کس کس سے ہم آنکھ چراتے چار دنوں کے جیون میں
آنکھیں گروی رکھ دیں ہم نے بھی جادوئی درپن میں
ہم دونوں کی آنکھوں میں نہ تھمنے والا دریا تھا
خالی انگلی پھیر رہا تھا ننھا خالی برتن میں
ہر سندیسہ دروازے سے دھول اڑا کر لوٹ گیا
کون ہے جو چھڑکاؤ کرے گا جسم کے جلتے آنگن میں
آج مری آواز پہ پہرے کا یہ مطلب ہے شاید
کل تک سب کچھ دیکھ رہا تھا میں ڈر کے اندھے پن میں
دنیا ہے امید پہ قائم میں نے کہا دلشادؔ اسے
سینت کے رکھ آنکھوں کا کاجل، رنگ بھرے اس ساون میں