؤں کو کرشچن بنانے کا معاملہ سامنے آیا تو ہندو یوتھ فورس کے رضا کار کالونی پہنچ گئے اور پادری اور نن کو پکڑ کر تھانے لے گئے۔ان پر الزام تھا کہ پچاس ہزار نقد اور ایک گھر کا لالچ د ے کر سو ہندوؤں کو کرشچن بنا چکے ہیں ۔ ان کی گھر واپسی کی رسومات ادا کی گئی ۔ بدھ وار کے دن گنگا جل کے چھڑ کاؤ کے ساتھ منتر کا اپچار ، تلسی سے ارپن اور ہنومان چالیسا کا پاٹھ پڑھا کر کرشچن بنے سو ھندوں کی گھر واپسی ہوئی لیکن پادری اور نن کے خلاف کوئی ثبوت فراہم نہیں ہو سکا۔ ایسے لوازمات نہیں ملے جو تبدیلیٔ مذہب میں معاون ثابت ہوتے ۔ پادری کے پاس سے پولیس بائبل تک بر آمد نہیں کر سکی ۔ کچھ کورس کی کتابیں اور کاپیاں ہی ہاتھ لگیں پولیس نے انہیں نجی مچلکے پر چھوڑ دیا اور نا معلوم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ۔
سنستھان کو اس بات کی رنجش تھی کہ پادری لوگ وقتاّ فوقتاّ دلت ہندوؤں کو لالچ دے کر کرشچن بنا تے رہتے ہیں۔ چند سال قبل اڑیسہ کا ایک پادری اسکول میںتعلیم کے بہانے عیسائیت کی تبلیغ کرتا تھا۔نتیجہ یہ ہوا کہ پادری کو اس کی گاڑی سمیت نذر آتش کر دیا گیا۔تب واجپئی جی نے کہا تھا کہ مذہب پر بحث ہونی چاہیے۔وہ تبدیلیٔ مذہب پر پابندی کے لیے قانون بھی بنانا چاہتے تھے لیکن کانگریس نے ساتھ نہیں دیا تھا ۔ کباڑیہ کی دلیل تھی کہ ہندوؤں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کی بڑھتی جا رہی ہے ۔سرکار یا تو پابندی لگائے یا گھر واپسی کی اجازت دے ۔کباڑیہ نے نعرہ دیا کہ جب تک قانون نہیں بن جاتا گھر واپسی کی مہم جاری رہے گی ۔ تبدیلیٔ مذہب پر ہندو خاموش نہیں بیٹھے گا ۔
لیکن ہندو پریشان ہوا جب رام پور میں بالمکی خاندان نے اچانک مسلمان ہونے کی دھمکی دی ۔ ان کے گھروں پر سرکار بلڈوزر چلا رہی تھی اور احتجاج میں وہ اسلام دھرم قبول کر رہے تھے۔ یہ معاملہ سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ نیم پر کریلہ چڑھ گیا۔ مدھیہ پردیش کے کھنڈوا ضلع میں آنکا ریشور مندر کے ڈیڑھ سو پجاریوں نے بھی مذہب اسلام کو گلے لگانے کی دھمکی دے ڈالی ۔ضلع انتظا میہ میں ہنگامہ مچ گیا ۔پجاریوں نے الزام لگایا تھا کہ کلکٹر صاحب پوجا میں بے جا دخل دیتے ہیں۔ کلکٹر نے گنگا دشمی کے میلے میں جیوتر لنگ پر باہر سے لا کر بیل پتر چڑھانے پر پا بندی لگا دی تھی۔گربھ گریہہ میں بھی آنے جانے کی اجازت نہیں تھی ۔بس پنڈے پجاری دھرنا پر بیٹھ گئے۔ مندر کے ٹرسٹ کو پروانہ بھیجا کہ ہمارا استحصال ہوا تو اسلام دھرم قبول کر لیں گے۔ اس کی نقل چیف منسٹر کو بھی بھیجی گئی ۔ عوام نے بھی ساتھ دیا۔ ضلع انتظامیہ کو پسینہ آ گیا۔پجاریوں کو کسی طرح منایا گیا۔ کلکٹر صاحب نے بیان دیا کہ مندر کی صفائی کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا تھا ۔
