یہاں نیا کوئی طرزِ بیاں کہیں نہیں ہے
سماعتوں پہ سخن ہے زباں کہیں نہیں ہے
ہمارے چاروں طرف کنکریٹ ہے بکھری
وہ سوندھی گاؤں کی خوشبو یہاں کہیں نہیں ہے
سفید کپڑے پہ روشن ہیں خون کی چھینٹیں
یہ کیسی جائے اماں ہے، اماں کہیں نہیں ہے
مرے خلاف ہے منصف کا حکم درج یہاں
مری زبان سے نکلا بیاں کہیں نہیں ہے
یہ کس خلا میں بسر کر رہا ہوں میں خود کو
یقیں تو دور، یقیں کا گماں کہیں نہیں ہے
براجمان ہے عرشِ بریں پہ صدیوں سے
وہ ہر جگہ ہے اگرچہ عیاں کہیں نہیں ہے
گزر رہی ہیں عجب امتحان سے آنکھیں
نہیں کے پردے میں چہرے پہ ہاں کہیں نہیں ہے
ہیں آگہی کے ہرے زخم شعر میں دلشادؔ
درونِ ذات ہیں باہر نشاں کہیں نہیں ہے