میں یوں ترکہ سمیٹے دیدۂ نمناک لے آیا
چھڑی، تسبیح، پگڑی اور بچی مسواک لے آیا
تلاش رزق میں پردیس جانے سے ذرا پہلے
وہ بنجر کھیت سے کیوں ایک مٹھی خاک لے آیا
مرے شہکار پہ انعام پایا یار لوگوں نے
میں محفل سے اٹھا، اپنا گریباں چاک لے آیا
تھا اتنا وقت کہ خود سیکھ جاتا تیرنا اب تک
کرائے پر بہت پہلے سے جو تیراک لے آیا
خبر پھیلی بڑی تیزی سے اعلیٰ ذات والوں میں
کوئی کم ذات کیسے گھر میں تختی چاک لے آیا
سبھی ناقد بنے دلشادؔ نظمی سے یہ کہتے ہیں
کہاں سے یہ کھرا لہجہ، نظر بے باک لے آیا