سبحان تیری قدرت۔۔۔۔۔۔۔
ہریانہ کے مرچ پور، پھگانا میں اذان کی آواز گونجنے لگی ۔ بھگوا برگیڈیر سنّ سے رہ گیا۔۔۔۔۔ کمل دیش میں کلمہ کا ورد۔۔۔۔۔؟۸؍ اگست کو جب پارلیمنٹ میں بھارت چھوڑو آندولن کی سالگرہ منائی جا رہی تھی تو جنتر منتر پر ہریانہ کے دلت ہندو دھرم چھوڑو کی تحریک چلا رہے تھے ۔ بھگانہ گاؤں کے سو سے زیادہ دلت گھروں میں اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی ۔بھگوا بریگیڈ نے دلتوں پر قاتلانہ حملہ کیا ۔ بھگوا رہنماؤں نے خاموش رہنے کی اپیل کی ۔ سیّاں جی کے کوتوال ہونے کے بعد بھگوا ادارے گھر واپسی کی تحریک ملک گیر پیمانے پر چلا رہے تھے ۔پالیسی یہی تھی کہ کوتوال صاحب خا موش رہیں گے اور ادارے اپنا کام کرتے رہیں گے لیکن دھرم کے نام پر قتل و غارت شروع ہونے پر بدنامی کا ڈر تھا اور سیّاں جی کو زبان کھو لنی پڑتی ۔ مصلحت اسی میں تھی کہ انہیں پردے کے پیچھے سے سمجھاؤ۔
اصل میں بہت دن پہلے دلتوں کا گاوں کے جاٹوں سے تصادم ہو گیا تھا۔دلت گاوں کے چوک پر تیوہار منانا چاہتے تھے لیکن جا ٹوں کو یہ بات بری لگی کہ دلت چوک کو اپنے تصرّف میں لائیں۔ جاٹوںنے دلتوں کو بے رحمی سے پیٹا۔کمشنر کے دفتر کے آگے دلت دھرنے پر بیٹھ گئے ۔ کمشنر نے سب کو احاطے سے باہر نکلوا دیا کہ وہ بھی جاٹ تھا۔
کچھ دنوں بعد چار دلت لڑکیوں کا گینگ ریپ ہو گیا۔ تھانے میں کوئی سانحہ درج نہیں ہو سکا کہ تھانے دار بھی اونچی ذات والا تھا ۔دلتوںنے ھندو دھرم چھوڑو کی تحریک چلائی ۔ جنتر منتر پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے کہ انصاف کرو اور ایک ایک کر کے مسلمان ہونے لگے ۔امبیڈکر کی مثال دیتے تھے کہ وہ بھی اونچی ذات والوں سے تنگ آ کر ہندو دھرم چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے ۔
جوگی بھگانہ کا رہنے والا تھا۔ وہاں کی مٹّی میں پل کر جوان ہوا تھا ۔ اس کو اپنے گاؤں سے محبت تھی ۔دلتوں سے بھی اس کے تعلّقات خوشگوار تھے ۔ وہ جب بھی گاؤں آتا ،پنچائت بلاتا اور لوگوں کے مسائل سنتا اوراور ان کے سدّباب کے لیے مقامی افسروں سے ملتا ۔ اس طرح وہ بھگانہ میں کافی مقبول تھا وہاں لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہنا اس کو ہمیشہ سہانا لگا تھا ۔کباڑیہ نے جوگی کو کچھ رضا کاروں کے ساتھ بھگانہ بھیجا کہ دلتوں کو سمجھا بجھا کر راہ راست پر لائے اور ان کی گھر واپسی کرائے ۔
جوگی بھگانہ پہنچا تو حیران تھا ۔۔۔۔۔۔
ستیشوا اب عبدل کلام ہو گیا تھا، دیپکوا عمر عبداللہ اور ریتو فاطمہ بن گئی تھی ۔ ویریندر اُن کی رہنمائی کر رہا تھا لیکن اس نے ابھی تک اپنا نام نہیں بدلا تھا۔گاؤںمیں قریب سو گھر دلتوں کے تھے ۔سب کے سب مسلمان ہو گئے تھے۔ویریندر دلتوں میں سب سے پڑھا لکھا تھا ۔اس نے بنارس ہندو یونی ور سٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا تھا ۔
