(تحریک تانیثیت کی مسلم خاتون اول رقیہ سخاوت حسین کے نام)
میں ایک ہولناک چیخ کے ساتھ اوبڑ کھابڑ زمین پر الٹے پاؤں گر پڑی۔ ناقابل برداشت تکلیف کے باعث ہونٹوں سے بے ربط آوازیں نکل رہی تھیں۔ ایسا لگا جیسے میرے داہنے کان سے گرم گرم لاوا سا نکل رہا ہو۔ کان کے ساتھ ساتھ کنپٹی کی ہڈیاں بھی چرمرا کر رہ گئی تھیں۔ گالوں پر پڑنے والے اس زناٹے دار تھپر کو میں جھیل نہ سکی اور گر گئی۔ مار سے بچنے کے لئے میں تڑپتی ہوئی اپنی دونوں کہنیوں کو ملا کر دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے منھ چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ انگلیاں چپچپا رہی ہیں۔ میرے گالوں سے خون رس رہا ہے۔ مار سے بچنے کے لئے میں نے اپنے سر کو دونوں گھٹنے ملا کر اس پر رکھ لیا اور گٹھری کی طرح بنی منھ سے بے ہنگم آوازوں سے بس چیخ رہی تھی۔ اچانک اس نے ایک زور دار لات میری کمر پر ماری۔ درد ناک چیخ کے ساتھ میں پھر سیدھی ہو گئی۔
’’اٹھ کمبخت۔ کھانا کھا۔ نخرے مت دکھا۔ مر مرا گئی تو تیری لاش کو کہاں ٹھکانے لگائیں گے۔‘‘
میں نے اپنی پوری ہمت بٹور کر اس طرح جواب دیا۔ ’’ہرگز نہیں۔ میں ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گی۔‘‘
میرا جواب سن کر اس کا غصہ اور بھڑک گیا۔ اس نے میرے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑا اور بے رحمی سے اینٹھتے ہوئے مجھے کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا۔ میں پورے جسم سے بل کھا کر کھڑی ہوئی اور فوراً ہی چور چور جسم کے ساتھ اس کے قدموں پر گر پڑی۔ نہیں میں گری نہیں تھی۔ اس نے مجھے بے دردی سے اپنے قدموں پر گرایا تھا۔
’’کھانا کھاتی ہے یا پھر بلاؤں دو چار مردوں کو، منٹ بھر میں وہ سب تیری کس بل نکال دیں گے۔‘‘
’’نہیں کھاؤں گی۔۔۔ نہیں کھاؤں گی۔۔۔ ہرگزنہیں کھاؤں گی۔‘‘
میں پورا دم لگا کر چیخی۔ میڈم ساراکیچی کے نام سے جانی پہچانی جانے والی اس عورت نے کھسیا کر بھدی بھدی گالیاں بکیں اور میرے منھ پر تھوک دیا اور دھکا مار کر دوبارہ مجھے زمین پر گرا دیا۔
’’مر تو یہیں۔ اس زمین پر گڈھا کھود کر دفن کر دوں گی تجھے۔ کتیا کہیں کی، عورت کی ذات ہے یا شیطان کی اولاد۔ دو دن سے مارکھا رہی ہے مگر ٹوٹی نہیں۔‘‘
گالیاں بکتی ہوئی اس نے کو ٹھری کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ کنڈی میں دوبارہ تالا لگا دیا گیا۔ میں نے بھی طیش میں آ کر کھانے کی تھالی اٹھا کرسلاخوں پر دے ماری۔۔ ’’مارنا ہے تو مار دے مجھے مگر میں کھانا نہیں کھاؤں گی۔‘‘
