میری انا کا سامنا خود اپنے حال سے ہوا
اس کا عروج غالباً میرے زوال سے ہوا
بس شرق و غرب میں رہا اس درجہ دل یہ منہمک
نا آشنا جنوب سے غافل شمال سے ہوا
صدیوں سے چپ تھی وحشتیں اور دشت بھی خموش تھا
فتنہ شروع عشق کا پل میں دھمال سے ہوا
پھر گھنگھروؤں نے پاؤں کو تا عمر قید کر لیا
آغاز یوں تو شوق کا بس ایک تال سے ہوا
خوش فہمیوں کی سان پہ خنجر گھسا گیا بہت
پھر میرا قتل آپ کے دستِ کمال سے ہوا
یہ اور بات ہے کہ وہ مجھ سے شکست کھا چکا
اندازہ اس کے وار کا مجروح ڈھال سے ہوا
اس کینوس پہ نام تو اک اجنبی کا ثبت تھا
نظروں میں شاہکار جو میرے خیال کا ہوا
دلشادؔ میں تو عکس کی صورت تھا اس کے سامنے
میرا ہنر تو آئینہ اس کے جمال سے ہوا