اب کچلنے کی رِیت ہے۔اب ایک بار میں قتل نہیں کرتے ہیں۔اب ایک آدمی کو سب مل کر کچلتے ہیں۔اخلاق کچلے گئے۔ پہلو خاں کچلے گئے۔ا ور وزیر محترم کو فکر تھی کہ باقی گوشت کہاں ہے ؟ ایک گائے سے ڈیڑھ من گوشت برآمد ہوتا ہے۔ اخلاق نے زیادہ سے زیادہ ایک کیلو گوشت کھایا ہوگا۔۔۔۔باقی۔۔۔۔؟ محترم کا اصرار تھا کہ اس کی جا نچ ہونی چاہیے ۔ پہلو میاں تسکری میں کیوں لگ گئے ؟اس بات پر وزیر محترم ناراض تھے کہ جب گائے کی تسکری پر پابندی ہے تو میاں جی نے جرأت کیسے کی ؟گئو رکشک تو روکنے کی کوشش ضرور کریں گے۔
اور دیوار پر وقت کی تحریر تھی کہ تم لوگ گائے سے دور رہو ورنہ۔۔۔۔۔
یہ تحریر سب سے پہلے معظم خاں نے پڑھی اور اپنی دونوں جرسی گائیں واپس کر دیں جو انہیں تحفے میں ملی تھیں۔ سیف کے دادا کے پاس بھی ایک جرسی گائے تھی جو کرشن مراری نے دی تھی۔کرشن مراری سے ان کا یارانہ پرانا تھا۔وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے تو دو پلّی ٹوپی پہنتے اور دادا سے دعا کی درخواست کرتے۔دادا مصلّے پر بیٹھ جاتے اور کرشن مراری ٹوپی پہنے سامنے دوزانو ہو جاتے۔ دادا سورۂ یونس کے ساتھ دعا مانگتے ’’ یا اﷲ۔۔۔جس طرح تو نے حضرت یونس علیہ ا لسلام کو مچھلی کے پیٹ سے صحیح سلامت نکالا۔اسی طرح میرے دوست کو مصیبت کے پھندے سے آزاد کر۔۔۔۔‘‘ وہ کرشن مراری کو تعویز اور نقش وغیرہ بھی دیتے رہتے تھے۔کبھی الجامع کی تعویز دی تو کبھی یا حفیظ کا نقش دیا۔ایک بار الغنیُ کا نقش دیا تو کرشن مراری کے کاروبار میں حیرت انگیز ترقی ہوئی۔کرشن مراری بوڑھے ہو گئے تھے ۔ یہاں ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ بیٹے نے اپنے پاس امریکہ بلا لیاتو جاتے جاتے اپنی جرسی گائے دادا کی نذر کردی ۔ پندرہ سولہ سال کا مچنا بھی حصّے میں آیا۔ لمبوترے چہرے والا مچنا ذات کا ہری جن تھا ۔ وہ کالا بھجنگ تھا اور دانت بالکل سفید۔ہنستا تو چہرے کی سیاہی پھیلتی اور دانت جگمگاتے لیکن کرشن مراری نے اسے بچپن سے پالا تھا۔گائے کی دیکھ ریکھ وہی کرتا تھا۔ گائے کو نہلاتا اور گوبر اٹھاتا لیکن دودھ دوسرا ملازم دوہتا جو ذات کا ہریجن نہیں تھا۔مچنا کی دلی تمنّا تھی کہ کبھی وہ بھی دودھ دوہتا۔ سر سر کی آواز کے ساتھ دودھ کی دھار بالٹی میں گرتی اور جھاگ سا اٹھتا تو مچنا پر نشہ سا چھانے لگتا اور بڑی حسرت سے سوچتا کہ کاش کبھی۔۔۔۔۔
وداع ہوتے وقت کرشن مراری جی نے مچنا کا ہاتھ دادا کے ہاتھ میں تھمایا بھی نہیں تھا کہ رقّت طاری ہو گئی ‘‘ اس کا خیال رکھنا۔یہ میری آنکھ کا تارہ ہے۔۔۔اور دادا سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے ۔