وہ چلی گئی۔ ا س کے جاتے ہی میں زمین پر سجدہ کرنے کے انداز میں گر پڑی۔ ٹوٹی پھوٹی کچی پکی زمین پر اپنا سر پٹک پٹک کر زور زور سے میں رونے لگی۔ مار کھاتے کھاتے میرا پورا جسم زخمی ہو چکا تھا۔ کئی جگہ جسم کی کھالیں پھٹ چکی تھیں اور کہیں پھٹی ہوئی کھالیں سوکھ کر مزید تناؤ پیدا کر رہی تھیں۔ نہ اس کی مار رک رہی تھی نہ میری ضد ٹوٹ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی طرح میری ضد ٹوٹ جائے اور میں کھانا کھا کر اپنی قسم توڑ دوں۔ ان سب کو مجھ سے خطرہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کہیں میں نے کوٹھری میں دم توڑ دیا تو سارا محکمہ ایک بڑی مصیبت میں پھنس جائے گا۔ میری مانگ بھی تو بہت بڑی مانگ نہیں تھی۔ میں تو صرف اپنا گناہ پوچھ رہی تھی۔ پچھلے چار دنوں سے مجھے یہاں بند کیا گیا تھا اور کوئی میرا پرسان حال نہیں تھا۔ انھوں نے کسی طرح میری بات نہیں مانی تو میں نے کھانا پینا چھوڑ دینے کی ٹھان لی۔ جب سارے راستے بند ہو جائیں تو امید کا یہی ایک دریچہ بچتا ہے۔
میرا کھانا پینا بند کر دینے کا بڑا اثر ہوا اور پورے حلقے میں ہلچل مچ گئی۔ ہر ایک کی یہی کوشش رہتی کہ میں کچھ کھا لوں۔ ان سب میں سب سے زیادہ بے رحم تھی میڈم ساراکیچی جو وقتاً فوقتاً آتی اور مجھے بے تحاشا ٹارچر کر کے چلی جاتی۔ میرے لئے سب سے اذیت ناک ہوتیں اس کی بے ہودہ گالیاں۔ گالیوں کے درمیان نکلے کچھ جملوں سے میں نے اندازہ لگا لیا کہ میری نہ کھانے کی ضد ختم کرا کر وہ افسروں کے سامنے اپنی پوزیشن مضبوط بنانا چاہتی ہے۔
مجھے ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو صرف اتنا چاہتی تھی کہ مجھے آزادی ملے یا میرا گناہ بتایا جائے۔ بے سبب تو خدا بھی عذاب نازل نہیں کرتا۔ پھر یہ ادنیٰ مخلوق میرے صبر کا امتحان کیوں لے رہی ہے۔ میں نے دل سے اپنے خدا کو یاد کیا۔ غیبی مدد کی آواز لگائی اور آنسو بہاتے ہوئے رحم کی بھیک مانگنے لگی۔ سنا ہے خدا ایسے بندوں کی ضرور سنتا ہے جو گڑ گڑاتا اورآنسو بہاتا ہے۔
اچانک سلاخوں کے باہر سے آتی ہوئی ایک مردانہ آواز نے مجھے اپنی آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیا۔ سلاخوں کے باہر ایک مرد کھڑا تھا۔ یقیناً وہ اسی محکمے کا ملازم ہو گا۔ ’’بہن کھانا کھا لو۔‘‘ آواز کی نرمی میں مجھے اپنے پن کا احسان ہوا اور اس احساس نے مجھے مزید توڑ دیا۔ میں نے بچوں کی طرح بلکتے ہوئے اس سے کہا۔ ’’میرا گناہ کیا ہے۔ مجھے کیوں قید کیا گیا ہے۔ مجھ پر اتنا ظلم کیوں ڈھایا جا رہا ہے۔ میں آزادی چاہتی ہوں۔ خدارا یہاں سے مجھ کورہائی دلواؤ یا میرا قصہ ختم کرو۔‘‘
’’بہن جہاں تم کھڑی ہو، وہاں سوالات نہیں کئے جاتے۔ چپ چاپ سب کا کہنا مان لو اور کھانا کھا لو۔‘‘
’’میں کھانا نہیں کھاؤں گی‘‘ میں نے بچوں کی طرح روتے ہوئے کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا پیچھے سے ایک کرخت بھری رعب دار آواز آئی۔ ’’یہاں تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
اس آدمی نے ایڑی کے بل زمین پر ٹھوکر مار کر ایک سیلوٹ دی اور ’جی صاحب‘ کہہ کر میری کوٹھری کے سامنے سے ہٹ گیا۔
مجھے اس کی وضع قطع اور بولنے کے لہجے سے انداز ہو گیا کہ وہ محکمے کا کوئی بڑا آفیسر ہے۔ میں گرتی پڑتی کھڑی ہوئی اور کوٹھی کی سلاخوں تک خود کو کھینچ کر لائی۔ گردن کے اشارے سے میں نے اسے سلام کیا۔