جوگی نے دلتوں کی پنچائت بلائی ۔
دلت اپنی جماعت کے ساتھ پنچائت میں حاضر ہو ئے ۔ سب کے سب سفید کرتہ پائے جامہ میں تھے اور سر پر کرشیہ کی سفید ٹوپی تھی ۔ ان کے لباس سے عطر کی بھینی بھینی خوشبو بھی آ رہی تھی ۔سب نے سلام کیا اور باری باری سے مصا فحہ کیا۔پہلے کی طرح کسی نے پاؤں چھو کر پرنام نہیں کیا تھا اور نہ کوئی ہاتھ جوڑکر کھڑا تھا ۔ ویریندر نے ایک ہاتھ سے مصافحہ کیا ۔ اس کے دوسرے ہاتھ میں پٹّی بندھی ہوئی تھی۔جوگی نے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’ ہاتھ میں کیا ہوا ؟ ‘‘
ویرندر مسکرایا ۔ ’’آپ لوگوں کی عنایت ہے حضور۔۔۔۔۔‘‘
جماعت سے کسی نے سر ملایا ’گاؤں کی مسجد بھی توڑی ۔ ‘‘
’’ دھرم کیوں بدلا ؟‘‘
’’ امبیڈکر نے بھی بدلا تھا سرکار۔۔۔اور آپ جانتے ہیں کیوں بدلا تھا ۔‘‘
’’ لیکن تم نے اپنا نام نہیں بدلا ۔۔۔۔۔۔؟ یعنی تم ابھی بھی ہندو ہو ۔ جوگی مسکرایا ۔
ویرندر بھی مسکرایا ۔’’ نام سے کیا ہوتاہے جوگی جی ۔۔۔۔۔ اسلام تو سینے میں ہے۔‘‘
’’ جزاک اللہ ! ‘‘ دیپکوا بول اٹھا ۔ایک رضا کار نے اس کو چونک کر دیکھا۔
جوگی لا جواب ہو گیا ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا آگے کیا بات کرے ۔ ویریندر نے خود بات نکالی۔
’’ ہم اب مسلمان ہیں ۔ دلت نہیں رہے ۔ ہم سیّدوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں ۔‘‘
’’ تم لوگ آرکشن کے لابھ سے ونچت ہو جا ؤگے ۔ دوسری سہولتیں بھی نہیں ملیں گی بلکہ تم ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھے جاؤگے ۔ ‘‘
’’ لابھ اور ہانی اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔وہ جس حال میں رکھے خوش ہیں۔ ‘‘
’’ جزاک اللہ ‘‘ ۔ دیپک نے پھر ٹکڑالگایا ۔
جوگی محسوس کیے بغیر نہیں رہا کہ دلتوں میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ سفید لباس میں وہ صاف ستھرے لگ رہے تھے ۔ کسی کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔
’’ تم اگر گھر نہیں لوٹے تو تمہیں گاؤں میں گھسنے نہیں دیا جائے گا ۔ ‘‘ جوگی کے لہجے میں غصّہ تھا ۔
ویریندر کا بھی لہجہ بدل گیا ۔ ’’ دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے ۔ ‘‘
کسی نے نعرہ لگایا ۔
’’ نعرہ تکبیر ‘‘
’’ اللہ اکبر ۔‘‘
دلت نعرہ لگاتے ہوئے پنچائت سے اٹھ گئے ۔
جوگی بیٹھا رہ گیا۔۔۔۔ رضا کار غصّے سے کھول رہے تھے ۔ جوگی بھی ذ لّت محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔دلت جوتا لگا کر چلے گئے ۔ایک ہی راستہ تھا ۔ سب کا صفایا۔۔۔۔۔!
