عزتِ نفس کے بحران سے پہلے نہیں تھا
یہ تخاطب ترا احسان سے پہلے نہیں تھا
آج سجدے میں اَنا ہار کے روئی ہے بہت
سچ کہوں ربط یہ ایمان سے پہلے نہیں تھا
دل عقیدت کو لیے حجرۂ غیبت سے اٹھا
وصل دیوار کا یوں کان سے پہلے نہیں تھا
آپ عادی ہیں تو پی جائیے طوعاً کرہاً
تھوک ذلت کا اگلدان سے پہلے نہیں تھا؟
پہلے آ جاتا تھا فریاد رسی کو حاکم
سامنا گیٹ کے دربان سے پہلے نہیں تھا
ایک بھاشا ہی ملی فرقہ پرستی کے لیے
پریم کیا آپ کو رسکھان سے پہلے نہیں تھا؟
سب کو معلوم تھا جنگل کے سلگنے کا سبب
اتنا سناٹا تو طوفان سے پہلے نہیں تھا
عشق بازار میں بس ہجر کمایا میں نے
فائدہ بھی مجھے نقصان سے پہلے نہیں تھا