غرور چھانے لگا کیا نئی اڑانوں کا
زمین قرض چکا دے نہ آسمانوں کا
مجھے یقیں ہے عدو سامنے سے آئے گا
ابھی تو خوف ہے فی الحال مہربانوں کا
ہمیں نہ دیکھ کبھی ابرہہ کی نظروں سے
جہاں نے دیکھا ہے انجام فیل بانوں کا
بہت سے لوگوں کو ہے بولنے کی بیماری
کبھی علاج کراتے نہیں وہ کانوں کا
ہماری نظروں کے آگے بسا ہے یہ جنگل
ہمیں پتا ہے یہاں کے نئے پرانوں کا
وزیر! تیرے نوالوں کے پاس ہے کوئی؟
جواب خود کشی کرتے ہوئے کسانوں کا
مرے یقین میں ہے لا الہ الا اللہ
وہی ہے مالک و مختار کل زمانوں کا
عجب رُت ہے یہ دلشادؔ اشکباری کی
یہ احتجاج یا نوحہ ہے بے زبانوں کا