’’آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہی ہیں؟‘‘
میں نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے جلدی سے اپنی بات کہی۔
’’سر کیا آپ قانون نہیں جانتے؟‘‘
’’کیا مطلب!‘‘ اس نے سوال کیا۔
’’مطلب یہ کہ ۲۴ گھنٹے کے اندر آپ کو مجھے مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کروانا چاہئے تھا۔ آپ کسی قیدی کواس کا گناہ بتائے بغیر اس میعاد سے زیادہ لاک اپ میں نہیں رکھ سکتے۔‘‘
’’آپ کھانا کھا لیجئے، پھر میں آپ کی ساری باتیں سنتا ہوں۔‘‘
وہ کسی طرح مجھے بہلا پھسلا کر کھانا کھلوانا چاہتا تھا مگر میں ہمت ہارنے والی عورت نہیں تھی۔
’’سر میں جانتی ہوں کہ آپ یہاں کے اعلیٰ افسر ہیں۔ پہلے آپ میری فریاد سنئے‘‘
’’فریاد تو جج سنتا ہے۔ میرا کام تو یہاں کا انتظام دیکھنا ہے۔‘‘
’’کیا آپ کے یہاں کا انتظام یہی ہے کہ ایک عورت کو عورت کے ہی ہاتھوں بے رحمی کی شکار بنا دی جائے۔ وہ سسک اٹھی۔ ’’دیکھئے میرا جسم دیکھئے، یہ سارے زخم یہ سارے نشانات ایک عورت نے ہی میرے جسم پر ابھارے ہیں۔ کیا آپ انکار کر سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ آپ کے اشارے پر نہیں ہوا۔ جو ظلم اس عورت نے مجھ پر ڈھائے اس سے آپ کیا لا علم ہیں۔ آپ کے نظام کا یہ کون سا کھیل ہے جس میں کھلاڑی کوئی اور ہوتا ہے، مداری کوئی اور بنتا ہے اور شکار کس کے ہاتھوں مارا جاتا ہے۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا۔‘‘
’’آپ زیادہ بول رہی ہیں میڈم۔‘‘
’’نہیں میں تو صرف اپنے اوپر ہونے والی زیادتیاں آپ کو دکھانا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ کہ کر میں نے اپنے شانے پر رکھے ساڑی کے پلو کو زمین پر گرا دیا۔ میرے گداز سینے پر بلی کے پنجوں کے گہرے نشانات تھے۔
ایسے کارنامے تو بلّے بھی نہیں دکھاتے جوسارا کیچی نام کی اس بلّی نے کر دکھایا۔ کون کہتا ہے کہ زنانیاں کمزور ہوتی ہیں۔
’’آپ مہربانی کر کے ساڑی کا پلو اوپر کیجئے۔‘‘ اس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اپنی دونوں آنکھیں بند کر لیں پھر کچھ جھنجھلاتے ہوئے یا پھر یوں کہیں کہ اپنی افسری جھاڑتے ہوئے بولا۔
’’بات کا بتنگڑ مت بنائیے۔ کھانا کھا لیجئے۔‘‘
’’کھانا میں تبھی کھاؤں گی جب آپ میرے سوال کا جواب دیں گے۔‘‘
’’پوچھئے۔‘‘
’’مجھے یہاں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے؟۔‘‘
’’آپ پر چوری کا الزام ہے کہ آپ نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں۔‘‘
میری آنکھیں خوف سے پھٹ جانے کی حد تک پھیل گئیں۔ یہ سچ ہے کہ سلطانہ کے خواب میرے پاس ہیں مگر میں نے ان خوابوں کی چوری نہیں کی ہے۔‘‘
’’آپ خواب واپس کر دیجئے، میں آپ کو آزاد کر دوں گا۔‘‘