دادا نے آنگن کے کونے پر گوہال بنوا دیا۔مچنا کے لیے بھی چھوٹی سی کوٹھری بنوا دی اور اس کو دودھ دوہنے کااختیار دیا۔مچنا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ اتنی عزّت کسی نے نہیں دی تھی ۔دادا کے قدموں میں گر گیا اور دیر تک روتا رہا۔ وہ گائے کو ماتا کہتا تھا۔دادا بھی ماتا کہنے لگے۔ مچنا گھر کے دوسرے کام بھی کرنے لگا اور بہت جلد سب کا ہردلعزیز بن گیا۔لیکن دادا نے اس کو اپنے لیے وقف کر لیا۔اس کی کھاٹ عقبی برآمدے کے کونے میں لگوائی۔خود برآمدے میں سوتے تھے۔دھوپ اور پانی سے بچنے کے لیے شہتیر سے برساتی لگا رکھی تھی۔ہر موسم میں ان کی کھاٹ یہاں پڑی رہتی اور وہ دن بھر پڑے حقّہ گڑگڑاتے رہتے۔بیچ بیچ میں اٹھ کر آنگن کی پھلواری پٹاتے ۔ ماتا کو گڑ کھلاتے اور یہ شعر گنگناتے ۔
رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی
اس مالک کو کیوں نہ پکاریں جس نے پلائی دودھ کی دھاریں
مچنا شعر پر سر دھنتا تھا۔ماتا بھی گردن ہلانے لگتیں۔مچنا نے بہت کوشش کی کہ شعر یاد ہو جائے لیکن کچھ الفاظ کی ادائیگی میں گڑ بڑ ہو جاتی۔تب دادا نے اُسے مقامی بولی میں ازبر کرایا۔
رب کا سکر مناؤ بھیوا
جس نے ہمرو گائے بنایا
مچنا جھوم جھوم کر شعر پڑھتا اور دودھ دوہتا۔۔۔سر۔۔۔سر۔۔۔۔ہمرو میّا کی دھار تو دیکھو۔۔۔۔!ماتا روز دس کیلو دودھ دیتی تھیں۔ایک دن دیکھا مکھیاں پریشان کر رہی ہیں۔ دادا نے گوہال میں فوراً ٹیبل فین لگا یا۔
بوڑھے کے پاس مستقبل نہیں ہوتا۔ پاس بیٹھ جاؤ تو ماضی کے قصّے سنائے گا لیکن دادا کے ماضی میں ماتائیں سمائی ہوئی تھیں۔ شام کو جب بستر پر پڑے حقّہ گڑگڑاتے اور مچنا اُن کے پاؤں دباتا تو اس کو تاریخ کی گھٹّی پلاتے کہ کس طرح ونووا بھاوے نے سن 1966 میںسارے ملک میں گائے کشی کے خلاف قانون بنانے کی مہم چلائی تھی اور اندرا گاندھی نے گائے رکشا آندولن میں گولی چلوا دی تھی۔دادا مچنا کو سمجھاتے کہ ماتا جی بی جے پی والوں کے لیے خاص چیز رہی ہیں۔وہ ماتا کے زریعہ ہندوں کو ایک جٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سن 1882 میں دیانند سرسوتی نے گئو رکشنی سبھا کی بنیاد ڈالی تھی جس کے کچھ عرصہ بعد اعظم گڑھ اور بمبئی میں فر قہ وارانہ فساد ہوئے تھے اور یہ کہ سن 1925 میں آر اس اس کی بنیاد۔۔۔
آر اس اس تک آتے آتے ۔حقّہ کی نے منھ سے چھوٹ جاتی ۔۔۔۔ دادا خر خر کرنے لگتے اور مچنا بھی ان کے پاوں پر لڑھک جاتا۔
اچانک جوگی مہیش نے بوچڑخانے بند کرا دیے۔ حکومت نے بھی جانوروں کی خرید و فروخت پر پابندی لگا دی۔مہندر آچاریہ ناراض ہوئے کہ گائے کے کاروبار میں اسّی فی صد لوگ ہندو ہیں پھر ایک فرقہ کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔ اسی دن سانڈ گھر میں گھسا اور دادا کے کولہے کی ہڈّی ٹوٹ گئی۔
دیوار کی تحریر گہری ہو گئی ۔دادا گہری نیند میں تھے کہ اچانک سا نڈکے رمبانے کی آواز سے نیند ٹوٹ گئی۔ سیف بھی جاگ گیا۔سانڈ کو دیکھ کر اپنا کیمرہ لے آیا۔دادا نے دیکھا سانڈ ماتا جی سے اٹھکھیلیاں کر رہا ہے۔ دادا ڈنڈا لے کر دوڑے۔ سانڈ زور سے اچھلا۔پھولوں کی کیاری روندتا ہوا برآمدے میں گھسااور دادا کی کھاٹ الٹ دی۔دادا نے بڑھ کر ڈنڈا جمایا تو سانڈ نے ان کو سینگ پر ا ٹھا کر دور ا چھال دیا۔ دادا امرود کے پیڑ سے ٹکرا کر نیچے گرے ۔ کولہے کی ہڈّی ٹوٹ گئی۔ وہ زور سے چلّا ئے۔ ان کی آواز سن کر گھر کے افراد دوڑ کر آئے۔سب نے مل کر کسی طرح سانڈ کو دور بھگایا۔ان کو شہر کے اسپتال میں بھرتی کرنا پڑا۔صحت یاب ہونے میں دو ماہ لگ گئے۔
