ہونٹوں پہ پیاس آنکھ میں ساون لیے ہوئے
ساحل پہ ہم ہیں آس کا دامن لیے ہوئے
آنکھیں تھیں بند ذہن مگر جاگتا رہا
ہم سو رہے تھے جاگتی الجھن لیے ہوئے
دن بھر کا جال ایک بھی مچھلی نہ پا سکا
کنبہ ندی کے پار تھا الجھن لیے ہوئے
حیراں ہے کورا جسم کہ جانے کہاں گئی
تعبیر، میرے خواب کا ساجن لیے ہوئے
ہر راز راز رکھیے سیاست کے دور میں
رہبر یہاں ہیں صورتِ رہزن لیے ہوئے
طوفاں کا زور کچے مکانوں کو ڈھا گیا
بیٹھے تھے لوگ دھوپ کا آنگن لیے ہوئے
خود کو بچا رہا ہوں میں دلشادؔ کو بہ کو
بے چہرگی کا شہر ہے درپن لیے ہوئے