جھکی کمر کو اسی کی ہمت کے واسطے پھر اٹھا رہا ہے
جوان بیٹے کی نا اُمیدی کا باپ قرضہ چکا رہا ہے
حصول برکت کی چاہ میں میں نوالے تقسیم کر رہا ہوں
مجھے یقیں ہے کہ رزق پروردگار میرا جُٹا رہا ہے
گلی گلی میں یہ لوگ اُف کیسی ہائے توبہ مچا رہے ہیں
ہمارا پچھلا کیا ہوا ہی ہمارے آگے تو آ رہا ہے
زمین بھی سرخ ہو رہی ہیں۔ فلک پہ ابر سیہ ہیں چھائے
پرندہ ٹہنی پہ المدد کا کوئی حزیں گیت گا رہا ہے
انا پرستی کی زد میں رہ کر مناظرے خوب کرتے رہیئے
جہاں تہاں کلمہ گو کو دجال بت پرستی سکھا رہا ہے
عقیدتیں پاوں چھو رہی ہیں مرادوں کی تھالیاں سجا کر
ہوئی ہیں بابا کی سرخ آنکھیں، غلط جگہ کیوں کھجا رہا ہے
عمل کا ردِ عمل تو لازم ہے یار، نیوٹن کا ہے یہ کلیہ
گھِرا ہوا بھیڑ میں اکیلا اب اپنا رستہ بنا رہا
ہمیشہ تفریح ڈھونڈتی ہے غزل کے پیرائے میں یہ دنیا
ہمیشہ دلشادؔ کے سخن کا جو تجربہ ہے نیا رہا ہے