سارا منظر سیف نے وی ڈی او میں قید کر لیا تھا۔دو دنوں تک سوچتا رہا کہ اسے سوشل میڈیا پر ڈالنا چاہیے یا نہیں۔آخر اس نے فیک آئی ڈی کے ساتھ وی ڈی او لانچ کر دیا۔منٹوں میں ردّعمل آنے لگے۔دوسرے دن سفید شرٹ اور ہاف پینٹ میں ملبوس کسی ونود بھاسکر کا وی ڈی او سامنے آیا۔ بھاسکر چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔
’’ ابھی تو ایک سانڈ چھوڑا ہے اور تمہاری ہڈّی ٹوٹ گئی ۔
ایسے ایسے لاکھوں سانڈ ہیں۔اگر چھوڑ دیا تو کچلے جاؤگے۔
گائے ہماری ماتا ہے اور تم اسے کھا تے ہو۔سالے۔۔۔حرامی۔‘‘
سیف وی ڈی او دیکھ کر محظوظ ہوا ۔یہ سوچ کر خوش ہوا کہ آر ایس ایس کی اولاد اس کی آئی ڈی کو کسی ہندو کی آئی ڈی سمجھ رہی ہے لیکن دادا ڈر گئے،انہیں احساس ہوا کہ گائے سے فاصلہ بنائے رکھنے میں خیریت ہے۔انہوں نے اخلاق اور پہلو خاں کے کچلے جانے کا وی ڈی او بھی دیکھا تھا۔ہر طرف سے لاٹھیاں، تلوار، گڑانسے برس رہے تھے۔کوئی کمر پر وار کر رہا تھا، کوئی سر پر کوئی ٹانگوں پر کوئی سینے پر۔مر جانے کے بعد بھی کچلنے کا عمل جاری تھا۔دادا ہل گئے تھے۔اس وقت یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ یہ ان کی قوم کو مسیج تھا کہ گائے سے دور رہو۔اب انہیں ماتا جی سے خوف محسوس ہورہا تھا۔انہیں یقین تھا کہ سانڈ پھر گھر میں گھسے گااور دیوار کی تحریر بھی یہی تھی ۔ وہ منتری کے اس بیان سے اور بھی سہم گئے تھے کہ گائے کی تسکری غیر قانونی ہے اور لوگ بھول جاتے ہیں کہ انہیں روکنے کے لیے ہی گئو رکشک سمیتی بنی ہے۔یعنی مقتول مجرم تھا اور قاتل حق بہ جانب۔
سانڈسب کے لیے مسئلہ بنا ہوا تھا۔اس نے سب کی فصلیں تباہ کیں۔اسے روکنے کا کسی میں یارا نہیں تھا۔جانور کی خرید فروخت بند تھی۔ پشو میلہ تو کب کا بند ہو چکا تھا۔جو جانور کسی لائق نہیں تھے انہیں بیچا نہیں جا سکتا تھا۔لوگ انہیں کھلا چھوڑ دیتے تھے جو کھیت خراب کر دیتے تھے۔بیمار ماتائیں اسکول کے برامدے میں قیلولہ فرماتی تھیں۔برامدہ گوبرسے بھرارہتا۔بچّے گوبرصاف کرتے تب پڑھائی شروع ہوتی۔ گاؤں والے پہلے صبح اٹھ کر اپنا کام کرتے تھے۔اب صبح ڈنڈا لے کر کھیت جاتے کہ ماتا تو اندر نہیں گھس گئیں۔لاکھ پہرہ دو کوئی نہ کوئی جانور اندر گھس جاتا۔سب کو سانڈ کے مرنے کا انتظار تھا۔ خود مار نہیں سکتے تھے کہ گئو کشی کے مرتکب ہوتے۔
