گلے لگنے والے تو منظر بہت ہیں
مگر آستینوں میں خنجر بہت ہیں
وہ آئیں گے، آتے ہی ہوں گے، ٹھہر جا
ابھی جھیل کے پاس کنکر بہت ہیں
مجھے چھوڑ جا تو بھی اوروں کے جیسا
مجھے تیرے جیسے میسر بہت ہیں
فقط سر جھکا، سر جھکا کر نکل جا
یہاں کالے شبدوں کے منتر بہت ہیں
انا روک لیتی ہے جانے سے ورنہ
حویلی میں ہم جیسے نوکر بہت ہیں
میاں پھر کہیں وعظ فرمایئے گا
تماشے ابھی گھر کے اندر بہت ہیں
نیا زخم دلشادؔ پھر منتظر ہے
کرم ان دنوں ان کے مجھ پر بہت ہیں