بات مکمل کر کے وہ جا چکا تھا اور میں ہارے ہوئے جواری کی طرح ٹوٹ کر گھٹنے کے بل کر پڑی۔ میں ان خوابوں کو کیسے واپس کر سکتی ہوں۔ یہی خواب تو مری وہ ملکیت ہیں جنہیں حاصل کر کے میں صحیح معنوں میں ’’میں‘‘ بن سکی۔ ورنہ میری کیا اہمیت رہتی اِس ’’میں‘‘ کے بغیر۔ اور پھر خواب لوٹانا اب اتنا آسان بھی تو نہیں رہا۔ ان خوابوں کی جڑوں نے میرے دل و دماغ کو اپنی مضبوط گرفت میں لے رکھا ہے۔ ان خوابوں کا سرور میری آنکھوں میں رچا بسا ہے۔ میری بینائی ان کے بغیر ادھوری ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے ان خوابوں کو میری آنکھوں سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔
میں نے فیصلہ تو کر لیا مگر ایک انجانا سا خوف اور نا قابل برداشت تکلیف میرے پورے جسم میں جھرجھری سی پیدا کرنے لگی۔ دل بہلانے کے لئے میں نے سلطانہ کے خواب کا سہارا لیا۔ ہاں، میری اپنی بھی ایک دنیا ہو گی۔ اپنی حکومت ہو گی۔ ایسا جہاں آباد ہو گا جہاں عورتوں ظلم پر نہیں کیا جائے گا۔ بے سبب انہیں تار تار نہیں کیا جائے گا۔
ابھی میں خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر پوری طرح سے اپنا دل بھی بہلا نہ سکی تھی کہ نہ جانے کب وہ جلاد عورت میڈم سارا کیچی چپکے سے میرے خیالوں میں گھس آئی۔
اف!کوئی عورت اتنی بے رحم بھی ہو سکتی ہے۔ میرے پورے جسم میں خوف کرنٹ کی طرح ڈوڑنے لگا۔
’’بہن! کیوں اپنے آپ کو تڑپا تڑپا کر مار رہی ہو۔ اٹھو اپنے حواس درست کرو‘‘ یہ آواز اسی ملازم کی تھی جو تھوڑی دیر پہلے آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں چائے سے بھرے گلاسوں کی ایک جالی تھی۔
’’لو چائے پی لو۔ درد میں تھوڑی کمی آ جائے گی۔‘‘
’’میں کچھ نہیں کھاؤں گی‘‘ میں نے اپنی پرانی ہٹ دہرائی۔
’’میں کھانے کو کب کہہ رہا ہوں۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک گلاس چائے پی لو، درد سہنے کی طاقت آ جائے گی۔‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ مجھے وہ شخص اس ماحول میں کوئی اپنا سا لگ رہا تھا۔
’’میں اس تھانے میں صاحب لوگوں کے لئے باہر سے چائے لے کر آتا ہوں۔ اب جلدی سے گلاس پکڑ لو ورنہ کوئی آ جائے گا۔‘‘
اس کی آنکھوں میں میرے لئے بے پناہ ہمدردی تھی۔ اس نے مجھے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے کہا۔ ’’لو پکڑو، شاباش جلدی سے چائے پی لو۔‘‘
سلاخوں کے اندر گلاس بڑھائے ہوئے وہ بڑی عجلت میں بولا۔
’’لو جلدی پیو۔ میڈم جی آ گئی تو تمہارے ساتھ ساتھ میری چمڑی بھی ادھڑ جائے گی۔‘‘
مجھے اپنے سے زیادہ اس کا خیال پریشان کر گیا۔ سر سے پیر تک میں نے اسے غور سے دیکھا۔ لمبا لاغر جسم، ڈھیلا ڈھالا میلا سا سفید کرتا پاجامہ، ہلکی بڑھی داڑھی، مونچھوں کے بغیر گول چہرہ، الجھے بکھرے بال، بن خوابوں کی ویران آنکھوں والا یہ نوجوان غالباً بائیس تئیس سال سے زیادہ عمر کا نہیں تھا مگر یہاں اس ماحول میں وہ مجھے کسی فرشتے سے کم نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ میری طرف ایسی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا کہ میں اس کی خاموش التجا کو ٹھکرا نہ سکی۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر گلاس پکڑ لیا۔ ایک گھونٹ چائے گلے میں اتری تو لگا جسم میں تراوٹ آ گئی ہو۔ دونوں ہاتھوں سے میں نے گلاس کو کس کر پکڑ لیا اور گرما گرم چائے گلے کے نیچے اتارنے لگی۔ چائے آبِ حیات بھی بن سکتی ہے، یہ میں نے پہلی بار محسوس کیا۔ خالی گلاس لے کر وہ فرشتہ صفت انسان واپس جا چکا تھا۔