ایک رضا کار بولا ۔ ’’ سر۔۔۔۔مسجد کا امام سب کو کلمہ پڑھواتا ہے ‘‘
’’ امام کو اٹھا لیتے ہیں سر۔۔۔۔سالے کو کٹّی کٹّی کر مسجد میں پھینک دیں گے۔
’’ ابھی ایسا کچھ نہیں کرنا ہے ۔ جو کرنا ہے کباڑیہ جی سے پوچھ کر کرنا ہے ۔ ‘‘
’’ ان کے دل میں ڈر پیداکرنا ضروری ہے سر۔ یہ شیر بن کر گھوم رہے ہیں۔ ‘‘
جوگی نے کباڑیہ کو فون لگایا ۔کباڑیہ کا مشورہ تھا کہ وہ پہلے امام کو سمجھانے کی کوشش کرے ۔
جوگی دوسرے دن امام سے ملنے اس کے گھر گیا۔
کنڈی کھٹکھٹائی۔۔۔۔ ۔ایک لڑکی نے دروازہ کھولا اور اوٹ میںہو گئی ۔ جوگی نے اس کی جھلک دیکھی اور جیسے سکتے میں آ گیا ۔لڑکی اندر گئی اور امام کو بھیجا ۔امام نے جوگی کو کمرے میں بٹھایا ۔
’’ کیسے آنا ہوا جوگی جی ؟‘‘ امام نے پوچھا ۔
جوگی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بت بنا بیٹھا تھا۔
امام اندر گیا ۔گلاس میں پانی اور کٹوری میں مصری کی ڈلی لے کر آیا لیکن جوگی کمرے میں نہیں تھا۔ اس نے باہر نکل کر دیکھا ۔ جوگی کا کہیں پتا نہیں تھا ۔امام کو حیرت ہوئی ۔۔۔کہاں گیا آخر۔۔۔۔؟ کس لیے آیا تھا ؟ امام یہ سوچ کر خوف زدہ ہوا کہ جوگی کی آ مد کسی خطرے کا پیش خیمہ تو نہیں ؟
جوگی سیدھا اپنے گھر آ یا تھا۔ اس کے سینے میں جیسے تلاطم سا برپا تھا ۔۔۔۔؟سفید برّاق چہرہ۔۔۔۔۔۔غلافی آنکھیں۔۔۔۔یعقوت سے تراشے سرخ ہونٹ ۔۔۔۔ایک غریب امام کے گھر میں دبّیہ روپ۔۔۔۔۔؟
جوگی کے دل میں درد کی لہر سی اٹھ رہی تھی ۔ رہ رہ کر ایک جانا پہچانا خوف سر اٹھا رہا تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی کب تک بچے گی۔۔۔۔۔؟کہیں رضا کاروں کی نظر نہ پڑ جائے ؟ جوگی کو پہلی بار اپنے رضا کاروں سے خوف محسوس ہوا۔ اس نے انہیں یہ کہہ کر ہریانہ واپس بھیج دیا کہ وہ امام سے بات کر رہا ہے ۔ ان کی ضرورت پڑی تو بلا لے گا ۔
جوگی نے ویریندر کو بلا بھیجا ۔
ویریندر آیا تو جوگی چپ تھا ۔سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا بات کرے ؟ اس کو چپ دیکھ کر ویریندر نے پوچھا ۔
’’ سب خیر تو ہے جوگی جی ۔‘‘
’’ گاؤں میں کسی باہر کے آ دمی کو تو نہیں دیکھا۔‘‘
’’ آپ کے ہی ر ضا کار گھومتے رہتے ہیں ۔‘‘
’’ وہ تو واپس چلے گئے لیکن اور کوئی نظر آئے تو بتانا ۔‘‘
’’ کیا بات ہے جوگی جی ۔ ؟ ‘‘ ویریندر نے پوچھا۔
’’ تم خود جانتے ہو بات کیا ہے ؟ ‘‘
’’ ہماری مانگیں تو پوری کرا دیجیے ۔ ‘‘
’’ کیسی مانگیں ؟‘‘
’’ جاٹ لوگ ہمیں چوک پر آنے نہیں دیتے ہیں۔ ہماری لڑکیوں کا ریپ ہوا اور کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔‘‘
’’ کاروائی ہوگی لیکن ایک بات بتاؤ۔‘‘
’’ کیا ؟ ‘‘
’’ امام کے گھر ایک لڑکی دیکھی۔ کون ہو سکتی ہے ؟‘‘
’’ اما م کی بہن ہے۔‘‘
’’ بہن۔۔۔۔؟ پہلے تو نہیں دیکھا۔ ‘‘
’’ آپ کہاں سے دیکھیں گے۔ آپ گاؤں میں تو رہتے نہیں ہیں اور لڑکیاں بھی باہر نہیں نکلتی ہیں ۔‘‘
’’ میں نے ایسا روپ کہیں نہیں دیکھا ۔‘‘
’’ آپ امام کے گھر گئے تھے کیا ؟ ‘‘
’’ ہاں ! ‘‘ جوگی نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ اس سے کیا بات کی ۔ ؟ ‘‘
’’ کچھ نہیں ۔ میں نے لڑکی کی ایک جھلک دیکھی بس ۔۔۔۔۔پھر میں جیسے ہوش کھو بیٹھا ۔۔۔۔۔۔میری زبان گنگ ہو گئی ۔میں گھر آ گیا ۔
’’ آپ وہاں گئے تھے کیوں ؟ ‘‘
’’ میں گیا تھا امام کو دھمکی دینے ۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔!
