چھوٹے چھوٹے کمروں میں سانسیں شب بھر بل کھاتی ہیں
لوکل ٹرین کی چیخیں بے حس جسموں سے ٹکراتی ہیں
کانپ رہا ہے باہر ٹھنڈا موسم گیلی آنکھوں میں
آندھی جیسی گرم ہوائیں اندر شور مچاتی ہیں
دن بھر بوجھ مرے شانوں کو پھولوں جیسا لگتا ہے
چھوٹی چھوٹی روئی آنکھیں شام کو جب مسکاتی ہیں
آنگن، ٹھنڈی چھاؤں، ہوا کی سرگوشی سب خاک ہوئے
لیکن دیواریں کیوں اب بھی در سے کان لگاتی ہیں
نا آسودہ غزلوں کی ہے نوحہ خوانی، یا دلشادؔ
بیوائیں دہلیز پہ بیٹھی سر پہ خاک اڑاتی ہیں