چائے پی کر طبیعت ذرا بحال ہوئی۔ دل و دماغ کو قدرے سکون ملا تو میں نے اطمینان سے سوچنا شروع کیا۔
ہاں اگر لوگ سمجھتے ہیں کہ میں نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں تو ٹھیک ہے، چرائے ہیں میں نے مگر وہ سیل بند مہر لگے خواب نہیں تھے۔ وہ تو کھلی آنکھوں کے خواب تھے اور میں نے اپنی کھلی آنکھوں میں انہیں سمیٹ لیا تھا۔
اگر خواب دیکھنا گناہ ہے تو یہ گناہ کیا ہے میں نے۔ وہ آنکھیں ہی کیا جو خواب دیکھنا بند کر دیں۔
اچانک میری نگاہ سلاخوں سے باہر دور سے آتے ہوئے اس اعلیٰ افسر پر پڑی جو خراماں خراماں میری کوٹھری کی طرف بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ وہ جلاد عورت میڈم ساراکیچی بھی تھی جس نے مجھے در گور کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
خوف اور گھبراہٹ کے مارے میرے پورے جسم میں جھرجھری سی آ گئی۔ شاید اب یہ دونوں مل کر مجھے ماریں گے۔ مارسے پہلے ہی میرا جسم دکھنے لگا۔ پور پور میں ٹیسن ہونے لگی۔ گلے میں کانٹے چبھنے لگے۔ قصائی کی چھری کے نیچے آئی بکری کی طرح میں گھگھیانے لگی۔ ٹانگوں نے کھڑے ہونے سے جواب دے دیا تو میں سلاخوں کو پکڑ کر بیٹھ گئی۔ آخرکار وہ لوگ میری کوٹھری کے قریب آ کر رک گئے۔
’’کھانا کھا لیجئے‘‘ اس اعلیٰ افسر نے ہنستے ہوئے بے حد نرمی سے مجھ سے کہا۔
میں حیران ہوں۔ مجھے ان لوگوں سے ایسے نرم لہجے کی امید نہیں تھی۔ بغل میں وہ جلاد عورت ہاتھ میں کھانے کی تھالی لئے کھڑی تھی۔ میں خاموشی سے بے بس نگاہوں سے انہیں تکتی رہی۔
’’میڈم ساراکیچی آپ ہنگر اسٹرائک ختم کرانے کے لئے پہلے انہیں نیبو کی شکنجی پلائیے۔‘‘
وہ عورت فوجی جوان کی طرح پھرتی سے کوٹھری کا دروازہ کھول کر گلاس لے کر میری طرف بڑھی۔
میں نے اس افسر کو رحم طلب نگاہوں سے دیکھا کیونکہ میڈم ساراکیچی سے مجھے نرمی کی کوئی امید نہیں تھی۔
میری ذہنی کیفیت کو سمجھتے ہوئے اس اعلیٰ افسر نے ہنس دیا۔
’’شاید میڈم ساراکیچی نے آپ کو بتایا نہیں کہ آپ کی فریاد سن لی گئی ہے۔‘‘
میں نے آپ کی بات اپنے اعلیٰ افسر تک پہنچا دی تھی۔ کل صبح مجسٹریٹ صاحب کے یہاں آپ کی پیشی ہے۔‘‘
میں چہک اٹھی۔ ’’تو کیا میں آزاد ہو جاؤں گی۔‘‘
مجھے سلاخوں سے زیادہ اس جلاد عورت کی گرفت سے نجات مل جانے کی خوشی ہو رہی تھی۔
’’میں نہیں جانتا آپ کو آزادی ملے گی یا نہیں۔ میرا کام تو آپ کو وہاں تک پہنچا دینا ہے جہاں پر آپ خود کو بے گناہ ثابت کر سکیں۔ آگے آپ کی قسمت۔‘‘
