ہریالی کا خواب لیے برسوں سے دل للچاتا ہے
بھیگی آنکھوں کا ہر قطرہ ریت کی پیاس بجھاتا ہے
مٹی کے بنجر پن نے ہجرت بخشی تھی صحرا کی
ورنہ کچھ برسوں کے اندر اتنا کون کماتا ہے
میں نے پیڑ لگایا ہے آنگن میں سائے کی خاطر
مجھ کو جنگل سے کیا لینا کتنے پیڑ اُگاتا ہے
دھوپ بھری چھت پر تلوے جلتے ہیں پر اس آس کے ساتھ
کبھی کبھی اک ڈرا سا چہرہ کھڑکی پر آ جاتا ہے
ان کو جو کچھ لکھنا ہے لکھنے دے کچھ اصلاح نہ کر
ورنہ لوٹ کے اپنا جملہ اپنی جان کو آتا ہے
دونوں اپنی نظروں سے بازار کی رونق دیکھیں گے
بچے کی انگلی تھامے میلے میں شوق گھماتا ہے
دیکھ سفیدی لہراتی ہے سر پہ ذمہ داری کی
بہنوں کی ڈولی کا خواب لیے پیسا گھر جاتا ہے
دستر خوان کشادہ رکھ دلشادؔ حصول برکت کو
سب کا اپنا رزق ہے پیارے، کون کسی کا کھاتا ہے