دادا کے ماضی سے اب ماتا ئیں نکل گئی تھیں۔حقّہ گڑگڑاتے ھوئے وہ اب مچنا سے اس قسم کی گفتگو نہیں کرتے تھے کہ نہرو کے وقت میں یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا اور بی جے پی جب جن سنگھ ہوا کرتی تھی تو اس وقت بھی اس نے گائے کو سیاسی حربہ بنایا تھا۔ دادا کو فکر تھی کہ ماتا جی سے چھٹکارہ کس طرح حاصل کیا جائے۔گاؤں میں کسی کو دان کرنا مناسب نہیں تھا۔ وہ یہی سوچتا کہ ماتا جی میاںجی کے گھر سے آئی ہیں ۔ دادا نے سوچا کہ تھانے میں باندھ کر چلے آئیں۔پولیس جو مناسب سمجھے گی کرے گی لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ سیف کے کالج کا اکاؤنٹنٹ رمیش رجک گائے خریدنے کے لیے راضی ہو گیا۔مچنا کو چھٹ پٹاہٹ ہوئی۔ ماتا جی چلی جایں گی تو وہ سیوا کس کی کرے گا۔ وہ اداس ہو گیا۔بھوک پیاس ختم ہو گئی۔ایک کونے میں گم صم بیٹھا پر نم آنکھوں سے ماتا کو نہارتا رہتا۔دادا نے تسلّی دی کہ بکری پالیں گے۔ بکری سے ہندؤں کا کوئی مذہبی رشتہ نہیں ہے بلکہ بکری پالنا سنّت ہے اور پیغمبر بھیڑ بکری چرایا کرتے تھے۔لیکن مچنا بیمار پڑ گیا اور ماتا ماتا بڑبڑانے لگا تو دادا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ مچنا کو ساتھ کر دیں گے۔ وہ ماتا کے ساتھ آیا تھا ماتا کے ساتھ اپنے سماج سے جا ملے گا۔
سیف نے کورٹ سے گائے کی خرید فروخت کا مسّودہ تیار کیا۔گائے کی تصویر بھی منسلک کی تا کہ تسکری کا الزام نہیں لگے۔اب مسئلہ تھا گائے کو لے جانا۔ رمیش گائے اپنے گاوں بھیجنا چاہتا تھا جو دادا کے گاوں سے دو سو کیلو میٹر دور تھا۔رمیش نے ٹرک کا انتظام کیا۔دروازے پر ٹرک آ کر لگی تو گاوں والوں کو تجسس ہوا کہ کیا چیز ٹرک سے بھیجی جا رہی ہے۔بات منٹوں میں پھیل گئی کہ دادا نے گائے بیچی ہے۔گاؤں کا سرپنچ براہمن تھا۔اس کو فکر ہوئی کہ گائے کس نے خریدی ؟جب معلوم ہوا کہ کوئی رمیش رجک ہے تو سرپنچ کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔۔۔۔شدر اور گائے۔۔۔۔؟
رمیش کے پاس خرید کے کاغذات تھے۔اس نے گائے ٹرک پر لدوائی مچنا کو سا تھ لیا خود بھی بیٹھا اور چل پڑا۔ سر پنچ نے گئو رکشک واہنی کو فون کردیا کہ شدر جرسی گائے کی تسکری کر رہا ہے۔ٹرک بلوا چوک سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ گئو رکشک ہتھیاروں سے لیس کھڑے تھے۔ راستہ بلّہ لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔رمیش نے کھڑکی سے ہاتھ نکال کر کاغذ دکھا یا۔
’’ باہر نکل سالا۔۔۔‘‘
کاغذ دیکھنے کے بجائے کسی نے انہیں نیچے کھینچ لیا۔بھارت ماتا کی جے کے نعرے سے فضا گونج اٹھی۔رمیش ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگا۔
’’ میں مسلمان نہیں ہوں بھیّا۔۔۔۔۔میں مسلمان نہیں ہوں۔‘‘
سر پر زور کی لاٹھی پڑی۔’’ چپ سالا دلت۔۔۔۔۔‘‘
کچلنے کا عمل شروع ہو گیا۔وہ چلّاتا رہا ۔۔۔۔’’ میں مسلمان نہیں ہوں۔۔۔۔میں مسلمان نہیں ہوں۔ آخری بار وہ زور سے چلّایا۔ ’’ میں ہندو ہوں۔۔۔۔‘‘ اس طرح چلّاتے ہوئے بھول گیا تھا کہ وہ دلت ہے اور براہما کے پاوں سے پیدہ ہوا ہے۔اسے گائے رکھنے کا اختیار نہیں ہے۔وہ مری ہوئی گائے کی چمڑی ادھیڑ سکتا ہے لیکن دودھ نہیں دوہ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دیوار پر نئی تحریر اُگ آئی تھی۔
’’ ملیچھ کا ساتھ دوگے تو۔۔۔۔۔۔‘‘