’’ ایسا کیا دیکھا اس میں ؟ ‘‘
جوگی خاموش رہا۔
’’ پھر چلیں گے وہاں ؟ ‘‘
جوگی نے اثبات میں سر ہلایا۔
ویریندر جوگی کو لے کر امام کے گھر آ یا ،کنڈی کھٹکھٹائی ۔ جوگی سوچ رہا تھا کہ اگر لڑکی نے دروازہ کھولا تو اس کی ایک جھلک دیکھنے میں کامیاب ہوگا لیکن دروازہ امام نے کھولا اور جوگی کو دیکھ کر حیران ہوا۔
’’ اس دن آپ کہاں غائب ہو گئے تھے ؟ ‘‘ امام نے پوچھا ۔
جوگی خاموش رہا۔
اما م انہیں لے کر کمرے میں آ یا۔
’’ جوگی جی۔۔۔۔آپ امام صاحب کو پہچان رہے ہیں ؟ ‘‘
’’ فضل ا لدّین ۔ ‘‘
’’ ارے واہ۔۔۔۔نام بھی یاد ہے ۔ ‘‘
’’ کیسے بھول سکتا ہوں ؟ بچپن میں ہم کبڈّی کھیلا کرتے تھے ۔‘‘
’’ لیکن اب گاؤں میں وہ ماحول نہیں ہے ۔اب سب ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ‘‘
اندر سے مناجات پڑھنے کی آواز آ نے لگی ۔
تیری ذات ہے سروری اکبری
میری بار کیوں دیر اتنی کری
جوگی پر جیسے وجد سا طاری ہونے لگا۔۔۔۔
’’ یہ کس کی آواز ہے ؟ ‘‘ جوگی نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’ میری بہن مناجات پڑھ رہی ہے ۔‘‘
جوگی جیسے سحر میں مبتلا ہو رہا تھا۔ مناجات کا ایک ایک لفظ اُس کی روح میں اتر رہا تھا ۔۔۔۔۔اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔۔۔۔کھل رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
مناجات کی قرأت رکی تو جوگی برجستہ بول اٹھا ۔
’’ بہت اچھا لگ رہا تھا سننے میں۔۔۔۔۔۔‘‘
امام مسکرایا۔
’’ کیا اسے ریکارڈ کر سکتا ہوں ؟‘‘
’’ ہمارے یہاں لڑکیوں کی آوازیں اس طرح ریکارڈ نہیں کی جاتیں جوگی جی ۔ ‘‘
جوگی کا چہرہ سیاہ پڑ گیا۔ اس کو محسوس ہوا جیسے بھری محفل سے اٹھوا دیا گیا ہو ۔
’’ یہ بڑی بات ہے کہ آپ کو مناجات کے بول نے متاثر کیا ۔‘‘ امام مسکرایا ۔
جوگی خاموش رہا ۔
’’ آپ کی کیفیت دیکھ کر مجھے سورۂ اعراف کی ایک آیت یاد آ رہی ہے۔ ‘‘ امام،جوگی سے مخاطب ہوا ۔
’’ وہ کیا ؟ ‘‘ ویریندر نے پوچھا ۔
امام نے قران مجید کے اوراق پلٹے اور آیت کا اردو ترجمہ پڑھ کر سنایا ۔
’’ اے نبی ! لوگوں کو یاد دلاو وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپرگواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا۔ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ ‘‘انہوںنے کہا ۔’’ ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔‘‘یہ ہم نے اس لیے کہا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ’’ ہم تو اس بات سے بے خبرتھے ۔‘‘ ریا یہ نہ کہنے لگو کہ ’’ شرک کی ابتداتو ہمارے باپ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو اُن کی نسل سے پیدا ہوئے ۔
