رہِ جنوں میں امیر زادی شکار ہو جانا چاہتی ہے
کسی مزارعے کا ہاتھ تھامے فرار ہو جانا چاہتی ہے
کسی پروہت پہ دیو داسی نثار ہو جائے تو عجب کیا
گھٹی گھٹی جسم کی خموشی پکار ہو جانا چاہتی ہے
نشے میں دھت شب زلیل کرتے ہوئے لڑھک جاتی ہے کسی دم
سحر مگر آنکھیں کھولے خدمت گزار ہو جانا چاہتی ہے
سوال ننھا فرشتہ کرتا ہے جب کبھی توتلی زباں سے
پڑھی لکھی شخصیت اچانک گنوار ہو جانا چاہتی ہے
دھکیل دیتا ہے بھیڑ کی اس پناہ سے کوئی ہاتھ باہر
مری اکائی جب ان گنت بے شمار ہو جانا چاہتی ہے
یہاں کے کلچر میں بس گئی ہے مصافحے کی عجیب سی دھن
کہ لمس پاتے ہی لڑکی فوراً ستار ہو جانا چاہتی ہے
نئے سرے سے محاسبے کا خیال آتا ہے آئینے میں
خزاں نوید بہار سن کا بہار ہو جانا چاہتی ہے
خدایا توفیق دے کہ اوقات یاد رکھے سدا غلامی
انا تو فرعون بن کے پروردگار ہو جانا چاہتی ہے
عیاں نہیں ہے مرے سخن کا جہان دلشادؔ مجھ پہ شاید
نظر تو حدِ نظر سے بھی اب کے پار ہو جانا چاہتی ہے