شکنجی پلا کر میڈم ساراکیچی اس اعلیٰ افسر کے ساتھ واپس جا چکی تھی۔ اور میں چڑیاکی طرح تھالی سے اپنا دانہ چگ رہی تھی۔ ساتھ ہی آنے والی صبح کے لئے فکر مند بھی ہو رہی تھی۔ میری پیروی کے لئے کون آگے بڑھے گا۔ مجھے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا موقع دیا جائے گا یا نہیں۔ میں سوچتی جا رہی تھی اور اپنے آپ میں الجھتی جار ہی تھی۔
وہ رات میرے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ ذہنی کشمکش اور خود سے جد و جہد نے مجھے پوری طرح سے نچوڑ دیا تھا۔ صبح ہوتے ہوتے میں کافی پست ہو چکی تھی۔ مگر ایک امید اس اندھیری رات سے دور لے جانے کے لئے کافی تھی کہ میرا سویرا ضرور آئے گا۔ مجھے آزادی ضرور ملے گی۔ لوگ تسلیم کریں گے کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ میں نے سلطانہ کے خواب نہ صرف اپنی آنکھوں میں سجائے بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر کھلے آسمان میں اڑنے کے لئے حوصلوں کے پنکھ بھی ان خوابوں میں جوڑ دئے۔ شاید یہی عمل میرا گناہ بن گیا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی، وقت گذارنے کے لئے میں سلاخوں سے باہر جھانکنے لگی۔ ہر سمت اندھیرا اور خاموشی تھی۔ کھلے نیلے آسمان پر چاند تنہاچمک رہا تھا۔ ٹمٹماتے تارے اگر آس پاس تھے تو اس وقت میری بینائی سے نظر نہیں آ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ سا تویں آسمان پر خدا رہتا ہے۔ اے خدا تو مجھے دیکھ رہا ہے نا، پھر میری رہائی کی سبیل کیوں نہیں نکالتا۔ خدارا اس اندھیرے گلیارے میں روشنی پیدا کر دے۔ مجھے ان سلاخوں سے اور اس جلاد عورت سے نجات دلوا دے۔ اپنی غیبی مدد بھیج دے۔
’’اے مالک میں جانتی ہوں جب ساری دنیا ساتھ چھوڑ دیتی ہے تو ساتھ چلنے کے لئے تو آ جاتا ہے۔ تیری رحمت آ جاتی ہے۔ مجھے آزادی چاہئے۔۔۔ مجھے آزادی چاہئے۔‘‘
میں دامن پھیلائے گڑ گڑاتی رہی، روتی رہی، دعائیں مانگتی رہی، وقت گذرتا رہا اور رات کٹ گئی۔
تالا کھولنے کی آہٹ نے مجھے بتادیا کہ اب مجسٹریٹ کے سامنے میری پیشی کا وقت آ گیا ہے۔ میڈم ساراکیچی سامنے کھڑی تھی۔
اس وقت میں اس سے بالکل خوف زدہ نہیں تھی۔ شاید رات کی عبادت کا سرور تھا کہ خود بہ خود میرے اندر اعتماد جاگ اٹھا تھا میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔ ’’چلوں؟‘‘
’’ہاں‘‘ اس نے جنگلی بلّی کی طرح غرّا کر کہا۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اپنی اس مسکراہٹ کا مطلب میں خود بھی نہیں سمجھ سکی۔
اس وقت میں مجسٹریٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ میری پیروی کون کرے گا؟ یہ سوال آتے ہی میں نے خود کو پیش کیا۔ میں اپنے مقدمے کو خود سامنے رکھوں گی۔ سچ کیا ہے یہ مجھ سے بہتر اور کون بتا اور سمجھا سکتا ہے۔
پہلے سے طے شدہ الزام مجھ پر لگا یا گیا کہ میں نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں۔