’’پھر کیا آپ ہمیں اس قصور میں پکڑتے ہیںجو غلط کار لوگوں نے کیا تھا؟‘‘
دیکھو اس طرح ہم نشانیاں واضح طور پر پیش کرتے ہیں اور اس لیے کرتے ہیں کہ لوگ پلٹ آئیں۔
’’ مطلب بھی سمجھایئے امام صاحب ۔ ‘‘ جوگی نے پوچھا ۔
مطلب یہ کہ ہم آپ سب جوابھی تک پیداہوئے اور آگے جو قیامت تک پیدا ہوں گے یعنی پوری نسل انسانی کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت وجود اور شعور بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا اور ان سے اپنی ربوبیت کی شہادت لی ۔یعنی قران مجید یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ اللہ کی ربوبیت کا احساس انسانی فطرت میں پیوست ہے ۔
جوگی بہت غور سے امام کی باتیں سن رہا تھا۔
امام نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ مناجات کے بول جوگی کی روح کے اس مرکز کو چھو گئے جو ربوبیت کے اقرار کا مرکز ہے ۔ اس لیے جوگی وجد میں آ گئے ۔ ‘‘
’’ سبحان اللہ ! ‘‘ ویرندر برجستہ بول اٹھا ۔
کچھ دیر خاموشی رہی ۔ پھر امام نے جوگی سے پوچھا۔
’’آپ یہاں آئے تھے کس لیے ؟ ‘‘
’’ اب کیا بتاؤں امام صاحب کس لیے آیا تھا ؟ ‘‘ جوگی نے ایسے لہجے میں جواب دیا جیسے اپنی آمد پر شرمندہ ہو۔
’’ امام مسکرایا ۔ ’’ آپ شاید اُن کی گھر واپسی کرانا چاہتے ہیں لیکن یہ تو اپنے گھرآ چکے ۔ انہیں ربوبیت کا احساس ہو گیا۔ یہ اب قیامت کے دن اپنے رب کو منھ دکھا سکتے ہیں کہ میں نے شرک نہیں کی اور ایک رب کو رب جانا ۔‘‘
جوگی نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’ ایک درخواست ہے ۔ ‘‘ جوگی بہت عاجزی سے بولا ۔
’’ کیا ۔۔۔۔؟ ‘‘ امام نے حیرت سے پوچھا ۔
’’ مناجات تو سنا اب اس ہستی کو بھی دیکھ لیتا جس کی آواز میں اتنا اثر ہے ۔ ‘‘
’’ ذرا بلوایئے ۔۔۔جوگی جی سے کیا پردہ ؟ یہ تو بچپن کے دوست ہیں ۔ ‘‘ویریندر بولا۔
امام نے لڑکی کو بلایا ۔
لڑکی شرمائی شرمائی سی اندر داخل ہوئی۔ جھک کر آداب کہا اورامام کے قریب کھڑی ہو گئی ۔ وہ سفید لباس میں تھی۔
جوگی دیکھتا رہ گیا ۔۔۔۔۔۔
’’ یہ جوگی جی ہیں۔ اسی گا ؤں کے۔۔۔۔۔ہمارے بچپن کے ساتھی ۔ ذرا ان کے لیے چائے بنا کر لاؤ۔ ‘‘
لڑکی مسکراتی ہوئی اندر چلی گئی ۔
لڑکی چائے لے کر آئی تو جوگی کی نگاہیں نیچی تھیں۔ وہ خاموشی سے چائے پیتا رہا۔ ایسا لگتا تھا اس نے کوئی اہم فیصلہ کر لیا ہے اور اب پر سکون ہے ۔
چائے پی کر وہ باہر آئے۔
ویریندر جوگی کو چھوڑنے اس کے گھر تک گیا۔
’’ کچھ دیر بیٹھو نہ۔۔۔۔۔؟‘‘ جوگی نے بہت ملتجانہ لہجے میں کہا۔
