پھر وہی خواب چمکتا ہوا، بالو جیسا
چڑھتا جاتا ہے نشہ پیاس کا دارو جیسا
چاند نکلا کسی چڑھتے ہوئے جادو جیسا
تیرا احساس بھی بے چین تھا آہو جیسا
چار سو پھیل گیا تو کسی خوشبو جیسا
میں کہ الجھا رہا شب بھر ترے گیسو جیسا
وقت کی تھاپ، تقاضوں کی تھرک، لَے غم کی
جسم سے سانس کا رشتہ بھی ہے گھنگھرو جیسا
اب بھی واضح ہیں بہت عہد گزشتہ کے نقوش
تیری یادیں بھی ہیں ویسی ہی، رہا تو جیسا
میں تعاقب میں کسی ننھے شکاری کی طرح
شاخ در شاخ وہ ہنستے ہوئے جگنو جیسا
اب کہ پاکیزہ انوکھا کوئی پیارا سا ملے
غم، تری آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو جیسا
گاؤں لوٹا تو سبھی رشتے فراموش کیے
چار دن میں ہی ہوا شہر کے بابو جیسا
اس خرابے میں لگی اس کی طبیعت دلشادؔ
کاش کچھ دن ہی وہ رہ لے یہاں سادھو جیسا