اپنی صفائی دیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’اگر مشک کی خوشبو کو مٹھی میں باندھا جا سکتا ہے تو خواب بھی چرائے جا سکتے ہیں۔ چونکہ خوشبو کو انگلی کی گرفت میں لینا ایک نا ممکن عمل ہے۔ اس لئے خواب چرانا بھی کسی صورت ممکن نہیں ہے۔ مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید۔ مشک وہ ہے جو خوشبو دے نہ کہ عطار بتائے۔‘‘
فوراًمیری بات کو کاٹتے ہوئے جرح کیا گیا۔
’’خواب مشک نہیں بلکہ آنکھوں پر سجائے سپنے ہوتے ہیں۔ جو شئے سجائی جا سکتی ہے وہ چرائی بھی جا سکتی ہے۔‘‘
میں نے پھر اپنی صفائی پیش کی۔ ’’آنکھوں میں سجے چند خوابوں کے ساتھ بے شمار آنسوہوتے ہیں۔ آنسوؤں کی اپنی تاثیر ہوتی ہے۔ درد۔ آنسو دیکھ کر صرف درد کی شدت کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح خوابوں کی بھی تاثیر ہوتی ہے۔ اس تاثیر میں وہ جادوئی کشش ہوتی ہے جو دیکھنے والوں کی آنکھوں میں خود بہ خود منتقل ہو جاتی ہے۔ جس طرح بہہ جانے والے آنسو دوبارہ آنکھوں میں ٹھہرائے نہیں جا سکتے، اسی طرح آنکھوں میں سجے خوابوں کو نوچا نہیں جا سکتا۔ اس لئے یہ الزام بے بنیاد ہے کہ میں نے سلطانہ کے خواب چرائے ہیں۔‘‘
حاضرین کی خاموشی دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ میری دلیل زوردار تھی۔ لوگوں کی توجہ میری طرف سے ہٹ کر سلطانہ کی طرف چلی گئی۔
’’یہ سلطانہ ہیں کون؟‘‘ مجسٹریٹ نے سوال کیا ’’آخر ان کی طرف سے مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے کوئی کیوں نہیں آیا۔‘‘
عدالت میں موجود لوگوں کے بیچ اچانک چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ ہر شخص سلطانہ کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ کیو نکہ بات اب خواب کی نہیں سلطانہ کی تھی اور سلطانہ کا وہاں موجود رہنا ضروری تھا۔
اب میں سب کو کیسے سمجھاؤں، کیسے ثابت کروں کہ سلطانہ رقیہ باجی کی جنمی ہے۔ رقیہ سخاوت حسین باجی نے لگ بھگ سو سال پہلے ایک کہانی میں سلطانہ کو جنم دیا تھا اور اسے جسم اور روح عطا کی تھی۔ سلطانہ کے جنم سے ایک تہذیب کا جنم ہوا تھا۔ ایک مخلوق کی طرف سے ایسی مخلوق کی تخلیق تھی جو ان دیکھی تھی لیکن موجود تھی۔ جو نگاہوں سے اوجھل تھی لیکن سب کی نگاہوں میں سمائی ہوئی تھی۔ اور وہ سلطانہ جب سن بلوغ کو پہنچی تو خوابوں میں جینے لگی۔ گود میں ہمکتے بچے کی خالی آنکھوں میں مائیں کاجل لگاتی ہیں مگر باجی نے سلطانہ کی سونی آنکھوں میں خواب سجا دئے۔ واہ رے باجی، تم چلی گئی اور سلطانہ کے خواب رہ گئے۔ میں تو پھنس گئی ان خوابوں میں۔ اب یہ سب میں کیسے ثابت کروں۔
اچانک مجسٹریٹ کی بلند آواز نے اٹھتے ہلکے شور پر خاموشی کی مہر لگا دی۔
’’خواب سلطانہ کے چوری ہوئے تھے تو اس وقت یہاں سلطانہ حاضر کیوں نہیں ہوئیں۔ اگر نہیں ہوئیں تو ان کی طرف سے داخل لکھت رپورٹ پیش کیوں نہیں کی گئی۔‘‘
