اتنا آساں نہیں تنہائی کے قابل ہونا
ہجر لمحوں سے مرے دل کا ہوا دل ہونا
ایک اک پل ترا احساس ہے زندہ مجھ میں
غیر ممکن ہے تری یاد سے غافل ہونا
زندگی لہروں میں گمنام ہوئی جاتی تھی
تم سے جانا نگہِ موج نے ساحل ہونا
عشق کو علمِ ریاضی نہیں آتا جاناں
تم بتادو مجھے، تم ہی مرا حاصل ہونا؟
ہاتھ پھیلا تو دیے میں نے چھڑی ماریں ناں
کیا کروں آتا نہیں آپ کے قابل ہونا
دیجیے شوق سے ناکردہ گناہوں کی سزا
میں نے منظور کیا آپ کا قاتل ہونا
مٹ گئی ہے مرے چہرے سے انا دار خوشی
آپ کے غم میں بہر طور ہے شامل ہونا
دیکھتا ہی نہیں اب میل کا پتھر دلشادؔ
آج تک آیا نہیں راہ کو منزل ہونا