جوگی اسے اپنے بیڈروم میں لے کر آ یا ۔
’’ دیکھ رہا ہوں آپ کچھ پریشان ہیں۔ ‘‘
’’ ویریندر۔۔۔۔۔۔۔
ویریندر نے اسے غور سے دیکھا۔ جوگی کی آنکھیں نمناک تھیں ۔
’’ میں کیا سوچ کر آیا تھا اور کیا ہو گیا۔‘‘
’’ خدا جو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے ۔آپ گاؤں میں رہیے۔ اپنے کھیت کھلیان دیکھیے۔گاؤں میں اسکول کھول دیجیے۔۔۔۔سماج سیوا کیجیے۔۔۔۔آپ کو کمی کس بات کی ہے جوگی جی۔
’’ مجھے جوگی مت کہو ویرو۔میں ایک ظا لم انسان ہوں میں نے بہت ہنسا کی ہے ۔‘‘
’’ امام صاحب سے ملتے رہیے ، آ پ کو سکون ملے گا ۔ ‘‘
ویریندر کے جانے کے بعد کمرے میں اچانک سنّاٹا پھیل گیا ۔ جوگی خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا۔ ۔۔۔۔لڑکی کی صورت نگاہوں میں گھوم گئی ۔۔۔۔ سینے میں ٹیس سی اٹھی۔۔۔۔تکیے کو سینے پر رکھ کر زور سے دبایا۔
’’ہے ایشور۔۔۔۔کہاںجاؤں۔۔۔۔؟ریت کے کن سے زیادہ میرے دکھ ہو گئے۔۔۔۔۔ میرے جینے کا مقصد کیا رہ گیا ۔۔۔؟ اب تک ہنسا میں زندگی گذری۔۔۔۔آج کس دوراہے پر تو نے مجھے لا کر کھڑا کر دیا۔۔۔۔مجھے شانتی چاہیے پربھو۔۔۔شانتی۔۔۔۔۔۔
جوگی کی بے چینی ہر پل بڑھتی جا رہی تھی ۔آخر اس نے پھر فون کر کے ویریندر کو بلایا ۔
’’ ویریندر ۔۔۔۔۔میں ساری زندگی نفرت کی سیاست کرتا رہالیکن آج محبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔۔۔۔مجھے ایک پل چین نہیں ہے ویرو۔۔۔۔میں کہاں جاؤں۔۔۔۔وہ موہنی صورت۔۔۔۔وہ دبیہ روپ۔۔۔۔اسے بھول نہیں سکتا۔‘‘
’’ امام صاحب کو اپنی کیفیت بتا دیجیے۔۔۔۔شاید کوئی راستا نکلے ۔ ‘‘
دونوں پھر امام کے گھر پہنچے ۔ امام پھر حیران ہوا۔
’’ زہے نصیب۔۔۔۔۔۔میری چوکھٹ گلزار ہو رہی ہے ۔ ‘‘
امام صاحب۔۔۔۔یہ سکون قلب کھو بیٹھے ہیں۔۔۔۔ کلمہ پڑھنا چاہتے ہیں ۔‘‘
’’جزاک اللہ۔۔۔۔یہ اللہ کی تلوار بن کر آ ئے ہیں۔ یہ سیف اللہ ہیں۔ ‘‘
’’ مر حبا ۔۔۔۔کیا نام رکھا ہے۔۔۔۔۔۔اللہ کی تلوار۔۔۔۔ جو ہمیشہ انصاف کرتی ہے۔۔۔آج تو ہمارے ہاتھ مضبوط ہو گئے۔ ‘‘ ویریندر کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔
جوگی اپنے آپ کو پر سکون محسوس کر رہا تھا۔ لڑکی پر دے کے پیچھے سے جھانک رہی تھی۔اندر گئی اور مصری اور پانی لے کر آئی ۔
’’مبارک۔۔۔۔آپ کو نیا نام مبارک۔۔۔۔۔!‘‘
جوگی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ لڑکی کو کیا جواب دے ۔
جوگی کا موبائل بج اتھا ۔
فون کباڑیہ کا تھا ۔
ہیلو۔۔۔۔جوگی۔۔۔۔۔؟ گھر واپسی کا کیا ہوا۔۔؟
’’ میں سیف ا للہ بول رہا ہوں۔ میری گھر واپسی ہو چکی ۔ ‘‘
سیف ا للہ نے سلسلہ منقطع کر دیا ۔
٭