میڈم ساراکیچی اب پھنس چکی تھی اور میں اوبڑ کھابڑ زمین والی تنگ اور بوسیدہ کوٹھری کی سلاخوں سے باہر آ گئی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے اگلی کاروائی دوسرے دن تک کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
اِس وقت میں اپنے گھر میں تھی۔ اپنے کمرے کی کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑے ہوئے میں سوچ رہی تھی کہ کل جیل کی سلاخیں تھی آج گھر کی سلاخیں ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ جیل کی سلاخوں میں جسم تار تار ہوتا تھا اور گھر کی سلاخوں میں ذہن تار تار ہوتا ہے۔ سلاخیں بدل جانے سے تقدیر نہیں بدلا کرتی۔
باہر کی کھلی فضا میں میری نگاہیں بھٹک رہی تھی۔ پوپھٹنے والی تھی۔ سورج طلوع ہونے کا وقت قریب آ رہا تھا۔ کھلے نیلے آسمان پر ہلکی سرخی پھیلنے لگی تھی اور میں سلاخوں کو اپنی مٹھی میں پکڑے اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے انتظار تھا رقیہ باجی کا کہ کب وہ آئیں گی، ہماری پیروی کریں گی اور ہمیں سلاخوں سے باہر نکال کر آزادی دلوائیں گی اور کہیں گی۔ ’’یہ خواب صرف سلطانہ کے ہی نہیں، ہمارے بھی ہیں، ان پر ہمارا بھی پورا حق ہے۔‘‘
گھڑی کے الارم سے اچانک میری نیند ٹوٹ گئی۔
اُف، یہ خواب۔۔۔ اتنا لمبا خواب۔۔۔۔۔ خواب تو جیسے میری زندگی کا حصہّ بن گئے ہیں۔ اب خوابوں میں ہی تو جیتی اور مرتی ہوں۔۔۔۔۔ میرا ہاتھ حسب معمول بستر کے بغل کے حصیّ پر پڑا جو خالی تھا۔ یہ مقام گذشتہ نو برسوں سے خالی ہی رہتا ہے۔۔۔۔۔ پھر میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جن پر جلتے ہوئے سگریٹ سے داغنے کے نشان اب بھی نمایاں تھے۔ ان میں درد محسوس ہوا، ٹیس ہونے لگی۔۔ گو کہ یہ کئی برس پرانے زخم تھے جو اب گہرے نشان کی شکل میں نمایاں تھے لیکن ان پر نظر پڑتے ہی اب بھی جیسے یہ زخم تازہ اور ہرے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ پورے جسم سے ٹیس اٹھنے لگی، میرا پورا جسم چور چور تھا جیسے ابھی کسی نے ہتھوڑے برسائے ہوں۔
ساراکیچی جیسے میری ساس، اس سے بھی ظالم اور بے رحم شوہر۔۔۔ بے گناہی کی سزا قید اور زبان پر تالے۔ پورے نو برس زندگی کی قید و بند۔۔۔۔۔ جب میں نے اس زیادتی اور بے رحمی کے خلاف آواز اٹھائی تھی، احتجاج کیا تھا تو مجھے لات گھونسے ملے، گھر بدری ملی۔ زخموں سے چور اس جسم کو ڈھوتی رہی۔۔ زندگی کی جد و جہد کو جاری رکھتے ہوئے میں نے بھی سکون کی زندگی جینے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر بھی مجھے کچوکے لگائے جاتے رہے۔ میں سہتی رہی، گھلتی رہی۔ اب تو میں ایسی پتھر کی ہوں جس پر کسی چوٹ کا اب کوئی اثر نہیں ہوتا۔
میں جد و جہد کی ایک جنگ ہار تو گئی تھی لیکن اس ہار میں بھی میری جیت تھی، میری خوشی تھی۔
یکایک میری نظر سامنے کے دونوں بیڈ پر گئی جہاں میرے دونوں بچّے جو اب سن بلوغت کو پہنچ رہے تھے، آرام سے سو رہے تھے۔۔۔۔ یہ بچے ہی اب میری زندگی کا حاصل ہیں، میرا مستقبل ہیں، میری منزل ہیں۔
بعد بھی، ہے کوئی؟
٭٭٭