جو رکھوں شاعری سطح بیاں پر
بلا عنوان افسانے کہاں پر
بدن کی آگ کو ٹھنڈک ملے گی
نفی کا بند جب ٹوٹے گا ہاں پر
شہادت کی ہے انگلی لبلبی پر
یہ قصّہ ختم ہو گا ایک ’ٹھاں ‘ پر
مِری للکار سے پھیلا اجالا
اندھیرے حملہ آور تھے فغاں پر
کنواری لذتیں حیرت زدہ تھیں
معاً اِک تیر چڑھ بیٹھا کماں پر
بہت دن یہ جگہ خالی نہ رکھنا
کوئی آ جائے گا ورنہ یہاں پر
وہی منزل ہے میر کارواں کی
تو پھر احسان کیسا کارواں پر
ڈبو دے نفس کی فرعونیت کو
کرم ہو گا بہت اہرام جاں پر
اندھیرا اوڑھ کے بیٹھو سحر تک
بھروسہ ہے ہمیں جگنو میاں پر